امیر اللہ تسلیم

مابعد کلاسکی شاعر اصغر گونڈوی, جگر مراد آبادی،حسرت موہانی کے استاد

امیر اللہ تسلیم لکھنؤی (پیدائش: 1819ء — وفات: 28 مئی 1911ء) اردو زبان کے شاعر تھے۔ تسلیم کی وجہ شہرت اُن کے ضرب المثل اشعار ہیں۔ انھیں مابعد کلاسیکی شعرائے اُردو میں شمار کیا جاتا ہے۔ شعرگوئی کے علاوہ وہ فن خطاطی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ امیر اللہ تسلیم اردو زبان کے مشہور شاعر مرزا غالب کے ہم عصر بھی تھے۔

امیر اللہ تسلیم
معلومات شخصیت
پیدائشی نام امیر اللہ تسلیمؔ
پیدائش سنہ 1819ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فیض آباد [1]،  ریاست اودھ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 28 مئی 1911ء (91–92 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
صنف غزل
تلمیذ خاص جگر مراد آبادی ،  حسرت موہانی ،  اصغر گونڈوی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  مصنف ،  منشی نول کشور   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات

ترمیم

تسلیمؔ فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ فن خوشنویسی کے استاد تھے۔ ان کے والد محمد علی شاہ کے عہد میں فوج میں ملازم تھے۔ان کی علیحدگی کے بعد تسلیمؔ ان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ نواب واجد علی شاہ کے عہد میں ان کی پلٹن توڑ دی گئی اور وہ بے کار ہو گئے۔ اس کے بعد وہ شعرائے شاہی کے زمرے میں داخل ہو گئے اور 30روپیہ ماہوار ملنے لگے۔زوال سلطنت کے بعدیہ رام پور چلے گئے ،وہاں انھیں کوئی ملازمت نہ ملی۔تسلیم بھی ابتدا میں مطبع مصطفائی لکھنؤ میں کاپی نویسی کرنے لگے۔اسی مطبع کے ذریعہ نواب اصغر علی خاں نسیمؔ دہلوی سے ہو ئی اور ان سے شرف تلمذ حاصل کی۔1857ء میں ہنگامئہ غدر میں تسلیم نے رام پور کا سفر کیا کچھ دنوں رہنے کے بعد لکھنؤ واپس آئے اور منشی نول کشور کے مطبع میں ملازم ہو گئے۔جب نواب علی خاں ریاست کے حکمران بنے تو ان کے ایما پر یہ رام پور آگئے جہاں ڈپٹی انسپکٹر ، مدارس مقرر ہوئے۔کلب علی خاں کی رحلت کے بعدٹونک ہوتے ہوئے منگرول پہنچے۔ کچھ دنوں بعد نواب حامد علی خاں والئ رام پور کی طلبی پر پھر رام پور آگئے اور ازراہ قدر دانی چالیس روپیہ پنشن مقرر ہو گئی جوان کو آخری وقت تک ملتی رہی۔تسلیم نے اپنی عمر کا زیادہ حصہ افلاس اور تنگ دستی میں بسر کیا۔

تصانیف

ترمیم

تسلیم کا پہلا دیوان غدر کے ہنگامے میں تلف ہو گیا۔لیکن اس کے منتشر اوراق اور پھر جدید کاوش کے نتیجے میں پہلا دیوان ’’نظم ار جمند ‘‘ مطبع نول کشور لکھنؤ سے 1289ھ مطابق 1872ء میں شائع ہوا اس کی کتابت خود تسلیم نے کی تھی۔ دوسرا دیوان ’’نظم دل افروز‘‘ نامی پریس لکھنؤ سے صفر 1321ھ مطابق 21اپریل 1903ءمیں شائع ہوا اس کی کتابت بھی تسلیم نے کی۔ تیسرا دیوان ’’دفتر خیال‘‘ مطبع سعیدی رامپور سے صفر 1327ھ مطابق فروری 1910ءکو شائع ۔ ان کے علاوہ تسلیم کی مشنویوں میں ’’ کلیات امیر اللہ تسلیم معروف بہ اسم تاریخی نالٔہ تسلیم‘‘ مطبوعہ 1856ء،’’شام غریباں‘‘ ’’دل و جاں‘‘ مطبوعہ 1894،’’صبح خنداں‘‘،’’نغمئہ مسلسل‘‘،شوکتِ شاہ جہانی‘‘،’’مشنوی خنجرعشق‘‘ مطبوعہ 1974ء،’’سفرنامۂ خسروی‘‘ اور ’’تاریخ بدیع‘‘۔ ’’سنبلستان خیال‘‘ کا قلمی نسخہ رضا لائبریری رام پور میں موجود ہے۔ 1974ء میں ڈاکٹر فضل امام نے امیر اللہ تسلیم کی حیات اور خدمات پر ’’ امیر اللہ تسلیم حیات و شاعری‘‘ اور اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ نے ’’انتخاب غزلیات امیر اللہ تسلیم‘‘ مطبوعہ1988 شائع کیا۔[2]

وفات

ترمیم

28 مئی 1911ء کو لکھنؤ میں 92 برس کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ تین دیوان اور متعدد مثنویاں یادگار چھوڑیں۔ حسرت موہانی انہی کے شاگرد تھے۔[3]

تلامذہ

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم