اشرف صبوحی
اشرف صبوحی (پیدائش: 11 مئی، 1905ء- وفات: 22 اپریل، 1990ء) ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور ادیب، صحافی، افسانہ نگار اور مترجم تھے جو اپنی تصنیف "دلی کی چند عجیب ہستیاں" کی وجہ سے دنیائے اردو میں شہرت رکھتے ہیں۔
اشرف صبوحی | |
---|---|
پیدائش | سید ولی اشرف 11 مئی 1905 ء دہلی، برطانوی ہندوستان |
وفات | 22 اپریل 1990 ء کراچی، پاکستان |
قلمی نام | اشرف صبوحی |
پیشہ | مصنف، صحافی |
زبان | اردو |
قومیت | پاکستانی |
نسل | مہاجر قوم |
تعلیم | ادیب فاضل، منشی فاضل، بی اے |
مادر علمی | جامعہ پنجاب |
اصناف | افسانہ، صحافت، خاکہ نگاری، ترجمہ، تذکرہ |
نمایاں کام | دلی کی چند عجیب ہستیاں غبار کارواں جھروکے |
حالات زندگی
ترمیماشرف صبوحی کا اصل نام سید ولی اشرف تھا۔ وہ 11 مئی، 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ڈپٹی نذیر احمد کے خاندان سے تھا[1]۔ ڈپٹی نذیر احمد کے صاحبزادے مولوی بشیر احمد ان کے سگے پھوپھا تھے۔ ان کے جدی خاندان کا سلسلہ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی سے ملتا ہے۔ ان کے والد جناب علی اشرف محکمہ ریلوے کے شعبۂ انجینئری میں ملازم تھے۔ وہ ایک عالم دین بزرگ تھے۔ اشرف صبوحی کی ابتدائی تعلیم والدہ کی نگرانی میں گھر میں ہوئی۔ بعد ازاں انھیں انگلو عربک ہائی اسکول میں داخل کیا گیا جہاں سے 1922ء میں سیکنڈ کلاس میں میٹرک پاس کیا۔ صبوحی صاحب کو فارسی سے شروع ہی سے لگاؤ تھا۔ میٹرک کے بعد انھوں نے پرائیویٹ طور پر ادیب فاضل، منشی فاضل، ایف اے اور بی اے کے امتحانات جامعہ پنجاب سے پاس کیے۔[2]
صبوحی صاحب بجلی کے کاموں میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ جب اس کام میں ان کا شغف زیادہ بڑھا تو جرمنی اور انگلستان سے بجلی کا سامان منگوا کر خود بیٹریاں بنانی شروع کر دیں جس سے خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔ 1929ء میں انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز محکمہ ڈاک و تار سے کیا لیکن لکھنے پڑھنے کا شوق اپنی جگہ قائم رہا۔ ان کی پہلی تحریر جو بڑی شان سے منظر عام پر آئی وہ ایک تقریظ تھی جو دیوانِ بشیر میں مولانا مولوی اشرف صبوحی کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ شاہد احمد دہلوی ایڈیٹر ساقی صبوحی صاحب کے قریبی دوستوں میں تھے۔ ماہنامہ ساقی میں صبوحی صاحب کے بہت سے مضامین، افسانے اور خاکے شائع ہوتے تھے۔[2]
ادبی خدمات
ترمیماشرف صبوحی دہلی کے ان نثر نگاروں میں تھے جنھوں نے 1947ء سے قبل ادب میں اپنے لیے ممتاز مقام بنا لیا تھا۔ انھوں نے 1929ء سے بچوں کے رسالوں میں چھوٹی چھوٹی سینکڑوں خوبصورت کہانیاں اور ادبی رسالوں میں مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے۔ صبوحی صاحب نے ارمغان کے نام سے ایک ماہنامہ بھی دہلی سے جاری کیا۔ دو سال تک یہ رسالہ محلہ چوڑی والا گلی تخت والی سے شائع ہوتا رہا۔ اس رسالے میں لکھنے والوں میں خواجہ حسن نظامی کا نام بہت مشہور ہے۔ ان کا ایک معروف مضمون اﷲ میاں کی سوانح اسی رسالے میں شائع ہوا تھا۔ صبوحی صاحب کے چھوٹے بھائی جو اس رسالے کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے، دو سال کے لیے مدینہ چلے گئے۔ بھائی کے چلے جانے سے رسالے کی اشاعت بہت متاثر ہوئی اور اسے بند کرنا پڑا۔ رسالوں میں مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ جب دہلی میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا تو 1927ء میں وہاں سے صبوحی صاحب نے پہلی تقریر نشر کی جو انھوں نے اس طرح شروع کی تھی۔
