قدیم یونانی کراچی کے موجودہ علاقہ سے مختلف ناموں سے واقف تھے: کروکولا، جہاں سکندر اعظموادی سندھ میں اپنی مہم کے بعد، اپنی فوج کی واپس بابل روانگی کی تیّاری کے لیے خیمہ زن ہوا ؛ بندر مرونٹوبارا (ممکنً کراچی کی بندرگاہ سے نزدیک جزیرہ منوڑہ جہاں سے سکندر کا سپہ سالار نییرچس واپس اپنے وطن روانہ ہوا ؛ اور باربریکون، جوکہ ہندوستانی یونانیوں کی باختری مملکت کی بندرگاہ تھی۔ اس کے علاوہ ، عرب اس علاقہ کو بندرگاہِ دیبل کے نام سے جانتے تھے، جہاں سے محمد بن قاسم نے 712ء میں اپنی فتوحات کا آغاز کیا ۔ برطانوی تاریخ دان ایلیٹ کے مطابق موجودہ کراچی کے چند علاقے اور جزیرہ منوڑہ، دیبل میں شامل تھے۔
کراچی بندرگاہپاکستان کی سب سے بڑی اور مصروف ترین بندرگاہ ہے۔ یہاں سے سالانہ 2.5 کروڑ ٹن کے سامان کی تجارت ہوتی ہے، جو پاکستان کی کل تجارت کا تقریباً 60% ہے۔
بندرگاہ قدیم شہر کے مرکز کے قریب کیماڑی اور صدر کے علاقوں کے درمیان واقع ہے۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث یہ بندرگاہ اہم آبی گزرگاہوں مثلاً آبنائے ہرمز کے بالکل قریب واقع ہے۔ بندرگاہ کا انتظام ایک وفاقی ادارے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سپرد ہے۔ یہ ادارہ انیسویں صدی میں برطانوی دور حکومت میں قائم کیا گیا تھا۔
نیشنل اسٹیڈیمپاکستان کے شہر کراچی کا سب سے بڑا کھیل کا میدان ہے۔ یہاں کرکٹ کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستان اور کراچی کی مقامی کرکٹ ٹیمیں کھیلتی ہیں۔
اسٹیڈیم میں 40 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جس کی بدولت یہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کے بعد ملک کا دوسرا سب سے بڑا کھیل کا میدان ہے۔
کراچی کی کثیر آبادی کے باعث اسٹیڈیم میں توسیع کے منصوبہ جات زیر غور ہیں جس میں تماشائیوں کی گنجائش میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی کا پانچواں اور پاکستان کا گیارہواں فرسٹ کلاس میدان ہے۔
یہاں برقی قمقمے اور عظیم الجثہ ٹیلی اسکرین بھی نصب ہے جس کی بدولت یہ دنیا کے جدید ترین میدانوں میں شمار ہوتا ہے۔
11 ستمبر کے بعد کراچی میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے باعث غیر ایشیائی ممالک نے کراچی میں کھیلنے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ 5 سالوں میں صرف بنگلہ دیش اور سری لنکا نے یہاں میچز کھیلے تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ کی بھرپور کوششوں اور یقین دہانیوں پر اسٹیڈیم کی رونقیں ایک بار پھر بحال ہوگئی ہیں۔
کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں مین یونیورسٹی روڈ پر سفاری پاک کے سامنے واقع نجی ہسپتال ہے جس میں جدید لیبارٹری، ایکسرے، آپریشن تھیٹر سمیت تمام سہولیات موجود ہیں۔ ہسپتال میں خواتین کے علاج کے لیے خواتین معالج کو ترجیح دی جاتی ہے۔
شاہ فیصل ٹاؤن پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے 18 قصبہ جات میں سے ایک ہے۔ اگست2000ء میں بلدیاتی نظام متعارف کرائے جانے کے ساتھ ہی کراچی ڈویژن اور اس کے اضلاع کا خاتمہ کر کے کراچی شہری ضلعی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے نتیجے میں شہر کو 18 قصبہ جات (ٹاؤنز) میں تقسیم کر دیا گیا جن میں شاہ فیصل ٹاؤن بھی شامل ہے۔ یہ قصبہ سعودی عرب کے شاہ فیصل بن عبد العزیز سے موسوم آبادی شاہ فیصل کالونی کے باعث شاہ فیصل ٹاؤن کہلاتا ہے۔
یہ قصبہ کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے اور کورنگی صنعتی علاقے کے درمیان واقع ہے۔ کراچی کی بندرگاہ و ہوائی اڈے کو ملانے والی مرکزی شاہراہ شارع فیصل قصبے کے شمال سے گزرتی ہے، جو ہوائی اڈے کے پاس ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد قومی شاہراہ 5 کا آغاز ہوتا ہے جو کراچی کو ملک بھر سے منسلک کرنے والی ایک اہم شاہراہ ہے۔ علاوہ ازیں ہوائی اڈے اور صنعتی علاقے کو ملانے کے لیے حال ہی میں اس قصبے میں ملیر ندی کے اوپر ایک طویل پل تعمیر کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ہوائی اڈے اور شہر کے دیگر علاقوں کا کورنگی و لانڈھی کے صنعتی علاقوں سے فاصلہ انتہائی کم ہو گیا ہے۔ یہ کراچی شہری ضلعی حکومت کے بڑے منصوبوں میں سے ایک تھا جس پر ایک ارب 20 کروڑ روپے لاگت آئی