ابو احمد بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ(وفات: 20ھ) صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں پناہ گزین ہونے سے قبل مشرف باسلام ہوئے۔پھر مدینہ منورہ ہجرت کی تمام غزوات میں شرکت کی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں 20ھ میں وفات پائی ۔

ابو احمد بن جحش
أبو أحمد بن جحش
(عربی میں: عبد بن جحش بن رئاب الأسدي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
والد جحش بن رباب
والدہ امیمہ بنت عبد المطلب
بہن/بھائی
عملی زندگی
وجہ شہرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہونا

نام و نسب

ترمیم

عبد نام،ابو احمد کنیت،سلسلۂ نسب یہ ہے، عبد بن جحش بن رباب بن یعمر بن جبیر ابن مرہ بن کثیر بن غنم بن وددان بن اسد بن حزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر، ان کی والدہ امیمہ عبد المطلب کی بیٹی تھیں اور یہ ام المومنین حضرت زینب کے حقیقی اور آنحضرت کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ [1] [2]

اسلام و ہجرت

ترمیم

وہ اپنے بھائی عبد اللہ بن جحش اور عبیداللہ بن جحش کے ساتھ دعوتِ اسلام کے آغاز یعنی آنحضرت کے ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں پناہ گزین ہونے کے قبل مشرف باسلام ہوئے اور بھائیوں ہی کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ آگئے اور مبشر بن عبدالمنذرؓ کے گھر مہمان ہوئے۔

ابو سفیان کی شرارت

ترمیم

مکہ میں ایک جماعت تھی، جس کا مقصد صرف اسلام کو نقصان پہنچانا اور مسلمانوں کو اذیت دینا تھا، ابوسفیان اور ابو جہل اس کے سرغنہ تھے، ابو احمد ہجرت کے بعد ان کے قابو سے باہر ہو چکے تھے، اس لیے براہِ راست ان پر کسی قسم کا ظلم نہیں کر سکتے تھے؛چنانچہ انھوں نے ان کا گھر ابن علقمہ عامری کے ہاتھ بیچ ڈالا، فتح مکہ میں جب مسلمان فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے اور دشمنان اسلام کی قوتیں ٹوٹ گئیں، اس وقت ابو احمدؓ نے سب کے سامنے اپنے مکان کا مطالبہ کیا؛لیکن آنحضرت نے حضرت عثمانؓ کے ذریعہ سے چپکے سے کچھ کہلا دیا، انھوں نے ابو احمدؓ کے کان میں جاکر کہدیا، اس کے بعد پھر آخر دم تک انھوں نے مکان کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا، بعد کو ان کی اولاد سے معلوم ہوا کہ آنحضرت نے حضرت عثمانؓ کے ذریعہ سے کہلایا تھا کہ تم اس مکان کو جانے دو اور اس کے عوض میں تم کو خلد بریں میں قصر ملے گا۔ [3] [4]

وفات

ترمیم

ابو احمد بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سنہ وفات صحیح طور پر متعین نہیں کیا جا سکتا ؛لیکن 20ھ کے قبل وفات پاچکے تھے؛کیونکہ ان کی بہن حضرت زینبؓ کا انتقال 20ھ میں ہوا اور یہ ان کی زندگی میں وفات پاچکے تھے۔ [5] [6]

ازواج و اولاد

ترمیم

اولاد کوئی نہ تھی، گھر میں تنہا بیوی تھیں،ایک مرتبہ عتبہ بن ربیعہ،عباس بن مطلب اور ابو جہل ادھر سے گذرے، رفاعہ کو تنہا دیکھ کر عتبہ نے ٹھنڈی سانس لی کہ افسوس آج بنی جحش کے گھر میں کوئی رہنے والا تک نہیں، ابوجہل جو اپنی کینہ پروری کا ہر جگہ ثبوت دیتا تھا، بولا ان پر روتے کیا ہو، یہ سب ہمارے بھتیجے کا کیا دھرا ہے ،انھی نے ہمارا شیرازہ درہم برہم کیا۔ [7]

فضل و کمال

ترمیم

شاعری قریش کا طغرائے کمال تھا، حضرت ابو احمدؓ بھی شاعر تھے؛چنانچہ ابوسفیان نے ان کا گھر بیچا تو انھوں نے ایک منظوم شکایت لکھی،جس کے دو شعر یہ ہیں۔ اقطعت عقدک بیننا والجاریات الی ندامہ دارابن عمک بعتھا تثریٰ بھا عنک الندامہ [8]

حوالہ جات

ترمیم
  1. (ابن سعد:4/76)
  2. أسد الغابة آرکائیو شدہ 2016-03-08 بذریعہ وے بیک مشین
  3. (ابن سعد،جز4،قسم1:76)
  4. "عبد الله بن ابي احمد بن جحش - The Hadith Transmitters Encyclopedia"۔ hadithtransmitters.hawramani.com۔ 2020-09-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-11-24
  5. (استیعاب:2/641)
  6. "عبد الله بن ابي احمد بن جحش بن رئاب - The Hadith Transmitters Encyclopedia"۔ hadithtransmitters.hawramani.com۔ 2020-06-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-11-24
  7. (اسد الغابہ:5/134)
  8. "موسوعة الحديث : أبو بكر بن عبد الله بن أحمد بن جحش"۔ hadith.islam-db.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-11-24