بھارت چین تعلقات سے مراد بھارت اور چین کے درمیان میں دوطرفہ تعلقات ہے۔ حالانکہ دونوں ملکوں کے تعلقات دوستانہ ہیں مگر سرحدی جھگڑے ہمیشہ سے رہے ہیں۔ دونوں معشیاتی طور پر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین جدید تعلقات کا آغاز 1950ء سے ہوتا ہے جب بھارت نے شروع میں ہی تائیوان سے تعلقات ختم کر کے پی آر سی کو برعظیم چین کی مستقل حکومت کے طور پر تسلیم کیا۔ چین اور بھارت دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک (فہرست ممالک بلحاظ آبادی ہیں اور سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرنے والے ممالک (فہرست ممالک بلحاظ خام ملکی پیداوار میں بھی شمار کیے جاتے ہیں۔ دونوں کے درمیان میں باہمی ڈپلومیٹک اور معاشیاتی رشتے مضبوط ہوئے ہیں۔ عہد قدیم سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان میں ثقافتی اور معاشیاتی رشتے رہے ہیں۔ شاہراہ ریشم نہ صرف ایک تجارتی راستہ تھا بلکہ مشرقی ایشیا میں بدھ مت کے پھیلنے کا اہم ذریعہ بھی بنا۔[1] 19ویں صدی میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ افیون کی تجارت سے پہلی افیونی جنگ اور دوسری افیونی جنگ کا آغاز ہوا۔[2][3] دوسری جنگ عظیم میں بھارت اور چین دونوں نے مل کر سلطنت جاپان کے زور کو توڑنے اور اس کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔[4] عبوری دور میں دونوں ملکوں کے تعلقات سرحدی تنازع کی نذر ہو گئے اور اب تک تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں؛ چین بھارت جنگ، 1967ء میں چولا واقعہ اور 1987ء چین بھارت کشمکش۔[5] 2017ء میں دونوں ممالک چین بھوٹان سرحد پر ڈوکلام پلاٹو کو لے کر آمے سامنے ہوئے۔[6] البتہ 1980ء کی دہائی کے بعد دونوں ملکوں نے اپنے اقتصادی تعلقات کو استوار کیے ہیں۔ 2008ء میں چین بھارت کا سب سے بڑا اقتصادی پارٹنر بنا ساتھی دونوں ممالک نے اپنے حکمت عملی اور فوجی تعلقات بھی مضبوط کیے۔[7][8][9]تجارت اور معاشیات کے علاوہ بھی دونوں ملک کے تعلقات رہے ہیں اور عرصہ دراز تک دونوں ملک ایک دوسرے میں دلچسی لیتے رہے ہیں۔رضاء الکریم لشکر، بھارت کے ایک سیاست دان کے لفظوں میں “فی الحال دونوں ملک عالمی سطح پر تجارت، موسمیاتی تبدیلی اور عالمی معاشیاتی اصلاح کے ساتھ ساتھ دیگر میدانوں میں بھی ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں تاکہ مشترک مفاد کی تشہیر کی جاسکے۔“[10] تجارتی اور حکمت عملی تعلقات کے علاوہ ایسے کئی امور ہیں جن کا دونوں ملک ابھی تک کوئی صحیح حل نہیں نکال پائے ہیں مثلاً چین کو فائدہ پہنچانے کے لیے بھارت تجارتی توازن کھو رہا ہے۔ دونوں کے سرحدی معاملات بری طرح الجھے ہوئے ہیں اور ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ چین بھارتی زمین پر قبضہ کررہا ہے۔[11] دونوں ممالک نے سرحد پر اچھی خاصی فوج جمع کررکھی ہے۔[12][13] مزید یہ کہ بھارت پاک چین تعلقات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ہے۔[14] وہیں بحیرہ جنوبی چین میں بھارتی کی تجارتی آمد و رفت سے چین پریشان ہے۔[15] جون 2012ءچین نے اپنا موقف ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ “بھارت چین تعلقات“ “اس صدی کی سب سے اہم دوطرفہ تعلقات“ ثابت ہوں گے۔[16] اسی ماہ وزیر اعظم چین وین جیا باو اور وزیر اعظم بھارت منموہن سنگھدونوں ملکوں نے درمیان میں عالمی تجارت کو 2015ء تک 100 بلین امریکی ڈالر تک پہنچانے کا ہقدف بنایا۔[17] 2017-2018ء تک بھارت اور چین کے مابین تجارتی لین دین 89.6 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا،[18] لیکن اس میں بھارت کو 62.9 امریکی ڈالر کا تجارتی خسارہ جھیلنا پڑا جس کا سیدھا فائدہ چین کو ہوا۔[19] ہانگ کانگ کے ساتھ بھارت کا لین دین 34 بلین امریکی ڈالر کا تھا۔[20] برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی ) کے مطابق ایک سروے میں پایا گیا کہ 33 فیصد بھارتی چین کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ 35 فیصد بھارتی چین کو بھارت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہیں 27 فیصد چینی عوام بھارت کا اچھا مانتی ہے جبکہ 35 فیصد عوام بھارت کو پسند نہیں کرتی ہے۔[21] پیو ریسرچ سینٹر نے 2014ء میں ایک سروے کیا جس میں پتہ چلا کہ 72 فیصد بھارتی مانتے ہیں بھارت اور چین کے درمیان میں سرحدی تنازع جنگ کی صورت حال اختیار کرلے گی۔[22]

