اسماعیل کدارے
اسمٰعیل کدارے ایک البانوی زبان کے ڈراما نویس، شاعر اور ناول نگار تھے۔[22]
اسماعیل کدارے | |
---|---|
(البانوی میں: Ismail Kadare) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 28 جنوری 1936ء [1][2][3][4][5][6][7] ارجیر [8][9][10] |
وفات | 1 جولائی 2024ء (88 سال)[11] تیرانا [11] |
وجہ وفات | دورۂ قلب [12] |
طرز وفات | طبعی موت |
شہریت | البانیا [13] فرانس [13][14] کوسووہ |
تعداد اولاد | 2 |
عملی زندگی | |
مادر علمی | تیرانا یونیورسٹی گورکی انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی ادب |
پیشہ | شاعر ، ناول نگار ، مترجم ، مصنف [15] |
مادری زبان | البانوی زبان |
پیشہ ورانہ زبان | فرانسیسی ، روسی ، البانوی زبان [16] |
شعبۂ عمل | ادبی سرگرمی [17]، شاعری [17]، نثر [17] |
اعزازات | |
نامزدگیاں | |
دستخط | |
IMDB پر صفحات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیمالبانیہ کے مشہور ادیب، ناول نگار۔ اسمٰعیل یونان کے ساتھ البانیہ کی سرحد کے قریب واقع گیروکاسٹر کے قصبہ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی قصبہ ہے جہاں ان کے مخالف انور ہوکسا اُن سے اٹھائیس برس پہلے پیدا ہوئے تھے۔ پہلے انھوں نے یونیورسٹی آف تیرانا سے تعلیم حاصل کی اور پھر ماسکو یونیورسٹی کے گورکی انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی ادب میں پڑھے۔[23]
عملی زندگی
ترمیمانھوں نے بطور صحافی 1960 میں کام کرنا شروع کیا۔ یہ وہ سال تھا جب البانیہ نے سوویت یونین سے تعلقات منقطع کیے تھے۔ لیکن بطور شاعر اپنی ادبی زندگی کا آغاز وہ صحافت سے پہلے ہی کر چکے تھے۔ ان کے دو شعری مجموعے ’یوتھفُل انسپیریشن‘ یا جوان امنگیں اور ’خواب‘ کے نام سے 1954 اور 1957 میں منظر عام پر آ چکے تھے۔[24][25][26]
ادبی زندگی
ترمیم1960میں کدارے نے نثر نگاری کی طرف رخ کیا اور 1963 میں اپنا پہلا ناول’مردہ فوج کا جرنیل، بعد از جنگ البانیہ کا ایک مطالعہ‘ کے نام سے شائع کیا۔
اس ناول نے البانیہ میں اُن کا نام بنایا اور انھیں ملک سے باہر سفر کرنے اور اپنی تحریریں شائع کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔ لیکن 1975 میں حکام کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہو گئے اور ان پر تین سال کے لیے اشاعت کی پابندی لگا دی گئی۔ حالات میں بہتری کے دو سال ہی گذرے تھے کہ 1981 میں ’خوابوں کا محل‘ لکھنے پر وہ پھر حکام کے عتاب میں آ گئے۔ ان کی یہ کتاب عین اسی دور کی پابندیوں کے بارے میں تھی جن کے تحت انھیں شائع ہونے سے روکا گیا تھا۔ اور پھر 1986 سے انھوں نے اپنی تحریریں البانیہ سے سمگل کر کے فرانس بھجوانا شروع کر دیں جہاں پر اُن کے ناشر نے یہ تحریریں محفوظ کرنا شروع کر دیں۔[27]
فرانس آمد
ترمیم1990 میں البانیہ میں انور ہوکسا کی حکومت گرنے سے کچھ عرصہ قبل اسمٰعیل کو فرانس میں سیاسی پناہ مل گئی۔ اسمٰعیل کدارے کا کہنا ہے ’ مطلق العنانی اور مسلمہ ادب ایک ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ یہ بات فطری ہے کہ ایک لکھنے والا کسی بھی آمر کا دشمن ہوتا ہے۔ ‘ اور شاید اسمٰعیل کدارے کے سلسلہ میں یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی کیونکہ البانیہ سے نکلنے کے بعد ہی وہ دنیا کو اپنے کام کی طرف متوجہ کر سکیں ہیں۔[28][29][30]
اعزازات
ترمیماسماعیل کا نام نوبل انعام کے لیے نامزد ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ 2005ء میں شروع ہونے والے بین الاقوامی بُکر پرائز کے سلسلہ کے انعام کا حقدار ان کو قرار دیا گیا۔[31][32]
وفات
ترمیمکدارے 1 جولائی 2024 کو ترانہ کے ایک اسپتال میں 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔[33]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118995146 — اخذ شدہ بتاریخ: 27 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ NooSFere author ID: https://www.noosfere.org/livres/auteur.asp?NumAuteur=-43009 — بنام: Ismail KADARÉ — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ بنام: Ismail Kadare — فلم پورٹل آئی ڈی: https://www.filmportal.de/533437973825465da0c7c9a13281e6a5 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ ڈسکوجس آرٹسٹ آئی ڈی: https://www.discogs.com/artist/3667273 — بنام: Ismail Kadare — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/kadare-ismail — بنام: Ismail Kadare
- ↑ بنام: Ismail Kadare — abART person ID: https://cs.isabart.org/person/19196
- ↑ Babelio author ID: https://www.babelio.com/auteur/wd/15332 — بنام: Ismaïl Kadaré
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118995146 — اخذ شدہ بتاریخ: 11 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — ناشر: دی انڈیپنڈنٹ — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — تاریخ اشاعت: 25 اگست 2012 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — The Fall of the Stone City, By Ismail Kadare (trs John Hodgson) — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — ناشر: بی بی سی نیوز — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — تاریخ اشاعت: 2 جون 2005 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — Albanian wins first world Booker — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
- ^ ا ب تاریخ اشاعت: 1 جولائی 2024 — Ismail Kadare dies! Along with it a civilization
- ↑ The well-known writer Ismail Kadare passed away — اخذ شدہ بتاریخ: 1 جولائی 2024
- ↑ Cercle Richelieu Senghor de Paris: Tribune internationale de la francophonie — اخذ شدہ بتاریخ: 2 جولائی 2022
- ↑ جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118995146
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20000700843 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 نومبر 2024
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11909294r — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20000700843 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 جولائی 2024
- ↑ عنوان : Journal officiel de la République française — تاریخ اشاعت: 1 جنوری 2016 — شمارہ: 1 — NOR numbering ID: https://www.legifrance.gouv.fr/UnTexteDeJorf.do?numjo=PREX1531692D — اخذ شدہ بتاریخ: 23 اپریل 2019
- ↑ The Man Booker International Prize 2005 — اخذ شدہ بتاریخ: 2 نومبر 2022
- ↑ https://thebookerprizes.com/the-booker-library/books/the-traitors-niche
- ↑ http://www.rtklive.com/en/?id=6&r=5994
- ↑ Richard Lea (2024-07-01)۔ "Ismail Kadare, giant of Albanian literature, dies aged 88"۔ The Guardian۔ ISSN 0261-3077۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جولائی 2024
- ↑ Nilanjana Roy (17 January 2020)۔ "The Doll by Ismail Kadare — a mesmerising autobiographical novel; The Albanian novelist weaves the life of his mother with his country's tumultuous past"۔ The Financial Times۔ 10 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "Ismail Kadare's 6 favorite books"۔ The Week۔ 21 December 2014۔ 19 اپریل 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2021
- ↑ Julian Evans (16 September 2005)۔ "Living with ghosts"۔ The Guardian
- ↑ David Bellos (2011). Is That a Fish in Your Ear?; Translation and the Meaning of Everything, Farrar, Straus and Giroux, ISBN 9780865478572.
- ↑ Dave Kehr (21 December 2001)۔ "AT THE MOVIES; Albanian Plot in Brazil"۔ The New York Times۔ 20 اپریل 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2021
- ↑ "Ismail Kadare – Winner of the 2020 Neustadt International Prize for Literature"۔ Neustadt Prizes۔ 13 March 2020۔ 05 جولائی 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2021
- ↑ Hon. Eliot L. Engel of New York in the House of Representatives (14 April 2015). "PAYING TRIBUTE TO ISMAIL KADARE, Albanian Political Exile from France and Winner of the Jerusalem Prize for 2015," Congressional Record.
- ↑ Marc Slonim (8 November 1970)۔ "European Notebook; An Albanian Novel"۔ The New York Times۔ 19 اپریل 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2021
- ↑ Julian Evans (16 September 2005)۔ "Living with ghosts"۔ The Guardian
- ↑ John Murray (25 January 1998)۔ "Books: The orphan's voice; He's been nominated for the Nobel Prize 15 times, was awarded the Legion d'honneur last year and his output is colossal. So why isn't the Albanian novelist and poet Ismail Kadare better known?"۔ The Independent۔ 30 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2019
- ↑ "Ndërroi jetë pas arrestit kardiak, Ismail Kadare mbylli sytë në QSUT"۔ Syri۔ 1 July 2024
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر اسماعیل کدارے سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |