یہ باب لاہور کے لیے منتخب مضامین کی فہرست ہے۔

شمار خلاصہ مضامین
5

بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہہے۔ یہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔

4

خلجی اور تغلق شاہوں کے ادوار میں لاھور کو کوئی قابلِ ذکر اہمیت حاصل نہ تھی اور ایک دفعہ گکھڑ راجپوتوں نے اسے لوٹا۔ 1397 میں امیر تیمور برصغیر پر حملہ آور ہوا اور اس کے لشکر کی ایک ٹکڑی نے لاہور فتح کیا۔ تاہم اپنے پیشرو کے برعکس امیر تیمور نے لاہور کو تاراج کرنے سے اجتناب کیا اور ایک افغان سردار خضر خان کو لاھور کا صوبہ دار مقرر کیا۔اس کے بعد سے لاھور کی حکومت کبھی حکمران خاندان اور کبھی گکحڑ راجپوتوں کے ہاتھ رہی یہاں تک کہ 1436 میں بہلول خان لودھی نے اسے فتح کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ بہلول خان لودھی کے پوتے ابراہیم لودھی کے دورِ حکومت میں لاھور کے افغان صوبہ دار دولت خان لودھی نے علمِ بغاوت بلند کیا اور اپنی مدد کے لئےمغل شہزادے بابر کو پکارا۔

3

شاہجہان برصغیر پاک و ہند کے مغلیہ خاندان کا ایک بادشاہ تھا۔ شاہجہان مغل شہنشاہ جہانگیر کا بیٹا تھا۔ شاہ جہان کے بعد اس کا بیٹا اورنگزیب بادشاہ بنا۔ شاہ جہاں اپنے دور کا ایک مشہور معمار تھا۔ اس نے کئی تعمیرات کروائیں۔

2

پنجاب میں سکھ سلطنت کا بانی ۔ سکرچکیہ مثل کے سردار مہان سنگھ کا بیٹا تھا۔ گوجرانوالہ کے مقام پر پیدا ہوا ۔ بچپن ہی میں اس کی بائیں آنکھ چیچک سے ضائع ہو گئی تھی۔ بارہ برس کا تھا کہ اس کا باپ مر گیا اور وہ مثل کا سردار بنا۔ سولہ برس کی عمر میں اس کی شادی کھنیا مثل میں ہوئی اور ان دو مثلوں کے ملاپ سے رنجیت سنگھ کی طاقت او ربھی مضبوط ہو گئی ۔ اس کی ساس سدا کور ایک قابل اور مقتدر عورت تھی۔ اس نے رنجیت سنگھ کی فتوحات میں بڑی مدد کی۔ انیس برس کی عمر میں 1799ء میں لاہور پر قبضہ کرکے اسے اپنی راجدھانی بنایا۔ تین سال بعد 1802ء میں امرتسر فتح کیا۔ وہاں سے بھنگیوں کی مشور توپ اور کئی اورتوپیں ہاتھ آئیں۔ چند برسوں میں اس نے تمام وسطی پنجاب پر ستلج تک قبضہ کر لیا۔ پھر دریائے ستلج کو پار کرکے لدھیانہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ لارڈ منٹو رنجیت سنگھ کی اس پیش قدمی کو انگریزی مفاد کے خلاف سمجھتا تھا۔ چنانچہ 1809ء میں عہد نامہ امرتسر کی رو سے دریائے ستلج رنجیت سنگھ کی سلطنت کی جنوبی حد قرار پایا۔ اب اس کا رخ شمال مغرب کی طرف ہوا اورلگاتار لڑائیوں کے بعد اٹک ، ملتان ، کشمیر ، ہزارہ ، بنوں ، ڈیرہ جات اور پشاور فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔

1

شیش محل، پاکستان کے شہر لاہور کے شاہ برج میں مغل دور کی عمارت ہے جو کہ قلعہ لاہور کے شمال مغربی کونے میں واقع ہے۔ یہ عمارت مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے دور میں تعمیر کی گئی۔ عمارت کو سفید سنگ مرمر، راستوں کو پیتری دورا جبکہ تمام اندرون عمارت کو شیشے کی مدد سے انتہائی نفاست سے سجایا گیا ہے۔ اس عمارت کا مرکزی حصے تک صرف شاہی خاندان اور ان کے قریبی عزیزوں اور احباب کی رسائی تھی۔ یہ عمارت، ان 21 یادگاروں میں سے ایک ہے جو کہ مغل سلاطین نے قلعہ لاہور کے احاطے میں تعمیر کروائیں۔ شیش محل کو قلعہ لاہور کے ساتھ ہی 1981ء میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت کی جانب سے عاملی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