آیت ولایت، سورہ مائدہ کی آیت نمبر 55 ہے جو امیرالمومنین حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[1]اہل تشیع اس آیت کے ذریعے آپ(ع) کی امامت اور ولایت کو ثابت کرتے ہیں۔ عربی میں ایک لفظ کی کئی معنی ہوتی ہیں جیسا کہ اہل علم حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے۔مولا کی دوسری معنی مددگار اور دوست بھی ہے۔

آیت ولایت
فائل:سنگ‌نوشته قدمگاه امام رضا که ایه ولایت بر روی آن حک شده است.jpg
چھٹی صدی ہجری سے مربوط ایک پتھر پر آیت ولایت حک ہوا ہے۔ اور یہ پتھر اس وقت آستان قدس رضوی کے عجائب گھر میں موجود ہے۔
آیت کی خصوصیات
آیت کا نام:آیت ولایت
سورہ:مائدہ
آیت نمبر:55
پارہ:6
صفحہ نمبر:117
محل نزول:مدینہ
موضوع:عقائد
مضمون:امامت امام علی
مربوط آیات:آیت تبلیغ اور آیت اکمال

آیت کا متن اور ترجمہ

ترمیم

إِنّما وَلیکُمُ اللهُ و رَسولُهُ والّذینَ ءَامَنوا الَّذینَ یقِیمُونَ الصَّلوةَ و یؤتُونَ الزَّکوة و هُم راکِعونَ

ایمان والو بس تمھارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃدیتے ہیں۔

شأن نزول

ترمیم

شیعہ اور اہل سنت مآخذ میں بہت ساری احادیث اور روایات موجود ہیں جن کے مطابق یہ آیت امام علی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ان احادیث کے مطابق ایک فقیر مسجد نبوی میں داخل ہوا اور مسجد میں موجود افراد سے کمک کی درخواست کی لیکن کسی نے اسے کچھ نہ دیا۔ اتنے میں اس نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے کہا: خدایا تو گواہ رہنا میں نے تیرے رسول کے مسجد میں کمک کی درخواست کی لیکن کسی نے مجھے کچھ نہ دیا۔ اسی اثنا میں حضرت علی(ع) نے جو نماز میں رکوع کی حالت میں تھے، اپنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ فقیر آپ(ع) کے پاس گیا اور آپ(ع) کی انگلی سے انگوٹھی نکال لی اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی۔[2]

شأن نزول کے راویاں

ترمیم

یہ شأن نزول اہل تشیع اور اہل سنت کے مختلف مآخذ میں موجود ہے۔ اصحاب میں سے جنھوں نے اسے نقل کیا ہے منجملہ ان میں :امام علی، [3] عبداللّہ بن عبّاس،[4] ابورافع مدنی،[5] عمّار یاسر،[6] ابوذر غفاری،[7] انس بن مالک[8] و مقداد بن اسود ہبں [9]. تابعین میں سے مسلمۃ بن کہیل[10]، عتبۃ بن ابی حکیم[11]، سُدّی[12] اور مجاہد[13] نے بھی اس شان نزول کو نقل کیا ہے۔

آیت کی دلالت

ترمیم

شیعوں کے ہاں اس آیت کے امام علی(ع) کی شان میں نازل ہونے کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں نہیں ہے اور اہل سنت کے ہاں بھی احادیث کی تعداد اس قدر زیادہ ہیں کہ اہل سنت کے مشہور متکلم قاضی ایجی اپنی کتاب المواقف میں تصریح کرتا ہے کہ مفسرین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یہ آیت امام علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ [14] اس کے علاوہ جرجانی نے شرح مواقف میں [15]، سعدالدین تفتازانی نے شرح مقاصد میں [16] اور قوشچی نے شرح تجرید میں [17] اس اجماع اور اتفاق کا اعتراف کیا ہے۔

