کام جاری

البصیرہ ٹرسٹ
صنعتٹرسٹ
قیامجنوری 1، 2005؛ 19 سال قبل (2005-01-01) اسلام آباد, پاکستان
بانیسید ثاقب اکبر
صدر دفتراسلام آباد، پاکستان
مالکسید ثاقب اکبر
ویب سائٹhttp://albasirah.com/

تعارف ترمیم

وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مرکز اسلام آباد میں اسلام کی عالمگیر انسانی اخوت کی تعلیمات اور دینی ،تعلیمی و فلاحی پروگرام کی بنیاد پر قائم البصیرہ ٹرسٹ ایک ایسامنفرد ادارہ ہے جس کی ضرورت آج اس سرزمین کا ہر اہل فکر و نظر شدت سے محسوس کررہا ہے۔آج اسلام کی آفاقی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔پیارے وطن پاکستان کی بقا استحکام کو خطرات لاحق ہیں۔جس سر زمین کو الٰہی ہدایت کی روشنی میں قوت اخوت عوام کا مظہر اور نمونہ ہونا چاہیے تھا اس پر تعصب ،فرقہ واریت،کم نظری،شخصیت پرستی، جمود اور اغیارسے مرعوبیت کے سیاہ بادل ہر طرف چھائے ہوئے ہیں۔ایسے میں اس امر کی شدید اور فوری ضروری ہے کہ اسلام کی آفاقی تعلیمات کے فروغ،پاکستان اور عالم اسلام کی حقیقی مشکلات کے مطالعہ، تحقیق اور ان کے حل کے لیے عالمانہ اور محققانہ تبادلہ خیال اور ہم آہنگی کے لیے جدوجہد کا بصیرانہ آغاز کیا جائے۔اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے قدیم و جدید علوم سے وابستہ چند افراد نے جو ان مقاصد و نظریات پر ایمان رکھتے ہیں،ان کے عملی تشکل کے لیے اللہ کی نصرت و توفیق سے البصیرہ کی بنیاد رکھی ہے۔البصیرہ ٹرسٹ 2005ء میں قائم کیا گیا۔ جس کے تحت مختلف شعبہ جات مصروف عمل ہیں۔اس وقت ڈاکٹر علی عباس نقوی ادارے کے چیئرمین ہیں۔ آپ قم اور تہران یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔

نظریاتی اساس ترمیم

البصیرہ ٹرسٹ کی نظریاتی اساس کے بارے بیان کرتے ہوئے صدر نشین البصیرہ تحریر کرتے ہیں:

ہماری رائے میں آج کے انسان کی بنیادی مشکلاللہ تعالیٰ اور جہان ماورائے مادہ سے اس کا عدم تعلق یا تعلق کی کمزوری ہے۔ ضرورت ہے کہ اس تعلق کو قائم کیا جائے اور اس کی تقویت کی جائے۔ وہ عناصر جو اس تعلق میں حائل ہیں وہ اسے کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں ان کے خلاف جہاد آج کا کارپیغمبری ہے۔ مذہبی،فرقہ وارانہ،لسانی،نسلی اورعلاقائی تعصب ہماری رائے میں ارتباط با خدا میں حائل عناصر میں سے ہیں۔ انبیا کے نام لیوائوں نے ان کی تعلیمات کی بنیادوں اور مقاصد کو نظر انداز کر دیا ہے اور ان توحید کے عظیم علمبرداروں کو بت بنا لیا ہے۔

مذہب زیادہ تر ذاتی، شخصی اور انفرادی مسئلہ بن گیا ہے اور اجتماعی زندگی سے نکل گیا ہے۔ اس امر کا حقیقی شعور مذہب کے علمبرداروں کو بھی کم ہے۔ دین کی آفاقی قدروں کو اجتماع پر شعوری طریقے سے حاکم کرنے کی اجتماعی جدوجہد کی شدت سے ضرورت ہے۔ قومی ریاستوں کا موجودہ عالمی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے شیطانی مفادات کے لیے قائم کیا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اللہ کے بندوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کی سرزمینوں کو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ انھوں نے ان پر اپنے مفادات کے محافظ حکمران مسلط کیے ہیں اورخود پھر اجتماعی تشکل اختیار کرنے کی طرف گامزن ہیں تاکہ اپنی اجتماعی قوت سے چھوٹی اور کمزور قومی ریاستوں کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ ہندوستان کی تقسیم انگریزوں نے اس طرح سے کی ہے کہ اس خطے کے انسان مسلسل اس کے منفی اثرات کا شکارہیں۔

ہماری رائے میں آج کے انسان کی بنیادی مشکلاللہ تعالیٰ اور جہان ماورائے مادہ سے اس کا عدم تعلق یا تعلق کی کمزوری ہے۔ ضرورت ہے کہ اس تعلق کو قائم کیا جائے اور اس کی تقویت کی جائے۔ وہ عناصر جو اس تعلق میں حائل ہیں وہ اسے کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں ان کے خلاف جہاد آج کا کارپیغمبری ہے۔ مذہبی ،فرقہ وارانہ، لسانی، نسلی اور علاقائی تعصب ہماری رائے میں ارتباط باخدا میں حائل عناصر میں سے ہیں۔ انبیا کے نام لیواؤں نے ان کی تعلیمات کی بنیادوں اور مقاصد کو نظر انداز کر دیا ہے اور ان توحید کے عظیم علمبرداروں کو بت بنا لیا ہے۔ مذہب زیادہ تر ذاتی، شخصی اور انفرادی مسئلہ بن گیا ہے اور اجتماعی زندگی سے نکل گیا ہے۔ اس امر کا حقیقی شعور مذہب کے علمبرداروں کو بھی کم ہے۔ دین کی آفاقی قدروں کو اجتماع پر شعوری طریقے سے حاکم کرنے کی اجتماعی جدوجہد کی شدت سے ضرورت ہے۔ قومی ریاستوں کا موجودہ عالمی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے شیطانی مفادات کے لیے قائم کیا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اللہ کے بندوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کی سرزمینوںکو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ انھوں نے ان پر اپنے مفادات کے محافظ حکمران مسلط کیے ہیں اورخود پھر اجتماعی تشکل اختیار کرنے کی طرف گامزن ہیں تاکہ اپنی اجتماعی قوت سے چھوٹی اور کمزور قومی ریاستوں کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔

ہندوستان کی تقسیم انگریزوں نے اس طرح سے کی ہے کہ اس خطے کے انسان مسلسل اس کے منفی اثرات کا شکارہیں۔ ہمارے مطالعے کے مطابق تمام ادیان کی بنیادی کتب میں بہت سے حقائق اور انبیاء کی تعلیمات کابہت سا حصہ موجود ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کے پاس موجود سرمایہ ان سب میں سے محفوظ تر ہے۔ خصوصاً قرآن حکیم کا کسی انسانی دست برد سے محفوظ رہ کر ہم تک پہنچ جانا انسانی تاریخ کا عظیم معجزہ ہے اور پروردگار کا اس زمین کے باسیوں پر خصوصی فضل و احسان ہے۔ مسلمانوں میں بہت سے فرق کے باوجود ایسے عقیدتی اور عملی مشترکات موجود ہیں جو انھیں ایک امت تشکیل دینے کے لیے کافی ہیں۔ شاید طاغوتی طاقتوں کو اسی امر کا ادراک ہے جس کے باعث آج اللہ کی اس زمین پر ان کی بیشتر ابلیسی سازشوں کا شکار یہی گئے گذرے مسلمان ہیں اور سب سے زیادہ ظلم کا شکار آج کے مسلمان ہی ہیں۔برصغیر کی تقسیم کے بارے میں درستی و نادرستی کی بحث سے قطع نظر معروضی عالمی حالات کے تناظر میں ہم پاکستان کے وجود اور استحکام کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔نظریات اور عقائد تو آفاقی ہی ہونے چاہئیں لیکن اس امر سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ ہر انسان اس دنیا میں زمان و مکان کی قید میں ہے۔ تاریخ کے ایک خاص دور اور اس زمین کے ایک خاص علاقے اسی طرح خاص رنگ، نسل اور زبان سے نیز خاص حالات سے اس کا تعلق جبری ہوتا ہے لیکن انسان کے ارادے کی قوت اسے فطری طور پر دعوت دیتی ہے کہ تاریخ کا رخ اپنی مرضی کی سمت میں موڑنے کی جدوجہد کرے۔ معروضی حالات جہاں قوموں میں فرق رکھتے ہیں وہاں ایک ہی دور کے افراد کے لیے بسا بلکہ شاید ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے باعث حکمت عملی کے تقاضے بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔[1]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ albasirah.com (Error: unknown archive URL)

اغراض و مقاصد ترمیم

البصیرہ ٹرسٹ کے اغراض و مقاصد کو صدر نشین البصیرہ یوں بیان کرتے ہیں

1. اسلام کی آفاقی تعلیمات کا فروغ اور اشاعت۔

2. ہر قسم کے تعصب، فرقہ واریت، کم نظری، شخصیت پرستی، جمود اور منفی مرعوبیت کا مقابلہ۔

3. انسانوں کے لیے سعادت بخش دین کے انسانی پیغام کا احیا۔

4. دور حاضر میں نوع انسانی کو درپیش بنیادی مسائل اور چیلنجوں کا ادراک اور ان کے حل کے مطالعاتی اور فکری روش کا فروغ۔

5. پاکستان کی مشکلات و مسائل کا مطالعہ اور ان کے علمی و تحقیقی حل کی جدوجہد۔

6. ہر قسم کے فلاحی کاموں کی انجام دہی اور جو افراد یا ادارے یہ کام انجم دے رہے ہوں ان کے ساتھ دست تعاون بڑھانا۔

اس ادارے کے پروگرام میں شامل ہے کہ:

اسلامی وطن پاکستان کی بقا و استحکام کے لیے درکار لٹریچر فراہم کیا جائے۔

اسلام کے آسمانی و الٰہی پیغام و نظام کے ماننے والوں کے مابین ٹھوس، آگاہانہ اور باغور ہم آہنگی اور اتحاد پیدا کیا جائے۔

اہل تحقیق و جستجو کی علمی و تحقیقی امداد کی جائے۔

جدید و قدیم علوم اور ان کے ماہرین کے مابین ہم آہنگی اور مطالعات و تحقیقات کا تبادلہ کیا جائے۔

اہل علم و دانش کے درمیان ایک علمی ارتباط پیدا کیا جائے۔[2]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ albasirah.com (Error: unknown archive URL)

محققین و اراکین البصیرہ ترمیم

البصیرہ سے کئی ایک محققین ، لکھاری اور اہل علم متمسک رہے تاہم اس وقت موجود لکھاری اور محققین حسب ذیل ہیں:

  • سید ثاقب اکبر(صدرنشین البصیرہ)
  • علامہ سید علی عباس نقوی (نائب صدر نشین البصیرہ)
  • سید نثار علی ترمذی
  • مفتی امجد عباس
  • سید اسد عباس

رفقائے البصیرہ ترمیم

یہ اراکین اگرچہ البصیرہ میں کل وقتی طور پر تشریف نہیں لاتے تاہم البصیرہ کی ترقی، پیش رفت میں ان محققین کا کردار نہایت اہم ہے۔

البصیرہ کے شعبہ جات ترمیم

اخوت ریسرچ اکادمی ترمیم

اخوت ریسرچ اکادمی البصیرہ کا شعبہ تحقیق ہے جس کے تحت درج ذیل موضوعات پر علمی کام کیا جاتا ہے۔ اس شعبہ کے تحت محققین ، مترجمین، لکھاریوں نیز تجزیہ کاروں کی تربیت کا سلسلہ بھی مسلسل جاری رہتا ہے۔ اس شعبے کے تیار کردہ افراد مختلف علمی اداروں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

