اسمٰعیل کدارے ایک البانوی زبان کے ڈراما نویس، شاعر اور ناول نگار تھے۔[22]

اسماعیل کدارے
(البانوی میں: Ismail Kadare ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 28 جنوری 1936ء [1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ارجیر [8][9][10]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 جولا‎ئی 2024ء (88 سال)[11]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تیرانا [11]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات دورۂ قلب [12]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت البانیا [13]
فرانس [13][14]
کوسووہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد 2   ویکی ڈیٹا پر (P1971) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی تیرانا یونیورسٹی
گورکی انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی ادب   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  ناول نگار ،  مترجم ،  مصنف [15]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان البانوی زبان   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فرانسیسی ،  روسی ،  البانوی زبان [16]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل ادبی سرگرمی [17]،  شاعری [17]،  نثر [17]  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 گرینڈ آفیسر آف دی لیجن آف آنر (2019)
بین الاقوامی نونینو انعام (2018)
 کمانڈر آف دی لیجین آف اونر (2015)[18]
یروشلم انعام (2015)
پرانسس آف آسٹریاس لٹریری پرائز (2009)
مین بکر انٹرنیشنل پرائز (2005)[19]  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نامزدگیاں
مین بکر انٹرنیشنل پرائز (2017)[20]
نوبل انعام برائے ادب   (2013)[21]  ویکی ڈیٹا پر (P1411) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ابتدائی زندگی

ترمیم

البانیہ کے مشہور ادیب، ناول نگار۔ اسمٰعیل یونان کے ساتھ البانیہ کی سرحد کے قریب واقع گیروکاسٹر کے قصبہ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی قصبہ ہے جہاں ان کے مخالف انور ہوکسا اُن سے اٹھائیس برس پہلے پیدا ہوئے تھے۔ پہلے انھوں نے یونیورسٹی آف تیرانا سے تعلیم حاصل کی اور پھر ماسکو یونیورسٹی کے گورکی انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی ادب میں پڑھے۔[23]

عملی زندگی

ترمیم

انھوں نے بطور صحافی 1960 میں کام کرنا شروع کیا۔ یہ وہ سال تھا جب البانیہ نے سوویت یونین سے تعلقات منقطع کیے تھے۔ لیکن بطور شاعر اپنی ادبی زندگی کا آغاز وہ صحافت سے پہلے ہی کر چکے تھے۔ ان کے دو شعری مجموعے ’یوتھفُل انسپیریشن‘ یا جوان امنگیں اور ’خواب‘ کے نام سے 1954 اور 1957 میں منظر عام پر آ چکے تھے۔[24][25][26]

ادبی زندگی

ترمیم

1960میں کدارے نے نثر نگاری کی طرف رخ کیا اور 1963 میں اپنا پہلا ناول’مردہ فوج کا جرنیل، بعد از جنگ البانیہ کا ایک مطالعہ‘ کے نام سے شائع کیا۔

اس ناول نے البانیہ میں اُن کا نام بنایا اور انھیں ملک سے باہر سفر کرنے اور اپنی تحریریں شائع کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔ لیکن 1975 میں حکام کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہو گئے اور ان پر تین سال کے لیے اشاعت کی پابندی لگا دی گئی۔ حالات میں بہتری کے دو سال ہی گذرے تھے کہ 1981 میں ’خوابوں کا محل‘ لکھنے پر وہ پھر حکام کے عتاب میں آ گئے۔ ان کی یہ کتاب عین اسی دور کی پابندیوں کے بارے میں تھی جن کے تحت انھیں شائع ہونے سے روکا گیا تھا۔ اور پھر 1986 سے انھوں نے اپنی تحریریں البانیہ سے سمگل کر کے فرانس بھجوانا شروع کر دیں جہاں پر اُن کے ناشر نے یہ تحریریں محفوظ کرنا شروع کر دیں۔[27]

فرانس آمد

ترمیم

1990 میں البانیہ میں انور ہوکسا کی حکومت گرنے سے کچھ عرصہ قبل اسمٰعیل کو فرانس میں سیاسی پناہ مل گئی۔ اسمٰعیل کدارے کا کہنا ہے ’ مطلق العنانی اور مسلمہ ادب ایک ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ یہ بات فطری ہے کہ ایک لکھنے والا کسی بھی آمر کا دشمن ہوتا ہے۔ ‘ اور شاید اسمٰعیل کدارے کے سلسلہ میں یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی کیونکہ البانیہ سے نکلنے کے بعد ہی وہ دنیا کو اپنے کام کی طرف متوجہ کر سکیں ہیں۔[28][29][30]

اعزازات

ترمیم

اسماعیل کا نام نوبل انعام کے لیے نامزد ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ 2005ء میں شروع ہونے والے بین الاقوامی بُکر پرائز کے سلسلہ کے انعام کا حقدار ان کو قرار دیا گیا۔[31][32]

