ابراہیم عادل شاہ ثانی
ابراہیم عادل شاہ ثانی (1570 – 12 ستمبر 1627) بیجاپور سلطنت کے چھٹے سلطان اور عادل شاہی خاندان کے رُکن تھے۔ان کا دور عادل شاہی خاندان کے لیے نہایت عُروج کا زمانہ تھا[1] اور بیجاپور سلطنت کی سرحدیں جنوب میں میسور تک پھیلی ہوئی تھیں۔[2] وہ ایک باصلاحیت منتظم، مصور، شاعر اور فنون لطیفہ کے فیاض طبع سرپرست تھے۔ وہ اہلِ تشیع مسلک ترک کر کے اہلِ سنت سے منسلک ہوئے تھے[3][4] مگر اس کے باوجود وہ مذہبی رواداری برتتے رہے اور عیسائیت سمیت دیگر مذاہب اور فرقوں کی مذہبی آزادی میں کبھی رکاوٹ نہ بنے۔ تاہم اس تمام تر رواداری کے باوجود اُن کے دور میں شیعی مسلک کے حامل اعلیٰ سطحی تارکینِ وطن کو ناپسندیدگی کا سامنا بھی کرنا پڑا[5] اور اُنھوں نے 1590ء میں مساجد میں بزور قوت، شیعی طرز پر خطبہ جمعہ پڑھنے کا حکم بھی دیا۔[6] اُن کا دور عادل شاہیوں کی عظمت اور عروج و استحکام کی انتہا پر مبنی تھا، اُن کے بعد سلطنت میں کمزوری کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے جس کے نتیجے میں بیجاپور پر تیموریوں کے تسلط کا آغاز اور مرہٹوں کی کامیاب بغاوت کا فتنہ رونما ہوا۔ان بدلتے ہوئے ناخوش گوار واقعات کے نتیجے میں افضل خان جو بیجاپور کے ایک قابل جرنیل تھے، مقتول ہوئے اور بیجاپوری سلطنت کا شیرازہ منتشر ہو کر رہ گیا۔ عادل شاہیوں نے اپنی وراثت میں ایک مخلوط ثقافت اور فن کارانہ سرپرستی کی قدیم روایت کو یادگار چھوڑا۔ اُن کی تعمیراتی باقیات آج بھی دار الحکومت بیجاپور میں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہیں۔
ابراہیم عادل شاہ ثانی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 1570ء بیجاپور سلطنت |
||||||
وفات | 12 ستمبر 1627ء (56–57 سال) بیجاپور |
||||||
شہریت | بیجاپور سلطنت | ||||||
اولاد | محمد عادل شاہ | ||||||
والد | علی عادل شاہ | ||||||
مناصب | |||||||
سلطان بیجاپور | |||||||
برسر عہدہ 1580 – 12 ستمبر 1627 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | شاعر | ||||||
درستی - ترمیم |
ابتدائی حالات
ترمیمابراہیم عادل شاہ ثانی کی پیدائش 1570ء میں کسی وقت ہوئی تھی، درست تاریخ پیدائش کا علم نہیں۔ ان کے والد کا نام طہماسپ تھا جو سلطنت بیجاپور کے چوتھے سلطان ابراہیم عادل شاہ اوّل کے بیٹے اور پانچویں سلطان علی عادل شاہ اوّل کے چھوٹے بھائی تھے۔ مشہور زمانہ چاند بی بی اُن کی بھابھی تھیں۔ چوں کہ سلطان علی عادل شاہ اوّل کی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے سلطان نے طہماسپ کے بیٹے ابراہیم کو منہ بولا بیٹا اور اپنا ولی عہد بنا لیا تھا۔[7] ابراہیم نے چاند بی بی کے دامن میں تربیت پائی جو اپنے وقت کی بہادر اور عظیم خاتون تھی۔ ابراہیم کی حقیقی والدہ کا نام حاجی بڑی بیگم صاحبہ تھا۔
اختیارات کی بلحاظ فرقہ بندی، تقسیم
