ابو ذر غفاری
صحابی۔ جُنْدُب بن جُنَادَة نام، ابوذر کنیت، شیخ الاسلام لقب۔ قبیلہ بنو غفار سے تھے جس کا پیشہ رہزنی تھا۔ ابتدا میں آپ نے بھی آبائی پیشہ اختیار کیا لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کی خبر سنی تو مکہ آکر اسلام قبول کر لیا۔ عظیم المرتبت محدثین میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ سے بے شمار احادیث مروی ہیں۔ بڑے قناعت پسند اور سادہ مزاج تھے۔ مال و زر کے معاملے میں قلندرانہ مسلک رکھتے تھے۔ صحابہ کرام کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں ۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔بعض روایات جو کہ کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علما اسما الرجال نے بدعت سے نسبت رکھنے والی روایات کو مردود و مذموم قرار دیا ہے۔
ابو ذر غفاری | |
---|---|
(عربی میں: أَبُو ذَرّ ٱلْغِفَارِيّ) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (عربی میں: جُنْدَب بن جُنادَة بن سُفيان ٱلْغِفَارِيّ ٱلْكِنَانِيّ) |
پیدائش | حجاز |
وفات | سنہ 651[1] ربذہ |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
نمایاں شاگرد | انس بن مالک |
پیشہ | واعظ، محدث، تاجر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی[2] |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | فتح مکہ، غزوہ حنین، اسلامی فتح مصر، عرب بازنطینی جنگیں |
درستی - ترمیم ![]() |
نام ونسب ترميم
جندب نام، ابوذر کنیت"مسیح الاسلام" لقب، سلسلہ نسب یہ ہے، جندب بن جنادہ ابن قیس بن عمروبن ملیل بن صعیر بن حزام بن غفار بن ملیل بن حمزہ بکر بن عبد مناۃ بن کنانہ بن خزیمہ بن مدر کہ غفاری، ماں کا نام رملہ تھا اور قبیلہ بنی غفار سے تعلق رکھتی تھیں۔
قبل از اسلام ترميم
حضرت ابوذرؓ کا قبیلہ بنو غفار رہزنی کیا کرتا تھا، جاہلیت میں ابوذرؓ کا بھی یہی پیشہ تھا اور وہ نہایت مشہور راہزن تھے، تن تنہا نہایت جرأت اور دلیری سے قبائل کو لوٹتے تھے؛ لیکن کچھ دنوں کے بعد ان کی زندگی میں دفعۃ انقلاب ہوا اورایسا سخت ہوا کہ رہزنی یکلخت ترک کرکے ہمہ تن خدا پرستی کی طرف مائل ہوگئے، چنانچہ ظہور اسلام کے پہلے جب سارا عرب ضلالت میں مبتلا تھا وہ خدا کی پرستش کرتے تھے، ابو معشرؓ راوی ہیں کہ ابوذرؓ جاہلیت ہی سے موحد تھے، خدا کے سوا کسی کو معبود نہیں سمجھتے تھے اور بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے، ان کی خدا پرستی عام طورپر لوگوں میں مشہور تھی، چنانچہ جس شخص نے ان کو سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کے ظہور کی اطلاع دی، اس کے الفاظ یہ تھے کہ "ابوذرؓ" مکہ میں تمہاری طرح ایک شخص لا الہ الا اللہ کہتا ہے [3] ابوذرؓ کی خدا پرستی صرف اعتراف توحید تک محدود نہ تھی ؛بلکہ جس طرح بن پڑتا تھا نماز بھی پڑہتے تھے، وہ خود کہتے تھے کہ میں آنحضرت ﷺ سے ملنے کے تین سال قبل سے نماز پڑہتا تھا، لوگوں نے پوچھا کس کی نماز پڑہتے تھے کہا خدا کی پھر پوچھا کس طرف رخ کرتے تھے جواب دیا جس طرف خدا پھیردیتا، [4] اینما تولوافثم وجہ اللہ، ع ہر جا کنیم سجدہ بآں آستان رسید۔
اسلام کی تلاش میں پہلی آزمائش ترميم
چونکہ ابوذرؓ جاہلیت ہی سے راہِ حق کے متلاشی تھے، اس لیے حق کی پکار سنتے ہی لبیک کہا اوراس وقت دعوت حق کا جواب دیا، جب چار آدمیوں کے سوا ساری دنیا کی زبانیں اس اعلانِ حق سے خاموش تھیں، اس اعتبار سے اسلام لانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے، ان کے اسلام کا واقعہ خاص اہمیت رکھتا ہے یہ دلچسپ داستان خود ان کی زبان سے مروی ہے، ان کا بیان ہے کہ جب میں قبیلہ غفار میں تھا تو مجھ کو معلوم ہوا کہ مکہ میں کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، میں نے اپنے بھائی کو واقعہ کی تحقیق کے لیے بھیجا وہ واپس آئے تو میں نے پوچھا، کہو کیا خبر لائے؟ انہوں نے کہا خدا کی قسم یہ شخص نیکیوں کی تعلیم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے، اس قدر مجمل بیان سے میری تشفی نہیں ہوئی، اس لیے میں خود سفر کا مختصر سامان لے کر مکہ چل کھڑا ہوا، وہاں پہنچا تو یہ دقت پیش آئی کہ میں رسول اکرم کو پہچانتا نہ تھا اورکسی سے پوچھنا بھی مصلحت نہ تھی، اس لیے خانۂ کعبہ میں جاکر ٹھہر گیا اور زمزم کے پانی پر بسر کرنے لگا، اتفاق سے ایک دن علیؓ گذرے، انہوں نے پوچھا تم مسافر معلوم ہوتے ہو، میں نے کہا، ہاں وہ مجھ کو اپنے گھر لے گئے؛لیکن مجھ سے ان کی کوئی گفتگو نہیں ہوئی، صبح اٹھ کر میں پھر کعبہ گیا کہ لوگوں سے اپنے مقصود کا پتہ دریافت کروں کیوں کہ ابھی تک آنحضرت ﷺ کے حالات سے بے خبر تھا، اتفاق سے پھر علیؓ گذرے اور پوچھا کہ اب تک تم کو اپنا ٹھکانہ نہیں معلو ہوا، میں نے کہا نہیں، وہ پھر دوبارہ مجھ کو اپنے ساتھ لے چلے، اس مرتبہ انہوں نے پوچھا، کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا اگر اس کو راز میں رکھیں تو عرض کروں، فرمایا مطمئن رہو، میں نے کہا میں نے سنا تھا کہ یہاں کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، پہلے اس خبر کی تصدیق اوراس شخص کے حالات دریافت کرنے کے لیے میں نے اپنے بھائی کو بھیجا، مگر وہ کوئی تشفی بخش خبر نہ لایا، اس لیے اب میں خود اس سے ملنے آیا ہے، حضرت علیؓ نے فرمایا تم نے نیکی کا راستہ پالیا، سیدھے میرے