ابو ظفر ندوی

ہندوستانی مورخ، شبلی کے شاگرد

سید ابو ظفر ندوی (پیدائش: مارچ 1889ء - وفات: 28 مئی 1958ء) بر صغیر پاک و ہند کے نامور مورخ، علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد، ندوۃ العلماء کے فارغ التحصیل، عربی کے پروفیسر، دار المصنفین کے رفیق اور سید سلیمان ندوی کے بھتیجے تھے۔ علمی دنیا میں ان کی شہرت مایہ ناز مورخ کی حیثیت سے ہے۔ تاریخ ان کا خاص موضوع ہے اور وہ مدت العمر اسی میدان کے شہسوار رہے اور ایک درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔

ابو ظفر ندوی
معلومات شخصیت
پیدائش مارچ1889ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیسنہ ،  پٹنہ ضلع ،  بہار   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18 مئی 1958ء (68–69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیسنہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم ندوۃ العلماء   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ شبلی نعمانی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مورخ ،  پروفیسر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل سندھ کی تاریخ ،  تاریخ ہند   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

سید ابو ظفر ندوی مارچ 1889ء میں ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ دیسنہ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم والد سید ابو حبیب سے حاصل کی جو دیگر علوم کے ساتھ فنِ طب کے ماہر اور صاحبِ تصوف و سلوک تھے۔ بارہ سال کی عمر میں ندوۃ العلماء آئے اور 1911ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ یہیں علامہ شبلی سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔ تحصیل علم کے بعد ملتان کے ایک مدرسہ میں درس و تدریس کا شغل اختیار کیا۔ وہاں سے پوری دنیا کی سیر و سیاحت کے ارادے سے 1915ء میں رنگون چلے گئے[1]، مگر یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا اور وہ 1922ء میں احمد آباد آئے اور گاندھی کے قائم کردہ مہاو دیالے کالج میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور قومی یونیورسٹی گجرات کے رکن سینٹ و سنڈیکیٹ نامزد کیے گئے۔ یہاں سے کچھ دنوں کے بعد جمالیہ عربک کالج کے پرنسپل ہو کر مدراس چلے گئے۔ 1930ء میں انھیں مولانا سید سلیمان ندوی نے دار المصنفین میں تاریخِ ہند کے منصوبہ کی تدوین و تکمیل کے لیے اعظم گڑھ بلا لیا۔ دار المصنفین میں پانچ چھ برس رہ کر انھوں نے تاریخ سندھ، مختصر تاریخ ہند اور تاریخ خاندان غزنہ جیسی مارکۃ الآرا کتابیں لکھیں۔ 1939ء میں در المصفنین سے رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن میں عربی و فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد ودیا سبھا احمد آباد نے ان کی خدمات حاصل کر لیں، جہاں وہ درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا کام بھی انجام دیتے رہے۔ ابو ظفر ندوی کو تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کے ساتھ عملی سیاست سے بھی دلچسپی تھی۔ وہ گاندھی کی تحریک ترک موالات کے بڑے سرگرم رکن تھے اور اسی وجہ سے آخر عمر تک ان کے سیاسی خیالات وہی رہے جو قوم پرور مسلمانوں کے تھے۔ 28 مئی 1958ء میں اپنے وطن دیسنہ میں وفات پائی۔[2][3]

تصانیف

ترمیم
  • تاریخ سندھ
  • تاریخ گجرات
  • مختصر تاریخ گجرات
  • مختصر تاریخ ہند
  • تاریخ خاندان غزنہ
  • سفرنامہ برہما
  • گجرات کی تمدنی تاریخ (مسلمانون کے عہد میں)
  • تاریخ اولیائے گجرات

وفات

ترمیم

سید ابو ظفر ندوی نے 18 مئی 1958ء کو اپنے آبائی وطن دیسنہ میں وفات پائی۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی، دار المصنفین کی تاریخی خدمات، خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریریپٹنہ، 2002ء، ص 311
  2. ^ ا ب دار المصنفین کی تاریخی خدمات، ص 312
  3. مالک رام، تذکرہ ماہ و سال، مکتبہ جامعہ ملیہ لمیٹڈ دہلی، 2011ء، ص 421