بیگم خورشید مرزا
بیگم خورشید مرزا (پیدائش:4 مارچ 1918ء|وفات: 8 فروری 1989ء) تقسیم ہند سے قبل فلمی ہیروئن اور ایک مشہور پاکستانی اداکارہ تھیں۔بیگم خورشید مرزا جن کا اصل نام خورشید جہاں تھا تقسیم ہند سے قبل رینوکا دیوی کے نام سے مشہور ہوئیں اور پاکستان بننے کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی ممتاز فنکارہ کے طور پر جانی گئیں لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ بیگم خورشید مرزا کا تعلق برصغیر کے کتنے معروف علمی، ادبی اور ثقافتی خانوادے سے تھا۔
بیگم خورشید مرزا | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1918ء علی گڑھ |
وفات | 8 فروری 1989ء (70–71 سال)[1][2] لاہور |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | ادکارہ ، فلم اداکارہ [3] |
اعزازات | |
IMDB پر صفحہ | |
درستی - ترمیم |
ابتدائی حالات
ترمیمبیگم خورشید کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔ خاندان علی گڑھ کے ممتاز گھرانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ بیگم کے والد شیخ عبد اللہ نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کی بنیاد رکھی تھی جبکہ بیگم کی بڑی بہن ڈاکٹر رشید جہاں انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانی شرکاء میں سے تھیں۔ دیگر دوسری بہنیں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔بیگم خورشید مرزا کے والد شیخ محمد عبد اللہ ایک نامور ماہر تعلیم تھے۔ ان کی سوانح عمری پروفیسر شمس الرحمن محسنی نے ’حیات عبد اللہ‘ کے نام سے تحریر کی ہے۔اس سوانح عمری کے مطابق شیخ محمد عبد اللہ کا اصل نام ٹھاکر داس تھا اور وہ 21 جون 1874 کو پونچھ، جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ سنہ 1890ء میں انھوں نے مولوی حکیم نور الدین کے زیر اثر اسلام قبول کیا اور میٹرک کرنے کے بعد 1891ء میں ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخل ہوئے۔شیخ محمد عبد اللہ تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے۔ انھوں نے سنہ 1904 میں ایک رسالہ ’خاتون‘ جاری کیا اور پھر سنہ 1906ء میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے علی گڑھ میں ایک اقامتی مدرسہ قائم کیا۔ یہ مدرسہ ہندوستان بھر میں مسلم خواتین کی تعلیم کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ مدرسہ کالج میں تبدیل ہو گیا۔شیخ محمد عبد اللہ کو حکومت برطانیہ نے ’خان بہادر‘ کے خطاب، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ’ایل ایل ڈی‘ کی اعزازی ڈگری اور حکومت ہند نے ’پدم بھوشن‘ کے اعزاز سے سرفراز کیا تھا۔ شیخ عبد اللہ کو اسکول کی طالبات پیار سے ’پاپا میاں‘ اور ان کی شریک حیات وحید جہاں بیگم کو ’اعلیٰ بی‘ کے نام سے پکارتی تھیں۔شیخ محمد عبد اللہ کی اہلیہ اعلیٰ بی کی سوانح عمری بھی شائع ہو چکی ہے جو خود ڈاکٹر شیخ محمد عبد اللہ کی تحریر کردہ ہے[4]
شیخ عبد اللہ کی بیٹی جنھوں نے فیض احمد فیض کو ترقی پسند ادبی تحریک کا حصہ بنایا
ترمیمشیخ عبد اللہ کی بیٹی جنھوں نے فیض احمد فیض کو ترقی پسند ادبی تحریک کا حصہ بنایا شیخ محمد عبد اللہ کی بیٹیوں میں ڈاکٹر رشید جہاں اور بیگم خورشید مرزا نے بڑی شہرت حاصل کی۔ ان میں ڈاکٹر رشید جہاں برصغیر میں ترقی پسند ادبی تحریک کی بنیاد گزاروں میں شمار ہوتی ہیں۔ڈاکٹر رشید جہاں نے علی گڑھ، لکھنؤ اور نئی دہلی سے تعلیم حاصل کی اور ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد میڈیکل کی پریکٹس سے وابستہ ہو گئیں۔اسی دوران اُن کی ملاقات سید سجاد ظہیر، احمد علی اور محمود الظفر سے ہوئی جو سوشلزم سے متاثر تھے۔ ان چاروں افراد نے 1932ء میں ’انگارے‘ کے نام سے افسانوں کا ایک مجموعہ شائع کیا جس میں ڈاکٹر رشید جہاں کی دو کہانیاں ’دلی کی سیر‘ اور ’پردے کے پیچھے‘ شامل تھیں۔سنہ 1934ء میں وہ محمود الظفر کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں اور ان کے ساتھ امرتسر چلی گئیں جہاں کی ملاقات ڈاکٹر محمد دین تاثیر، فیض احمد فیض، قاضی فرید اور میاں افتخار الدین جیسے ادیبوں اور شاعروں سے ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ فیض احمد فیض کو ترقی پسند ادبی تحریک کا حصہ بنانے میں ڈاکٹر رشید جہاں کا کردار بہت اہم ہے۔ڈاکٹر رشید جہاں کے افسانوں، ڈراموں اور مضامین کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں ’عورت‘ اور دوسرے افسانے، شعلہ ٔ جوالہ اور وہ اور دوسرے افسانے و ڈرامے شامل ہیں[5]
خورشید جہاں رینوکا دیوی کیسے بنیں؟
ترمیمبیگم خورشید مرزا چار مارچ 1918ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا اصل نام خورشید جہاں تھا اور ان کی شادی، سترہ برس کی عمر میں ایک پولیس آفیسر اکبر حسین مرزا سے ہوئی۔خورشید جہاں کے بھائی محسن عبد اللہ بمبئی میں دیویکارانی اور ہمانسورائے کے فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ ان کے توسط سے جب دیویکا رانی کی ملاقات خورشید جہاں سے ہوئی تو انھوں نے انھیں اپنی فلموں میں اداکاری کی دعوت دی۔یوں خورشید جہاں نے ’رینوکا دیوی‘ کے نام سے فلموں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ بیگم خورشید مرزا نے جناب لطف اللہ خان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ رینوکا دیوی، دیویکا رانی کی مرحوم بہن کا نام تھا اور دیویکا رانی نے خورشید جہاں کو یہ نام اپنی بہن کی یاد میں دیا تھا[6]
جب انتظار حسین رینوکا دیوی پر مر مٹے
ترمیمبرصغیر کی فلمی صنعت کی کوئی تاریخ ’بمبئی ٹاکیز‘ کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ بہت جلد اس ادارے میں ہندوستان کے مشہور ادیب، شاعر، رقاص اور موسیقار شامل ہو گئے تھے جن میں منشی پریم چند، نریندر شرما، شاہد لطیف، عصمت چغتائی، خواجہ احمد عباس، گیان مکرجی، امیا چکرورتی، ممتاز علی، پردیپ، گوپال سنگھ نیپالی اور پی ایل سنتوشی جیسے افراد شامل تھے۔ بمبئی ٹاکیز کی بیشتر فلموں میں ہیروئن کا کردار دیویکا رانی خود ادا کیا کرتی تھیں جنھیں آج بھی ہندوستانی سکرین کی ’خاتون اول‘ کہا جاتا ہے۔ بمبئی ٹاکیز نے برصغیر کی فلمی صنعت کو متعدد نئے چہرے بھی عطا کیے جن میں رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) کے علاوہ لیلیٰ چٹنس جیسی اداکارائیں اور نجم الحسن اور اشوک کمار جیسے اداکار شامل تھے۔ رینوکا دیوی کی مشہور فلموں میں ’جیون پربھات‘، ’بھابی‘، ’نیا سنسار‘ اور ’غلامی‘ شامل تھیں۔ محمود الحسن نے اپنی کتاب ’شرف ہم کلامی‘ میں لکھا ہے کہ ’فلم ’بھابھی‘ انتظار حسین نے بھی دیکھی تھی جس میں رینوکا دیوی ہیروئن تھیں۔ انتظار حسین کہتے تھے کہ اس کے بارے میں پتا چلا کہ علی گڑھ میں کوئی صاحب ہیں، اُن کی بیٹی ہے اور مسلمان ہے۔ پہلی مرتبہ ہم نے جس فلمی ہیروئن کی تصاویر دیکھیں وہ رینوکا دیوی تھیں، تو ہم اس پر فوراً عاشق ہو گئے، اس وقت ہم انٹرمیڈیٹ میں تھے۔‘