ترمیمابراہیم عادل شاہ اوّل نے اختیارات اہلِ سنت مسلک کے امراء یعنی حبشیوں اور دکنیوں میں تقسیم کر رکھے تھے جب کہ اس کے فرزند علی عادل شاہ اوّل نے اہلِ سنت کی بجائے اہلِ تشیع مسلک کے حامل امراء کو نواز رکھا تھا۔ ابراہیم عادل شاہ جس وقت تخت پر بیٹھا، اہلِ تشیع اقتدار میں تھے۔[8]
تخت نشینی اور فوجی اثر
ترمیم17 اگست 1579ء[9] کو علی عادل شاہ اوّل کی وفات ہوئی تو امراء نے حسبِ وصیت، ابراہیم عادل شاہ کو تخت پر بٹھا دیا۔ تخت نشینی کے وقت ابراہیم کی عمر محض نو سال تھی۔[10] دربار میں اُس وقت کمال خان نامی ایک دکنی سالار کافی اثر و رسوخ کا مالک تھا، بادشاہ کی کم سنی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مارشل لا (فوجی حکم) لگا دیا، اس طرح اقتدار پر قابض ہو کر منتظمِ سلطنت کا عہدہ پا لیا۔[10]
جنرل کا قتل
ترمیمچاند بی بی کی بیوگی کے سبب کمال خان نے یہ گمان کر لیا تھا کہ اب ملکہ کا اثر اور دبدبہ باقی نہیں رہا ہے لہٰذا وہ من مانی کرنے لگا۔ طاقت اور اقتدار کے نشہ میں بہک کر اُس نے ملکہ کے ساتھ توہین آمیز رویہ بھی اختیار کر لیا تھا۔ اب اُس نے اپنی آمریت کو جائز جواز فراہم کرنے کی سمت توجہ اختیار کی اور چاہا کہ نابالغ بادشاہ کو ہٹا کر خود تخت و تاج پر قابض ہو جائے۔ اُس کے ان عزائم کی بھنک چاند بی بی کو پڑ گئی، ملکہ نے اس خود ساختہ آمر کی گرفت سے سلطنت کو نجات دلانے کا تہیہ کر لیا اور حاجی کشور خان نامی ایک جنرل کو اپنے ساتھ ملا کر کمال خان سے نجات پانے کے طریقوں پر غور کرنے لگی۔ ملکہ کی حمایت پا کر جنرل کشور خان نے قلعہ پر دھاوا بول دیا اور اپنی زیر کمان فوج کی مدد سے قلعہ شاہی کو گھیرے میں لے لیا۔ کمال خان نے مقابلے میں منہ کی کھائی اور وہ راہِ فرار اختیار کرتا ہوا پکڑا گیا۔ اُسے پا بہ جولاں حالت میں قلعہ میں لایا گیا جہاں ملکہ کے حکم پر اُس کا سر قلم کر دیا گیا۔
کشور خان، دوسرا منتظم
ترمیماب سلطنت کا منتظم کشور خان کو مقرر کیا گیا۔ یہ ابراہیم عادل شاہ ثانی کا دوسرا منتظمِ سلطنت تھا۔ اس کے دور میں احمد نگر کی نظام شاہی سلطنت سے بیجاپور کو معرکہ پیش آیا تو اِس نے نظام شاہی فوج کو دھراسیو کے مقام پر شکست دے کر لوٹ جانے پر مجبور کر دیا۔ اس معرکہ میں مالِ غنیمت کے طور پر نظام شاہی فوج کے ہاتھی اور پورا توپ خانہ حاصل ہوا۔ عادل شاہی فوج کے دیگر جرنیلوں نے جس قدر ہاتھی مالِ غنیمت کے طور پر پکڑے تھے، کشور خان نے اُن کے انتہائی بیش قیمت ہونے کے پیشِ نظر جرنیلوں کو فرمان بھیجا کہ سبھی کو خزانۂ شاہی میں جمع کرا دیا جائے۔ اس فرمان کو پا کر جرنیل سیخ پا ہو گئے اور کشور خان کے خلاف ہو کر چاند بی بی کو بھڑکانے لگے۔ چاند بی بی کی نظریں بھی اب کشور خان کے بڑھتے ہوئے اقتدار کے باعث اُس کی جانب سے پھرنے لگی تھیں، ملکہ نے اُن کے منصوبوں میں شرکت کی حامی بھر لی اور وہ سب کشور خان کے خلاف سازشوں میں جت گئے۔ آخر یہ طے پایا کہ بنکاپور (واقع کرناٹک) کے جنرل مصطفیٰ خان کی مدد سے کشور خان سے نجات پائی جائے۔کشور خان بھی غافل نہ تھا، اُس کے جاسوسوں نے اس سازش سے اُسے باخبر کر دیا۔ کشور خان نے مصطفیٰ خان کے خلاف فوج کشی کی اور اس معرکہ میں مصطفیٰ خان شکست کھا کر مقتول ہوا۔[10]
