آیت تبلیغ سورہ مائدہ کی 67 ویں آیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہونے والی آخری آیات میں سے ہے۔ اس آیت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ لوگوں تک ایک پیغام پہنچائیں اور کوتاہی کرنے کی صورت میں گویا انھوں نے اپنی رسالت کو انجام نہیں دیا ہے۔

آیت تبلیغ
فائل:تابلو فرش شجره طیبه مزین به آیه تطهیر ، آیه تبلیغ و آیه اکمال .jpg
شجرہ طیبہ کے گرد محراب میں آیہ تبلیغ درج شدہ قالیچہ جو امام رضاؑ کے عجائب گھر میں موجود ہے۔
آیت کی خصوصیات
آیت کا نام:آیہ بلغ
سورہ:سورہ مائدہ
آیت نمبر:67
پارہ:6
صفحہ نمبر:119
محل نزول:مکہ
موضوع:اعتقادی
مضمون:واقعہ غدیر
مربوط آیات:آیت اکمال و آیت ولایت

شیعہ اور بعض اہل سنت کے نظریے کے مطابق یہ آیت سنہ 10 ھ کو حجۃ الوداع کے موقع پر 18 ذی الحجہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی ہے۔ شیعوں کے عقیدے کے مطابق اس پیغام کا موضوع حضرت علی علیہ السلام کی خلافت اور وصایت ہے جسے پیغمبر اکرمؐ نے آیت کے نزول کے بعد انجام دیا۔

متن اور ترجمہ

ترمیم
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ اسے (لوگوں تک) پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو (پھر یہ سمجھا جائے گا کہ) آپ نے اس کا کوئی پیغام پہنچایا ہی نہیں۔ اور اللہ آپ کی لوگوں (کے شر) سے حفاظت کرے گا بے شک خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا۔


شأن نزول

ترمیم

مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت 18 ذی الحجہ کو رسول خداؐ کی حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر نازل ہوئی۔[1] اہل سنت کے مآخذ میں بھی بعض روایات ملتی ہیں جن میں اس آیت کے نزول کے زمان اور مکان کو غدیر خم ذکر کیا ہے۔[2] شیعہ علما، شیعہ ائمہ اور بعض صحابہ کی روایات کے پیش نظر آیت تبلیغ کے شان نزول کو واقعہ غدیر اور امیرالمومنینؑ کی جانشینی قرار دیتے ہیں۔[3]جبکہ اہل سنت علما بھی اس آیت کے سبب نزول کو پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کا آغاز یا اسلام پہنچانے پر آپؐ کے مامور ہونے کو قرار دیا ہے۔[4]

شیعہ مآخذ کے مطابق جبرائیل امینؑ سب سے پہلے حجۃ الوداع میں حج کے موقع پر رسول اکرمؐ کے پاس تشریف لائے اور لوگوں سے حضرت علیؑ کی جانشینی کے لیے بیعت لینے کا تقاضا کیا لیکن رسول اللہؐ کو قریش کی دشمنی اور منافقت نیز امیرالمومنینؑ سے ان کی حسد کے بارے میں جو آگاہی تھی اور تفرقہ بازی اور جاہلیت کی طرف واپس لوٹنے کو دیکھتے تھے اس کے پیش نظر اللہ تعالی سے حفظ و امان کی دعا کی۔

جبرائیل دوسری مرتبہ مسجد خیف کے مقام پر رسول اللہ پر نازل ہوئے اور آپ سے دوبارہ لوگوں تک اسی پیغام کو پہنچانے کا تقاضا کیا لیکن اس بار بھی جبرائیل لوگوں سے حفظ و امان کی ضمانت کے بغیر نازل ہوئے۔

جبرائیل تیسری مرتبہ مکہ اور مدینہ کے درمیان اسی پیغام کے ساتھ آئے اور وہی حکم تکرار کیا۔ جس کے جواب میں رسول اللہؐ نے فرمایا: مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ لوگ علی کی جانشینی کے حکم کو جھوٹ سمجھیں اور مجھے جھٹلا دیں اور میری بات کو نہ مانیں۔