اہل سنت کے بڑے بڑے محدّثین نے مختلف ادوار میں ان روایات کو اپنی کتابوں میں ذکر کیے ہیں جن میں: حافظ عبد الرزاق صنعانی، حافظ عبد بن حمید، حافظ رزین بن معاویہ، حافظ نسائی، حافظ محمد بن جریر طبری، ابن ابی حاتم، ابن عساکر، ابوبکر بن مردویہ، ابو القاسم طبرانی، خطیب بغدادی، ہیثمی، ابن جوزی، محب طبری، جلال الدین سیوطی اور متقی ہندی[18]. آلوسی نے بھی کہا ہے: اکثر اخباری حضرات اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیت امام علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[19]

اس آیت کا حضرت علی(ع) کی امامت پر دلالت کی کیفیت

ترمیم

اہل تشیع اس آیت کے ذریعے حضرت علی(ع) کی ولایت اور امامت پر استدلال کرتے ہیں۔[20] یہاں تک کہ بعض حضرات نے اس آیت کو آپ(ع) کی امامت پر سب سے زیادہ محکم دلیل قرار دیتے ہیں۔[21] استدلال کی کیفیت اس طرح ہے کہ یہ آیت "إِنّما" کے ساتھ شروع ہوئی ہے جس کے بارے میں لغت کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ لفظ "انحصار" پر دلالت کرتا ہے۔[22]. "ولی" کا لفظ جو "ولایت" کے لفظ سے مشتق ہوا ہے سرپرستی اور صاحب اختیار کے معنی میں ہے۔ ابن منظور ولی کی تعریف میں کہتے ہیں: یتیم کا ولی وہ شخص ہے جو اس کے کاموں کی نگرانی اور اس کے کاموں کو انجام دیتا ہے اسی طرح عورت کا ولی وہ شخص ہے جو اس کے عقد و نکاح وغیرہ کی سرپرستی کرتا ہے۔[23]. "فیومی" اس بارے میں لکھتا ہے: کسی شخص کا ولی وہ ہے جو اس کے کاموں کو انجام دینے کا ذمہ دار ہے ۔[24] پس ماہرین لغت کے ان بیانات سے ہم یہ استفادہ کر سکتے ہیں کہ "ولایت" کے معنی دوسروں کی سرپرستی اور ان کے کاموں کی ذمہ داری قبول کرنے کو کہا جاتا ہے۔

دوسری طرف سے کلینی نے اپنی کتاب کافی میں امام باقر(ع) سے ایک روایت نقل کیا ہے اس میں یوں آیا ہے: خدا نے پیغمبر اکرم(ص) پر حضرت علی(ع) کی ولایت کے بارے میں یوں حکم صادر فرمایا ہے: "إِنَّما وَلِیکُم اللّهُ و رَسولُه والّذینَ ءَامَنوا..."[25] اور خدا نے اولی الامر کی ولایت کو واجب قرار دیا ہے۔ وہ لوگ اس ولایت کی حقیقت کو نہیں جانتے تھے کیا اس کی حقیقت کیا ہے؟ پس خدا نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یہ حکم نازل فرمایا کہ لوگوں کے لیے اس ولایت کی تفسیر کریں؛ جس طرح نماز ، زکات ، روزہ اور حج وغیرہ کی تفسیر کرتے ہیں۔ جب خدا کا یہ حکم پہنچا تو آنحضرت محزون اور پریشان ہو گئے مبادا لوگ دین سے منہ پھیر دے، لہذا آپ نے خدا سے التجا کیا تو خدا نے یوں امر فرمایا:"یا أیهَا الرَّسولُ بَلّغ مَا أُنزِلَ إِلیکَ مِن رَبّکَ وَ إِن لَم تَفعَل فَما بَلّغتَ رِسالتَه واللّهُ یعصِمُکَ مِن النّاسِ" ترجمہ: اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔[26] اس وقت آنحضرت نے ولایت کے بارے میں خدا کے فرمان کو لوگوں پر آشکار کیا اور غدیر خم میں 18 ذوالحجہ کو حضرت علی(ع) کی ولایت کا اعلان فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ جو حاضر ہیں وہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں حاضر نیہں ہیں۔[27]. عیاشی نے بھی ایک روایت کو تقریبا اسی مضمون میں امام جعفر صادق سے نقل کیا ہے۔[28].

