ابن رجب حنبلی (پیدائش: 4 نومبر 1335ء— وفات: 18 مئی 1393ء) فقہ حنبلی کے عالم، مفسر قرآن اورمحدث تھے۔

امام   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ابن رجب حنبلی
(عربی میں: عبد الرحمن بن أحمد بن عبد الرحمن بن الحسن بن محمد بن أبي البركات مسعود السلامي البغدادي الدمشقي الحنبلي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 4 نومبر 1335ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18 مئی 1395ء (60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن باب صغیر   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک حنبلی
عملی زندگی
استاذ ابن قیم   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص از زرکشی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  فقیہ ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [3]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث ،  فقہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں ذیل طبقات حنابلہ   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب

ترمیم

خیر الدین الزرکلی نے موسوعۃ الاعلام میں ابن رجب کا مکمل نام یوں لکھا ہے :

الامام الحافظ العلامہ زین الدین ابو الفرج عبد الرحمن بن احمد بن عبد الرحمن بن الحسن بن محمد بن ابی البرکات مسعود السلامی البغدادی الدمشقی الحنبلی المعروف ابن رجب ۔[4]

ابن العماد نے شذرات الذہب میں مکمل نام یوں لکھا ہے :

الامام الحافظ زین الدین ابو الفرج عبد الرحمن بن الشیخ الامام المُقری المحدث شہاب الدین احمد بن الشیخ الامام المحدث ابی احمد رجب عبد الرحمن البغدادی الدمشقی الحنبلی الشہیر بہ اِبن رجب۔[5]

ابن العماد اِن کے متعلق مزید لکھتے ہیں :

الشیخ الامام العالم العلامۃ، الزاھد القُدوۃ، البرکۃ، الحافظ، العمدۃ، الثقۃ، الحُجۃ، الحنبلی المذہب۔[6]

ولادت

ترمیم

ابن رجب کی ولادت بروز ہفتہ 15 ربیع الاول 736ھ مطابق 4 نومبر 1335ء کو بغداد میں ہوئی۔ تاریخ ولادت میں کافی اِختلاف واقع ہوا ہے، مورخ العلیمی (متوفی 927ھ مطابق 1521ء) نے سال ولادت 706ھ لکھا ہے جبکہ ابن حجر نے انباء الغمر میں سال ولادت 736ھ لکھا ہے۔ خود العلیمی کے ایک بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن رجب 744ھ میں بغداد سے دمشق آئے اور اُس وقت وہ کم سن تھے۔ اب اگر سال ولادت 736ھ تسلیم کیا جائے تو 744ھ تک عمر 8 سال ہوتی ہے اور اگر سال ولادت 706ھ تسلیم کیا جائے تو عمر 38 سال ہوتی ہے اور 38 سال کا آدمی کم سن نہیں ہوتا۔

736ھ کے متعلق خود ابن رجب کا ایک قول قوی معلوم ہوتا ہے کہ وہ لکھتے ہیں : " تبعت دروس شرف الدین سنۃ احدی اربعین و سبعمائۃ و کنت صغیرا "

"میں شرف الدین کے دروس میں اُس وقت جاتا تھا جبکہ میں خورد سال ہی تھا۔ "

صاحب شذرات الذہب، ابن العماد نے اِن کی دمشق آمد کے متعلق لکھا ہے : قدم من بغداد مع والدہ اِلی دمشق و ہو صغیر سنۃ اربع اربعین و سبع مائۃ " یعنی وہ اپنے والد کے ہمراہ بغداد سے دمشق 744ھ میں آئے۔ اور ابن العماد کا " وھو صغیر " کہنا سے مراد ہے کہ وہ کم سن یعنی خورد سال تھے۔[7]

ابن حجر نے الدرر الکامنۃ میں بھی ابن رجب کا سال ولادت 706ھ لکھا ہے جو اُن کی اپنی تصنیف انباء الغمر کی روایت کے مخالف ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ الدرر الکامنۃ کے ناقل سے 3 کا ہندسہ لکھنے سے رہ گیا اور اُس نے 736ھ کی بجائے غلطی سے 706ھ لکھ دیا۔ بعد ازاں امام جلال الدین السیوطی (متوفی 911ھ مطابق 1505ء) نے بھی ذیل طبقات الحنابلۃ میں اور المکی نے السحب الوابلۃ میں الدرر الکامنۃ کے تتبع میں 706ھ ہی لکھ دیا ہے جبکہ مورخ العلیمی، ابن العماد، اورعلامہ ابن حجر کی انباء الغمر والی روایت میں سال ولادت صحیح معلوم ہوتا ہے جو 736ھ ہے۔[8]