آخری اور چوتھی مرتبہ وحی کا فرشتہ غدیر خم کے مقام پر نازل ہوئے حکم الہی کی تکرار کے ساتھ لوگوں سے حفظ و امان کی خوشخبری بھی ساتھ لائے اور منافقوں کی جانب سے کسی قسم کے نقصان نہ پہنچنے کی خوشخبری بھی سنائی۔[5]<span class="citation wikicite" id="endnote_فَأَقِمْ یا مُحَمَّدُ عَلِیاً عَلَماً وَ خُذْ عَلَیهِمُ الْبَیعَةَ وَ جَدِّدْ عَهْدِی وَ مِیثَاقِی لَهُمُ الَّذِی وَاثَقْتُهُمْ عَلَیهِ فَإِنِّی قَابِضُكَ إِلَی وَ مُسْتَقْدِمُكَ عَلَی فَخَشِی رَسُولُ اللَّهِ (ص) مِنْ قَوْمِهِ وَ أَهْلِ النِّفَاقِ وَ الشِّقَاقِ أَنْ یتَفَرَّقُوا وَ یرْجِعُوا إِلَی الْجَاهِلِیةِ لِمَا عَرَفَ مِنْ عَدَاوَتِهِمْ وَ لِمَا ینْطَوِی عَلَیهِ أَنْفُسُهُمْ لِعَلِی مِنَ الْعَدَاوَةِ وَ الْبَغْضَاءِ وَ سَأَلَ جَبْرَئِیلَ أَنْ یسْأَلَ رَبَّهُ الْعِصْمَةَ مِنَ النَّاسِ وَ انْتَظَرَ أَنْ یأْتِیهُ جَبْرَئِیلُ بِالْعِصْمَةِ مِنَ النَّاسِ عَنِ اللَّهِ جَلَّ اسْمُهُ فَأَخَّرَ ذَلِكَ إِلَی أَنْ بَلَغَ مَسْجِدَ الْخَیفِ فَأَتَاهُ جَبْرَئِیلُ(ع) فِی مَسْجِدِ الْخَیفِ فَأَمَرَهُ بِأَنْ یعْهَدَ عَهْدَهُ وَ یقِیمَ عَلِیاً عَلَماً لِلنَّاسِ یهْتَدُونَ بِهِ وَ لَمْ یأْتِهِ بِالْعِصْمَةِ مِنَ اللَّهِ جَلَّ جَلَالُهُ بِالَّذِی أَرَادَ حَتَّی بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِیمِ بَینَ مَكَّةَ وَ الْمَدِینَةِ فَأَتَاهُ جَبْرَئِیلُ وَ أَمَرَهُ بِالَّذِی أَتَاهُ فِیهِ مِنْ قِبَلِ اللَّهِ وَ لَمْ یأْتِهِ بِالْعِصْمَةِ فَقَالَ یا جَبْرَئِیلُ إِنِّی أَخْشَی قَوْمِی أَنْ یكَذِّبُونِی وَ لَا یقْبَلُوا قَوْلِی فِی عَلِی(ع) فَرَحَلَ فَلَمَّا بَلَغَ غَدِیرَ خُمٍّ قَبْلَ الْجُحْفَةِ بِثَلَاثَةِ أَمْیالٍ أَتَاهُ جَبْرَئِیلُ(ع) عَلَی خَمْسِ سَاعَاتٍ مَضَتْ مِنَ النَّهَارِ بِالزَّجْرِ وَ الِانْتِهَارِ وَ الْعِصْمَةِ مِنَ النَّاسِ فَقَالَ یا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ یقْرِؤُكَ السَّلَامَ وَ یقُولُ لَكَ- یا أَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیكَ مِنْ رَبِّكَ فِی عَلِی وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یعْصِمُكَ مِنَ النَّاس. طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج1، ص57؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج3، ص344؛ منقول از حاکم حسکانی">[[#ref_فَأَقِمْ یا مُحَمَّدُ عَلِیاً عَلَماً وَ خُذْ عَلَیهِمُ الْبَیعَةَ وَ جَدِّدْ عَهْدِی وَ مِیثَاقِی لَهُمُ الَّذِی وَاثَقْتُهُمْ عَلَیهِ فَإِنِّی قَابِضُكَ إِلَی وَ مُسْتَقْدِمُكَ عَلَی فَخَشِی رَسُولُ اللَّهِ (ص) مِنْ قَوْمِهِ وَ أَهْلِ النِّفَاقِ وَ الشِّقَاقِ أَنْ یتَفَرَّقُوا وَ یرْجِعُوا إِلَی الْجَاهِلِیةِ لِمَا عَرَفَ مِنْ عَدَاوَتِهِمْ وَ لِمَا ینْطَوِی عَلَیهِ أَنْفُسُهُمْ لِعَلِی مِنَ الْعَدَاوَةِ وَ الْبَغْضَاءِ وَ سَأَلَ جَبْرَئِیلَ أَنْ یسْأَلَ رَبَّهُ الْعِصْمَةَ مِنَ النَّاسِ وَ انْتَظَرَ أَنْ یأْتِیهُ جَبْرَئِیلُ بِالْعِصْمَةِ مِنَ النَّاسِ عَنِ اللَّهِ جَلَّ اسْمُهُ فَأَخَّرَ ذَلِكَ إِلَی أَنْ بَلَغَ مَسْجِدَ الْخَیفِ فَأَتَاهُ جَبْرَئِیلُ(ع) فِی مَسْجِدِ الْخَیفِ فَأَمَرَهُ بِأَنْ یعْهَدَ عَهْدَهُ وَ یقِیمَ عَلِیاً عَلَماً لِلنَّاسِ یهْتَدُونَ بِهِ وَ لَمْ یأْتِهِ بِالْعِصْمَةِ مِنَ اللَّهِ جَلَّ جَلَالُهُ بِالَّذِی أَرَادَ حَتَّی بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِیمِ بَینَ مَكَّةَ وَ الْمَدِینَةِ فَأَتَاهُ جَبْرَئِیلُ وَ أَمَرَهُ بِالَّذِی أَتَاهُ فِیهِ مِنْ قِبَلِ اللَّهِ وَ لَمْ یأْتِهِ بِالْعِصْمَةِ فَقَالَ یا جَبْرَئِیلُ إِنِّی أَخْشَی قَوْمِی أَنْ یكَذِّبُونِی وَ لَا یقْبَلُوا قَوْلِی فِی عَلِی(ع) فَرَحَلَ فَلَمَّا بَلَغَ غَدِیرَ خُمٍّ قَبْلَ الْجُحْفَةِ بِثَلَاثَةِ أَمْیالٍ أَتَاهُ جَبْرَئِیلُ(ع) عَلَی خَمْسِ سَاعَاتٍ مَضَتْ مِنَ النَّهَارِ بِالزَّجْرِ وَ الِانْتِهَارِ وَ الْعِصْمَةِ مِنَ النَّاسِ فَقَالَ یا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ یقْرِؤُكَ السَّلَامَ وَ یقُولُ لَكَ- یا أَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیكَ مِنْ رَبِّكَ فِی عَلِی وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یعْصِمُكَ مِنَ النَّاس. طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج1، ص57؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج3، ص344؛ منقول از حاکم حسکانی|^]]