ازدواجی زندگی اور فلمی سفر
ترمیم1934ء میں 17 سال کی عمر میں بیگم خورشید کی شادی دہلی کے ایک پولیس آفیسر اکبر حسین مرزا سے ہوئی۔ بیگم کے بھائی محسن عبد اللہ بمبئی میں فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے جہاں بیگم کی ملاقات اُن کے بھائی کے توسط سے دیویکا رانی اور ہمانشو رائے سے ہوئی جنھوں نے بیگم کو اپنی فلموں میں کام کرنے کی دعوت دی۔ 1937ء میں جیون پربھات، 1938ء میں بھابھی، 1939ء میں بھکتی، بڑی دِیدِی، 1941ء میں نیا سنسار میں کام کیا۔ اِن تمام فلموں میں اُن کا رینوکا دِیوی تھا۔بمبئی میں اُن کی آخری فلم نیا سنسار تھی جو 1941ء میں بنی تھی۔فروری 1944ء میں انھوں نے ہندوستانی فلم انڈسٹری سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ 1942ء میں بیگم خورشید نے بمبئی کو خیرباد کہا اور لاہور آگئیں۔ لاہور میں انھوں نے بطور صفِ اول کی اداکارہ فلم سہارا (1943ء) ، غلامی (1945ء)، سمراٹ چندرگپت (1945ء) میں کام کیا۔اِن تمام فلموں میں وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری کے جوہر بھی دکھاتی رہیں۔بیگم خورشید تقسیم ہند 1947ء کے بعد پاکستان آگئیں اور یہاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئیں۔شروع شروع میں وہ ڈراموں اور فلم کی دنیا سے دور دور رہیں۔انھوں نے لطف اللہ خان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے شوہر اکبر مرزا پولیس کے محکمے سے وابستہ تھے اور ان کی تعیناتی مختلف شہروں میں ہوتی رہتی تھی۔ 1950 کی دہائی میں جب ان کی تعیناتی کوئٹہ میں تھی تو انھوں نے وہاں اپوا کو فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور ایک سٹیج ڈرامے میں بھی کام کیا۔سنہ 1962 میں جب کراچی میں ٹیلی وژن کی تجرباتی نشریات کا آغاز ہوا تو انھوں نے ان تجرباتی نشریات میں بھی دو ڈراموں میں کام کیا۔ اسی دوران انھوں نے ریڈیو کے کئی پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی۔ 1964ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کے قیام کے بعد حسینہ معین کے لکھے ہوئے ایک ڈراما کرن کہانی کے لیے بیگم خورشید کو منتخب کر لیا گیا اور اِس طرح وہ دوبارہ منظرعام پر آگئیں۔بعد ازاں حسینہ معین کے لکھے ہوئے ایک دوسرے ڈراما زیر زبر پیش میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اِس طرح 1970ء میں وہ اپنے شو بز دور کے عروج پر پہنچ گئیں۔دسمبر 1971 میں ان کے شوہر اکبر مرزا کی وفات ہو گئی جس کے بعد انھوں نے پی ٹی وی کی پروڈیوسر شیریں پاشا کے اصرار پر ٹیلی ویژن ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا۔ 1972ء میں ایک نئے ڈراما انکل عرفی میں اداکاری کی اور بعد ازاں فاطمہ ثریا بجیا کے لکھے ہوئے ڈراما ماسی شربتے میں اداکاری کی۔ 1985ء میں انھوں نے اداکاری کو خیرباد کہہ دیا اور شو بز کی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ وہ کراچی چھوڑ کر لاہور منتقل ہوگئیں جہاں وہ اپنی بیٹیوں اور اُن کی اولاد کے ساتھ مقیم رہیں[7]
کرن کہانی سے پی ٹی وی کے سفر کا آغاز
