ام کلثوم مصری مغنیہ۔ 30 دسمبر، 1898ء سلطنت عثمانیہ میں ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے باقاعدہ تعلیم نہیں پائی۔ 1954ء میں ‌قاہرہ کے ڈاکٹر حسن الخضری سے شادی ہوئی۔ مصری کہتے ہیں کہ اہرام مصر اور ام کلثوم کی آواز کو ثبات دوام حاصل ہے۔ عرب کلاسیکی موسیقی میں کافی مہارت حاصل کی۔ ان کی آواز تمام عرب علاقوں میں آج بھی مقبول ہے۔ انھیں کوکب الشرق (مشرق کا ستارہ) اور سیدۃ الغناء العربی (عرب موسیقی کی ملکہ) کہا جاتا ہے۔ بہت سے اعزازات ملے۔ سابق شاہ فاروق اول نے انھیں (ذیشان الکمال) الکمال کا اعزاز دیا۔ مصر کی حکومت نے ان کی آواز میں قرآن حکیم کو بھی ریکاڈ کیا۔ ان کی ایک عادت یہ تھی کہ ہمیشہ ان کے ہاتھ میں ایک رومال ہوتا تھا جسے وہ جوش گلوکاری میں لیر لیر کر دیتی تھیں۔ ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گلوکاری کی۔

ام کلثوم
Om Kolthoum
ذاتی معلومات
پیدائشی نامفاطمہ ابراہیم
معروفیتکوکب الشرق، سیدۃ الغناء العربی
پیدائش31 دسمبر 1898(1898-12-31)محافظہ دقہلیہ, خديويت مصر
وفاتفروری 3، 1975(1975-20-03) (عمر  76 سال)قاہرہ، مصر
اصنافعربی کلاسیکی موسیقی
پیشےگلوکارہ، اداکارہ
سالہائے فعالیتعیسوی 1924–1973
ریکارڈ لیبلEMI Arabia
متعلقہ کارروائیاںفیروز (گلوکارہ)
عبد الحلیم حافظ
Riad Al Sunbati
محمد عبد الوہاب
Maria Callas

ابتدائی زندگی

ترمیم

وہ سلطنت عثمانیہ کے دورحکومت میں دریائے نیل کے ایک ڈیلٹا میں بحیرہ روم کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ ان کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہے کیونکہ اس دوران عرب میں تاریخ پیدائش لکھنے اور محفوظ کرنے کا رواج نہیں تھا۔ مصری وزارت کے مطابق 31 دسمبر، 1898ء یا 31 دسمبر، 1904ء کو ہوئی ہے۔ اُن کی پیدائش ان دو تاریخوں کے درمیان کبھی ہوئی ہے۔

فن موسیقی

ترمیم

نوعمری میں ہی ان میں گانے کا زبردست ہنر تھا۔ اُن کے والد ابراہیم بلتاجی مؤذن اور امام تھے اور قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ ام کلثوم نے سارا قرآن یاد کر لیا تھا۔ جب وہ 12 سال کی تھیں تو ان کے والد نے اُن کا بھیس بدل کر لڑکوں جیسا حلیہ بنا کر فنکاروں کی ایک ٹولی میں داخل کیا جس کو وہ خود ہدایت دیتے تھے۔ 16 سال کی عمر میں ایک نسبتاً مشہور گلوکار محمد ابو العلا نے دیکھا اور انھیں کلاسیکی موسیقی کی تعلیم دی۔ کچھ سالوں بعد وہ مشہور بربط نواز اور موسیقار زکریا احمد سے ملیں جنھوں نے اُن کو قاہرہ آنے کا مشورہ دیا۔ اگرچہ وہ 1920ء تک قاہرہ کئی دفعہ آچکی تھیں مگر وہ مستقل طور پر وہاں 1923ء میں منتقل ہوئیں۔ امین المہدی نے کئی دفعہ انھیں اپنے گھر بلایا اور انھیں عود بجانا سکھایا۔ اس دوران ام کلثوم کی اُن کی بیٹی روایہ المہدی سے بہت اچھی دوستی ہو گئی اور وہ دونوں بہت قریبی دوست بن گئیں۔ ام کلثوم روایہ کی شادی میں بھی گئیں اگرچہ وہ عوام کے سامنے آنا پسند نہیں کرتیں تھیں۔

امین المہدی نے انھیں قاہرہ کے ثقافتی حلقے میں متعارف کرایا۔ انھوں نے ام کلثوم کو غیر روایتی طرز زندگی سے بھی بچایا درحقیقت ساری زندگی انھوں نے اپنے اصل اور اقدار سے رشتہ استوار رکھا۔ انھوں نے اپنی عوامی شبیہ کو کبھی بگڑنے نہیں دیا اور اس نے بے شک عوام میں ان کی رغبت میں اضافہ کیا۔

اس دوران ان کا تعارف مشہور شاعر احمد رامی سے ہوا جنھوں نے بعد میں اُن کے لیے 137 گیت لکھے۔ رامی نے انھیں فرانسیسی ادب سے بھی متعارف کرایا جس سے وہ خود بہت زیادہ متاثر تھے اور بعد میں ان کے عربی ادب اور ادبی تجزیہ کے استاد بھی بنے۔

انھیں مصری اور عربی موسیقی کے چار بڑوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جن میں عبد الحلیم حافظ، ام کلثوم، محمد عبدالوہاب اور فرید الاطرش شامل ہیں۔[1][2]

وفات

ترمیم

3 فروری، 1975ء کو قاہرہ مصر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے جنازے میں چالیس لاکھ افراد شریک ہوئے۔[3] اپنے انتقال کے تقریبا 30 سال بعد انھیں عرب کی تاریخ کی سب سے عظیم خاتون گلوکارہ مانا گیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Ola El-Saket (June 21, 2011)۔ "Remembering Abdel Halim Hafez, the voice of revolution"۔ Al-Masry Al-Youm: Today's News from Egypt۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ July 21, 2011 
  2. "Abdel Halim Hafez"۔ Arabic nights۔ 2011۔ 21 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ September 17, 2011 
  3. دنیا کے بڑے اجتماعات