دیگر احتمالات

ترمیم
حیات علویہ کے اہم واقعات
599ء ولادت
610ء سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لائے
619ء ابو طالب (والد) کی وفات
622ء لیلۃ المبیت: رسول اللہؐ کے بستر پر سونا
622ء ہجرت مدینہ
2ھ624ء جنگ بدر میں شرکت
3ھ-625ء جنگ احد میں شرکت
4ھ-626ء (والدہ) فاطمہ بنت اسد کی وفات
5ھ-627ء غزوہ احزاب میں شرکت اور عمرو بن عبدود کو قتل کرنا
6ھ-628ء رسول خداؐ کے حکم پر صلح حدیبیہ کے متن کی تحریر
7ھ-629ء غزوہ خیبر؛ قلعہ خیبر کے فاتح
8ھ-630ء فتح مکہ میں شرکت اور حضورؐ کے حکم پر بتوں کو توڑنا
9ھ-632ء غزوہ تبوک میں رسول اللہؐ کی مدینہ میں جانشینی
10ھ-632ء حجۃ الوداع میں شرکت
10ھ-632ء واقعہ غدیر خم
11ھ-632ء رسول خداؐ کی وفات اور آپ کی تغسیل و تکفین
11ھ-632ء سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ اور ابوبکر کی خلافت کا آغاز
11ھ-632ء (زوجہ) حضرت زہراؑ کی شہادت
13ھ-634ء عمر بن خطاب کی خلافت کا آغاز
23ھ-644ء خلیفہ کے تعین کے لئے عمر کی چھ رکنی شوری میں شرکت
23ھ-644ء عثمان کی خلافت کا آغاز
35ھ-655ء لوگوں کی بیعت اور حکومت کا آغاز
36ھ-656ء جنگ جمل
37ھ-657ء جنگ صفین
38ھ-658ء جنگ نہروان
40ھ-661ء شہادت

