بربہاری
ابو محمد حسن بن علی بن خلف بربہاری عراق کے ایک مشہور مسلمان الہیات دان، عالم اور قاضی تھے۔ دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی (چوتھی پانچویں صدی ہجری) میں انھوں نے عباسی خلافت میں شیعہ مبلغین کے خلاف انتہائی اہم کردار ادا کیا اور اعتزال کے بڑھتے اثرات کے خلاف کامیاب تحریک چلائی۔[4] ان کی کتابیں شیعوں، معتزلیوں، قدریہ اور اشاعرہ کے خلاف سخت اشتعال انگیز تبصروں سے بھری پڑی ہیں۔ نیز بربہاری دسویں صدی عیسوی میں بغداد میں متعدد فرقہ وارانہ کشیدگیوں اور قتل عام کے ذمہ دار بھی سمجھے جاتے ہیں۔[5][6] پرنسٹن یونیورسٹی کے ایک محققِ تاریخ اسلام، میکائیل کوک نے بربہاری کو واضح ”جذبات انگیز خطیب“ کہا۔[7]
بربہاری | |
---|---|
(عربی میں: البربهاري) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 867ء [1] بغداد |
وفات | سنہ 940ء (72–73 سال) بغداد |
شہریت | دولت عباسیہ |
عملی زندگی | |
استاد | ابو بکر مروذی ، چھپانا آسان ہے۔ |
پیشہ | الٰہیات دان ، فقیہ ، محدث |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [2] |
شعبۂ عمل | فقہ ، علم حدیث ، اسلام [3]، اسلامی الٰہیات [3] |
کارہائے نمایاں | شرح السنہ |
درستی - ترمیم |
بربہاری اس لیے کہلائے کیونکہ بربہار کی طرف نسبت ہے، بربہار ایک دوا تھی جو ہندوستان سے لائی جاتی تھی اور اس کے تاجر کو بربہاری کہا جاتا تھا۔ وفات سنہ 329 ہجری میں ہوئی۔
بربہاری ابتدائی دور کے حنابلہ میں سے اس لیے بھی مشہور تھے کہ وہ تقلید کرنے کا بھرپور دفاع کرتے تھے۔[8]
سیرت
ترمیمان کی جائے پیدائش اور جائے پرورش کتابوں میں مذکور نہیں ہے، بعض محققین کا خیال ہے کہ بربہاری، بغداد میں پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔ بربہاری نے کبار علما و مشائخ مثلاً احمد بن حنبل، احمد بن محمد مروزی اور سہل بن عبد اللہ تستری سے علم حاصل کیا۔ ان کے تلامذہ میں سے: امام ابو عبد اللہ بن عبیداللہ عکبری جو ابن بطہ عکبری کے نام سے مشہور ہیں، امام محمد بن احمد بن اسماعیل بغدادی، ابو الحسین بن سمعون اور احمد بن کامل ہیں۔ اہل بدعت کا ہاتھ اور زبان دونوں سے خوب رد کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے ان کے مخالفین بڑھ گئے تھے اور عباسی خلیفہ قاہر کو ان کے تعلق سے بھڑکا دیا، خلیفہ نے انھیں طلب کیا تو وہ روپوش ہو گئے، پھر اس نے ان کے تلامذہ اور اصحاب کو گرفتار کیا اور ان سب کو بصرہ جلا وطن کر دیا۔ راضی کے عہد خلافت میں اپنے وطن واپس آئے، بغداد میں یہ اعلانِ عام کر دیا گیا کہ بربہاری کے دو شاگرد ایک ساتھ کہیں جمع نہیں ہو سکتے۔ بربہاری پھر روپوش ہو گئے اور اسی روپوشی کی حالت میں وفات پائی۔ بربہاری کے تلامذہ اور اصحاب کی اتنی کثرت تھی کہ طبقات الحنابلہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ان کے شاگردوں کو شیخ کے چھینکنے کی خبر پہنچی تو ان کے تلامذہ نے یرحمک اللہ کا جواب اس طرح دیا کہ پورا شہر گونج گیا اور خلیفہ راضی کے محل میں آواز سنی گئی۔[9]
عقائد
ترمیمامام بر بہاری صفات کے مسئلہ عقیدۃ السف کے قائل تھے ،اور امام احمد بن حنبل کے نظریات کے قائل تھے ،وہ اپنی کتا میں فرماتے ہیں "ولا يقولُ في صفاتِ الربِّ: كيفَ؟ ولمَ؟ إلَّا شاكٌ في الله تبارك وتعالى" (اللہ کی صفات کے بارے میں یہ نہ کہو کہ : کیسے؟ کیوں؟ اللہ کے بارے میں شک ہوگا)۔[10]
علما کی آرا
ترمیم- امام ذہبی نے سیر اعلام النبلا میں لکھا ہے کہ:[11] «بربہاری حنابلہ کے شیخ اور امام ہیں، زبردست فقیہ ہیں، سختی سے حق بات کہنے والے ہیں، سنت کے داعی ہیں اور اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کی پروا نہیں کرتے ہیں۔»