کشور خان کا فرار
ترمیمتاریخ نے پھر خود کو دُہرایا، چاند بی بی نے کشور خان کو دعوتِ مبارزت دی۔ کشور خان، چاند بی بی کو ستارہ کے قلعہ میں مقید کر کے خود کو بادشاہ قرار دے چکا تھا لیکن اپنے بڑھتے ہوئے آمرانہ اقدامات اور شاہی خاندان کی بے توقیری بالخصوص چاند بی بی سے توہین آمیز رویہ کے باعث دیگر جرنیلوں میں اُس کی مقبولیت اور حمایت کا جذبہ ختم ہو چکا تھا۔ آخر جنرل اخلاص خان نے ایک مشترکہ فوج کی قیادت سنبھالی اور ایک بار پھر سلطنت کو ایک آمر کے پنجہ ستم سے رہائی دلانے کے لیے دار الحکومت بیجاپور پر لشکر کشی کی۔ کشور خان کا بھی وہی انجام ہوا جو کمال خان کا ہوا تھا، وہ خود میں مقابلے کی تاب نہ لا کر راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ جنرل کشور خان کو بھگانے والی یہ مشترکہ فوج تین حبشی جرنیلوں کے ماتحت تھی۔ یہ تین جرنیل اخلاص خان، حامد خان اور دلاور خان تھے۔[10]
اخلاص خان، تیسرا منتظم
ترمیمفرار ہونے کے بعد کشور خان نے احمد نگر پر فوج کشی کر کے نیا اقتدار پانے کی کوشش کی مگر ناکامی کا منہ دیکھا اور ناکام و نامراد جان بچا کر گولکنڈہ کی راہ لی۔ اُس کا بد انجام یہاں بھی اُس کے تعاقب میں چلا آیا اور جنرل مصطفیٰ خان کے ایک رشتہ دار نے انتقاماً اُسے قتل کر دیا۔ جنرل کشور خان کے فتنہ سے نجات ملتے ہی نظامِ سلطنت چلانے کے لیے منتظم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہنگامی طور پر جنرل اخلاص خان کےسپرد یہ ذمہ داری کی گئی مگر سابقہ تجربات کے پیشِ نظر یہ اہم ذمہ داری کسی جنرل کے سپرد کرنا خطرے سے خالی نہ تھا اس لیے تھوڑے ہی عرصہ بعد اخلاص خان کو برطرف کر کے سلطنت کی باگ ڈور چاند بی بی نے خود سنبھال لی۔ وہ ابراہیم عادل شاہ ثانی کی چوتھی منتظمہ سلطنت تھی۔[10] برطرفی کے بعد اخلاص خان نے بھی اپنے شخصی اقتدار کی بحالی کے لیے آمر بننا چاہا اور دوبارہ آمریت نافذ کر دی مگر اس بار حبشی جرنیل اُس کی راہ میں آڑے آئے اور اُس کے عزائم کو کامیاب نہ ہونے دیا۔[8]
بیجاپور پر حملہ
ترمیمبیجاپور کی اس سیاسی ابتری کی صورتِ حال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے احمد نگر کے نظام شاہی سلطان نے گولکنڈہ کے قطب شاہی سلطان سے اتحاد قائم کر لیا اور دونوں کی مشترکہ افواج نے بیجاپور پر حملے کے لیے پیش قدمی شروع کر دی۔ بیجاپور میں تعینات فوج اس پیش قدمی کو روکنے کی صلاحیت نہ رکھتی تھی۔[10] حبشی جرنیلوں نے جب اپنی کمزوری دیکھی اور جان لیا کہ شہر کا دفاع تن تنہا اُن کے بس کا روگ نہیں، تو وہ سب چاند بی بی کی خدمت میں حاضر ہو کر استعفیٰ پیش کرنے لگے۔[8] چاند بی بی نے اب ایک شیعہ جنرل ابو الحسن کو دار السلطنت کی حفاظت اور دفاع پر مامور کیا، ابو الحسن نے کرناٹک میں مرہٹی فوج کو طلب کر لیا۔ مرہٹوں نے اس کے ساتھ تعاون منظور کرتے ہوئے حملہ آور فوج کی سپلائی لائن کاٹ کر رکھ دی، نتیجتاً حملہ آور اتحادی فوج کے پاس پسپائی اختیار کرنے کے سوا کوئی راہ نہ رہی۔