ساتھ چلے آؤ، جس مکان میں میں جاؤں تم بھی میرے ساتھ چلے آنا، راستہ میں اگر کوئی خطرہ پیش آئے گا، تو میں جوتا درست کرنے کے بہانے سے دیوار کی طرف ہٹ جاؤں گا اور تم بڑھے چلے جانا، چنانچہ میں حسب ہدایت ان کے ساتھے ہولیا اورآنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ میرے سامنے اسلام پیش کیجئے، آپ نے اسلام پیش کیا اورمیں اسلام کے عقیدت مندوں میں شامل ہوگیا، قبول اسلام کے بعد آپ نے فرمایا ابوذرابھی تم اس کو پوشیدہ رکھو اوراپنے گھر لوٹ جاؤ، میرے ظہور کے بعد واپس آنا، میں نے قسم کھا کر کہاکہ میں اسلام کو چھپا نہیں سکتا، ابھی لوگوں کے سامنے پکار کر اعلان کروں گا، یہ کہہ کر مسجد میں آیا، یہاں قریش کا مجمع تھا، میں نے سب کو مخاطب کرکے کہا کہ قریشیو! میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمد اس کے بندہ اور رسول ہیں، یہ سن کر ان لوگوں نے للکاراکہ اس بے دین کو لینا، اس آواز کے ساتھ ہی چاروں طرف سے لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑے اور مارتے مارتے بے دم کردیا، یہ درد ناک منظر کو دیکھ کر حضرت عباسؓ سے ضبط نہ ہوسکا، وہ مجھ کو بچانے کے لیے میرے اوپر گرپڑے اوران لوگوں سے کہا کہ تم لوگ ایک غفاری کی جان لینا چاہتے ہو ؛حالانکہ یہ قبیلہ تمہاری تجارت کا گذرگاہ ہے، یہ سن کر سب ہٹ گئے؛لیکن اسلام کا وہ نشہ نہ تھا جس کا خمار قریش کے غیظ و غضب کی ترشی سے اتر جاتا، دوسرے دن پھر اس حق گو کی زبان پر یہ نعرہ مستانہ تھا۔ در عجابہائے طورعشق حکمتہا کم است عشق رابا مصلحت اندیشی مجنوں چہ کار اور پھر وہی مسجد تھی وہی صنادید قریش کا مجمع تھا اور وہی ان کی ستم آرائی تھی۔ [5]
مسلم فضائل ابی ذرؓ میں ان کے اسلام کے بارہ میں دو روایتیں ہیں، ایک یہی مذکورہ بالا روایت، اس روایت کے راوی حضرت ابن عباسؓ ہیں، دوسری روایت خود ان سے مروی ہے ؛لیکن دونوں روایتوں کے واقعات باہم مختلف ہیں، ان کے زبانی جو روایت منقول ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ اپنے وطن سے اپنے بھائی انیس اورامناکو لے کر اپنے ماموں کے یہاں گئے، کچھ دنوں کے بعد ان سے خفا ہوکر چلے گئے، اتفاق سے ایک مرتبہ انیس کسی ضرورت سے مکہ گئے وہاں سے لوٹ کر ابوذر ؓ سے آنحضرت ﷺ کے واقعات بیان کیے، آپ کے اوصاف سن کہ وہ خود تحقیقات کے لیے مکہ پہنچے اورایک شخص سے آپ کا پتہ پوچھا، پوچھتے ہی ہر طرف سے مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے اورمارتے مارتے بیدم کر دیا، لیکن یہ نہ ہٹے، تیسرے دن آنحضرت ﷺ سے ملاقات ہوئی، وہ ان کو اپنے ساتھ لے گئے اور یہ مشرف باسلام ہوئے، ہم نے جو صورت واقعہ نقل کی ہے وہ چونکہ بخاری، مسلم اورمستدرک تینوں میں ہے اس لیے اس کو ترجیح دی۔
مراجعت وطن ترميم
کچھ دن مکہ میں قیام کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان کو ان کے گھر واپس کردیا، اورفرمایا کہ میں عنقریب یثرب ہجرت کرنے والا ہوں، اس لیے بہتریہ ہے کہ تم اپنی قوم میں کار اسلام کی تبلیغ کرو، شاید خداان کو فائدہ بخشے اوراس صلہ میں تمہیں بھی اجر ملے، انہوں نے آپ کے حسب ارشاد روانگی کی تیاری شروع کردی اوروطن کا سفر کرنے کے قبل اپنے بھائی انیس سے ملے، انہوں نے پوچھا کیا کرکے آئے، جواب دیا، اعتراف صداقت کرکے اسلام کا حلقہ بگوش ہوگیا ہوں، یہ سن کر وہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے، یہاں سے دونوں تیسرے بھائی امنا کے پاس پہنچے، وہ بھی مشرف باسلام ہوئے، اس کے بعد تینوں وطن پہنچے اور دعوتِ حق میں اپنا وقت صرف کرنے لگے، آدھا قبیلہ تو اسی وقت مسلمان ہوگیا اورآدھا ہجرت کے بعد مسلمان ہوا۔ [6]
ہجرت ومواخاۃ ترميم
آنحضرت ﷺ کی مدینہ کی تشریف آوری کے بعد بھی عرصہ تک ابوذرؓ بنی غفار میں رہے اور بدر، احد، خندق، وغیرہ کے غزوات ہونے کے بعد ہجرت کرکے مدینہ آئے، اسی بناء پر مو اخاۃ میں اختلاف ہے، محمد بن اسحٰق راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ابوذرؓ اور منذر بن عمرو کے درمیان مواخاۃ کرائی تھی؛لیکن واقدی کا قول ہے کہ ابوذرؓ آیت میراث کے نزول کے بعد مدینہ آئے اوراس آیت کے بعد مواخاۃ کا طریقہ باقی نہ رہا تھا۔ [7]
مدینہ کا قیام ترميم
مدینہ کے قیام میں ان کا سارا وقت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں گذرتا تھا اوران کا محبوب مشغلہ آنحضرت ﷺ کی خدمت تھی، خود کہتے ہیں کہ میں پہلے آنحضرت ﷺ کی خدمت کرتا تھا، اس سے فراغت کے بعد پھر آکر مسجد میں آرام کرتا تھا۔ [8] چونکہ ہجرت کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، اس لیے مہاجرین زیادہ تر اسی میں مشغول رہتے تھے، حضرت ابوذرؓ کی غزوات میں شرکت کی تفصیل نہیں ملی، صرف غزوۂ تبوک کی شرکت کا پتہ چلتا ہے، عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ تبوک کے لیے نکلے تو بہت سے لوگ بچھڑنے لگے (کیونکہ یہ قحط سالی کا زمانہ تھا) جب کوئی شخص بچھڑ تا تو لوگ آنحضرت ﷺ کو بتاتے کہ یا رسول اللہ ﷺ فلاں شخص نہیں آیا، آپﷺ فرماتے جانے دو، اگر اس کی نیت اچھی ہے تو عنقریب اللہ اس کو تم سے ملادے گا، ورنہ اللہ نے اس کو تم سے چھڑا کر اس کی طرف سے راحت دیدی، یہاں تک کہ ابوذرؓ کا نام لیا گیا، کہ وہ بھی بچھڑ گئے، واقعہ یہ تھا کہ ان کا اونٹ سست ہوگیا تھا، اس کو پہلے چلانے کی کوشش کی جب نہ چلا تو اس پر سے سازوسامان اتار کر پیٹھ پر لادا اورپاپیادہ آنحضرت ﷺ کے عقب سے روانہ ہوگئے اوراگلی منزل پر جاکر مل گئے، ایک شخص نے دور سے آتا دیکھ کر کہا یا رسول اللہ ﷺ وہ راستہ پر کوئی شخص آرہا ہے، آپ نے فرمایا، ابوذر ؓ ہوں گے لوگوں نے بغور دیکھ کر پہچانا اورعرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ خدا کی قسم ابوذرؓ ہیں، آپ نے فرمایا :اللہ ابوذرؓ پر رحم کرے، وہ تنہا چلتے ہیں، تنہا مریں گے اورقیامت کے دن تنہا اٹھیں گے۔ آنحضرتﷺ کی دوسری پیشین گوئی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی، آئندہ واقعات میں اس کی تفصیل آئے گی، اس واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ قحط کے زمانہ میں بھی جب بہتوں کے ارادے متزلزل ہوگئے پیچھے نہ ہٹے اوراپنا سامان پیٹھ پر لاد کر پا پیادہ میدان جہاد میں پہنچے تو ان غزوات میں جن میں اس قسم کی دشواریاں نہ تھیں، یقیناً شریک ہوئے ہونگے، پھر وہ آنحضرت ﷺ کے خدام میں تھے، اس لیے ان لڑائیوں میں جن میں آپ ﷺ نے بہ نفس نفیس شرکت فرمائی ہوگی، ان میں ابوذرؓ بھی یقیناً ہمرکاب رہے ہوں گے، خصوصاً جب کہ یہ معلوم ہے کہ ان کو جہاد کے ساتھ غیر معمولی شغف تھا، [9] اس لیے یہ ممکن نہیں ہے جب تمام مسلمانوں کی تلواریں اپنے جوہر دکھا رہی ہوں، اس وقت ان کی تلوار نیام میں رہی ہو، فتح مکہ کے بعد جب اسلامی افواج کا مظاہرہ ہورہا تھا تو سب سے آگے ان ہی کے قبیلہ کا پرچم تھا۔
عہد شیخین ترميم
حضرت ابوذرؓ فطرۃ فقیر منش، زہد پیشہ، تارک الدنیا اورعزلت پسند تھے، اسی لیےآنحضرتﷺ نے ان کو "مسیح الاسلام" کا لقب دیا تھا، آنحضرت ﷺ کے بعد انہوں نے دنیا سے ہی قطع تعلق کرلیا، لیکن قیام دیار محبوب ہی میں رہا، وفات نبوی سے دل ٹوٹ چکا تھا، اس لیے عہدصدیقی میں کسی چیز میں کوئی حصہ نہیں لیا، حضرت ابوبکرؓ کی وفات نے اور بھی شکستہ خاطر کردیا، گلشن مدینہ ویرانہ نظر آنے لگا، اس لیے مدینہ چھوڑ کر شام کی غربت اختیار کرلی۔ [10]
عہد عثمانی ترميم
اسلام کی اصل سادگی شیخین کے عہد تک قائم رہی، پھر جب فتوحات کی کثرت کے ساتھ مال و دولت کی فراوانی ہوئی تو قدرۃ سادگی کی جگہ تمدنی تکلفات شروع ہوگئے ؛چنانچہ عہد عثمانی میں ہی امراء میں شاہانہ شان و شوکت کی ابتدا ہوچکی تھی، ان کا اثر عام مسلمانوں پر بھی پڑا اوران میں عہد نبوت کی سادگی کے بجائے عیش و تنعم کے تکلفات پیدا ہونے لگے، شام میں رومیوں کے اثر نے اس کو اورزیادہ فروغ دیا، دولت و ثروت نے خزانوں کی صورت اختیار کی، جگہ جگہ قصور وایوان بننے لگے، زرق برق پوشاکیں پہنی جانے لگیں، حضرت ابوذرؓ لوگوں میں وہی عہد نبوت کی سادگی چاہتے تھے اوراپنی طرح سب کے دلوں کو مال و دولت کی محبت سے خالی دیکھنا چاہتے تھے، ان کے متوکلانہ مذہب میں کل کے لیے آج اٹھارکھنا جائز نہ تھا، ان کا عقیدہ یہ تھ کہ کسی مسلمان کو اس کا حق نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو بھوکا اور ننگا دیکھ کر بھی اپنے لیے دولت کا خزانہ جمع کرے، حضرت امیر معاویہؓ وغیرہ امرائے شام یہ سمجھتے تھے کہ اللہ نے اہل دولت پر زکوۃ کا جو فرض عائدہ کیا ہے، اس کو ادا کرنے کے بعد دولت جمع کرنے کا مسلمانوں کو اختیار ہے، اس اختلاف رائے نے بڑہتے بڑہتے نزاع کی صورت اختیار کرلی، حضرت ابوذر نہایت بے باکی کے ساتھ ان امراء پر اعتراض کرتے تھے اوران کے طمطراق، دولت وحشمت اور سازوسامان پر نکتہ چینیاں کرتے تھے اوران کے زائد از ضرورت دولت جمع کرلینے پران کو قرآن پاک کی اس آیت کا مورد ٹہراتے تھے۔ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ [11] جو لوگ سونا اورچاندی جمع کرتے ہیں اوراس کو اللہ کی راہ میں صرف نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔ اس آیت پاک سے پہلے یہود و نصاری کا ذکر ہے، امیر معاویہؓ کہتے تھے کہ اس آیت کا تعلق بھی ان ہی لوگوں سے ہے، حضرت ابوذرؓ اس کو مسلمانوں اور غیر مسلم، دونوں سے متعلق سمجھتے تھے، دوسرے اختلاف یہ تھا کہ حضرت ابوذرؓ اللہ کی راہ میں نہ دینے کا مطلب یہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنا کل مال راہِ خدا میں نہیں دیتے اورامیر معاویہؓ وغیرہ کا خیال تھا کہ یہ حکم صرف زکوٰۃ کے متعلق ہے، بہرحال حضرت ابوذرؓ نے اپنے خیال کے مطابق بڑی سختی سے طعن و تشنیع شروع کردی، امیر معاویہؓ کو خیال پیدا ہوا کہ اگر یہ جذبہ یوں ہی بڑھتا رہا تو عجب نہیں کہ شام میں کوئی فتنہ اٹھ کھڑا ہو، اس لیے انہوں نے حضرت عثمانؓ کو اس صورت حال کی اطلاع دی اورکہلا بھیجا کہ ان کو مدینہ بلالیا جائے، حضرت عثمانؓ نے ان کو مدینہ بلالیا اورایک دن ان کے سامنے حضرت کعبؓ سے پوچھا کہ اس شخص کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے جو مال جمع کرتا ہے؛ لیکن اس کی زکوٰۃ بھی دیتا ہے اس کو اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرتا ہے، کعبؓ نے کہا ایسے شخص کے بارہ میں مجھ کو بھلائی کی امید ہے، یہ سن کر ابوذرؓ بگڑ گئے اور کعبؓ پرڈنڈا اٹھا کر بولے یہودی عورت کے بچے تو اس کو کیا سمجھ سکتا ہے، قیامت کے دن ایسے شخص کے قلب تک کو بچھوڈسیں گے۔
[12] اس لیے حضرت عثمانؓ نے آخر میں مجبور ہوکر آپ سے کہا کہ آپ میرے پاس رہیے، دودھ والی اونٹنیاں صبح شام دروازہ پر حاضر کی جائیں گی، لیکن اس بے نیاز نے جواب دیا کہ مجھ کو تمہاری دنیا کی مطلق ضرورت نہیں، یہ کہہ کر واپس چلے آئے۔