ابتدائی حالات

ترمیم

ابن رجب بغداد میں پیدا ہوئے اور 744ھ مطابق 1343ء میں اپنے والد کے ہمراہ دمشق چلے آئے۔

تحصیل علم

ترمیم

ابن رجب نے دمشق میں اجازۃ حدیث ابن النقیب سے حاصل کی جبکہ تحصیل علم کے واسطے احمد بن عبد المومن السبکی النَوَوِی کے سامنے زانوئے تلمذ اِختیار کیا۔ اپنی والد کے ہمراہ مکہ المکرمہ گئے جہاں سماع حدیث الفخر عثمان بن یوسف سے کیا۔ مزید جن شیوخ سے علم حدیث کی تحصیل کی وہ یہ ہیں :

امام ابن القَیِّم الجَوزیۃ : 691ھ مطابق 1292ء میں دمشق میں پیدا ہوئے اور 751ھ مطابق 1349ء میں دمشق میں فوت ہوئے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے تلامذہ میں سے ہیں اور اپنی تصنیف " زاد المعاد فی ھدی سیرۃ خیر العباد " سے وجہ شہرت رکھتے ہیں۔ ابن رجب نے دمشق اِن سے تحصیل علم کیا۔

امام شمس الدین ابی عبد اللہ محمد بن احمد بن عبد الہادی المَقدسی الحنبلی: ابن رجب نے چند مہینے اِن کے وعظوں میں شرکت کی جب کم سن تھے۔ ابن عبد الہادی 704ھ میں پیدا ہوئے اور 744ھ میں فوت ہوئے۔ عمومًا محمد بن عبد الہادی الحنبلی کے نام سے مشہور ہیں۔

امام علا الدین ابو الحسن بن ابراہیم بن داود بن سلیمان بن العطار الدمشقی الشافعی الجہنی: یکم رمضان المبارک 654ھ مطابق 1256ء میں دمشق میں پیدا ہوئے اور 724ھ مطابق 1324ء کو دمشق میں فوت ہوئے۔

محمد بن الخباز۔

ابی الحرم محمد بن القلانسی۔

صدر الدین ابی الفتح المیدومی: اِن سے مصر میں تعلیم حاصل کی۔

ابن البخاری: اِن کے کئی اصحاب سے تحصیل علم کیا۔[7]

وفات

ترمیم

ابن رجب کی وفات بروز اتوار 6 رجب المرجب 795ھ مطابق 18 مئی 1393ء کو دمشق میں ہوئی۔ مدتِ حیات 59 سال 3 ماہ 21 یوم تھی۔

تدفین قبرستان بابِ صغیر دمشق میں امام ابی الفرج عبد الواحد بن محمد الشیرازی الدمشقی کے پہلو میں کی گئی جو ذوالحجہ 486ھ مطابق دسمبر 1093ء میں فوت ہوئے تھے اور دمشق میں مذہب حنبلیہ کی اشاعت بھی اِنہی کے ہاتھوں ہوئی تھی۔

تصانیف

ترمیم

ابن رجب کی تصنیفات کی تعداد 33 ہے جو ذیل میں بیان کی گئی ہیں:[9][10][11][12][13][14][15][16][17][18][19]

1. ""ذیل علی طبقات الحنابلۃ "": یہ کتاب ابن رجب کی وجہ شہرت ہے۔ دراصل یہ سلسلہ تراجم کی کتاب ہے جس میں مذہب حنبلیہ کے ائمہ، علمائے کرام اور ممتاز شخصیات کا تذکرہ امام احمد بن حنبل کے زمانہ سے لے کر چودہویں صدی عیسوی تک بیان کیا گیا ہے۔ گو کہ اِس سلسلے میں تمام کڑیاں محفوظ نہیں رہ سکیں لیکن مشرق اور مغرب کے مختلف کتب خانوں میں صرف مخطوطے ہی موجود ہیں۔ طبقات الحنابلۃ میں اولاً کام الخلال متوفی (311ھ مطابق 923ء) کا ہے جو " طبقات الاصحاب" کے نام سے مشہور ہے اور یہ بھی مخطوطہ کی شکل میں ہے اور نابلسی (متوفی 797ھ) نے اِس کی ایک تلخیص کی تھی جو دمشق سے 1350ھ میں احمد عبید کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔ اِس کے بعد علامہ ابن الجوزی متوفی (597ھ مطابق 1201ء) کی المنتظم کا نام سامنے آتا ہے۔

