ابن قیم جوزیہ
علامہ ابن قیم کا پورا نام حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر بن ایوب بن سعد بن حریز الزرعی الدمشقی تھا اور ابن قیم کے نام سے مشہور ہؤئے، چھ سو اکیانوے (691) ھ میں دمشق کے قریب زرع نامی گاؤں میں ولادت ہوئی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے شاگردوں میں سے ہیں جن کے ساتھ آپ چھبیس سالوں تک مستقل ساتھ رہے اور آپ کا تعلق امام احمد بن حنبل کے فقہ سے تھا۔
ابن قیم جوزیہ | |
---|---|
(عربی میں: ابن قيم الجوزية) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 29 جنوری 1292ء دمشق [1] |
وفات | 16 ستمبر 1350ء (58 سال) دمشق |
مدفن | باب صغیر |
عملی زندگی | |
استاذ | ابن تیمیہ |
تلمیذ خاص | ابن رجب ، ابن کثیر ، مجد الدین فیروز آبادی |
پیشہ | الٰہیات دان ، فقیہ ، محدث ، شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [2] |
شعبۂ عمل | علم حدیث ، فقہ ، تفسیر قرآن |
کارہائے نمایاں | زاد المعاد فی هدی خير العباد ، وابل السیب ، المنار المنیف فی الصحیح والضعیف |
درستی - ترمیم |
ولادت
علامہ ابن القیم کی ولادت 7 صفر 691ھ مطابق 28 جنوری 1292ء کو دمشق میں ہوئی۔
علما کا خراج تحسین
امام ابن قیم الجوزیہ کے معاصر علما نے اُن کی فضیلت، علمی قابلیت اور علمی کارہائے نمایاں کا کشادہ دل سے اعتراف کیا ہے۔
- مؤرخ اسلام علامہ شمس الدین ذہبی (متوفی 748ھ) نے اپنی تصنیف المختصر میں تحریر کیا ہے کہ:
- قاضی برہان الدین الزرعی (متوفی 768ھ) کہتے ہیں کہ:
- آپ نے مدرسہ صدریہ میں درس دیا اور مدرسہ جوزیہ میں طویل عرصے تک امامت کے فرائض انجام دیے۔ آپ نے اپنے قلم سے اِس کثرت کے ساتھ کتابیں تالیف کیں کہ انھیں بیان نہیں کیا جا سکتا‘‘۔[4]
- شیخ الاسلام امام ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ) نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ:
- ’’ آپ بہت دلیر اور بے باک تھے، اختلافی مسائل اور بزرگانِ سلف کے مسلک سے بخوبی واقف تھے۔ امام ابن تیمیہ کی محبت آپ پر بہت غالب تھی۔ آپ اُن کے افکار و خیالات کے نہ صرف مؤید تھے بلکہ زوردار طریقے سے اُن کی حمایت بھی کرتے تھے۔ آپ نے ابن تیمیہ کی کتب کو اچھی طرح ترتیب دے کر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ آپ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے ذکر و اذکار میں مشغول رہتے تھے۔ یہ مشغلہ دن چڑھے تک جاری رہتا تھا۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ: یہ میری صبح کی سیر ہے، اگر میں اِس وقت اِس کام میں مشغول نہ ہوں تو میری طاقت جاتی رہے‘‘۔[5]
- علامہ ابن رجب الحنبلی (متوفی 795ھ نے اپنی تصنیف طبقات الحنابلہ میں تحریر کیا ہے کہ:
- ’’استادِ محترم بڑے عابد اور تہجدگذار تھے اور بہت طویل نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں نے آپ جیسا نیک اِنسان نہیں دیکھا اور نہ آپ سے بڑھ کر کوئی شخص اِس قدر وسیع معلومات کا حامل تھا۔ آپ قرآن و سنّت اور دینی حقائق کے سب سے بڑے عالم تھے۔ آپ معصوم نہیں تھے ‘ تاہم میں نے آپ جیسا کوئی انسان نہیں دیکھا۔ میں آپ کی وفات سے ایک سال پہلے آپ کی محفلوں میں پابندی کے ساتھ شریک ہوتا تھا۔ میں نے سنّت کی حمایت میں آپ کا طویل قصیدہ ’’قصیدۃ النونیہ‘‘ بھی سنااور آپ کی تصانیف سے بہت معلومات حاصل کیں۔ آپ کے استاد (ابن تیمیہ) کی زندگی میں ہی بہت سے اہل علم نے آپ سے تعلیم حاصل کرنی شروع کردی تھی اور ایک بڑی جماعت آپ سے آپ کی وفات تک مستفید ہوتی رہی۔ بڑے بڑے علما اور فضلاء آپ کی تعظیم کرتے تھے اور آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے تھے۔ اِن میں ابن عبد الہادی جیسے اہل علم حضرات شامل تھے۔[6]
تصانیف
آپ کی تصانیف کی تعداد ساٹھ سے زیادہ ہے جن میں سے چند ایک کتب درج ذیل ہیں:
- زاد المعاد: یہ آپ کی سب سے مشہور کتاب ہے جو اسلامی شریعی مسائل کے حل کرنے میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔
- اعلام المعوقین
- اغاثۃ اللھفان
- تہذیب سنن ابی داؤد
- الصواعق المرسلۃ
- الطب النبوی
- بدایع الفواید
- الفواید
- اجتماع الجیوش الاسلامیۃ
وفات
علامہ ابن القیم کی وفات 13 رجب 751ھ مطابق 15 ستمبر 1350ء کو دمشق میں ہوئی۔
کتابیات
- امام ابن حجر عسقلانی: الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة ، طبعة دارالجیل، بیروت، 1414ھ/1993ء
- عبد العظیم عبد السلام شرف الدین: حیات امام ابن قیم ، سوانح حیات، تاریخی احوال، افکار و مجتہدانہ خیالات، مترجم: حافظ سید رشید احمد ارشد۔مطبوعہ نفیس اکیڈمی، کراچی، 1963ء
- ابن رجب الحنبلی: طبقات الحنابلہ، قلمی نسخہ(مخطوطہ)، مطبوعہ دارالکتب المصریۃ، قاہرہ۔