ربذہ کا قیام ترميم
لیکن اب مدینہ بھی پہلا مدینہ باقی نہیں رہ گیا تھا، لوگ آ آ کر حضرت ابو ذرؓ کو تعجب سے دیکھتے تھے، جہاں وہ جاتے ہر جگہ ہجوم ہوجاتا، اس سے حضرت ابوذرؓ کو تکلیف ہوتی، مکہ کے قریب ربذہ نامی ایک چھوٹا ساگاؤں تھا، حضرت عثمانؓ نے ان سے کہا، یا انہوں نے خود ربذہ میں قیام کرنے کی خواہش کی، [13] بہر حال اپنی بیوی کو لے کر ربذہ چلے گئے، یہاں کے لوگوں نےہاتھوں ہاتھ لیا اور بنو ثعلبہ کے شیخ اوراس کی بیوی نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے نہلایا، عراقیوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے آکر عرض کیا کہ اس شخص (عثمانؓ) نے آپ کے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے، اگر آپ اس کے خلاف علم بلند کریں تو ہم لوگ آپ کی حمایت پر تیار ہیں، آپ نے فرمایا کہ مسلمانو! اس معاملہ میں تم دخل نہ دو، اپنے حاکم کو ذلیل نہ کرو، کیونکہ جس نے اپنے حاکم کو ذلیل کیا اس کی توبہ قبول نہیں ہوسکتی، اگر عثمانؓ مجھ کو سولی پر بھی چڑھادیتے تو مجھ کو عذر نہ ہوتا، اورمیں اسی میں اپنی بھلائی سمجھتا، اگر وہ ربذہ کے بجائے ایک افق سے دوسرے افق یا مشرق سے مغرب میں بھیج دیتے تب بھی میں سر تسلیم خم کردیتا اوراسی میں اپنی اچھائی سمجھتا اوراگر وہ کہیں نہ بھیجتے اورمجھ کو میری قیام گاہ ہی میں لوٹادیتے تو بھی مجھ کو کوئی عذر نہ ہوتا اوراس میں بھی میں اپنی سعادت سمجھتا۔ [14]
وفات ترميم
حضرت ابوذرؓ کی وفات کا واقعہ بھی نہایت حسرت انگیز ہے، 31ھ میں ربذہ کے ویرانہ میں وفات پائی۔ ان کی حرم محترم وفات کے حالات بیان کرتی ہیں کہ جب ابوذرؓ کی حالت زیادہ خراب ہوئی تو میں رونے لگی، پوچھا کیوں روتی ہو، میں نے کہا کہ تم ایک صحرا میں سفر آخرت کررہے ہو، یہاں میرے اور تمہارے استعمالی کپڑوں کے علاوہ کوئی ایسا کپڑا نہیں ہے جو تمہارے کفن کے کام آئے، فرمایا رونا موقوف کرو، میں تم کو ایک خوشخبری سناتا ہوں، میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ جس مسلمان کے دو یا تین لڑکے مرچکےہوں وہ آگ سے بچانے کے لیے کافی ہیں، آپ ﷺ نے چند آدمیوں کے سامنے جن میں ایک میں بھی تھا، یہ فرمایا کہ تم میں سے ایک شخص صحرا میں مریگا اوراس کی موت کے وقت وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت پہنچ جائے گی، میرے علاوہ ان میں سب آبادی میں مرچکے ہیں، اب صر ف میں باقی رہ گیا ہوں، اس لیے وہ شخص یقینا ًمیں ہی ہوں اورمیں بحلف کہتا ہوں کہ نہ میں نے تم سے جھوٹ بیان کیا ہے اور نہ کہنے والے نےجھوٹ کہا ہے، اس لیے گذرگاہ پر جاکردیکھو یہ غیبی امداد ضرور آتی ہوگی، میں نےکہا اب تو حجاج بھی واپس جاچکے اورراستہ بند ہوچکا، فرمایا نہیں جاکر دیکھو، چنانچہ میں ایک طرف دوڑ کر ٹیلے پر چڑھ کردیکھنے جاتی تھی اور دوسری طرف بھاگ کران کی تیمارداری کرتی تھی، اسی دوڑدھوپ اورتلاش وانتظار کا سلسلہ جاری تھا کہ دور سے کچھ سوار آتے دکھائی دیے، میں نے اشارہ کیا، وہ لوگ نہایت تیزی سے آکر میرے پاس ٹھہر گئے اور ابوذرؓ کے متعلق دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہے، میں نے کہا ابوذرؓ پوچھا ٓنحضرتﷺ کے صحابی؟ میں نے کہا ہاں؟ وہ لوگ فدیۃ بابی وامی کہہ کر ابوذرؓ کے پاس گئے، پہلے ابوذرؓ نے آنحضرت ﷺ کی پیشین گوئی سنائی پھر وصیت کی کہ اگر میری بیوی یا میرے پاس کفن بھر کا کپڑا نکلے تو اسی کپڑے میں مجھ کو کفنانا اورقسم دلائی کہ تم میں سے جو شخص حکومت کا ادنٰی عہدہ دار بھی ہو، وہ مجھ کو نہ کفنائے، اتفاق سے ایک انصاری نوجوان کے علاوہ ان میں سے ہر شخص کسی نہ کسی خدمت پر مامور رہ چکا تھا ؛چنانچہ انصاری نے کہا کہ چچا میرے پاس ایک چادر ہے، اس کے علاوہ دوکپڑے اور ہیں جو خاص میری والدہ کے ہاتھ کے کتے ہوئے ہیں، ان ہی میں آپ کو کفناؤں گا، فرمایا ہاں تم ہی کفنانا۔ [15]
اس وصیت کے بعد وفات پائی، متعدد روایتوں کے باہم ملانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ یمنی تھے اور کوفہ سے آرہے تھے، ان ہی کے ساتھ مشہور صحابی عبداللہؓ بن مسعود بھی تھے، جو عراق جارہے تھے، بہرحال اس انصاری نوجوان نے ان کو کفنایا اور عبداللہ بن مسعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی، [16] اورپھر سبھوں نے مل کر اسی صحرا کے ایک گوشہ میں ان کو پیوند خاک کیا۔
حلیہ ترميم
قددراز، رنگ سیاہی مائل، داڑھی گھنی، سر اورداڑھی دونوں کے بال سفید۔ [17]
ترکہ ترميم
فقیروں کے کلبہ احزان میں کیا تھا، صرف تین گدھے، دومادہ ایک نر، چند بکریاں، کچھ سواریاں، یہ ساری کائنات تھی۔
فضل وکمال ترميم
حضرت ابوذرؓ خدمت نبویﷺ کے بڑے حاضر باش تھے، ہر وقت آپ کی خدمت میں رہتے اورآپ سے استفادہ اورتحصیل علم میں بڑے حریص تھے اور ہر چیز کے متعلق سوالات کیا کرتے تھے، چنانچہ تمام اصول و فروع، ایمان اوراحسان، رویت باری، اللہ کے نزدیک پسندیدہ کلمات، لیلۃ القدر وغیرہ ہر چیز حتی کہ نماز میں کنکری چھونے تک کے بارہ میں پوچھا، [18] اسی ذوق و شوق اورتلاش وجستجو نے آپ کو علم کا دریا بنادیا تھا، حضرت علیؓ جو علم وعمل کے مجمع البحرین تھے، فرماتے تھے کہ ابوذرؓ نے اتنا علم محفوظ کرلیا ہے کہ لوگ اس کے حاصل کرنے سے عاجز تھے، اوراس تھیلی کواس طرح سے بندکردیاکہ اس میں کچھ بھی کم نہ ہوا، [19] حضرت عمرؓ جیسے صاحب کمال آپ کو علم میں عبداللہ بن مسعودؓ کے برابر سمجھتے تھے، [20] جو اپنی وسعت علم کے لحاظ سے جبر الامۃ کہلاتے تھے۔
حدیث ترميم
کلام حبیب ہونے کی حیثیت سے قدرۃ آپ کو حدیث سے خاص ذوق تھا، آپ کی مرویات کی تعداد 281 ہے، ان میں 12 متفق علیہ ہیں اور 2 میں بخاری اور 7 میں مسلم منفرد ہیں، [21] یہ تعداد حضرت ابوہریرہؓ وغیرہ کی مرویات کے مقابلہ میں بہت کم ہے، اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ حضرت ابوذرؓ خاموش، تنہائی پسند اور کم آمیز تھے، اس لیے ان کے علم کی اشاعت نہ ہوسکی، ورنہ صحابہ میں انس بن ؓ مالک اور عبداللہ بن عباسؓ جیسے بزرگ ان سے استفادہ کرتے تھے، عام رواۃ میں خالد بن وہبان، زید بن وہب جہنی، خرشہ بن جرجبیربن احنف بن قیس، عبداللہ بن صامت، زید بن ذبیان، عبداللہ بن شقیق، عمروبن میمون، عبداللہ بن غنم، قیس بن عباد، مرثد بن مالک بن زبید وغیرہم نے ان سے روایتیں کی ہیں۔ [22]
افتا میں صداقت ترميم
آنحضرتﷺ کے بعد مدینہ میں جو جماعت صاحب علم وافتا تھی، اس میں ان کا نام نامی بھی تھا، [23] مگر ان کے فتاوے کی تعداد بہت کم ہے، فتویٰ میں وہ کسی کی مطلق رعایت نہ کرتے اوربلا کسی خوف وہراس کے جو سچی بات ہوتی وہ کہہ دیتے تھے، عہد عثمانی میں بعض محصلین صدقہ وصول کرنے میں زیادتی کرتے تھے، ایک شخص نے آکر کہا ان سے فتویٰ پوچھا کہ عثمان کے محصلوں نے صدقہ میں اضافہ کردیا ہے، ایسی حالت میں کیا ہم بقدر زیادتی مال چھپاسکتے ہیں؟ فرمایا نہیں ان سے کہو کہ جو واجبی ہو اس کو لے لیں اور جو ناجائز ہوااس کو واپس کردیں، اگراس کے بعد بھی وہ زیادہ لیں تو قیامت کے دن وہ زیادتی تمہاری میزان میں کام آئے گی، ان کا یہ فتویٰ ایک قریشی نوجوان کھڑا سن رہا تھا، وہ بولا آپ کیوں فتویٰ دیتے ہیں؟ کیا آپ کو امیر المومنین نے فتویٰ دینے سے منع نہیں کیا ہے؟ فرمایا کیا تم میرے نگہبان ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میری گردن پر تلوار بھی رکھ دو اور مجھ کو یقین ہوجائے کہ گردن کٹنے کے قبل جو کچھ آنحضرت ﷺ سے سنا ہے سنا سکوں گا تو یقینا ًسنادوں گا۔
اخلاق وعادات ترميم
حضرت ابوذرؓ ان محرمان خاص میں تھے، جن کو بارگاہِ نبوت میں خاص تقرب حاصل تھا، اس لیے آپ کے ہر فعل و عمل پر خلق نبویﷺ کا بہت گہرا پر توپڑا تھا، صحابہ کرام میں دو قسم کے لوگ تھے، ایک وہ جنہوں نے دین و دنیا دونوں کو پوری طرح حاصل کیا، دوسرے وہ جنہوں نے دنیا کو ٹھکرادیا، اورمحض آخرت کی نعمتوں پر قناعت کی، حضرت ابوذرؓ اسی دوسری صنف میں تھے، وہ زہد ودرع، حق گوئی وحق پرستی، توکل وقناعت، استغناء وبے نیازی میں تمام صحابہ سے ممتاز تھے، یہ وہ وقت تھا جب قیصر و کسریٰ کے خزانے دارلخلافہ میں لدے چلے آرہے تھے، جگہ جگہ قصر وایوان بن رہے تھے، عیش و تنعم کے سامان ہورہے تھے ؛مگر ان میں سے کوئی چیز بھی رضوان الہی کے اس طالب کو اپنی طرف متوجہ کرنہ سکی، زروجواہر کے ڈھیران کی نگاہ میں خزف ریزوں سے زیادہ وقعت نہ رکھتے تھے، زر نقد کبھی جمع نہیں کیا، ضرورت سے جو فاضل بچتا، اس کو اسی وقت خرچ کردیتے تھے، چار ہزار وظیفہ مقرر تھا، جب وہ ملتا تو خادم کو بلاتے اورایک سال کے اخراجات کا اندازہ لگا کر چیزیں خرید لیتے، اس سے جتنی رقم فاضل بچتی اس کو لوگوں میں تقسیم کردیتے اور فرماتے کہ جو شخص سونا چاندی تھیلوں میں محفوظ رکھتا ہے، وہ گویا انگارے رکھتا ہے، [24] یہ بھی فرماتے تھے کہ میرے دوست ﷺ نے مجھے وعدہ کیا ہے کہ جو شخص بھی سونا چاندی تھیلوں میں محفوظ کرتا ہے وہ جب تک اس کو اللہ کی راہ میں نہ خرچ کردے، اس کے لیے آگ کا انگارہ رہے گا، [25] اس پر نہ صرف خود عامل تھے؛بلکہ چاہتے تھے کہ دنیا اسی رنگ میں رنگ جائے اور اس عقیدے میں یہاں تک متشدد تھے کہ بڑے لوگوں سے ملنا تک گوارانہ کرتے، ابوموسیٰ اشعریؓ جو بڑے رتبہ کے صحابی اور مرتبہ میں آپ سے کم نہ تھے، جب عراق کی گورنری کے زمانہ میں ان سے ملے تو قدیم تعلقات کی بناء پر ان سے چمٹ گئے، انہوں نے کہا دور رہو، وہ بھائی بھائی کہہ کر لپکتے تھے اور وہ کہہ کر ہٹاتے تھے کہ تم اس عہدہ کے بعد میرے بھائی نہیں رہے، اس کے بعد پھر ابو موسیٰ ؓ ملے تو پھر محبت کے جذبہ سے مجبور ہوکر بھائی بھائی کہہ دوڑے، حضرت ابوذرؓ کا پھر وہی جواب تھا، ابھی دور رہو، اس کے بعد سوالات شروع کیے کہ تم لوگوں کے عامل بنائے گئے ہو، انہوں نے کہا ہاں، پوچھا تم نے بڑی عمارت تو نہیں بنائی، زراعت تو نہیں کرتے، گلے تو نہیں رکھتے، انہوں نے کہا نہیں، بولے ہاں اب تم میرے بھائی ہو۔ [26] ایک مرتبہ ابوذرؓ حضرت ابودرداء انصاریؓ کے پاس سے گذرے تو دیکھا کہ ابودرداءؓ گھر بنوارہے ہیں، یہ دیکھ کر کہا، ابودرداء تم لوگوں کی گردنوں پر پتھراٹھواتے ہو، ابودرداء نے جواب دیا کہ نہیں، گھر بنوارہا ہوں، ابوذرؓ نے پھر وہی فقرہ دہرایا، حضرت ابودرداء نے کہا برادرم شاید اس سے آپ کو کچھ ناگواری پیدا ہوگئی ہے، حضرت ابوذرؓ نے فرمایا، اگر میں تم کو اس کے بجائے تمہارے گھر کے پاخانہ میں بھی دیکھتا تو اس کے مقابلہ میں زیادہ پسند کرتا۔ [27]
سادگی ترميم