  • قرآنیات
  • سیرت رسول ؐ
  • علم حدیث
  • سیرت اہل بیتؑ
  • مہدویت
  • تاریخ انبیا و تاریخ عالم
  • عقائد و جدید کلامی مباحث
  • فقہی ، قانونی اور سماجی مباحث
  • مذاہب اسلامی ، مختلف تہذیبوں اور ادیان کا مطالعہ
  • تصوف وعرفان
  • اقبالیات
  • پاکستانیات
  • اتحاد امت
  • بین المسالک و بین الادیان ہم آہنگی
  • حمایت محرومین و مستضعفین
  • مسئلہ فلسطین
  • مسئلہ کشمیر
  • عالمی حالات کا تجزیہ و مطالعہ

ان موضوعات پر البصیرہ کے لکھاریوں کے قلم سے کئی کتب اور شائع شدہ مقالات جاری ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں مختلف موضوعات کے ماہرین اس سلسلے میں لیکچرز اور تجزیات بھی پیش کرتے ہیں۔

ماہنامہ پیام ترمیم

البصیرہ کے تحت مختلف ادوار میں جرائد کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا جن میں 2005ء سے 2007ء تک

سہ ماہی تقریب المذاہب، ماہنامہ معصوم شائع ہوتے رہے۔ ماہنامہ پیام کی اشاعت کا سلسلہ 1997ء میں شروع ہوا۔

یہ مجلہ ملک کے علمی و ادبی حلقوں میں ایک خاص شناخت کا حامل ہے ۔ اس مجلے کو علمی ادبی خدمات کے سلسلے میں

متعدد بار اعزازی اسناد اور ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ماہنامہ پیام کے متنوع موضوعات میں خالص علمی و تحقیقی مقالات

سے لے کر کلام جدید ، عالم اسلام کے مسائل ، پاکستان کے داخلی مسائل نیز اتحاد بین المسلمین جیسے موضوعات شامل ہیں۔

ماہنامہ پیام کئی ایک خصوصی نمبر بھی شائع کر چکا ہے۔چند ایک خصوصی نمبر حسب ذیل ہیں:

رسول اکرم ؐ اور مستشرقین نمبر نومبر دسمبر 2016ء


البصیرہ پبلیکیشن ترمیم

البصیرہ کا یہ شعبہ کتب کی اشاعت سے متعلق ہے اس شعبے کے تحت ادارے کی تمام کتب شائع ہوئیں علاوہ ازیں یہ شعبہ دیگر لکھاریوں کی کتابوں کی اصلاح ، پروف اور اشاعت کی سہولیات بھی مہیا کرتا ہے ۔ اس شعبے کے تحت شائع ہونے والی کتب کی فہرست حسب ذیل ہے:

مجلس بصیرت ترمیم

البصیرہ کے شعبہ تحقیق کے تحت علمی محافل کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اسی طرح کی ایک فکری نشست مجلس بصیرت کے عنوان سے البصیرہ کے تحت 2018ء سے جاری ہے جس میں نوجوان نسل کے تعلیم یافتہ نوجوان حریت فکر کے ساتھ اپنی تازہ افکار اور سوالات کو اہل علم کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ان محافل میں آزادانہ انداز سے موضوعات پر بات کرکے کسی متفقہ راہ حل پر پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے اگر متفقہ راہ حل کا حاصل کرنا لازم بھی نہیں۔ اس سلسلے کی مجالس لاہور، اسلام آباد، ملتان اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی منعقد کی جاچکی ہیں۔ کئی دیگر اداروں نے بھی ایسی ہی علمی محافل کا آغاز کیا ہے۔مجلس کے تحت ہونے والے مذاکروں میں سے چند کے عنوانات حسب ذیل ہیں:

شعبه خواتین ترمیم

فائل:Albasirah Women.png
البصیرہ شعبہ خواتین

خواتین جو معاشرے کا اہم جزو ہیں کو فراموش کرکے کوئی بھی مثبت تبدیلی لانا ممکن نہیں ۔

البصیرہ نے اس سلسلے میں اپنے شعبہ خواتین کا آغاز بہت پہلے سے کیا اس شعبے کی

چیئرپرسن محترمہ نبیلہ ثاقب تھیں۔نبیلہ ثاقب ماہنامہ پیام اور ماہنامہ معصوم کی مدیر بھی رہیں۔