وفات

ترمیم

کدارے 1 جولائی 2024 کو ترانہ کے ایک اسپتال میں 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔[33]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ربط: https://d-nb.info/gnd/118995146 — اخذ شدہ بتاریخ: 27 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
  2. NooSFere author ID: https://www.noosfere.org/livres/auteur.asp?NumAuteur=-43009 — بنام: Ismail KADARÉ — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. بنام: Ismail Kadare — فلم پورٹل آئی ڈی: https://www.filmportal.de/533437973825465da0c7c9a13281e6a5 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. ڈسکوجس آرٹسٹ آئی ڈی: https://www.discogs.com/artist/3667273 — بنام: Ismail Kadare — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/kadare-ismail — بنام: Ismail Kadare
  6. بنام: Ismail Kadare — abART person ID: https://cs.isabart.org/person/19196
  7. Babelio author ID: https://www.babelio.com/auteur/wd/15332 — بنام: Ismaïl Kadaré
  8. ربط: https://d-nb.info/gnd/118995146 — اخذ شدہ بتاریخ: 11 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
  9. مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — ناشر: دی انڈیپنڈنٹ — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — تاریخ اشاعت: 25 اگست 2012 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — The Fall of the Stone City, By Ismail Kadare (trs John Hodgson) — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
  10. مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — ناشر: بی بی سی نیوز — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — تاریخ اشاعت: 2 جون 2005 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — Albanian wins first world Booker — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
  11. ^ ا ب تاریخ اشاعت: 1 جولا‎ئی 2024 — Ismail Kadare dies! Along with it a civilization
  12. The well-known writer Ismail Kadare passed away — اخذ شدہ بتاریخ: 1 جولا‎ئی 2024
  13. Cercle Richelieu Senghor de Paris: Tribune internationale de la francophonie — اخذ شدہ بتاریخ: 2 جولا‎ئی 2022
  14. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118995146
  15. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20000700843 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 نومبر 2024
  16. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11909294r — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  17. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20000700843 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 جولا‎ئی 2024
  18. عنوان : Journal officiel de la République française — تاریخ اشاعت: 1 جنوری 2016 — شمارہ: 1 — NOR numbering ID: https://www.legifrance.gouv.fr/UnTexteDeJorf.do?numjo=PREX1531692D — اخذ شدہ بتاریخ: 23 اپریل 2019
  19. The Man Booker International Prize 2005 — اخذ شدہ بتاریخ: 2 نومبر 2022
  20. https://thebookerprizes.com/the-booker-library/books/the-traitors-niche
  21. http://www.rtklive.com/en/?id=6&r=5994
  22. Richard Lea (2024-07-01)۔ "Ismail Kadare, giant of Albanian literature, dies aged 88"۔ The Guardian۔ ISSN 0261-3077۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جولا‎ئی 2024 
  23. Nilanjana Roy (17 January 2020)۔ "The Doll by Ismail Kadare — a mesmerising autobiographical novel; The Albanian novelist weaves the life of his mother with his country's tumultuous past"۔ The Financial Times۔ 10 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  24. "Ismail Kadare's 6 favorite books"۔ The Week۔ 21 December 2014۔ 19 اپریل 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2021 
  25. Julian Evans (16 September 2005)۔ "Living with ghosts"۔ The Guardian 
  26. David Bellos (2011). Is That a Fish in Your Ear?; Translation and the Meaning of Everything, Farrar, Straus and Giroux, ISBN 9780865478572.
  27. Dave Kehr (21 December 2001)۔ "AT THE MOVIES; Albanian Plot in Brazil"۔ The New York Times۔ 20 اپریل 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2021 
  28. "Ismail Kadare – Winner of the 2020 Neustadt International Prize for Literature"۔ Neustadt Prizes۔ 13 March 2020۔ 05 جولا‎ئی 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2021 
  29. Hon. Eliot L. Engel of New York in the House of Representatives (14 April 2015). "PAYING TRIBUTE TO ISMAIL KADARE, Albanian Political Exile from France and Winner of the Jerusalem Prize for 2015," Congressional Record.
  30. Marc Slonim (8 November 1970)۔ "European Notebook; An Albanian Novel"۔ The New York Times۔ 19 اپریل 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2021 
  31. Julian Evans (16 September 2005)۔ "Living with ghosts"۔ The Guardian 
  32. John Murray (25 January 1998)۔ "Books: The orphan's voice; He's been nominated for the Nobel Prize 15 times, was awarded the Legion d'honneur last year and his output is colossal. So why isn't the Albanian novelist and poet Ismail Kadare better known?"۔ The Independent۔ 30 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2019 
  33. "Ndërroi jetë pas arrestit kardiak, Ismail Kadare mbylli sytë në QSUT"۔ Syri۔ 1 July 2024 

بیرونی روابط

ترمیم