اب اخلاص خان نے بیجاپور کا قبضہ پانے کے لیے دلاور خان پر دھاوا بول دیا مگر شکست کھائی اور اب دلاور خان سلطنت کے اقتدارِ اعلیٰ کا مالک بن بیٹھا۔ اُس کی حکومت 1582ء سے 1591ء تک قریباً نو سال قائم رہی۔[8] وہ سلطان ابراہیم کا آخری منتظم تھا۔
دورِ سلطنت
ترمیمدلاور خان کے اقتدار کے نویں سال سلطان ابراہیم کی عمر 21 سال ہو چکی تھی، لہٰذا اُس نے اقتدارِ اعلیٰ بذاتِ خود اپنے ہاتھوں لے لیا۔ اب وہ ایک خود مختار فرماں روا کے طور پر تخت پر جلوہ فرما ہوا اور اپنی وفات تک احسن طریق سے حکومت کرتا رہا۔ وہ عادل شاہی خاندان کا پانچواں بادشاہ تھا اور اس حیثیت سے ہندوستانی تاریخ میں اُس کا نام جگت گرو بادشاہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سلطان ابراہیم ثانی نہایت منتظم اور روشن خیال فرماں روا ثابت ہوا۔ صوبوں کا نظم و نسق اعلٰی پیمانے پر کیا اور ارضیات کے بندوبست کی خاطر رجسٹر مرتب کروائے۔ تعمیرات کا بہت شوق تھا۔ شعر و سخن کا دل دادہ اور موسیقی کا رسیا بھی تھا۔ موسیقی کی مشہور تصنیف (نورس) تصنیف کی جس میں مختلف راگنیوں کے لیے گیت لکھے۔ اس نے فارسی کی بجائے اُردو کو ملک کی دفتری زبان قرار دیا۔ فارسی کا مشہور شاعر ظہوری اسی کے دربار سے وابستہ تھا۔
سلطان کو موسیقی سے شغف تھا، آلاتِ موسیقی کے استعمال پر بھی مہارت رکھتا تھا۔ ذاتی شوق سے تنبورہ بجانا سیکھا۔ وہ شاعر بھی تھا اور اُس نے اپنی محبوب ملکہ چاند سلطانہ، پسندیدہ تنبورہ موتی خان اور دل پسند ہاتھی آتش خان پر کئی نظمیں بھی تحریر کیں۔ سلطان نے عوامی سطح پر یہ اعلان بھی مشتہر کیا تھا کہ وہ حکومت کاری سے بڑھ کر صرف تحصیلِ علم، موسیقی اور اساتذہ کی خدمت کا جذبہ جوان رکھتے ہیں۔ وہ گلبرگہ کے ایک صوفی بزرگ بندہ نواز کے عقیدت مند تھے، سلطان نے اُن کی شان میں ایک نظم بھی لکھی جس میں یہ استدعا کی گئی تھی کہ اُن کی جناب سے سلطان کو علم اور سخاوت کے جواہر سے نوازا جائے۔
موسیقی سے گہرے شغف کے باعث سلطان نے ایک میوزیکل سٹی بھی قائم کیا، یہ شہر نورس پور کے مقام پر بسایا گیا تھا۔ شہر کی چار دیواری میں ایک مندر بھی تعمیر کرایا گیا تھا جو آج تک قائم ہے۔ موسیقی سے گہرے شغف کے باعث سلطان نے ایک میوزیکل سٹی بھی قائم کیا، یہ شہر نورس پور کے مقام پر بسایا گیا تھا۔ شہر کی چار دیواری میں ایک مندر بھی تعمیر کرایا گیا تھا جو آج تک قائم ہے۔ سلطان کے تمام دور میں بیجاپور ماہرِ فن موسیقاروں اور رقاصوں کے لیے پرکشش مقام کی حیثیت رکھتا تھا جہاں وہ بہتر مستقبل کی آس میں کشاں کشاں چلے آ رہے تھے، اس کا سبب یہ تھا کہ سلطان بذاتِ خود موسیقی کا دل دادہ اور اس فن کا سرپرستِ اعلیٰ تھا۔ سلطان کو بیک وقت مراٹھی، دکنی، اُردو اور کنڑ زبانیں روانی سے بولنے میں مہارت حاصل تھے، اور اپنے پیشروؤں کی طرح کئی ہندوؤں کو اعلیٰ عہدوں پر ملازم رکھا۔
ازواج و اولاد
