شیخ امام بخش (پیدائش: 10 اپریل 1772ء– وفات: 16 اگست 1838ء) فیض آباد میں پیدا ہوئے اور وہیں پروان چڑھے۔ ورزش کا شوق تھا۔ بدن کسرتی اور پھرتیلا تھا۔ فیض آباد کے ایک امیر محمد تقی کو ایسے بانکوں کی سرپرستی کا شوق تھا۔ محمد تقی نے ان کو بھی ملازم رکھا لیا اور ناسخ ان کے ساتھ لکھنؤ آ گئے۔ ایک رئیس میر کاظم علی سے منسلک ہو گئے جنھوں نے ناسخ کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ ان کے انتقال پر اچھی خاصی دولت ناسخ کے ہاتھ آئی۔ انھوں نے لکھنؤ میں بود و باش اختیار کر لی اور فراغت سے بسر کی۔
ناسخ کسی کے باقاعدہ شاگرد نہیں تھے۔ اودھ کے حکمراں غازی الدین حیدر نے ناسخ کو باقاعدہ ملازم رکھنا چاہا تھا مگر انھوں نے منظور نہ کیا۔ شاہی عتاب اور درباری آویزشوں کے سبب ان کو لکھنؤ چھوڑ کر الہ آباد، فیض آباد، بنارس اور کانپور میں رہنا پرا۔ لیکن آخر لکھنؤ واپس آ گئے۔ نظام دکن کے دیوان، چندو لال نے کثیر رقم بھیج کر ناسخ کو حیدر آباد آنے کی دعوت دی لیکن وہ وطن چھوڑ کر نہیں گئے۔ ناسخ لکھنؤ اسکول کے اولین معمار قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان کی پیروی کرنے والوں میں لکھنؤ کے علاوہ دہلی کے شاعر بھی تھے۔ ناسخ اسکول کا سب سے بڑا کارنامہ اصلاح زبان ہے۔ لکھنؤیت سے شاعری کا جو خاص رنگ مراد ہے اور جس کا سب سے اہم عنصر خیال بندی کہلاتا ہے، وہ ناسخ اور ان کے شاگردوں کی کوشش و ایجاد کا نتیجہ ہے۔ ناسخ کے کلام کا بڑا حصہ شائع ہو چکا ہے۔ ان کے کلیات میں غزلیں، رباعیاں، قطعات، تاریخیں اور ایک مثنوی شامل ہے۔

امام بخش ناسخ
معلومات شخصیت
پیدائش 10 اپریل 1772ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فیض آباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 اگست 1838ء (66 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شاعری

ترمیم

دیوان

ترمیم

ناسخ کا کلیات پہلی بار اُن کی وفات کے ساڑھے چار سال بعد 21 ذو الحجہ 1285ھ مطابق 23 جنوری 1843ء کو میر حسن رضوی کے مطبع محمدی‘ لکھنؤ میں چھپ کر شائع ہوا۔ یہ کلیات ناسخ کے تین دواوین کا مجموعہ ہے۔ پہلے دیوان کا نام ’’دیوانِ ناسخ‘‘ ہے جس سے بہ قاعدۂ زبر و بینات 1232ھ برآمد ہوتا ہے۔ یہ نام ناسخ کے شاگرد میاں غنی نے تجویز کیا تھا۔ دوسرا دیوان ناسخ کے ایام جلاوطنی میں مرتب ہوا تھا۔ اِسی مطابقت سے اِس دیوان کا تاریخی نام ’’ دفتر پریشاں‘‘ خود ناسخ نے تجویز کیا تھا جس کے مطابق اِس دیوان کا سالِ ترتیب 1247ھ قرار پاتا ہے۔ تیسرا دیوان ’’ دفتر شعر‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ نام ناسخ کے شاگرد میر علی اوسط رشکؔ کا مجوزّہ ہے اور 1254ھ پر مشعر ہے۔ خاتمہ کے مطابق اِس تیسرے دیوان کی غزلیں ردیف وار دیوان دؤم کی غزلوں میں ضم کردی گئی ہیں۔ کلیات کا یہ پہلا ایڈیشن بظاہرِ حال رشکؔ کی نگرانی میں تیار ہوا تھا۔ رشکؔ نے اِس اشاعت کا ایک مفصل اغلاط نامہ بھی مرتب کیا تھا جو ’’تصحیح اغلاط و تنقید ِ الفاظِ کلیات شیخ امام بخش ناسخ از میر علی اوسط متخلص بہ رشکؔ‘‘ کے زیرعنوان اِس کے آخر میں شامل ہے۔[1]

محقق رشید حسن خان نے ’’ انتخاب ناسخ‘‘ کے مقدمہ میں یہ اِظہار کرتے ہوئے کہ لکھا ہے کہ: ’’ غلط نامہ (اغلاط نامہ) میں بعض غلطیوں کی تصحیح اِس طرح کی گئی ہے جس پر تصحیح کی بجائے ترمیم کا گمان ہوتا ہے‘‘۔ الفاظ کی تبدیلی کے پہلو بہ پہلو پورے مصرعے کی تبدیلی کی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی مکمل مصرعے کی تبدیلی کو سہوِ کاتب سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ رشکؔ نے ناسخ کے کلام میں صرف لفظی تبدیلیاں ہی نہیں کی ہیں بلکہ مصرعے کے مصرعے بدلے ہیں یا خارج کیے ہیں۔ محقق گیان چند جین کی تحقیق کے مطابق ناسخ کے دیوانِ دؤم میں تبدیلی کے متعلق انھیں جموں سے خریدے گئے ناسخ کے دیوان میں تحریر رقعہ سے یہ معلوم ہوا تھا کہ ناسخ کے دیوان میں رشکؔ نے بہت اختلاف پیدا کر دیا تھا۔ اِن شواہد کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ناسخ کا جو کلام اِس وقت مطبوعہ صورت میں ہمارے پیش نظر ہے، وہ قطعاً مستند نہیں۔[2]

کتابیات

ترمیم

ماخذ

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. نقوش: محمد حنیف نقوی، مقالہ ’’دیوان ناسخؔ ، ایک نادر قلمی نسخہ‘‘، صفحہ116۔
  2. نقوش: محمد حنیف نقوی، مقالہ ’’دیوان ناسخؔ ، ایک نادر قلمی نسخہ‘‘، صفحہ 117۔