ترمیمان کی پہلی ٹیلی وژن سیریل ’کرن کہانی‘ تھی جس میں ان کی بے ساختہ اور نیچرل اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔اس کے بعد انھوں نے متعدد ٹیلی وژن سیریلز میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کے علاوہ ڈراما ’ماسی شربتے‘ میں بھی ان کا کردار بڑا یادگار سمجھا جاتا ہے۔بیگم خورشید مرزا کی سوانح عمری ’اے وومن آف سبسٹانس‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے جو ان کی صاحبزادی لبنیٰ کاظم نے تحریر کی ہے۔ یہی سوانح عمری ’دی میکنگ آف اے ماڈرن مسلم وومن‘ کے نام سے بھی شائع ہوئی۔یہ سوانح عمری دراصل ان کی ان یادداشتوں کی کتابی شکل ہے جو انھوں نے 1980 کی دہائی میں انگریزی ماہنامے ’ہیرالڈ‘ میں قسط وار تحریر کی تھیں۔ بیگم خورشید مرزا شاعری بھی کرتی تھیں اور انھوں نے ’میلاد مبارک‘ کے نام سے بھی ایک کتاب تحریر کی تھی۔ عمر کے آخری حصے میں بیگم خورشید مرزا لاہور منتقل ہو گئیں[8]
ادب
ترمیم1982ء میں بیگم خورشید نے اپنی خودنوشت سوانح حیات تحریر کی جس میں انھوں نے برطانوی راج کے دوران لکھنؤ میں اپنی تعلیمی زندگی، ازدواجی زندگی، بھارتی فلم انڈسٹری میں بطور اداکارہ، تقسیم ہند کے دوران پاکستان ہجرت اور ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستگی کے واقعات کو بیان کیا ہے۔یہ خودنواشت سوانح ماہنامہ ہیرلڈ میں اگست 1982ء سے اپریل 1983ء تک قسط وار شائع ہوتی رہی۔ کل اقساط کی تعداد 9 تھی۔ 2005ء میں اِن اقساط کا مجموعہ ان کی صاحبزادی لبنیٰ کاظم نے ترتیب دیا جو A woman of substance: the memoirs of Begum Khurshid Mirza کے نام سے شائع کیا گیا۔
سماجی خدمات
ترمیمتقسیم ہند 1947ء کے بعد پاکستان آمد کے بعد بیگم خورشید آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن کے لیے بطور سماجی کارکن کام کرتی رہیں۔ جب اُن کے شوہر اکبر حسین مرزا کوئٹہ تعینات ہوئے تو بیگم خورشید کوئٹہ میں آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن کی سماجی کارکن کے تحت غریب و پسماندہ علاقوں کے لیے کام کرتی رہیں اور وہاں باقاعدہ ایک مرکز اسماعیل خیلی کے نام سے قائم کیا۔ ریڈیو پاکستان سے وہ خواتین کے مسائل پر پروگرام بھی کرتی رہیں۔
تمغا حسن کارکردگی
ترمیم1984ء میں اُن کی خدمات کے پیش نظر حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں تمغائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔[9]
وفات
ترمیمبیگم خورشید کا انتقال 71 سال کی عمر میں 8 فروری 1989ء کو لاہور میں ہوا۔ تدفین میاں میر قبرستان، لاہور میں کی گئی۔[10]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ مصنف: آرون سوارٹز — او ایل آئی ڈی: https://openlibrary.org/works/OL1403816A?mode=all — بنام: Begum Khurshid Mirza — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/1587438 — بنام: Begum Khurshid Mirza — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس آئی ڈی: https://www.imdb.com/name/nm0222481/
- ↑ https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60286957
- ↑ https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60286957
- ↑ https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60286957
- ↑ https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60286957
- ↑ https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60286957
- ↑ وفیات پاکستانی اہل قلم خواتین از خالد مصطفی
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات ناموران پاکستان، لاہور، اردو سائنس بورڈ، لاہور، 2006ء، ص 296