حوالہ جات

ترمیم
  1. المراجعات، ص226 و 229.
  2. احقاق الحق، ج 2، ص399؛ شواہد التنزیل، ج 1، ص209- 239؛ مجمع البیان، ج 3، ص324 و 325.
  3. شواہد التنزیل، ج 1، ص226؛ الدرّالمنثور، ج 3، ص106؛ المراجعات، ص230.
  4. شواہد التنزیل، ج 1، ص232.
  5. سطبرانى، (م: 360 ق)، المعجم الکبیر، ج 1، ص 320- 321، حدیث 955 9
  6. الدرّالمنثور، ج 3، ص106.
  7. التفسیر الکبیر: ج 12، ص 26؛ فرائد السمطین، ج 1، ص194.
  8. شواہد التنزیل، ج 1، ص225.
  9. شواہد التنزیل، ج 1، ص228.
  10. الدرّالمنثور، ج 3، ص105.
  11. ابن ابى حاتم، عبد الرحمن،ج 4، ص 1162، .
  12. جامع البیان، مج 4، ج 6، ص389.
  13. جامع البیان، مج 4، ج 6، ص390؛ جصاص، ابى بکر (م 370 ق)، احکام القران: ج 2، ص 625
  14. شرح المواقف، 405
  15. شرح المواقف، 405.
  16. شرح المقاصد، ج 5، ص207.
  17. شرح تجرید، قوشچی، ص368.
  18. آیۃ الولایۃ، ص12؛ احقاق الحق، ج 2، ص399- 407.
  19. روح المعانی، مج 4، ج 6، ص244.
  20. الافصاح فی الامامۃ، ص134 و 217؛ التبیان، ج 3، ص559؛ روح المعانی، مج 4، ج 6، ص245.
  21. تلخیص الشافی، ج 2، ص10.
  22. لسان العرب، ج 1، ص245؛ الصحاح، ج 5، ص2073.
  23. لسان العرب، ج 15، ص401.
  24. المصباح المنیر، ج 2، ص672.
  25. (مائدہ/ 55)
  26. (مائدہ/ 67)
  27. الکافی، ج 1، ص289.
  28. عیاشی، ج 1، ص333.

مآخذ

ترمیم
  • ابن ابی حاتم، عبد الرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم مسندا عن رسول اللہ والصحابۃ والتابعین، تحقیق اسعد محمد الطیب، چاپ دوم، بیروت، المکتبۃ العصریۃ، 1419 ق.
  • ابن تیمیہ، احمد، تفسیر الکبیر، تحقیق: عبد الرحمن عمیرہ، چاپ اول، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1408 ق.
  • ایجی، عبد الرحمن، المواقف فى علم الکلام، بیروت، عالم الکتب، بى تا.
  • حاکم حسکانی، عبید اللہ، شواہدالتنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمد باقر المحمودى، چاپ دوم، قم، مجمع احیاءالثقافۃ الاسلامیۃ، 1411 ق.
  • جصاص، ابو بکر احمد الرازى، احکام القرآن، تحقیق: صدقى محمد جمیل، مکہ، المکتبۃ التجاریۃ، بى تا.
  • سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فى التفسیر بالماثور، بیروت، دار الفکر، 1403 ق .
  • شیخ طوسی، تلخیص الشافی، انتشارات المحبین، قم، 1382ش، چاپ اول.
  • طبرانی، سلیمان احمد، المعجم الکبیر، تحقیق: حمدى عبد المجید السلفى، چاپ دوم، بیروت، دار احیاء التراث، بى تا.
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تاویل آى القرآن، بیروت، دار الفکر، 1408 ق.

بیرونی لینکس

ترمیم