اس آیت کی نزول کے اسباب میں بعض دیگر احتمال بھی ذکر ہوئے ہیں جنہیں شیعہ اور سنی علما نے نقد کیا ہے۔

1. آیت کا نزول مکہ میں

ترمیم

بعض اہل سنت علما کا خیال ہے کہ یہ آیت مکہ میں پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نزول کا مقصد مشرکین اور کفار کو دینی حقائق پہنچانا تھا۔ بعض روایات کے مطابق دشمن کی شر سے محفوظ رکھنے کے لیے رسول اللہ کی حفاظت پر افراد معین کیے گئے تھے لیکن اس آیت کے نزول کے بعد ان افراد کو فارغ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالی مجھے دشمنوں کی شر سے محفوظ رکھے گا اس کے علاوہ دینی حقائق کو کسی خوف کے بغیر کفار اور مشرکین تک پہنچانے پر مامور ہوئے۔[6]

نقد اس نظرئے کی تردید میں کہا گیا ہے کہ: مفسرین اس بات پر متفق ہیں سورۂ مائدہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے[7] نیز عبد اللہ بن عمر کی روایات کے مطابق سورت مائدہ آخری نازل ہونے والی سورت ہے[8]اس فرض کے مطابق آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے اور کئی سال تک کسی بھی سورت سے ملحق ہوئے بغیر رہ گئی ہے جس کو اکیلے ہی تلاوت کی جاتی رہی ہے۔ یا اس کو الگ کر کے رکھا گیا ہے؛ اور یہ فرض صحیح نہیں ہے۔ اکیلا تلاوت کیا جائے[9]

اس کے علاوہ جو روایت پیغمبر اکرمؐ کی مکہ میں جان کی حفاظت کے بارے میں وارد ہوئی ہے بعض مفکروں نے اسے حدیث غریب اور منکر قرار دیا ہے۔[10]

2. اہل کتاب کو ابلاغ

ترمیم

جیسا کہ بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے[11] اور اس کا مقصد رسول اللہ کو موظف کرنا تھا کہ وہ کسی خوف کے بغیر اہل کتاب کو وحی کے حقائق ابلاغ کریں [12]محمد بن یوسف ابو حیان نے کہا ہے کہ رسول اللہ کو اس آیت کے ذریعے کہا گیا کہ وہ سنگسار اور قصاص کے حکم کو یہودیوں اور مسیحیوں کو پہنچائیں کیونکہ انھوں نے تورات و انجیل میں ان احکام میں تحریف کی تھی۔[13]

ان کا یہ کہنا ہے کہ اس آیت سے پہلی اور بعد والی آیات اہل کتاب سے مربوط ہیں اور اس آیت کا موضوع بھی اس سے پہلے اور بعد والی آیات سے اجنبی نہیں ہونا چاہیے۔

نقد

تاریخی مآخذ کے مطابق مسلمانوں کی یہودیوں سے جنگ بنی قریظہ اور جنگ خیبر میں یہودیوں کا غرور اور زور ٹوٹ گیا تھا اور ان کے مراکز پر کنٹرول کرنے اور بعض کو مدینہ سے جلاوطن کرنے کے بعد ان کا اثر رسوخ ماند پڑ گیا۔[14] جبکہ حجاز کے عیسائی خاص طور پر مدینہ میں اس قدر قدرت مند نہیں تھے اور مسلمانوں کے ساتھ صرف مباہلے میں آمنے سامنے ہوئے تھے۔[15] اور وہ بھی خود ہی ان کی فرمائش پر منسوخ ہوا۔

پس ان حقائق کی روشنی میں رسول خدا اور مسلمانوں کو رسول خداؐ کی عمر کے آخری سالوں میں یہود اور نصاری سے کسی قسم کا خوف اور پریشانی لاحق نہیں تھی کہ جو کسی قسم کے پیغام کو ان تک ابلاغ کرنے میں رکاوٹ بنے۔اس کے علاوہ مذکورہ آیت موضوع کے لحاظ سے پہلی اور بعد والی آیات سے اجنبی نہیں بلکہ سازگار ہے کیونکہ مذکورہ آیت سے پہلی اور بعد والی آیات یہود اور نصارا کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں چونکہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ رسول خدا کی رحلت کے ساتھ ہی مسلمانوں کی قدرت کا خاتمہ ہو جائے گا اور انھیں دوبارہ نفوذ و قدرت حاصل کرنے کا موقع فراہم ہوگا ۔ لیکن اس آیت تبلیغ میں پیغمبر اکرمؐ کے بعد کی امت اسلامیہ کی رہبری کے تعین کے ذریعے ان کے اس خیال کا بطلان کو ظاہر کیا گیا نیز یہ مطلب آیت اکمال سے سازگار ہے جو حضرت علیؑ کی ولایت کے اعلان کے بعد نازل ہوئی۔[16]