ترمیمبیگمات سے سلطان کی اولاد کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے:
چاند سلطانہ: ان کے بطن سے ایک بیٹا درویش بادشاہ تھا۔
کمال خاتون: ان کے بطن سے ایک بیٹا سلطان سلیمان تھا۔
تاج خاتون: ان کے بطن سے ایک بیٹا محمد تھا۔ سلطان کی اولاد میں صرف اِسی کو تخت و تاج نصیب ہو سکا۔
سندر محل: ان کے بطن سے ایک بیٹا خضر شاہ تھا۔
ان کے علاوہ بھی غیر معروف خواتین سے جو شاید حرمِ شاہی کی کنیزیں ہوں گی، سلطان کے متعدد بیٹے، بیٹیاں تھیں۔ اُن کے نام بھی ذیل میں دِیے جا رہے ہیں:
بُرہان
زہرہ سلطان
سلطان بیگم: ان کا نکاح مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے بیٹے شہزادہ دانیال سے ہوا۔
فاطمہ سلطانہ: ان کا نکاح سید شاہ حبیب اللہ ابن ید اللہ حسینی سے ہوا تھا۔
کتابِ نورس
ترمیمابراہیم ثانی نے دکنی زبان میں کتابِ نورس تحریر کی۔ یہ 59 نظموں اور 17 اشعار کا مجموعہ ہے۔ درباری شاعر محمد ظہوری کا بیان ہے کہ سلطان نے اسے نو رس کے نظریہ کو متعارف کرانے کے لیے لکھا جو ہندوستانی جمالیات میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، مقصد یہ تھا کہ ان لوگوں کو ہندی اخلاقیات سے روشناس کرایا جا سکے جو صرف فارسی اخلاقیات سے ہی واقف تھے۔ کتاب کا آغاز علم کی دیوی سرسوتی سے دُعا کے ساتھ ہوتا ہے۔
نگار خانہ
ترمیم-
دکن کا ایک درباری، جو سلطان نہیں ہے۔ 1600 کی ایک تصویر۔
-
ابراہیم عادل شاہ ثانی
-
بیجاپور، ابراہیم روضہ کا ایک مقبرہ
-
ابراہیم عادل شاہ ثانی کا مقبرہ
حوالہ جات
ترمیمویکی ذخائر پر ابراہیم عادل شاہ ثانی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- ↑ نصابی کتاب برائے قرونِ وسطیٰ کی ہندوستانی تاریخ، سیلندرا سین، صفحہ 119
- ↑ عظیم مغلوں کی سلطنت: تاریخ، فن اور ثقافت، این میری شمل، صفحہ 39
- ↑ قرونِ وسطیٰ کی اسلامی تہذیب: ایک انسائیکلوپیڈیا، جوزف ڈبلیو میری، صفحہ 108
- ↑ قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان کی ایک جامع تاریخ: بارہویں سے وسط اٹھارہویں صدی تک، سلمیٰ احمد فاروقی، صفحہ 176
- ↑ قرونِ وسطیٰ میں صفوی، مغل اور عثمانی سلطنتوں میں تقویم، تقریب اور تاریخ، اسٹیفن پی بلیک، صفحہ 122
- ↑ بیجاپور کے صوفی 1300-1700: قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان میں صوفیوں کا سماجی کردار، رچرڈ میکسویل ایٹن، صفحہ 129
- ↑ تاریخِ فرشتہ، محمد قاسم فرشتہ
- ^ ا ب پ ت ایتھوپیائی / ہندوستانی تاریخ میں حبشی: ہندوستان میں ایتھوپیائی باشندوں کی جلاوطنی کی تاریخ، حصہ چہارم، ڈاکٹر رچرڈ پانخورست کا برقی مضمون، اخذ شدہ 24 دسمبر 2006ء
- ↑ تحفۃ المجاہدین، زین الدین ملیباری، مترجم کا دیباچہ
- ^ ا ب پ ت ٹ ث بیجاپور کے ابراہیم عادل شاہ ثانی کی جنگیں اور مہمات (1576–1627)، روی ریکھیے، 7 مارچ 2005ء
- A Visit to Bijapur by H. S. Kaujalagi
- "Avalokana" a souvenir published by the Government of Karnataka
- Centenary souvenir published by the Bijapur Municipal Corporation