اس فقیرانہ زندگی کے باعث ان کی زندگی بالکل سادہ تھی اوران چند چیزوں کے علاوہ جو ایک جاندار کی زندگی کے لیے ناگزیر ہیں، کبھی کوئی سازوسامان نہیں رکھا، ابی مروان نے ان کو ایک پشمینہ کی چادر باندھے نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا کہ ابوذرﷺ کیا اس چادر کے علاوہ تمہارے پاس اور کوئی کپڑا نہیں ہے؟ فرمایا اگر اورکوئی کپڑا ہوتو میرے پاس دیکھتے، انہوں نے کہا کچھ دن ہوئے تمہارے پاس دو کپڑے تھے، فرمایا ہاں، مگر وہ دونوں اپنے سے زیادہ حاجتمند کو دیدیے، انہوں نے کہا تم کو خود اس کی حاجت تھی، فرمایا اللہ تم کو معاف کرے، تم دنیا کو بڑھانا چاہتے ہو، تم کو نظر نہیں آتا کہ ایک چادر میں باندھے ہوئے ہوں، دوسری مسجد کے لیے ہے، میرے پاس کچھ بکریاں ہیں جن کا دودھ پیتا ہوں، کچھ خچر ہیں جو باربرداری کے کام آتے ہیں، ایک خادم کھانا پکار کر کھلادیتا ہے، اس سےزیادہ اورکیا نعمتیں درکارہیں۔ [28] عبداللہ بن خراش کا بیان ہے کہ میں نے ربذہ میں ابوذرؓ کو دیکھا وہ سایہ میں ایک صوف کے نمدے پر بیٹھے تھے، ان کی بیوی بڑی سیاہ فام تھیں، ان سے ایک شخص نے کہا کہ آپ کی کوئی اولاد زندہ نہیں رہی، انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس دارالفنا میں اولاد کولے کر دارالبقا میں اس کو ذخیرہ آخرت بنایا، لوگوں نے کہا کہ کاش آپ کوئی دوسری بیوی کرلیتے، انہوں نے جواب دیا کہ ایسی عورت سے شادی کرنا مجھے زیادہ پسند ہے جو مجھ میں تواضع پیدا کرے، بہ نسبت اس کے کہ جو مجھ میں ترفع پیدا کرے۔ [29] جعفر بن زبرقان کہتے ہیں کہ مجھ سے غالب بن عبدالرحمن بیان کرتے تھے کہ میں ایک شخص سے ملا جو ابوذرؓ کے ساتھ بیت المقدس میں نماز پڑھا کرتا تھا، وہ کہتا تھا کہ اگر ابوذرؓ کا پورا اثات البیت جمع کیا جاتا تو بھی اس شخص (ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے) کی چادر کی قیمت کے برابر نہ نکلتا، جعفر نے اس کو مہران بن میمون سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ان کا کل اثاثہ دو درہم سے زیادہ کا نہ تھا۔ [30] لوگ ان کی خدمت کرنا چاہتے تھے، مگر وہ اس کو قبول نہ کرتے تھے، ایک مرتبہ حبیب ابن مسلمہ فہری، والیٔ شام نے ان کی خدمت میں تین سو اشرفیاں بھیجیں کہ وہ ان کو اپنی ضروریات میں صرف کریں، انہوں نے اسی وقت واپس کرادیا اورکہا کہ کیا ان کو میرے علاوہ کوئی دوسرا شخص اللہ کے معاملہ میں دھوکا کھانے والا نہیں ملا، ہم کو صرف سر چھپانے کے لیے دودھ پینے کے لیے بکریاں اور خدمت کے لیے ایک لونڈی چاہئے، اس کے ساتھ کچھ ہوگا وہ زاید ارضرورت ہے۔ [31] آپ فرماتے تھے کہ لوگ موت کے لیے پیدا ہوتے ہیں، ویران ہونے کے لیے آبادیاں بساتے ہیں، فنا ہونے والی چیزوں کی حرص و طمع کرتے ہیں اورباقی اور پائندہ چیزوں چھوڑ دیتے ہیں، دوناپسندیدہ چیزیں موت اورفقر میرے لیے کس قدر خوش آئندہ ہیں۔ [32]
زہد وتقویٰ ترميم
ان کی زندگی شروع سے آخر تک سرتا پا زہد و تقویٰ تھی، جس پہلو پر نظر ڈالی جائے زہد و تقویٰ کا عجیب و غریب نمونہ نظر آئے گا، اس فقیرانہ زندگی کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ میری امت میں سے ابوذرؓ میں عیسیٰ بن مریم جیسا زہد ہے، [33] یہی زہد کی زندگی آخر دم تک قائم رہی، آنحضرت ﷺ کے بعد عہد نبوت کے بعد سے لوگوں میں بہت کچھ تبدیلی پیدا ہوگئی تھی، لیکن حضرت ابوذرؓ غفاری شروع سے اخیر تک ایک رنگ پر قائم رہے۔ [34] جب عہد رسالت کا مقدس دورختم ہوا اور لوگ دنیا سے ملوث ہونے لگے تو تنہا نشینی اختیار کرلی، عمران بن حطان راوی ہیں کہ میں ایک مرتبہ ابوذرؓ کے پاس گیا، وہ مسجد میں تنہا بیٹھے ہوئے تھے، میں نے کہا ابوذرؓ تنہائی کیوں اختیار کرلی، فرمایا میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ تنہائی برے ہمنشین سے بہتر ہے، [35] اسی وجہ سے وہ دنیا سے بہت دور بھاگتے تھے، ابی اسماء رحبی راوی ہیں کہ میں ابوذرؓ کے پاس ربذہ گیا، ان کی بیوی کو سخت خستہ حال دیکھا، فرمانے لگے کہ یہ عورت مجھ سے کہتی ہے کہ عراق جاؤ، اگر میں عراق جاؤں تو عراق والے میرے سامنے دنیا پیش کریں گے اور میرے دوست (آنحضرت ﷺ ) نے مجھ سے فرمایا ہے کہ جہنم کے پل کے سامنے پیر پھسلانے والا راستہ ہے، اور تم لوگوں کو اس پر سے گزرنا ہے، اس لیے بوجھ کی گرانباری سے ہلکا رہنا چاہئے۔ [36]
فرمانِ رسول ﷺ کا پاس ترميم
حضرت ابوذرؓ ارشاد نبویﷺ کو ہر لمحہ پیش نظر رکھتے تھے، اوراس سے سر موتجاوز نہ کرتے تھے، بات بات میں فرماتے تھے کہ: عہدالی خلیلی رسول اللہ ﷺ یا سمعت خلیلی رسول اللہ ﷺ میرے دوست ﷺ نے مجھ سے یہ وعدہ لیا ہے، یا میں نے اپنے دوست ﷺ کو یہ کہتے سنا، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ سے امارت کی خواہش ظاہر کی، آپ ﷺ نے فرمایا، تم ناتواں ہو اورامارت ایسا بار امانت ہے کہ اگر اس کے حقوق کی پوری نگہداشت نہ کی جائے تو آخرت میں اس کے لیے رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے، [37] اس فرمان کے بعد پھر انہوں نے کبھی امارت کی خواہش نہیں کی، ان کی خدمت میں کسی نے دوچادریں پیش کیں، انہوں نے ایک کا ازار بنایا اورایک چھوٹی کملی اوڑھ لی اور دوسری غلام کو دیدی، گھر سے نکلے تو لوگوں نے کہا اگر آپ دونوں چادریں خود استعمال کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا، فرمایا یہ صحیح ہے؛لیکن میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ جو تم کھاتے پہنتے ہو وہی اپنے غلاموں کو بھی کھلاؤ پہناؤ۔ [38]
ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارے اوپر ایسے امراء حکمران ہوں گے جو اپنا حصہ زیادہ لیں گے، اس وقت تم کیا کروگے، عرض کیا تلوار سے کام لوں گا، فرمایا: میں تم کو اس سے بہتر مشورہ دیتا ہوں، ایسے وقت صبر کرنا، یہاں تک کہ مجھ سے مل جاؤ، [39] اس مشورہ پر انہوں نے اس سختی سے عمل کیا کہ جب وہ زمانہ آیاتو تنہا نشینی اختیار کرلی اورکسی چیز میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ ایک مرتبہ وہ مسجد میں لیٹے تھے کہ آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: ابوذرؓ جب تم اس سے نکالے جاؤ گے تو کیا کروگے؟ عرض کیا مسجد نبویﷺ یا اپنے گھر چلاجاؤں گا، اگر اس سے بھی نکالے گئے تو کیا طریقہ اختیار کرو گے، عرض کیا تلوار نکالوں گا، آنحضرت ﷺ نے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر تین مرتبہ فرمایا کہ ابوذرؓ:اللہ تمہاری مغفرت کرے، تلوار نہ نکالنا ؛بلکہ جہاں وہ لے جانا چاہیں چلے جانا، چنانچہ جب ربذہ میں رہنے کا حکم ملاتو اسی فرمان کے مطابق بلا کسی عذر کے چلے گئے اوروہاں حبشی غلام کے پیچھے نماز پڑھی، ہر چند اس نے آپ کو بڑھانا چاہا؛ مگر آپ نے جواب دیا کہ میں آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل کررہا ہوں۔ [40]
حب رسول ﷺ ترميم
ابوذرؓ کو ذات نبویؓ کے ساتھ جو شیفتگی تھی، اس کا اظہار لفظوں میں نہیں ہوسکتا، ایک مرتبہ آپ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا، یا رسول اللہ! آدمی کسی ایک جماعت سے محبت کرتا ہے، لیکن اس کے جیسے اعمال کی طاقت نہیں رکھتا، آپ نے فرمایا: ابوذرؓ تم جس شخص سے محبت رکھتے ہو اسی کے ساتھ ہو، عرض کیا میں اللہ اوراس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں، فرمایا تم یقیناً اسی کے ساتھ ہو، جس سے محبت رکھتے ہو۔ [41] آنحضرت ﷺ کے بعد جب آپ کا نام زبان پر آجاتا تو آنسوؤں کا دریا امنڈآتا، احنف بن قیس روایت کرتے ہیں کہ میں نے بیت المقدس میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مسلسل سجدے کررہا ہے، جس سے میرے دل پر ایک خاص اثر ہوا، جب میں دوبارہ لوٹ کر گیا تو پوچھا کہ آپ بتاسکتے ہیں کہ میں نے جفت نماز پڑھی یاطاق، اس نے کہا اگر میں لا علم ہوں تو اللہ ضرور جانتا ہے، اس کے بعد کہا کہ میرے دوست ابو القاسم ﷺ نے مجھ کو خبر دی ہے، صرف اس قدر زبان سے نکلا تھا کہ رونے لگے، پھر کہا کہ میرے دوست ابوالقاسم ﷺ نے مجھ کو خبر دی ہے، ابھی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ پھر آنسو امنڈ آئے، آخر میں سنبھل کر کہا ؛کہ میرے دوست ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو بندہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے، اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرکے اس کی بدی کو مٹاکر نیکی لکھتا ہے، میں نے پوچھاآپ کون ہیں، فرمایا ابوذر رسول اللہ ﷺ کا صحابی، یہ سن کر میں اپنی تقصیر پر بہت نادم ہوا۔ [42]
بارگاہ نبویﷺ میں پذیرائی ترميم
حریم نبوت میں ان کی یہ نیاز مندیاں بہت مقبول تھیں، جب یہ مجلس میں موجود ہوتے تو سب سے پہلے ان ہی کو تخاطب کا شرف حاصل ہوتا اوراگر موجود نہ ہوتے تو تلاش ہوتی، جب ملاقات ہوتی تو آنحضرت ﷺ مصافحہ فرماتے۔ [43] یہ محبت ویگانگت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ آنحضرت ﷺ اپنے اسرار تک ان سے نہ چھپاتے تھے اور یہ راز داری کا پوری طرح فرض ادا کرتے تھے، ایک مرتبہ ان سے کسی نے کہا کہ میں آنحضرت ﷺ کی بعض باتیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، فرمایا:اگر وہ آپ کا کوئی راز ہوگا تو نہ بتاؤں گا۔ [44] یہی یگانگت آنحضرت ﷺ کے آخری لمحۂ حیات تک قائم رہی؛چنانچہ مرض الموت میں آپ نے ان کو بلوابھیجا، یہ جب حاضر خدمت ہوئے، اس وقت آنحضرت ﷺ لیٹے ہوئے تھے، ابوذرﷺ آپ کے اوپر جھک گئے اور محبوبِ عالم نے ہاتھ بڑھا کر چمٹا لیا، [45] نہ معلوم یہ نگاہ واپسیں کیا کام کر گئی کہ آخر دم تک دارفتگی کا عالم طاری رہا۔ آنحضرت ﷺ جو چیز اپنے لیے پسند فرماتے تھے وہی ابوذرؓ کے لیے بھی پسند فرماتے کہ یہی آئین محبت ہے، ایک مرتبہ انہوں نے امارت کی خواہش کی آپ نے فرمایا کہ ابوذرؓ تم ناتواں ہو اور میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ [46]
خلیفہ کی اطاعت ترميم
اگرچہ ابوذرؓ حق پسند طبیعت رکھتے تھے، پھر بھی اختلاف امت کے خیال سے کسی چیز میں خلیفہ وقت کے حکم سے سرتابی نہ کرتے تھے اوپر گذرچکا ہے کہ ربذہ کے قیام کے زمانہ میں عراقیوں کی خواہش کے باوجود حضرت عثمانؓ کی مخالفت پر آمادہ نہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر مجھ پر حبشی بھی امیر بنایا جائے تو بھی اس کی اطاعت کروں گا اور اس کو عملاً کرکے دکھایا، چنانچہ جب وہ ربذہ جاکر مقیم ہوئے تو اتفاق سے اس وقت یہاں کا امیر ایک حبشی تھا جب ابوذرؓ پہنچے اور نماز کے وقت جماعت کھڑی ہوئی تو وہ ان کے ادب کے خیال سے پیچھے ہٹ گیا، انہوں نے فرمایاتم ہی نماز پڑھاؤ، تم گو حبشی غلام ہو؛لیکن مجھ کو حکم ملا ہے کہ خواہ حبشی ہی کیوں نہ ہوتا، اس کی مخالفت نہ کرتے تھے؛بلکہ خود بھی وہی کرتے، حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں حک کو گئے، کسی نے آکر اطلاع دی کہ منی میں عثمانؓ نے چار رکعتیں نماز پڑھیں، آپ کو بہت ناگوار ہوا اور درشت الفاظ استعمال کرکے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی ہے، یہ سب دورکعت پڑہتے تھے، اس کے بعد انہوں نے امامت کی مگر خود بھی چاررکعتیں پڑھائی، لوگوں نے کہا ٓپ نے تو امیر المومنین پر اعتراض کیا؛لیکن خود بھی چار رکعتیں پڑھائیں فرمایا کہ اختلاف بری چیز ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد امرا ہوں گے، ان کی تذلیل نہ کرنا اور جو شخص ان کی تذلیل کا ارادہ کرے گا، اس نے گویا اسلام کی حبل متین اپنی گرد سے نکال دی اور توبہ کا دروازہ اپنے لیے بند کرلیا، [47] ؛لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ آپ امراء خلفاء کی تمام جاوہ بےجا باتوں کو مان لیتے تھے، امیر معاویہؓ کی لغزشوں پر نہایت سختی سے نکتہ چینی کرتے تھے؛بلکہ برا بھلا تک کہتے تھے۔