اس شعبے کے تحت خواتین کے بہت سے سیمینار اور پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔

اس سلسلے کا سالانہ پروگرام حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے یوم ولادت کے عنوان سے کیا جاتا ہے۔

البصیرہ کا شعبہ خواتین دیگر تنظیموں اور اداروں کے شعبہ خواتین کے ہمراہ مل کر کام کرتا ہے ۔

اس شعبے کے تحت محافل میلاد اور نعت کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔اس وقت اس شعبہ کی

مسئول محترمہ ہما مرتضی ہیں جبکہ دیگر معاونین میں محترمہ عائشہ تنزیل ، محترمہ طاہرہ زیدی

قابل ذکر ہیں ۔ اس شعبہ نے خواتین کے متعدد پروگرام کروائے۔

عملی خدمات ترمیم

البصیرہ کے اراکین بالخصوص صدر نشین البصیرہ کی جانب سے علمی کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں بھی خدمات سر انجام دی جاتی ہیں۔ بالخصوص اتحاد امت کے حوالے سے جناب سید ثاقب اکبر کی خدمات کو پاکستان بھر میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ پاکستان کے دینی مسالک پر موجود مختلف مسالک کے علما کی تعریفی و توثیقی اسناد اس کا ثبوت ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ سید ثاقب اکبر کے ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے احیاء میں کردار کو سراہتے ہوئے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے لکھا:

برادرم ثاقب اکبر صاحب حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل مستند عالم دین ہیں لیکن اپنے آپ کو کسی مذہبی فرقے سے منسلک کرنے کی بجائے امت کے اتحاد کے لیے کوشاں ہیں۔[1]

قاضی حسین احمد اپنی تقریظ میں مزید لکھتے ہیں:

ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم اسی لیے وجود میں لایا گیا ہے ۔ اس کونسل کا احیاء کرنے میں برادرم ثاقب اکبر صاحب کا اہم رول ہے۔ اس وقت وہ ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل ہیں اور امت کے اتحاد کے لیے ہمہ تن کوشاں ہیں۔[1]

کانفرنسیں سیمینار ترمیم

البصیرہ کے زیر اہتمام خصوصی مناسبتوں پر کانفرنسوں اور سیمینارز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ البصیرہ دیگر جماعتوں کے ساتھ اشتراک میں بھی کام کرتا ہے اس سلسلے میں اس ادارے نے کئی ایک عالمی کانفرنسوں کا بھی انعقاد کیا۔ دیگر جماعتوں بالخصوص ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے ہمراہ البصیرہ نے کئی ایک عالمی اتحاد امت کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ خود البصیرہ کے پلیٹ فارم سے منعقدہ کانفرنسوں میں سے درج ذیل اہم ہیں:

رسول اکرم ؐ پیغام اتحاد امت سیمینار لاہور، 2010

اسلامی بیداری اور عالم اسلام کی مشکلات کا حل اسلام آباد، 2011

احیائے فکر دینی میں علامہ اقبال اور استاد مرتضی مطہری کا کردار، اسلام آباد، 2011ء

یوم آزادی پاکستان و یوم القدس سیمینار، اسلام آباد، 2012ء

عالم اسلام روشن مستقبل کی نوید ، پشاور ، 2012

اجتہاد میں زمان و مکان کی حیثیت ، اسلام آباد، 2012ء

صوفیا اور مقام اہل بیت کانفرنس ، اسلام آباد، 2014ء

عصر حاضر میں اقبال کے تصور اجتہاد کی اہمیت و معنویت ، اسلام آباد، 2016ء

ایف اے ٹی ایف کی پاکستان پر پابندیوں کے محرکات اور اثرات ، اسلام آباد، 2018ء

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب ثاقب اکبر (۲۰۱۴)۔ امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی۔ اسلام آباد: البصیرہ پبلیکیشنز۔ صفحہ: ۴ 

مزید دیکھیے ترمیم