- ابو عبد اللہ فقیہ فرماتے ہیں: «جب تم دیکھو کہ کوئی بغدادی ابو الحسن بن بشار اور ابو محمد بربہاری سے محبت کرتا ہو تو سمجھ جاؤ کہ وہ صاحبِ سنت ہے۔»
- ابن ابو یعلیٰ کہتے ہیں: «اپنے زمانے میں جماعت کے شیخ تھے، اہل بدعت کی تردید اور زبان و ہاتھ سے ان کی مخالفت میں پیش پیش تھے، سلطان وقت تک ان کی شہرت کا غلغلہ تھا، عارفین، حفاظ اور ثقہ میں شمار کیے جاتے تھے۔»
- ابن کثیر لکھتے ہیں: «عالم، زاہد، حنبلی فقیہ اور واعظ تھے۔ اہل بدعت و معاصی کے خلاف بہت سخت تھے۔ ہر خاص و عام ان کی تعظیم کرتا تھا۔»[12]
وفات
ترمیمسیر اعلام النبلا میں لکھا ہے کہ[11] بربہاری مغربی کنارے پر تھے کہ انھیں چھینک آئی جس کے جواب میں ان کے تلامذہ نے اس زور سے جواب دیا کہ خلیفہ تک آواز پہنچ گئی۔ اس نے اس تعلق سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ بربہاری کے اصحاب و تلامذہ ہیں، اس نے اس کو گستاخی پر محمول کیا۔ پھر اس کے بعد مبتدعین اور اہل بدعت خلیفہ کو بھڑکاتے رہے، یہاں تک کہ بغداد میں اعلان کر دیا گیا کہ بربہاری کے دو شاگرد ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، شیخ روپوش ہو گئے اور اسی روپوشی کی حالت میں رجب 328 ہجری میں وفات پائی اور توزون کے گھر میں مدفون ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ تکفین کے وقت صرف خادم ان کے پاس تھا اور وہ اکیلے تجہیز و تکفین کر رہا تھا کہ یکایک اس نے دیکھا پورا گھر سفید پوش لوگوں سے بھرا ہے اور وہ سب نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں۔ وہ ڈر گیا اور خادم نے قسم کھا کر کہا کہ اس نے دروازہ نہیں کھولا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے والد کے ترکہ میں سے ستر ہزار میراث چھوڑی۔"
حوالہ جات
ترمیم- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=pna20221139243 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 فروری 2022
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=pna20221139243 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=pna20221139243 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
- ↑ "al-Barbahārī"۔ Brill Reference۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولائی 2016
- ↑ Sayed Khatab (2011-01-01)۔ Understanding Islamic Fundamentalism: The Theological and Ideological Basis of Al-Qa'ida's Political Tactics (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 47۔ ISBN 9789774164996
- ↑ Ira M. Lapidus, Islamic Societies to the Nineteenth Century: A Global History, p. 192. Cambridge: Cambridge University Press, 2012. آئی ایس بی این 9780521514415
- ↑ Michael Cook, Forbidding Wrong in Islam: An Introduction, p. 103. Volume 3 of Themes in Islamic History. Cambridge: Cambridge University Press, 2003. آئی ایس بی این 9780521536028
- ↑ A Medieval Critique of Anthropomorphism: Ibn Al-Jawzī's Kitāb Akhbār Aṣ-Ṣifāt, p. 98. Ed. Merlin L. Swartz. Volume 46 of Islamic philosophy and theology: Texts and studies. Leiden: Brill Publishers, 2002. آئی ایس بی این 9789004123762
- ↑ "البربهاري • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة"۔ shamela.ws
- ↑ بربہاری، ابو محمد حسن بن علی بن خلف (م329ھ)، شرح السنۃ، تحقیق: ابی یاسر خالد بن قاسم ردادی، مکتبۃ الغرباء الاثریہ سعودی عرب، طبع اول، 1414ھ، ص71
- ^ ا ب سير أعلام النبلاء » الطبقة الثامنة عشر - موقع إسلام ويب
- ↑ تراجم العلماء عرض التفاصيل الإمام الحسن بن علي البربهاري آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ al-tawhed.net (Error: unknown archive URL) موقع التوحيد