حق گوئی ترميم
اللہ کے معاملہ میں لومۃ لائم کی مطلق پروانہ کرتے تھے، حضرت علیؓ فرماتے تھے کہ آج میرے اور ابوذرؓ کے علاوہ کوئی ایسا شخص باقی نہیں ہے جو اللہ کے معاملہ میں لومۃ لائم کا خوف نہ کرتا ہو، [48] ان کی حق گوئی کی شہادت خود زبان وحی والہام نے دی ہے، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ابوذرؓ سے زیادہ سچا کوئی نہیں ہے۔ [49]
فیاضی وسیرچشمی ترميم
اس تحقیر دنیا کا لازمی نتیجہ سرچشمی اورفیاضی تھا، ان کو سالانہ وظیفہ کافی ملتا تھا، ؛لیکن اپنی محدود ضروریات کے علاوہ جس قدر بچتا تھا لوگوں میں تقسیم کردیتے تھے، اگر کوئی کہتا کہ اس کو رکھ لیجئے، آپ کے اورآپ کے مہمانوں کے کام آئے گا تو فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص سونا چاندی جمع کرتا ہے، وہ گویا انگارے جمع کرتا ہے، جب تک اس کو راہ ِ خدا میں صرف نہ کردے۔ [50]
مہمان نوازی اورحق جوار ترميم
آپ کی غذا زیادہ تر بکریوں کا دودھ تھا، لیکن اس میں بھی مہمانوں اورپڑوسیوں کو شریک کرتے تھے، عمیلہ فزاری روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے ایک شخص اپنا چشم دیدواقعہ بیان کرتا تھا کہ ابوذرؓ دودھ دوہکر پہلے مہمانوں اورپڑوسیوں کو پلاتے تھے، ایک مرتبہ دودھ اور کھجوریں لے کر پڑوسیوں اورمہمانوں کے سامنے پیش کرکے معذرت کرنے لگے کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، اگر ہوتا تو پیش کرتا، چنانچہ جو کچھ تھا سب دوسروں کو کھلا دیا اور خود بھوکے سورہے۔ [51]
خوش اخلاقی ترميم
عموما ًزہاد اور متقشفین کے مزاج میں ایک طرح کی خشکی ہوتی ہے ؛لیکن مسیح اسلام کی ذات اس سے مستثنیٰ تھی، ان کا اخلاق بدویوں تک کو مسحور کرلیتا تھا، ایک بدوی کا بیان ہے کہ میں ابوذرکے ساتھ رہاہوں، ان کی تمام اخلاقی خوبیاں تعجب انگیز تھیں۔ [52] وہ جن اخلاقی اصول پر عمل پیرا تھے ان کو خود سناتے تھے کہ میرے دوست نےمجھے سات وصیتیں کی ہیں، مسکین کی محبت اوران سے ملنا جلنا، اپنے سے کمتر کو دیکھنا اور بلند ترکو نہ دیکھنا، کسی سے سوال نہ کرنا، صلہ رحمی کرنا، حق بولنا، خواہ تلخ ہی کیوں نہ ہو، اللہ کے معاملہ میں کسی کی ملامت کا خوف نہ کرنا، لاحول ولا قوۃ کا ورد کثرت سے کرنا۔ [53]
حوالہ جات ترميم
- ↑ عنوان : Абу Зарр аль-Гифари
- ↑ Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 2 مئی 2020
- ↑ (ابن سعد جز4، ق1، صفحہ:163)
- ↑ (ابن سعد جزو4، ق1، صفحہ:163 و مسلم اسلام ابی ذرؓ)
- ↑ (مستدرک حاکم:338، 339/3، وبخاری باب بنیان الکعبہ، مسلم، جلد2، فضائل ابی ذرؓ)
- ↑ (صحیح مسلم، فضائل ابی ذرؓ، مسند ابن حنبل:174/5)
- ↑ (ابن سعد، جزو4، ق1، صفحہ:166)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل:174/5)
- ↑ (تذکرہ الحفاط:15/1)
- ↑ (استیعاب:183/1)
- ↑ (التوبۃ:34)
- ↑ (حلیۃ الاولیاء ابو نعیم:160/1)
- ↑ (ابن سعد، جلد4، ق1، صفحہ:166، 167)
- ↑ (طبقات، جز4، قسم 1، صفحہ:167)
- ↑ (مستدرک حاکم:345/3، ومسند احمد بن حنبل:166/5)
- ↑ (مستدرک حاکم:346/3)
- ↑ (ابن سعد جز4، قسم اول، صفحہ:169)
- ↑ (حلیۃ الاولیاء ابونعیم:169)
- ↑ (استیعاب:665/2، تذکرۃ الحفاظ ترجمہ ابوذر)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:15/1)
- ↑ (تہذیب الکمال:449)
- ↑ (تفصیل کے لیے دیکھئے تہذیب التہذیب:90/2)
- ↑ (اعلام الموقعین، جلد1، صفحہ13)
- ↑ (ابن سعد، جز4، قسم1، صفحہ:169)
- ↑ (حلیۃ الاولیاء ابو نعیم:163/1)
- ↑ (ابن سعد جزء4، قسم1، صفحہ:169)
- ↑ (حلیۃ الاوالیاء، ابونعیم:163/1)
- ↑ (ابن سعد جز4، قسم1، صفحہ:173)
- ↑ (حلیۃ الاولیاء ابونعیم:163/1)
- ↑ (ابن سعد، جزو4، قسم1، صفحہ:170)
- ↑ (حلیۃ الاولیاء ابو نعیم:162/1)
- ↑ (حلیۃ الاولیاء ابونعیم:162/1)
- ↑ (اسد الغابہ:18/5، واستیعاب تذکرہ ابوذرؓ)
- ↑ (اصابہ:62/7)
- ↑ (مستدرک:343/3)
- ↑ (ابن سعد، جز4، قسم1، صفحہ:174)
- ↑ (ابن سعد جز4، ق 1، صفحہ:174)
- ↑ (ابن سعد جز4، ق 1، صفحہ:174)
- ↑ (ابن سعد، جز4، ق1، صفحہ:166)
- ↑ (مسند ابن حنبل:144/5، ابن سعد)
- ↑ (ابوداؤد:212/2)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل:164/5)
- ↑ (اصابہ:62/5)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل:163/5)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل، جلد5، صفحہ:163)
- ↑ (ابن سعد، جز4، قسم اول، صفحہ:170)
- ↑ (احمد ابن حنبل:165/5)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ، تذکرہ ابوذرؓ)
- ↑ (ترمذی مناقب ابی ذرؓ)
- ↑ (مسند احمدبن حنبل:156/5)
- ↑ (ابن سعد، جلد4ق1، صفحہ:174)
- ↑ (ابن سعد، جلد4، ق1، صفحہ:174)
- ↑ (ابن سعد، جلد4، ق اول، صفحہ:168)