” | وائرلیس کی ایجاد کے بعد بھی بجلی جو کبھی غضب الٰہی کی ایک کہر تھی قدرت کی مہر ثابت ہو رہی ہے۔[2] | “ |
صبوحی صاحب نے ریڈیو کے لیے تقریروں کے علاوہ ڈرامے، فیچر، عورتوں کے پروگرام،بچوں کی کہانیاں اور بچوں کے ڈرامے بھی لکھے ہیں جن کا سلسلہ پاکستان پہنچنے کے بعد تک جاری رہا۔ جولائی 1940ء میں رسالہ ساقی میں شائع شدہ افسانہ شوہر پرست بیوی پر اشرف صبوحی کو انعام ملا۔ اس کے بعد 1946ء میں دہلی کے ادبی رسالہمشہور کے افسانہ نمبر میں جو انعامی مقابلہ ہو اتو افسانہ نگاری میں انھیں اول نمبر دیا گیا۔ جب بابائے اُردو مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کا دفتر دہلی لائے تو انھوں نے صبوحی صاحب کو اپنے ادارے میں چھپنے والے مسودات نظر ثانی کے لیے بھیجنے شروع کردیے اور ان کی سب سے زیادہ مشہور کتاب دلی کی چند عجیب ہستیاں شائع کی۔ پنجاب کے محکمہ تعلیم نے نویں اور دسویں جماعت کے نصاب میں صبوحی صاحب کا ایک خاکہ مرزا سکندر بخت شامل کیا تھا۔ اسی طرح کراچی کے محکمہ تعلیم نے ایف اے کے کورس کے لیے ان کا دوسرا خاکہ دیوانی آپا شامل کیا تھا۔ یہ کردار نگاری کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔[2]
پاکستان آمد
ترمیمتقسیم ہند کے بعد اشرف صبوحی پاکستان آ گئے اور لاہور میں مقیم ہوئے۔ یہاں پر بھی وہ محکمۂ ڈاک میں ہی کام کرتے رہے اور مدت ملازمت پوری ہو نے پر یہیں سے وظیفہ یاب ہو گئے۔ صبوحی صاحب کے حکیم محمد سعید سے بہت دوستانہ تعلقات تھے۔ چنانچہ ریٹائر ہونے کے بعد حکیم محمد سعید نے انھیں ہمدرد فاؤنڈیشن میں افسر تقریبات مقرر کر دیا جہاں وہ شامِ ہمدرد کا اہتما م کیا کرتے تھے۔ آخرمیں اشرف صبوحی لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے۔ چونکہ لاہور میں ان کا قیام زیادہ رہا تھا اس لیے انھیں لاہور چھوڑنے کا بڑا دکھ تھا۔[2]
تصانیف
ترمیماشرف صبوحی صاحب کی تصانیف اور تراجم میں جو کتابیں چھپ چکی ہیں ان میں مندرجہ ذیل کتابیں شامل ہیں :
- دلی کی چند عجیب ہستیاں
- غبار کا رواں (خاکہ)
- جھروکے (افسانے اور خاکہ)
- بغداد کے جوہری (ناول، انگریزی سے ماخوذ)
- بن باسی دیوی (وحشیانہ زندگی کی انسانی حالت، پر لطف پیرائے میں انگریزی سے ماخوذ)
- دھوپ چھاؤں (انگریزی ناول کا ترجمہ)
- ننگی دھرتی (انگریزی ناول کاترجمہ)
- موصل کے سوداگر (انگریزی سے ترجمہ کہانی)
- بزم آخر (مصنف فیاض مرحوم، مرتبہ اشرف صبوحی) جسے مشکل الفاظ کی فرہنگ کے ساتھ مجلس ترقی ادب پاکستان نے شائع کیا۔
بن باسی دیوی اور بغداد کے جوہری پر دیباچے مشہور عالم پروفیسر مرزا محمد سعید صاحب نے لکھے تھے۔ صبوحی صاحب نے لاہور میں چند امریکی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا جو دس بارہ سال بعد وائس آف امریکا سے نشر ہوا۔ اشرف صبوحی صاحب نے اپنے پیچھے علم و ادب کا ایسا خزانہ چھوڑا ہے جس سے آنے والی نسلیں ہمیشہ استفادہ کرتی رہیں گی۔[2]
وفات
ترمیماردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی 22 اپریل، 1990ء کو کراچی میں دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کا مزار کراچی میں یاسین آباد گلشن اقبال کے قبرستان میں واقع ہے۔[1][2]