اختر لکھنوی
محمود الحسن المعروف اختر لکھنوی (پیدائش: 1935ء - 17 ستمبر 1995ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر، براڈکاسٹر اور صحافی تھے۔ انھوں نے حمد، نعت اور غزل کی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔
اختر لکھنوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (اردو میں: محمود الحسن) |
پیدائش | سنہ 1935ء لکھنؤ ، اتر پردیش ، برطانوی ہند |
وفات | 17 ستمبر 1995ء (59–60 سال) کراچی ، پاکستان |
مدفن | اورنگی ٹاؤن |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، صحافی |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
ملازمت | ریڈیو پاکستان |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیماختر لکھنوی 1935ء کو قصبہ کھیوالی، لکھنؤ، اتر پردیش ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمود الحسن، تخلص اختر تھا جبکہ اختر لکھنوی ان کا قلمی نام تھا۔ ان کے والد کا نام حافظ محمد حسین تھا۔ دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اکتوبر 1950ء میں ڈھاکہ منتقل ہو گئے۔ نومبر 1950ء سے 1955ء تک انجمن ترقی اردو مشرقی پاکستان کے آفس سیکریٹری رہے۔ 1956ء میں صحافت کا پیشہ اختیار کیا اور روزنامہ انقلاب کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔[1] انقلاب کے بند ہونے کے بعد روزنامہ ہنگامہ ڈھاکہ اور روزنامہ انگارہ ڈھاکہ کے ایڈیٹر رہے۔ ہفت روزہ سب رنگ ڈھاکہ، روزنامہ چترالی ڈھاکہ، روزنامہ جریدہ ڈھاکہ اور روزنامہ میزان سید پور، روزنامہ ستارہ ڈھاکہ اور روزنامہ پاسبان ڈھاکہ میں جز وقتی کام کیا۔ اپنا ذاتی روزنامہ امن بھی نکالا لیکن جلد ہی بند ہو گیا۔ پھر ادبی رسالہ ماہنامہ فنکار نکالا لیکن سرمایہ کی قلت کی وجہ سے اسے بھی بند کرنا پڑا۔ ریڈیو پاکستان ڈھاکہ اسٹیشن میں بھی ملازمت کی۔ ٹی وی پر خبریں بھی پرھیں۔ ریڈیو کے لیے روزانہ کی نشریات کے تقریباً 200 ڈرامے، فیچراور دوسرے پروگراموں کے اسکرپٹ لکھے اور ان کی ہدایت کاری کی ذمہ داری بھی ادا کی۔۔ اردو فلموں کے لیے کہانیاں، مکالمے اور گیت بھی تحریر کیے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ہزاروں لٹے پھٹے قافلوں کے ساتھ سفر کرتے رہے۔ محمد پور اور میر پور کی بستیوں میں رہے۔ جیل کاٹی اور کیمپوں میں وقت گزارا۔ جنیوا کیمپ کے پہلے انچارج بنائے گئے۔ 6 مارچ 1974ء کو کراچی آ گئے۔ تین ماہ بعد ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں ڈیوٹی لگی۔ ستمبر 1977ء میں ریڈیو پاکستان کی عالمی سروس میں تبادلہ ہونے کے بعد اسلام آباد چلے گئے لیکن کچھ دن کے بعد ہی انھیں ریڈیو پاکستان کراچی اسٹیشن بھیج دیا گیا۔ ان کے کتابوں میں دیدۂ تر (سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے شعری مجموعہ)، حضور (نعتیہ مجموعہ، 1988ء) اور تذکرہ شعرائے مشرقی پاکستان شامل ہیں۔[2]
نمونۂ کلام
ترمیمنعت
اُنؐ کے دَر پر گئے گردِ راہِ سفر جسم پر رکھ کے ہم | اورپھر یہ ہوا، پہروں روتے رہے ، در پہ سر رکھ کے ہم | |
راستوں کی ہوا رہنما بن گئی ،سارباں بن گئی | جب چراغ ان کی چاہت کا لیکر چلے ہاتھ پر رکھ کے ہم | |
جِس کی تقدیر میں فرق کوئی نہیں، شام کوئی نہیں | نور کے شہر سے لائے ہیں، آنکھ میں وہ سحر رکھ کے ہم | |
اپنے رب سے دُعا مانگتے وقت اب شرم آتی نہیں | ان کی دہلیز سے آئے اپنی دعا میں اثر رکھ کے ہم | |
اپنی ہررات رکھتے ہیں روشن بہت اور معطّر بہت | اِک چراغِ وفا ان کی یادوں بھرے طاق پر رکھ کے ہم[3] |
غزل
ہشیار کر رہا ہے گجر جاگتے رہو | اے صاحبانِ فکر و نظر جاگتے رہو | |
دشت شبِ سیاہ میں سنتے ہیں شب پرست | روکیں گے کاروانِ سحر جاگتے رہو | |
ظلمت کہیں نہ کر دے اجالے کو داغدار | لے کر چراغ دیدۂ تر جاگتے رہو | |
سوئے نہیں کہ ڈوب گئی نبضِ کائنات | بوجھل ہو لاکھ آنکھ مگر جاگتے رہو | |
خوابیدہ اپنے چاہنے والوں کو دیکھ کر | ممکن ہے لوٹ جائے سحر جاگتے رہو |
وفات
ترمیماختر لکھنوی 17 ستمبر 1995ء کو کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ وہ اورنگی ٹاؤن قبرستان میں مدفون ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 47
- ↑ کراچی کا دبستان نعت، ص 48
- ↑ نعت رنگ، شمارہ نمبر 25، مدیر صبیح رحمانی، نعت ریسرچ سینٹرکراچی