بھارت چین تعلقات
نقشہ مقام India اور China

بھارت

چین

جغرافیائی جائزہ

ترمیم
 
مغربی اور جنوبی ایشیا کا نقشہ۔ بھارت اور چین کی سرحدیں اروناچل پردیش میں ملتی ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Maria Backus (2002)۔ Ancient China۔ Lorenz Educational Press, 2002۔ ISBN 978-0-7877-0557-2 
  2. Hunt Janin۔ The India-China opium trade in the nineteenth century۔ McFarland, 1999۔ ISBN 978-0-7864-0715-6 
  3. Tansen Sen (جنوری 2003)۔ Buddhism, Diplomacy, and Trade: The Realignment of Sino-Indian Relations, 600-1400۔ University of Hawaii Press۔ ISBN 978-0-8248-2593-5 
  4. Barbara Williams (2005)۔ World War Two۔ Twenty-First Century Books, 2004۔ ISBN 978-0-8225-0138-1 
  5. "www.apcss.org/core/BIOS/malik/India-China_Relations.pdf" (PDF) [مردہ ربط]
  6. Manoj Joshi (2017)، Doklam: To start at the very beginning، Observer Research Foundation 
  7. John Lancaster (12 اپریل 2005)۔ "India, China Hoping to 'Reshape the World Order' Together"۔ The Washington Post۔ 9 فروری 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  8. "Why Indo-China ties will be more favourable than Sino-Pak"۔ Theworldreporter.com۔ 2010-07-07۔ 19 اکتوبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  9. India-China trade surpasses target، The Hindu، 27 جنوری 2011.
  10. Rejaul Laskar (دسمبر 2013)۔ "Promoting National Interest Through Diplomacy"۔ Extraordinary and Plenipotentiary Diplomatist۔ 1 (9): 60 
  11. Jeff M. Smith today's Wall Street Journal Asia (24 جون 2009)۔ "The China-India Border Brawl"۔ WSJ۔ 10 جولائی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2016 
  12. Jeff M. Smith today's Wall Street Journal Asia (24 جون 2009)۔ "The China-India Border Brawl"۔ WSJ۔ 10 جولائی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2016 
  13. AK Antony admits China incursion آرکائیو شدہ 30 ستمبر 2011 بذریعہ وے بیک مشین، DNA, 28 ستمبر 2011.
  14. "China-Pakistan military links upset India"۔ Financial Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2016 
  15. China warns India on South China Sea exploration projects آرکائیو شدہ 24 ستمبر 2011 بذریعہ وے بیک مشین، The Hindu، 15 ستمبر 2011.
  16. "US, China woo India for control over Asia-Pacific"۔ The Times Of India۔ 7 جون 2012۔ 31 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مارچ 2019 
  17. "India-China bilateral trade set to hit $100 billion by 2015 – The Times of India"۔ The Times of India۔ 2012-06-21۔ 24 جون 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اگست 2012 
  18. "With US trade under a cloud, China opens to Indian pharma" 
  19. https://economictimes.indiatimes.com/news/economy/foreign-trade/india-china-bilateral-trade-hits-historic-high-of-usd-84-44-bln-in-2017/articleshow/63203371.cms
  20. https://www.livemint.com/Politics/IiMAWzG8C7MRi85S9OSoUO/Hong-Kong-can-be-Indias-gateway-to-China-Gautam-Bambawale.html
  21. 2014 World Service Poll آرکائیو شدہ 10 اپریل 2016 بذریعہ وے بیک مشین برطانوی نشریاتی ادارہ
  22. "Chapter 4: How Asians View Each Other"۔ پیو ریسرچ سینٹر۔ 15 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اکتوبر 2015