الفراء کی طبقات فقہا اصحاب الامام احمد میں ابن رجب نے 460ھ میں فوت ہونے والے اکابر حضرات کے ذکر سے جو الفراء کے اصحاب ہیں، سے اپنی ذیل کا آغاز کیا اور اِس میں 751ھ تک کے اکابر مذہب حنبلیہ کے سوانح و حالات لکھے ہیں۔ اِسے ہنری لاووسٹ Henry Laoust نے دمشق سے 1951ء میں شائع کیا، اِس کی جلد اول میں 460ھ سے 540ھ تک کے احوال و حالاتِ منسوب اکابر مذہب حنبلیہ درج ہیں۔ ابن رجب کی اِس کتاب کو علمائے اسلام نے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے حتیٰ کہ احمد بن نصر اللہ البغدادی نے اس کی ایک تلخیص لکھی تھی۔ اصل کتاب کے بہت سے مخطوطے ابھی تک محفوظ ہیں جن میں سے سب سے قدیم مخطوطہ وہ ہے جو ابن رجب کی وفات کے پانچ سال بعد یعنی 800ھ میں لکھا گیا تھا اور باقی مخطوطے وہ ہیں جو تقریباً 30 سال بعد لکھے گئے یعنی 825ھ میں۔

دمشق کے کتب خانہ ظاہریہ میں مخطوطہ عدد تاریخ نمبر61۔

اِستنبول کے کوپریلی کتب خانہ میں مخطوطہ عدد نمبر 1115۔

کتب خانہ بانکی پور ہندوستان میں مخطوطہ نمبر 2466، ندوۃ العلماء میں جلد دوم اور جلد سوم مکتبہ سندیۃ میں محفوظ ہیں۔

2. شرح جامع ابی عیسیٰ التِرمذی:

3. جامع العلوم والحکم فی شرح خمسین حدیثًا من جوامع الکلم : یہ کتاب 1346ھ میں مصر سے شائع ہوئی تھی۔

4. فتح الباری فی شرح البخاری: ابن رجب کی یہ کتاب نامکمل رہی اور کتاب الجنائز تک ہی لکھی گئی۔

5. شرح حدیث ما ذئبان جائعان : یہ کتاب المروزی کی قیام اللیل کے ساتھ 1320ھ میں لاہور سے شائع ہوئی تھی۔

6. شرح حدیث من سلک طریقًا یلتمس فیہ علما۔

7. اختیار الاولیٰ فی شرح حدیث اختصام الملا الاعلیٰ : یہ کتاب مکتبہ المنیریہ مصر سے شائع ہوئی جبکہ اُردو ترجمہ دیدارِ الٰہی کے نام سے غلام ربانی لودھی نے لاہور سے 1356ھ میں شائع کیا۔

8. نور الاقتباس فی مشکاۃ وصیۃ النبی صلعم لابن عباس۔

9. الاستخراج لاحکام الخراج : اِس کتاب کا ایک مخطوطہ پیرس میں عدد نمبر 2454 کے تحت محفوظ ہے۔

10. القواعد الفقیہہ : یہ کتاب قاہرہ مصر سے 1352ھ میں شائع ہوئی تھی۔

11. القول فی تزویج اُمہات اولاد الغیاب۔

12. مسئلۃ الصلٰوۃ یوم الجمعۃ بعد الزوال و قبل الصلٰوۃ۔

13. نزہۃ الاسماع فی مسئلۃ السماع۔

14. وقعۃ بدر۔

15. اَختیار الاَبرار: اِس کتاب کا ایک مخطوطہ برلن جرمنی میں عدد نمبر 9690 کے تحت محفوظ ہے۔

16. اِسْتَنْشاق نسیم الانس من نفخات ریاض القدس۔

17. الاستبطان فیما یعتصم بہ العبد من الشیطان۔

18. اہوال یوم القیامۃ : اِس کتاب کے 2 مخطوطے موجود ہیں، اول برلن جرمنی میں عدد نمبر 2661 کے تحت اور دوسرا اسکندریہ مصر میں عدد مواعظہ 6 کے تحت۔

