الفیل
اعداد و شمار
عددِ سورت105
عددِ پارہ30
تعداد آیات5
گذشتہالھمزہ
آئندہسورہ قریش

نام

پہلی ہی آیت کے لفظ اصحٰب الفیل سے ماخوذ ہے۔

زمانۂ نزول

یہ سورت بالاتفاق مکی ہے اور اس کے تاریخی پس منظر کو اگر نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا نزول مکۂ معظمہ کے بھی ابتدائی دور میں ہوا ہوگا۔

تاریخی پس منظر

نجران میں یمن کے یہودی فرمانروا ذونواس نے پیروانِ مسیح علیہ السلام پر جو ظلم کیا تھا اس کا بدلہ لینے کے لیے حبش کی مسیحی سلطنت نے یمن پر حملہ کر کے حمیری حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا اور 525ء میں اس پورے علاقے پر حبشی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ یہ ساری کارروائی دراصل قسطنطنیہ کی رومی سلطنت اور حبش کی حکومت کے باہم تعاون سے ہوئی تھی، کیونکہ حبشیوں کے پاس اس زمانے میں کوئی قابل ذکر بحری بیڑا نہ تھا۔ بیڑا رومیوں نے فراہم کیا اور حبش نے اپنی 70 ہزار فوج اسی کے ذریعے سے یمن کے ساحل پر اتاری۔ آگے کے معاملات سمجھنے کے لیے یہ بات ابتدا ہی میں جان لینی چاہیے کہ یہ سب کچھ مذہبی جذبے سے نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے معاشی اور سیاسی اغراض بھی کام کر رہی تھیں، بلکہ غالباً وہی اس کی اصل محرک تھیں اور مسیحی مظلومین کے خون کا انتقام ایک بہانے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ رومی سلطنت جب سے مصر و شام پر قابض ہوئی تھی اسی وقت سے اس کی یہ کوشش تھی کہ مشرقی افریقہ، ہندوستان، انڈونیشیا وغیرہ ممالک اور رومی مقبوضات کے درمیان جس تجارت پر عرب صدیوں سے قابض چلے آ رہے تھے، اسے عربوں کے قبضے سے نکال کر وہ خود اپنے قبضے میں لے لے، تاکہ اس کے منافع پورے کے پورے اسی کو حاصل ہوں اور عرب تاجروں کا واسطہ درمیان سے ہٹ جائے۔ اس مقصد کے لیے 24 یا 25 قبل مسیح میں قیصر آگسٹس نے ایک بڑی فوج رومی جنرل ایلیس گالون (Aelius Gallus) کی قیادت میں عرب کے مغربی ساحل پر اتار دی تھی تاکہ وہ اس بحری راستے پر قابض ہو جائے جو جنوبی عرب سے شام کی طرف جاتا تھا۔ لیکن عرب کے شدید جغرافیائی حالات نے اس مہم کو ناکام کر دیا۔ اس کے بعد رومی اپنا جنگی بیڑا بحیرہ احمر میں لے آئے اور انھوں نے عربوں کی اس تجارت کو ختم کر دیا جو وہ سمندر کے راستے کرتے تھے اور صرف بری راستہ ان کے لیے باقی رہ گیا۔ اسی بحری راستے کو قبضے میں لینے کے لیے انھوں نے حبش کی مسیحی حکومت سے گٹھ جوڑ کیا اور بحری بیڑی سے اس کی مدد کر کے اس کو یمن پر قابض کرا دیا۔ یمن پر جو حبشی فوج حملہ آور ہوئی تھی اس کے متعلق عرب مورخین کے بیانات مختلف ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ وہ دو امیروں کی قیادت میں تھی، ایک اریاط دوسرا ابرہہ اور محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ اس فوج کا امیر اریاط تھا اور ابرہہ اس میں شامل تھا۔ پھر دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ابرہہ اور اریاط باہم لڑ پڑے، مقابلے میں اریاط مارا گیا، ابرہہ ملک پر قابض ہو گیا اور پھر اس نے شاہ حبش کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ اسی کو یمن پر اپنا نائب مقرر کرے۔ اس کے برعکس یونانی اور سریانی مؤرخین کا خیال ہے کہ فتح یمن کے بعد جب حبشیوں نے مزاحمت کرنے والے یمنی سرداروں کو ایک ایک کر کے قتل کرنا شروع کر دیا تو ان میں سے ایک سردار السمیفع اشوع (جسے یونانی مورخین Esymphaeus لکھتے ہیں) نے حبشیوں کی اطاعت قبول کر کے اور جزیہ ادا کرنے کا عہد کر کے شاہ حبش سے یمن کی گورنری کا پروانہ حاصل کر لیا لیکن حبشی فوج نے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور ابرہہ کو اس کی جگہ گورنر بنا دیا۔ یہ شخص حبش کی بندرگاہ ادولیس کے ایک یونانی تاجر کا غلام تھا جو اپنی ہوشیاری سے یمن پر قبضہ کرنے والی حبشی فوج میں بڑا اثر و رسوخ حاصل کر گیا تھا۔ شاہ حبش نے اس کی سرکوبی کے لیے جو فوجیں بھیجیں وہ یا اس سے مل گئیں یا اس نے ان کو شکست دے دی۔ آخر کار شاہ حبش کے مرنے کے بعد اس کے جانشیں نے اس کو یمن پر اپنا نائب السلطنت تسلیم کر لیا (یونانی مؤرخین اس کا نام ابرامس Abrames اور سریاری مورخین ابراہام Abraham لکھتے ہیں۔ ابرہہ غالباً اسی کا حبشی تلفظ ہے کیونکہ عربی میں اس کا تلفظ ابراہیم ہے) یہ شخص رفتہ رفتہ یمن کا خود مختار بادشاہ بن گیا، مگر برائے نام اس نے شاہ حبش کی بالادستی تسلیم کر رکھی تھی اور آپ آپ کو مفوض الملک (نائبِ شاہ) لکھتا تھا۔ اس نے جو اثر و رسوخ حاصل کر لیا تھا اس کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ جب 543ء میں وہ سد مارب کی مرمت سے فارغ ہوا تو اس نے ایک عظیم الشان جشن منایا جس میں قیصر روم، شاہ ایران، شاہ حیرہ اور شاہ غسان کے سفرا شریک ہوئے۔ اس کا مفصل تذکرہ اس کتبے میں درج ہے جو ابرھہ نے سد مارب پر لگایا تھا۔ یہ کتبہ آج بھی موجود ہے اور گلیزر (Glaser) نے اس کو نقل کیا ہے۔ حوالہ: مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورۂ سبا، حاشیہ 37) یمن میں پوری طرح اپنا اقتدار مضبوط کر لینے کے بعد ابرھہ نے اس مقصد کے لیے کام شروع کر دیا جو اس مہم کی ابتدا سے رومی سلطنت اور اس کے حلیف حبشی مسیحیوں کے پیش نظر تھا، یعنی ایک طرف عرب میں مسیحیت پھیلانا اور دوسری طرف اس تجارت پر قبضہ کرنا جو بلادِ مشرق اور رومی مقبوضات کے درمیان عربوں کے ذریعے ہوتی تھی۔ یہ ضرورت اس بنا پر اور بڑھ گئی تھی کہ ایران کی ساسانی سلطنت کے ساتھ روم کی کشمکشِ اقتدار نے بلادِ مشرق سے رومی تجارت کے دوسرے تمام راستے بند کر دیے تھے۔ ابرھہ نے اس مقصد کے لیے یمن کے دار السلطنت صنعاء میں ایک عظیم الشان کلیسا تعمیر کرایا جس کا ذکر عرب مورخین نے اَلقَلِیس یا اَلقُلَیس یا اَلقُلَّیس کے نام سے کیا ہے (یہ یونانی لفظ Ekklesia کا معرب ہے اور اردو کا لفظ کلیسا بھی اسی یونانی لفظ سے ماخوذ ہے) محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ اس کام کی تکمیل کے بعد اس نے شاہ حبش کو لکھا کہ میں عربوں کا حج کعبہ سے کلیسا کی طرف موڑے بغیر نہ رہوں گا ( یمن پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے بعد مسیحیوں کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ کعبہ کے مقابلے میں ایک دوسرا کعبہ بنائیں اور عرب میں اس کی مرکزیت قائم کر دیں۔ انھوں نے نجران میں بھی ایک کعبہ بنایا تھا) ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اس نے یمن میں علی الاعلان اپنے اس ارادے کا اظہار کیا اور اس کی منادی کرادی۔ اس کی اس حرکت کا مقصد ہمارے نزدیک یہ تھا کہ عربوں کو غصہ دلائے تاکہ وہ کوئی ایسی کارروائی کریں جس سے اس کو مکہ پر حملہ کرنے اور کعبے کو منہدم کر دینے کا بہانہ مل جائے۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کے اس اعلان پر غضبناک ہو کر ایک عرب سے کسی نہ کسی طرح کلیسا میں گھس کر رفع حاجت کر ڈالی۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ فعل ایک قریشی نے کیا تھا اور مقاتل بن سلیمان کی روایت ہے کہ قریش کے بعض نوجوانوں نے جا کر اس کلیسا میں آگ لگا دی تھی۔ ان میں سے کوئی واقعہ بھی اگر پیش آیا ہو تو کوئی قابل تعجب امر نہیں ہے کیونکہ ابرھہ کا یہ اعلان یقیناً سخت اشتعال انگیز تھا اور قدیم جاہلیت کے دور میں اس پر کسی عرب یا قریشی کا یا چند قریشی نوجوانوں کا مشتعل ہو کر کلیسا کو گندا کرنا یا اس میں آگ لگا دینا کوئی ناقابل فہم بات نہیں تھی۔ لیکن یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ ابرھہ نے خود اپنے کسی آدمی سے خفیہ طور پر ایسی کوئی حرکت کرائی ہو تاکہ اسے مکہ پر چڑھائی کرنے کا بہانہ مل جائے اور اس طرح وہ قریش کو تباہ اور تمام اہل عرب کو مرعوب کر کے اپنے دونوں مقاصد حاصل کر لے۔ بہرحال دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو، جب ابرھہ کے پاس یہ خبر پہنچی کہ کعبے کے معتقدین نے اس کلیسا کی یہ توہین کی ہے تو اس نے قسم کھائی کہ میں اس وقت تک چین نہ لوں گا جب تک کعبے کو ڈھا نہ دوں۔ اس کے بعد وہ 570ء یا 571ء میں 60 ہزار فوجی اور 13 ہاتھی (اور بروایت بعض 9 ہاتھی) لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں پہلے یمن کے ایک سردار ذونفر نے عربوں کا ایک لشکر جمع کر کے اس کی مزاحمت کی، مگر وہ شکست کھا کر گرفتار ہو گیا۔ پھر خثعم کے علاقے میں ایک عرب سردار نفیل بن حبیب خثعمی اپنے قبیلے کو لے کر مقابلے پر آیا، مگر وہ بھی شکست کھا کر گرفتار ہو گیا اور اس نے اپنی جان بچانے کے لیے بدرقے کی خدمت انجام دینا قبول کر لیا۔ طائف کے قریب پہنچا تو بنی ثقیف نے محسوس کیا کہ اتنی بڑی طاقت کا وہ مقابلہ نہ کر سکیں گے اور ان کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں وہ ان کے معبود لات کا مندر بھی تباہ نہ کر دے۔ چنانچہ ان کا سردار مسعود ایک وفد لے کر ابرھہ سے ملا اور اس نے کہا کہ ہمارا بت کدہ وہ معبد نہیں ہے جسے آپ ڈھانے آئے ہیں، وہ تو مکہ میں ہے، اس لیے آپ ہمارے معبد کو چھوڑ دیں، ہم مکہ کا راستہ بتانے کے لیے آپ کو بدرقہ فراہم کیے دیتے ہیں۔ ابرھہ نے یہ بات قبول کرلی اور بنی ثقیف نے ابو رغال نامی ایک آدمی کو اس کے ساتھ کر دیا۔ جب مکہ تین کوس رہ گیا تو المغمس نامی مقام پر پہنچ کر ابو رغال مر گیا اور عرب مدتوں تک اس کی قبر پر سنگ باری کرتے رہے۔ بنی ثقیف کو بھی وہ سالہا سال تک طعنے دیتے رہے کہ انھوں نے لات کے مندر کو بچانے کے لیے بیت اللہ پر حملہ کرنے والوں سے تعاون کیا۔ محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ المغمس سے ابرھہ نے اپنے مقدمۃ الجیش کو آگے بڑھایا اور وہ اہل تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی لوٹ لے گیا جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا عبد المطلب کے بھی دو سو اونٹ تھے۔ اس کے بعد اس نے اپنے ایک ایلچی کو مکہ بھیجا اور اس کے ذریعے اہل مکہ کو پیغام دیا کہ میں تم سے لڑنے نہیں آیا ہوں بلکہ اس گھر (کعبہ) کو ڈھانے آیا ہوں۔ اگر تم نہ لڑو تو میں تمھاری جان و مال سے کوئی تعرض نہ کروں گا۔ نیز اس نے اپنے ایلچی کو ہدایت کی کہ اہل مکہ اگر بات کرنا چاہیں تو ان کے سردار کو میرے پاس لے آنا۔ مکے کے سب سے بڑے سردار اس وقت عبد المطلب تھے۔ ایلچی نے ان سے مل کر ابرھہ کا پیغام پہنچایا۔ انھوں نے کہا کہ ہم میں ابرھہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ یہ اللہ کا گھر ہے، وہ چاہے گا تو اپنے گھر کو بچا لے گا۔ ایلچي نے کہا کہ آپ میرے ساتھ ابرھہ کے پاس چلیں۔ وہ اس پر راضی ہو گئے اور اس کے ساتھ چلے گئے۔ وہ اس قدر وجیہہ اور شاندار شخص تھے کہ ان کو دیکھ کر ابرھہ بہت متاثر ہوا اور اپنے تخت سے اتر کر ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ پھر پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میرے جو اونٹ پکڑ لیے گئے ہیں وہ مجھے واپس دے دیے جائیں۔ ابرھہ نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر تو میں بہت متاثر ہوا تھا، مگر آپ کی اس بات نے آپ کو میری نظر سے گرا دیا کہ آپ اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ گھر جو آپ کا اور آپ کے دین آبائی کا مرجع ہے۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔ انھوں نے کہا میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور انہی کے بارے میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں۔ رہایہ گھر، تو اس کا ایک رب ہے،وہ اس کی حفاظت خود کرے گا۔ ابرھہ نے جواب دیا وہ اس کو مجھ سے نہ بچا سکے گا۔ عبد المطلب نے کہا آپ جانیں اور وہ جانے۔ یہ کہہ کر وہ ابرھہ کے پاس سے اٹھ آئے اور اس نے ان کے اونٹ واپس کر دیے۔ ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت اس سے مختلف ہے۔ اس میں اونٹوں کے مطالبے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن مردویہ، حاکم، ابو نعیم اور بیہقی نے ان سے جو روایات نقل کی ہیں ان میں وہ بیان کرتے ہیں کہ جب ابرھہ الصِفاح کے مقام پر پہنچا (جو عرفات اور طائف کے پہاڑوں کے درمیان حدود حرم کے قریب واقع ہے) تو عبد المطلب خود اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ آپ کو یہاں تک آنے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ کو اگر کوئی چیز مطلوب تھی تو ہمیں کہلا بھیجتے، ہم خود لے کر آپ کے پاس حاضر ہو جاتے۔ اس نے کہاکہ میں نے سنا ہے یہ گھر امن کا گھر ہے، میں اس کا امن ختم کرنے آیا ہوں۔ عبد المطلب نے کہا کہ یہ اللہ کا گھر ہے، آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا ہے۔ ابرھہ نے جواب دیا ہم اسے منہدم کیے بغیر نہ پلٹیں گے۔ عبد المطلب نے کہا آپ جو کچھ چاہیں ہم سے لے لیں اور واپس چلے جائیں۔ مگر ابرھہ نے انکار کر دیا اور عبد المطلب کو پیچھے چھوڑ کر اپنے لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ دونوں روایتوں کو اس اختلاف کو اگر ہم اپنی جگہ رہنے دیں اور کسی کو کسی پر ترجیح نہ دیں، تو ان میں سے جو صورت بھی پیش آئی ہو، بہرحال یہ امر بالکل واضح ہے کہ مکہ اور اس کے آس پاس کے قبائل اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ اس لیے یہ بالکل قابل فہم بات ہے کہ قریش نے اس کی مزاحمت کی کوئی کوشش نہ کی۔ قریش کو لوگ تو جنگ احزاب کے موقع پر مشرک اور یہودی قبائل کو ساتھ ملا کر زیادہ سے زیادہ دس بارہ ہزار کی جمعیت فراہم کر سکے۔ وہ 60 ہزار فوج کا مقابلہ کیسے کرتے۔ محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ ابرھہ کی لشکر گاہ سے واپس آ کر عبد المطلب نے قریش والوں سے کہا کہ اپنے بال بچوں کو لے کر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو جائے۔ پھر وہ اور قریش کے چند سردار حرم میں حاضر ہوئے اور کعبے کے دروازے کا کنڈا پکڑ کر انھوں نے اللہ تعالٰی سے دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے گھر اور اس کے خادموں کی حفاظت فرماۃے۔ اس وقت خانۂ کعبہ میں 360 بت موجود تھے۔ مگر یہ لوگ اس نازک گھڑی میں ان سب کو بھول گئے اور انھوں نے صرف اللہ کے آگے دستِ سوال پھیلایا۔ ان کی جو دعائیں تاریخ میں منقول ہوئی ہیں ان میں اللہ واحد کے سوا کسی دوسرے کا نام تک نہیں پایا جاتا۔ ابن ہشام نے سیرت میں عبد المطلب کے جو اشعار نقل کیے ہیں وہ یہ ہیں : خدایا! بندہ اپنے گھر کی حفاظۃ کرتا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما کل ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر کے مقابلے میں غالب نہ آنے پائے اگر تو ان کو اور ہمارے قبیلے کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہتا ہے تو جو تو چاہے کر سُہَیلی نے روض الانف میں اس سلسلے کا یہ شعر بھی نقل کیا ہے صلیب کی آل اور اس کے پرستاروں کے مقابلے میں آج اپنی آل کی مدد فرما ابن جریر نے عبد المطلب کے یہ اشعار بھی نقل کی ہیں جو اس موقع پر دعا مانگتے ہوئے انھوں نے پڑھے تھے : اے میرے رب تیرے سوا میں اُن کا مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا۔ اے میرے رب ان سے اپنے حرم کی حفاظت کر اس گھر کا دشمن تیرا دشمن ہے۔ اپنی بساہ کو تباہ کرنے سے ان کو روک یہ دعائیں مانگ کر عبد المطلب اور ان کے ساتھی بھی پہاڑوں میں چلے گئے اور دوسرے روز ابرھہ مکے میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا، مگر اس کا خاص ہاتھی محمود، جو آگے آگے تھا، یکایک بیٹھ گیا۔ اس کو بہت تبر مارے گئے، آنکسوں سے کچوکے دیے گئے، یہاں تک کہ اسے زحمی کر دیا گیا، مگر وہ نہ ہلا، اسے جنوب، شمال، مشرق کی طرف موڑ کر چلانے کی کوشش کی جاتی تو وہ دوڑنے لگتا، مگر مکے کی طرف موڑا جاتا تو وہ فوراً بیٹھ جاتا اور کسی طرح آگے بڑھنے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔ اتنے میں پرندوں گے جھنڈ کے جھنڈ اپنی چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے آئے اور انھوں سے اس لشکر پر اُن سنگریزوں کی بارش کر دی۔ جس پر بھی یہ کنکر گرتے اس کا جسم گلنا شروع ہو جاتا۔ محمد بن اسحاق اور عکرمہ کی روایت ہے کہ یہ چیچک کا مرض تھا اور بلادِ عرب میں سب سے پہلے چیچک اسی سال دیکھی گئی۔ ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت ہے جس پر کوئی کنکری گرتی اسے سخت کھجلی لاحق ہو جاتی اور کھجاتے ہی اس کی جلد پھٹتی اور گوشت جھڑنا شروع ہو جاتا۔ ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی دوسری روایت یہ ہے کہ گوشت اور خون پانی کی طرح بہنے لگتا اور ہڈیاں نکل آتی تھیں۔ خود ابرھہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس کا اجسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر رہا تھا اور جہاں سے کوئی ٹکڑا گرتا وہاں سے پیپ اور لہو بہنے لگتا۔ افراتفری میں ان لوگوں نے یمن کی طرف بھاگنا شروع کیا۔ نفیل بن حبیب خثعمی کو، جسے یہ لوگ بدرقہ بنا کر بلادِ خثعم سے پکڑ لائے تھے، تلاش کر کے انھوں نے کہا کہ واپسی کاراستہ بتائے۔ مگر اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا این المفر و الا لہ الطالب – والاشرم المغلوب لیس الغالب اب بھاگنے کی جگہ کہاں ہے جبکہ خدا تعاقب کر رہا اور نکٹا (ابرھہ) مغلوب ہے، غالب نہیں ہے اس بھگدڑ میں جگہ جگہ یہ لوگ گر گر کر مرتے رہے۔ عطاء بن یسار کی روایت ہے کہ سب کے سب اسی وقت ہلاک نہیں ہو گئے بلکہ کچھ تو وہیں ہلاک ہوئے اور کچھ بھاگتے ہوئے راستے بھر گرتے چلے گئے۔ ابرھہ بھی بلاد خثعم پہنچ کر مرا۔ اللہ تعالٰی نے حبشیوں کو صرف یہی سزا دینے پر اکتفا نہ کیا بلکہ تین چار سال کے اندر یمن سے حبشی اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ فیل کے بعد یمن میں ان کی طاقت بالکل ٹوٹ گئی، جگہ جگہ یمنی سردار علم بغاوت لے کر اٹھ کھڑے ہوئے، پھر ایک یمنی سردار سیف بن ذی یزن نے شاہ ایران سے فوجی مدد طلب کر لی اور ایران کی صرف ایک ہزار فوج جو چھ جہازوں کے ساتھ آئی تھی، حبشی حکومت کا خاتمہ کر دینے کے لیے کافی ہو گئی۔ یہ 575ء کا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ مزدلفہ اور منٰی کے درمیان وادی مخصب کے قریب محسر کے مقام پر پیش آیا تھا۔ صحیح مسلم اور ابو داؤد کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حجۃ الوداع کا جو قصہ امام جعفر صادق نے اپنے والد ماجد امام محمد باقر سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے اس میں وہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مزدلفہ سے منٰی کی طرف چلے تو محسر کی وادی میں آپ نے رفتار تیز کر دی۔ امام نووی اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اصحاب الفیل کا واقعہ اسی جگہ پیش آیا تھا۔ اس لیے سنت یہی ہے کہ آدمی یہاں سے جلدی گذر جائے۔ موطا میں امام مالک روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ مزدلفہ پورا کا پورا ٹھیرنے کا مقام ہے، مگر محسر کی وادی میں نہ ٹھیرا جائے۔ نفیل بن حبیب کے جو اشعار ابن اسحاق نے نقل کیے ہیں ان میں وہ اس واقعہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہے۔ اے رُدَینَہ کاش تو دیکھتی اور تو نہیں دیکھ سکے گی جو کچھ ہم نے وادی محصب کے قریب دیکھا میں نے اللہ کا شکر کیا جب میں نے پرندوں کو دیکھا اور مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں پتھر ہم پر نہ آ پڑیں ان لوگوں میں سے ہر ایک نفیل کو ڈھونڈ رہا تھا، گویا کہ میرے اوپر حبشیوں کا کوئی قرض آتا تھا یہ اتنا بڑا واقعہ تھا جس کی تمام عرب میں شہرت ہو گئی اور اس پر بہت سے شعرا نے قصائد کہے۔ ان قصائد میں یہ بات بالکل نمایاں ہے کہ سب سے اسے اللہ تعالٰی کی قدرت کا اعجاز قرار دیا اور کہیں اشارۃً و کنایۃً بھی یہ نہیں کہا کہ اس میں اُن بُتوں کا بھی کوئی دخل تھا جو کعبہ میں پوجے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر عبد اللہ ابن الزبغریٰ کہا ہے کہ 60 ہزار تھے جو اپنی سرزمین کی طرف واپس نہ جا سکے اور نہ واپس ہونے کے بعد ان کا بیمار (ابرھہ) زندہ رہا) یہاں ان سے پہلے عاد اور جرھم تھے اور اللہ بندوں کے اوپر موجود ہے جو اسے قائم رکھے ہوئے ہے اٹھو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور مکہ و منٰی کی پہاڑیوں کے درمیان بیت اللہ کے کونوں کو مسح کرو جب عرش والے کی مدد تمھیں پہنچی تو اس بادشاہ کے لشکروں نے ان لوگوں کو اس حال میں پھیر دیا کہ کوئی خاک میں پڑا تھا اور کوئی سنگسار کیا ہوا تھا۔ یہی نہیں بلکہ حضرت ام ھانی اور حضرت زبیر بن العوام کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا قریش نے 10 سال (اور بروایت بعض سات سال) تک اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کسی کی عبادت نہ کی۔ ام ھانی کی روایت امام بخاری نے اپنی تاریخ میں اور طبرانی، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے اپنی کتب حدیث میں نقل کی ہے۔ حضرت زبیر کا بیان طبرانی اور ابن مردویہ اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور اس کی تائید مزید حضرت سعید بن المسیب کی اس مرسل روایت سے ہوتی ہے و خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں درج کی ہے۔ جس سال یہ واقعہ پیش آیا، اہل اسے اسے عام الفیل (ہاتھیوں کا سال) کہتے ہیں اور اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہوئی۔ محدثین اور مورخین کا اس بات پر قریب قریب اتفاق ہے کہ اصحاب الفیل کا واقعہ محرم میں پیش آیا تھا اور حضور کی ولادت ربیع الاول میں ہوئی۔ اکثریت یہ کہتی ہے کہ آپ کی ولادت واقعۂ فیل کے 50 دن بعد ہوئی۔ مقصودِ کلام جو تاریخی تفصیلات اوپر درج کی گئی ہیں ان کو نگاہ میں رکھ کر سورۂ فیل پر غور کیا جائے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس سورت میں اس قدر اختصار کے ساتھ صرف اصحاب الفیل پر اللہ تعالٰی کے عذاب کا ذکر کر دینے پر کیوں اکتفا کیا گیا ہے۔ واقعہ کچھ بہت پرانا نہ تھا۔ مکے کا بچہ بچہ اس کو جانتا تھا۔ عرب کے لوگ عام طور پر اس سے واقف تھے۔ تمام اہل عرب اس بات کے قائل تھے کہ ابرھہ کے اس حملے سے کعبے کی حفاظت کسی دیوی یا دیوتا نے نہیں بلکہ اللہ تعالٰی نے کی۔ اللہ ہی سے قریش کے سرداروں نے مدد کے لیے دعائیں مانگی تھیں اور چند سال تک قریش کے لوگ اس واقعہ سے اس قدر متاثر رہے تھے کہ انھوں نے اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی تھی۔ اس لیے سورۂ فیل میں ان تفصیلات کے ذکر کی حاجت نہ تھی، بلکہ صرف اس واقعے کی یاد دلانا کافی تھا، تاکہ قریش کے لوگ خصوصاً اور اہل عرب عموماً، اپنے دلوں میں اس بات پر غور کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس چیز کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہ آخر اس کے سوا اور کیا ہے کہ تمام دوسرے معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے۔ نیز وہ یہ بھی سوچ لیں کہ اگر اس دعوتِ حق کو دبانے کے لیے انھوں نے زور زبردستی سے کام لیا تو جس خدا نے اصحاب الفیل کا تہس نہس کیا تھا اسی کے غضب میں وہ گرفتار ہوں گے۔

ترجمہ اشرف علی تھانوی

شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے رب نے ہاتھی والو ں کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ (1) کیا ان کی تدبیر کو (جو ویرانی کعبہ کے بارے میں تھی) سرتا پا غلط نہیں کر دیا۔ (2) اور ان پر غول کے غول پرندے بھیجے۔ (3) جو ان لوگوں پر کنکر کی پتھریاں پھینکتے تھے۔ (4) سو الله تعالٰیٰ نے ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح (پامال) کر دیا۔ (5)

ترجمہ احمد علی

شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں سے کیا برتاؤ کیا (1) کیا اس نے ان کی تدبیر کوبے کار نہیں بنا دیا تھا (2) اور اس نے ان پر غول کے غول پرندے بھیجے (3) جہاں پر پتھر کنکر کی قسم کے پھینکتے تھے (4) پھر انھیں کھائے ہوئے بھس کی طرح کر ڈالا (5)

ترجمہ جالندھری

شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمھارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا (1) کیا ان کا داؤں غلط نہیں کیا؟ (2) اور ان پر جھلڑ کے جھلڑ جانور بھیجے (3) جو ان پر کھنگر کی پتھریاں پھینکتے تھے (4) تو ان کو ایسا کر دیا جیسے کھایا ہوا بھس (5)