ام کلثوم بنت محمد

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی

اُمِ کلثوم بنت محمد رضی اللہ عنہا (18ق.ھ / ) حضور اقدس کی تیسری صاحبزادی تھیں۔ آپؓ بعثتِ نبویؐ سے 6 سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے بعد اسلام قبول کرنے والی خواتین میں اپنی والدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ اپنی بہنوں اور دیگر اسلام قبول کرنے والی خواتین کے ساتھ نبی اکرمؐ کے ہاتھ پر بیعت کی۔گہوارۂ نبویؐ میں علم و اَخلاق اور پیکر حسنِ حیا کے عمدہ فطری ماحول میں پروان چڑھیں۔ تمام انسانی، دینی اور نسوانی خوبیوں کی حامل تھیں۔ مکی زندگی کی مشکلات میں دینِ حق اور اجتماعی تحریک میں صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیتِ نبی کریمؐ میں صبر واستقامت کے ساتھ احیائے دین اور غلبۂ دین کی عظیم الشان جدو جہد میں اسوۂ کامل کا معیار ٹھہریں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خاندان کے ساتھ تین سال کے قریب شعبِ ابی طالب کی مشکلات جھیلیں اور مکہ کے مشرکانہ نظام کے ظلم کا شکار رہیں۔ اُم کلثومؓ اپنی ماں حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بہت مشابہت رکھتی تھیں۔ ان کے دل کا سرور اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں۔اپنی دونوں بڑی بہنوں کی شادی کے بعد گھریلو سرگرمیوں میں ماں کا ہاتھ بٹاتیں اور ابا جان کی آنکھوں میں مقامِ صدق و حیا کی تصویر تھیں۔مکی زندگی کے آخری سالوں میں ماں کی جدائی کا صدمہ برداشت کیا۔ آپ ؐ اپنے دینی و علمی کاموں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کا خیال بھی رکھتے تھے۔ایک طرف سیّدہ اُم کلثوم ہیں،دوسری طرف جنت کی عورتوں کی سردار سیّدہ فاطمہؓ ہیں۔ گھریلو امور میں نگرانی، مشاورت،حفاظت، رہنمائی کے حوالے سے آپؐ اپنی بیٹیوں کے دلوں کی آواز شدت سے محسوس فرماتے اور ان کو اپنی شفقت سے فیضیاب فرماتے۔ اُمِ کلثومؓ کی نسبت ابو لہب کے بیٹے عتیبہ کے ساتھ طے تھی۔ اس نے محض حضوؐر کو دُکھ پہنچانے کے لیے رخصتی سے قبل ہی اُمِ کلثومؓ کو طلاق دے دی۔حضور اقدسؐ کی دوسری صاحبزادی سیّدہ رُقیہؓ حضرت عثمانؓ کے نکاح میں تھیں، ان کی وفات کے بعد ربیع الاوّل ہجری میں آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سابقہ مہر کی مقدار پر حضرت اُم کلثومؓ کا نکاح بھی حضرت عثمانؓ بن عفان سے نکاح کر دیا۔ حضرت اُمِ کلثومؓ کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔6 سال تک حضرت عثمانؓ بن عفان کے ساتھ خوشگوار گھریلو زندگی بسر کرنے کے بعد شعبان ہجری میں حضرت اُم کلثومؓ کا انتقال ہو گیا۔ آپؓ کے غسل و کفن کے انتظامات کی حضوؐر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود نگرانی فرمائی، خود نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپؓ کی مغفرت کی دعا مانگی۔ تمام صحابہ کرامؓ نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی ۔ آپؓ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔سیّدہ اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات کا آپؐ کو سخت ملال ہوا۔ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار آپؐ ام کلثومؓ کی قبر پر تشریف فرما تھے اور آپؐ کی آنکھوں سے شدتِ غم کی وجہ سے آنسو جاری تھے۔[4] [5] [6][7]

ام کلثوم بنت محمد
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 603ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 10 دسمبر 630ء (26–27 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شوہر عثمان بن عفان (624–)[1][2]
عتیبہ بن ابی لہب   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد محمد بن عبداللہ [1][3]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ خدیجہ بنت خویلد [1][3]  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
مقالہ بہ سلسلۂ مضامین