19. البشارۃ العظمیٰ فی ان حظ المومن من النار الحمی۔

20. کتاب التوحید : اِس کا مخطوطہ گوٹا پیرس میں عدد نمبر 702 کے تحت محفوظ ہے۔

21. الخشوع فی الصلٰوۃ: یہ کتاب مصر میں 1341ھ میں شائع ہوئی تھی۔

22۔ ذم الخَمر۔

23۔ ذم المال و الجاء۔

24۔ رسالۃ فی معنی العلم : اِس کا ایک مخطوطہ لائپزگ میں عدد نمبر 462 کے تحت محفوظ ہے۔

25۔ صفۃ النار والتحذیر من دارالبوار: اِس کتاب کا ایک مخطوطہ برلن جرمنی میں عدد نمبر 2697 میں التخویف من النار والتعریف بحال دارالبوار کے عنوان کے تحت محفوظ ہے۔

26۔ الفرق بین النصیحۃ والتعییر۔

27۔ فضائل الشام۔

28۔ فضل علم السلف علی الخلف: قاہرہ سے 1343ھ میں اور بعد ازاں 1347ھ میں شائع ہوئی۔ غالبًا اِس کتاب کا دوسرا نام العلم النافع ہے اور ممکن ہے کہ یہ رسالۃ فی معنی العلم ہو۔

29۔ کشف الکربۃ فی وصف حال الغربۃ : یہ کتاب حدیث بداء الاسلام غریبًا کی شرح ہے اور مصر میں 1351ھ میں شائع ہوئی۔

30۔ الکشف والبیان عن حقیقۃ النذور وَ الایمان۔

31۔ کفایۃ الشام بمن فیھا من الاحلام۔

32۔ الکلام علی لا اِلٰہ اِلا اللہ۔

33- اللطائف فی الوعظ : یہ کتاب قاہرہ مصر سے 1924ء میں شائع ہوئی تھی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13572211k — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6zs6sm9 — بنام: Ibn Rajab — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb13572211k — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  4. خیر الدین الزرکلی: موسوعۃ الاعلام طبع 2011ء۔ تذکرہ ابن رجب الحنبلی۔
  5. ابن العماد : شذرات الذہب، جلد 8 ص 578-579، طبع دار ابن کثیر، بیروت لبنان 1406ھ/ 1985ء۔
  6. ابن العماد : شذرات الذھب، جلد 8 ص579، طبع دار ابن کثیر، بیروت لبنان 1406ھ/ 1985ء۔
  7. ^ ا ب ابن العماد: شذرات الذہب، جلد 8 ص 579، طبع دار ابن کثیر بیروت لبنان 1406ھ/ 1985ء۔
  8. دائرۃ المعارف الاسلامیۃ [ اِنسائیکلوپیڈیا آف اِسلام] : جلد 1 ص 521، تلخیص ابن رجب الحنبلی۔ طبع لاہور 1384ھ/ 1964ء۔
  9. ابن حجر: الدرر الکامنۃ، جلد 2 ص 321۔
  10. ابن حجر: ابناء الغمر بحوالہ ذیل طبقات الحنابلۃ مع ذیل طبقات الحفاظ للسیوطی ص 367۔
  11. حاجی خلیفہ: کشف الظنون عمود 1097، طبع یالتقایا۔
  12. ابن العماد: شذرات الذھب جلد 6 ص 339۔
  13. ابن فہد المکی: ذیل طبقات الحفاظ۔
  14. الخزانۃ التیموریۃ : جلد 2 ص 223۔
  15. حبیب الزِّیات : مخطوطات دارالکتب الظاہریہ مصر جلد 9 ص 37۔
  16. خیر الدین الزرکلی: موسوعۃ الاعلام، جلد 4 ص 67۔
  17. براکلمان: جلد 2 ص 107، مع تکملۃ براکلمان جلد 2 ص 129۔
  18. ہاشم الندوی : تذکرۃ النوادِر، ص 101، طبع حیدرآباد دَکن ہندوستان 1350ھ۔
  19. ذیل طبقات الحنابلۃ طبع سامی الدہان و لاووسٹ، دمشق 1951ء من تمہید کتاب الھذا۔