اہم نکات

ترمیم

اس ذمہ داری کی اہمیت

ترمیم

آیت متعلقہ پیغام کی اہمیت اور اس کی حساسیت کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ پیغام نہ پہنچانے کی صورت میں کہا جارہا ہے کہ کوئی رسالت کا کام ہی انجام نہیں دیا ہے۔ گویا یہ پیغام قدر و قیمت کے لحاظ سے نبوت اور رسالت کے برابر ہے۔ اور یہ تصور نہیں کیا جا سکتا وہ پیغام توحید، نبوت، قیامت کی طرح اعتقادی یا نماز روزہ اور حج جیسے فقہی احکام سے متعلق ہو کیونکہ سورہ مائدہ آخری سورتوں میں سے ہے جو نازل ہوئی ہیں۔ اور ان تمام چیزوں کے احکام اس سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہو چکے تھے اور لوگوں تک پہنچا بھی دیا تھا۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ رسالت کے آخری ایام میں ایک ایسی چیز کا مرحلہ آ چکا تھا کہ جو بہت اہم اور لوگوں کے لیے جدید ہونے کے ساتھ ساتھ خود رسالت کے لیے تکمیل کنندہ کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ چیز رسول اللہ کے وصال کے بعد امت اسلامی کی رہبری کے مسئلے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔[حوالہ درکار]

ابلاغ میں رسول اللہ کی پریشانی

ترمیم

موضوع کی حساسیت کے پیش نظر رسول خداؐ پیغام پہنچانے میں بہت سے پریشان تھے۔ لیکن اللہ تعالی نے واللّهُ یعْصِمُکَ مِنَ الناس کے وعدے کے ذریعے اس پریشانی کو دور فرمایا۔[حوالہ درکار]اس بات کے پیش نظر کہ آیت کا شان نزول اہل کتاب اور مشرکان قریش کے متعلق نہیں ہے، واضح ہوتا ہے کہ آیت تبلیغ میں «الناس» سے مراد اسلامی معاشرے میں موجود منافقین ہیں۔[حوالہ درکار]
رسول خدا حضرت علی کی جانشینی کے اعلان کے بعد ان کی جانب سے مخالفت کی وجہ سے پریشان تھے کیونکہ:

  • منافقین اسلامی معاشرے کی ریاست کے لیے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے خواہاں تھے اور دنیا کی نعمتوں کے حصول کو آپ کی جانشینی کے حصول میں دیکھتے تھے۔ اور امام علیؑ کا جانشین بننا ان کی آرزو کے خلاف تھا۔[17]
  • حضرت علیؑ قاطع اور دوسروں سے متاثر نہ ہونے والی شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔[18]
  • نئے مسلمانوں کے دلوں میں حضرت علیؑ کی نسبت کینہ تھا چونکہ اکثر جنگوں میں حضرت علی نے ان کے عزیزوں اور اقربا کو قتل کیا تھا۔[حوالہ درکار]
  • حضرت رسول ختمی مرتبت کی وصال کے وقت حضرت علیؑ کی عمر صرف 33 سال تھی۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں منصب پر پہنچنے کے لیے عمر کا زیادہ ہونا ایک نہایت اہم عامل ہو وہاں پر آپؑ کی رہبری کو قبول کرنا اتنا آسان مسئلہ نہیں تھا۔[حوالہ درکار]اور یہ بات جنگ تبوک کے موقع پر مدینہ میں حضرت علی کو پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے جانشین مقرر کرنے نیز آپؐ عمر کے آخری لمحات میں اسامہ بن زید کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کرنے پر ظاہر ہو گئی۔[19]

متعلقہ مضامین

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. مراجعہ کریں: قمی، تفسیر القمی، 1412ق، ج1، ص179؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ق، ج1، ص332.
  2. مراجعہ کریں: سیوطی، الدر المنثور، 1414ق، ج2، ص298؛ آلوسی، روح المعانی، 1405ق، ج6، ص194.
  3. کلینی، الکافی، 1401ق، ج1، ص290، ح6؛ طبرسی، الاحتجاج، 1401ق، ج1، ص57؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان، 1382-1387ش، ج4، ص275-281.
  4. مراجعہ کریں: طبری، جامع البیان، 1422ق، ج8، ص567-569؛ ثعالبی، جواهر الحسان، 1416ق، ج1، ص442؛ سیوطی، الدر المنثور، 1414ق، ج2، ص298؛ ابوحیان، تفسیر البحر المحیط، 1983م، ج3، ص529.
  5. فضل طبرسی، اعلام الوری، ج3 ص 344 حاکم حسکانی سے منقول۔
  6. مراجعہ کریں: طبری، جامع البیان، ج4، جزء 6، ص198ـ 199؛ ثعالبی، ج1، ص442؛ سیوطی، ج2، ص298
  7. ابن عطیہ،المحرر الوجیز، 1422ق، ج5، ص5؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1965م، ج3، ص30.
  8. ترمذی، الجامع الصحیح، 1408ق، ج5، ص261، عبد اللہ بن عمر سے منقول۔
  9. ابن عاشور،6/256
  10. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دار القلم، ج2، ص132.
  11. ابوحیان، تفسیر البحر المحیط، 1983ق، ج3، ص529.
  12. طبری، جامع البیان، 1422ق، ج4، جزء 6، ص198؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، دار احیاء التراث، ج12، ص401.
  13. ابوحیان، تفسیر البحر المحیط، 1983م، ج3، ص529.
  14. احزاب:26ـ27؛ حشر:2ـ4.
  15. آل عمران:61.
  16. طوسی، ج 3، ص 435 ۔ فضل طبرسی، 1408، ج 3، ص 246 ۔ حویزی، ج 1، ص 587 ـ590
  17. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ق، ج2، ص97،99.
  18. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1382-1387ش، ج4، ص276
  19. طبری،تاریخ طبری،3/186۔ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،1/159۔

مآخذ

ترمیم

سانچہ:مآخذ

  • آلوسی، محمود بن عبد اللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1405ھ۔
  • ابن عاشور، محمد طاہر، تفسیر التحریر و التنویر، تونس، بی نا، 1984ء۔
  • ابن عطیہ، عبد الحق بن غالب، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، تحقیق محد عبد السلام عبد الشافی، بیروت، دار الکتب العلیمہ، 1422ھ۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق خلیل میس، بیروت، دار القلم، بی‌تا.
  • ابو الفتوح رازی، حسین بن علی، تفسیر روض الجنان و روح الجنان، محقق ابو الحسن شعرانی و علی اکبر غفاری، تہران 1382-1387ہجری شمسی۔
  • ابو حیان، محمد بن یوسف، تفسیر البحر المحیط، بیروت، بی نا، 1983ء۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح، محقق شاکر احمد محمد، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1408ھ۔
  • ثعالبی، عبد الرحمان بن احمد، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن، مصحح ابو محمد غماری ادریسی حسنی، بیروت، بی نا، 1416ھ/ 1996ء۔
  • حویزی، عبد علی بن جمعہ، کتاب تفسیر نور الثقلین، تصحیح ہاشم رسولی محلاتی، قم، المطبعۃ العلمیۃ، 1383ہجری شمسی۔
  • سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت، دارالفکر، 1414ھ۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، مشہد، نشر المرتضی، چاپ اول، 1403ھ۔
  • طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری بأعلام الہدی، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن الحسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح و تعلیق ہاشم رسولی محلاتی و فضل اللّہ یزدی طباطبائی، بیروت 1408ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، الجامع البیان عن تأویل آی القرآن، بہ تحقیق عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی، [بی‌جا]، دار ہجر للطباعۃ و النشر، چاپ اول، 1422ق/2001ء۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری (تاریخ الامم و الملوک)، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، روائ‍ع ال‍ت‍راث ال‍ع‍رب‍ی، 1387ھ۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، بہ کوشش ہشام رسولی محلاتی، تہران، المکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، 1380ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، بیروت: دار التعارف، 1401ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، بیروت، 1965ء، چاپ افست تہران 1364ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1412ھ/1991ء۔

بیرونی روابط

ترمیم