اولادِ محمد

حضرت محمد کے بیٹے

قاسم _ عبداللہ _ ابراھیم

حضرت محمد کی بیٹیاں

فاطمہ _ زینب _ ام کلثوم
رقیہ

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹے

حسن _ حسین _ محسن

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹیاں

زینب _ ام کلثوم


نام و نسب

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری صاحبزادی ہیں اور کنیت ہی کے ساتھ مشہور ہیں۔[8]

نکاح

ام کلثوم کا نکاح ابو لہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ بن ابی لہب سے ہوا تھا لیکن رخصتی سے قبل طلاق ہوئی جس کی وجہ ابو لہب کی اسلام دشمنی تھی۔

آپ کی بہن رقیہ، عثمان غنی کی بیوی تھیں۔ میں غزوۂ بدر کے موقع پر رقیہ کا انتقال ہو گیا تو عثمان رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ بہت مغموم رہنے لگے۔ انھیں اس بات کا بہت زیادہ غم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرابت داری کا جو اہم رشتہ تھا وہ ٹوٹ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میں ام کلثوم کا عقد عثمان غنی سے کر دیا اور اس حوالے سے عثمان رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو رقیہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دامادی کا شرف پھر حاصل ہوا۔ اسی لیے عثمان غنی کو "ذو النورین" یعنی دو نوروں والا کہتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے ساتھ ام کلثوم نے بھی ہجرت کی اور باقی عرصہ مدینہ میں ہی گزارا۔ ام کلثوم نے شعبان میں انتقال فرمایا۔ یہ پہلے ابو لہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ سے بیاہی گئی تھیں مگر سورۂ تبت یدا میں ابو لہب کی برائی سن کر عتیبہ اس قدر طیش میں آگیا کہ اس نے گستاخی کرتے ہوئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر جھپٹ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كے پیراہن شریف کو پھاڑ ڈالا اورام کلثوم کو طلاق دے دی حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے قلب نازک پر اس گستاخی اور بے ادبی سے انتہائی صدمہ گذرا اور جوش غم سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی زبان مبارک سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے کہ۔ یااللہ! اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو اس پر مسلط فرمادے ۔ اس دعائے نبوی کا یہ اثر ہوا کہ ملک شام کے راستہ میں یہ قافلہ کے بیچ میں سویا تھا اور ابو لہب قافلہ والوں کے ساتھ پہرہ دے رہا تھا مگر اچانک ایک شیر آیا اور عتیبہ کے سر کو چبا گیا اور وہ مرگیا بی بی رقیہ کی وفات کے بعد حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے 3ھ میں ام کلثوم کا نکاح عثمان غنی کے ساتھ کر دیا ۔[5][8]

اولاد

کوئی اولاد نہیں ہے۔

وفات

شعبان سنہ میں وفات پائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسخت صدمہ ہوا، قبر پر بیٹھے تو آنکھوں سے آنسو جاری تھے، آپ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اور اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے قبر میں اُتارا۔ اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں ان کو دفن فرمایا۔[9][10] [11] [12]

حوالہ جات

  1. ^ ا ب پ عنوان : Умм Кульсум бинт Мухаммад
  2. عنوان : Осман ибн Аффан
  3. ^ ا ب عنوان : Хадиджа бинт Хувайлид
  4. (ازالۃالخفاء عن خلافۃ الخلفاء، از امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ، ج 3، بناتِ اربعہ از مولانا محمد نافع)
  5. ^ ا ب شهاب الدين القسطلاني۔ المواهب اللدنية بالمنح المحمدية۔ مصر: المكتبة التوفيقية۔ صفحہ: 480-482، جزء 1۔ 07 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مايو 2015 
  6. ابن حجر العسقلاني (1995)۔ الإصابة في تمييز الصحابة۔ بيروت: دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 460-461، جزء 8۔ 07 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 يوليو 2015 
  7. مجمع الزوائد، الهيثمي، عن أم عياش جدة عنبسة بن سعيد، رقم: 9/86.
  8. ^ ا ب ابن عبد البر (1992)۔ الاستيعاب في معرفة الأصحاب (الأولى ایڈیشن)۔ لبنان: دار الجيل۔ صفحہ: 1952-1953، جزء 4۔ 02 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 يوليو 2015 
  9. شرح العلامۃ الزرقانی، الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام، ج4، ص325۔327
  10. جنتی زیور، عبد المصطفٰی اعظمی، صفحہ 502، ناشر مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
  11. (طبقات:8/25،26۔ بخاری:1/171)
  12. https://islamansiklopedisi.org.tr/ummu-kulsum  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)