ابو جعفر عبد الخالق بن عیسیٰ ہاشمی بڑے حنبلی شیخ تھے، سلسلۂ نسب سیدنا عباس بن عبد المطلب سے ملتا ہے، قاضی ابو یعلی حنبلی کے اجل تلامذہ میں سے ہیں، احکامِ قرآن اور علم الفرائض پر اچھا درک حاصل تھا، اہل بدعت کے خلاف بہت سخت تھے، عباسی حکمراں القائم بامر اللہ کے وہاں کافی احترام و قرب حاصل تھا، اخیر عمر میں ابن قشیری سے اختلافات کی وجہ سے قید ہو گئے، ایک مدت تک قید رہے، بیمار ہوئے اور وفات پا گئے، ان کے جنازہ میں ایک جم غفیر جمع ہوا اور احمد بن حنبل کے بغل میں مدفون ہوئے۔[1]

ابو جعفر ہاشمی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1020ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 ستمبر 1077ء (56–57 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن احمد بن حنبل مسجد   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک حنبلی
عملی زندگی
استاذ ابو یعلی حنبلی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص ابن ابی یعلی ،  ابو المظفر سمعانی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سلسلہ نسب ترمیم

عبد الخالق بن ابو موسیٰ عیسیٰ بن احمد بن محمد بن عیسیٰ بن احمد بن موسیٰ بن محمد بن ابراہیم بن عبد اللہ بن معبد بن عباس (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا) بن عبد المطلب ہاشمی عباسی حنبلی بغدادی۔[2]

ولادت و سیرت ترمیم

سنہ 411 ہجری میں پیدا ہوئے،

اساتذہ:- قاضی ابو یعلی حنبلی سے فقہ کا علم حاصل کیا، ابو القاسم بن بشران، ابو الحسین بن حرانی، ابو محمد خلال، ابو اسحاق برمکی اور ابو طالب عشاری سے علمِ حدیث حاصل کیا،

تلامذہ:- مایہ ناز شاگرد ابو بکر بن عبد الباقی بزار انصاری ہیں، ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد نے ان سے فقہ و حدیث کا علم حاصل کیا۔

قاضی ابو یعلی حنبلی کے سب سے خاص تلامذہ میں سے تھے، ان سے سنہ 428 سے 451 ہجری تک فقہ کا علم حاصل کیا، ان کے درس میں شریک ہوتے اور تعلیقات لکھ لیا کرتے تھے، فروعی مسائل اور اصول فقہ کے اسباق کا اعادہ کیا کرتے، یہاں تک کہ حنبلی مذہب میں مہارت حاصل کر لی، پھر دروس و فتاویٰ دینا شروع کیا۔

ان کا درس بصرہ میں خرقی گلی کی مسجد اور جامع منصور میں برابر ہوا کرتا تھا، پھر مشرقی جانب منتقل ہو گئے اور وہاں دار الخلافت کے سامنے مسجد میں درس ہونے لگا، پھر وہاں سے باب الطاق کی جانب منتقل ہو گئے اور دربار کے راستہ کی مسجد میں درس شروع ہو گیا، اسی طرح جامع مہدی میں بھی درس دیا ہے۔

بہت مختصر گفتگو کیا کرتے تھے، تدریس کا بہت شاندار انداز تھا، فرائض اور احکامِ قرآن و اصول پر یدِ طولیٰ حاصل تھا، مناظرہ میں بہترین انداز سے بات کیا کرتے تھے، دوشنبہ کے روز مناظرہ کی مجلس لگتی تھی، مخالف فقہا حاضر ہوتے تھے اور مناظرہ ہوتا تھا، اہل بدعت کے خلاف سخت رد عمل فرماتے تھے، حنبلی مذہب میں مہارت اور فقہ حاصل کرنے کے لیے طلبہ کی ایک بڑی جماعت ان کے ہاس آتی تھی۔[2]

قشیری سے اختلاف ترمیم

سنہ 469 ہجری میں ابو نصر قشیری بغداد آئے، مدرسہ نظامیہ میں درس دینا شروع کیا اور حنبلی مذہب کی تذلیل و تذمیم شروع کر دی، ان کے ساتھ ابو سعد صوفی اور ابو اسحاق شیرازی بھی شامل ہو گئے اور وزیر نظام الملک کو حنبلیوں کے خلاف شکایات لکھ بھیجی، ایک جماعت ابو جعفر ہاشمی پر ان کی مسجد میں حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گئی، ابو جعفر ہاشمی نے بھی دفاع کے لیے کچھ لوگوں کو تیار کر لیا، جب ابن قشیری کے افراد مسجد کے قریب پہنچے تو دونوں طرف سے اینٹ پتھر سے حملے شروع ہو گئے، بہت سے افراد زخمی ہوئے اور کچھ ہلاک بھی ہوئے، آخر دونوں فریق لڑتے لڑتے نظامیہ کے قریب پہنچ گئے، ابن قشیری کے افراد نے مدرسہ نظامیہ کے صدر دروازے کو بند کر لیا اور مستنصر باللہ کو پکارنے لگے عباسی خلیفہ پر طعن و تشنیع کے ارادے سے کہ عباسی خلیفہ حنبلیوں کا حامی ہے اور ابو جعفر ہاشمی بھی عباسی ہی تھے اور خلیفہ کے چچازاد بھائی تھے،[3] اس پر ابو اسحاق شیرازی غصہ ہو گئے اور کسی دوسری جگہ کوچ کرنے کا ارادہ کر لیا۔

وزیر نے فریقین کو بلوایا اور کہا: جو کچھ مسلمانوں کے ما بین اختلاف پیش آیا ہے یقین بہت تکلیف دہ بات ہے، امیر المومنین کی موجودگی میں صلح کرانے کی کوشش کی، ابو جعفر ہاشمی سے قریب ہونے کا حکم دیا، جس سے فریقِ مخالف راضی نہیں ہوئے، بالآخر ابو نصر بن قشیری کو فتنہ کے سد باب کے لیے شہر بدر کرنے کا فیصلہ ہوا اور ابو جعفر ہاشمی کو قید کرنے کا فیصلہ ہوا، قید میں کھانا پینا بند رہا، بھوکا رہنے کی وجہ مرض لاحق ہو گیا، لوگوں کے اصرار پر جیل سے نکال کر ان کی بہن حریم طاہری کے حوالہ کر دیا گیا اور وہیں وفات پا گئے۔[2]

وفات ترمیم

15 صفر المظفر سنہ 470 ہجری میں وفات ہوئی، وصیت کے مطابق ابو سعید بردانی اور ابن الفتی نے غسل دیا اور جمعہ کے دن چاشت کے وقت جامع منصور میں نماز جنازہ ہوئی، نماز جنازہ ان کے بھائی ابو الفضل محمد نے پڑھائی، جنازہ میں ایک بڑا جم غفیر حاضر تھا، احمد بن حنبل کی قبر کے بغل میں مدفون ہوئے، ان کی قبر لوگوں کی زیارت گاہ رہی، کہا جاتا ہے کہ ان کی قبر پر تقریباً دس ہزار ختم ہوئے ہیں۔ خواب میں دیکھا گیا، پوچھا گیا کیا ہوا؟ فرمایا: «جب مجھے قبر میں ڈالا گیا تو میں نے سفید موتیوں سے بنا ایک قبہ دیکھا، مجھ سے کہا گیا: یہ تمھارا ہے، اس میں داخل ہو جاؤ۔» اسی طرح ایک خواب میں کہا کہ احمد بن حنبل سے ملا تو انھوں نے فرمایا: «ابو جعفر! تم نے اللہ کے جہاد کا حق ادا کر دیا، اللہ نے تمھیں خوشنودی کا پروانہ دے دیا۔»[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. "شمس الدين الذهبي: سير أعلام النبلاء، الطبقة الخامسة والعشرون، أبو جعفر الهاشمي، الجزء الثامن عشر، صـ 546: 548، طبعة مؤسسة الرسالة، سنة النشر: 1422هـ / 2001م"۔ 08 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2019 
  2. ^ ا ب پ ت الذيل على طبقات الحنابلة، وفيات المائة الخامسة، عبد الخالق بن عيسى بن أحمد (1)، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2019-02-02 بذریعہ وے بیک مشین
  3. "دولة السلاجقة وبروز مشروع إسلامى لمقاومة التغلغل الباطني والغزو الصليبي ص:330"۔ 08 فروری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2019