قمر جہاں سکندرا بیگم، [1] بیگم ڈولی آزاد کے نام سے مشہور ((بنگالی: বেগম ডলি আজাদ)‏)، مشرقی پاکستان کی سیاست دان تھیں۔

بیگم ڈولی آزاد
معلومات شخصیت
مقام پیدائش برطانوی ہند،  بوگرا  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1994ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ابو ظہبی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت پاکستان مسلم لیگ  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات خواجہ محمد آزاد  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی اور خاندان ترمیم

بیگم ڈولی کی پیدائش بوگرا ضلع، بنگال پریذیڈنسی، برطانوی راج میں ایک مسلم گھرانے میں ہوئی۔ وہ ڈھاکہ کے نواب خاندان کے خواجہ محمد آزاد سے شادی کرنے کے بعد 19 نیو ایسکاٹن روڈ، رمنا تھانہ، ڈھاکہ میں رہائش پزیر ہوئیں، جہاں انھیں کافی اراضی وراثت میں ملی۔ [1] ان کے شوہر محمد آزاد مشرقی پاکستان آرمی کے لیفٹیننٹ میں سے ایک افسر تھے۔ [2]

فرحت بانو بیگم ڈولی کی چچا زاد بہن تھیں، جو برطانوی ہندوستان میں بنگال قانون ساز اسمبلی کی رکن تھیں۔ اس کے چچا سر خواجہ سلیم اللہ ڈھاکہ کے نواب تھے۔ فرحت بانو کے والد انڈین نیشنل کانگریس کے رکن تھے اور فرحت کے شوہر خواجہ شہاب الدین پاکستان کے سابقہ صوبہ سرحد کے گورنر تھے۔

سیاست ترمیم

1949ء میں، بیگم آزاد آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (جو بعد میں بنگلہ دیش مہیلا سمیتی بن گئی) کی بانی رکن بن گئیں۔ انھوں نے ڈھاکہ میں ایسوسی ایشن کی پانچویں سہ ماہی کانفرنس کے دوران میں ایک فعال کردار ادا کیا، جو فروری 1968ء میں منعقد ہوئی تھی۔[3]

وہ 1965ء میں مشرقی پاکستان کی نمائندہ کے طور پر پاکستان کی چوتھی قومی اسمبلی کی رکن بنیں [4][5] اس وقت ایوب خان صدر پاکستان تھے، 1966ء میں، انھوں نے حکومت پاکستان سے قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد بڑھانے کی درخواست کی۔ وہ دو ہفتے کے دورۂ چین میں پاکستانی وفد کی رکن تھیں، جس میں انھوں نے ایک چینی حب الوطنی کا گانا گایا جس کا نام اتفاق میں برکت ہے۔

بنگلہ دیش علاحدگی کی جنگ اور اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد بیگم آزاد نے اپنی رہائش گاہ ترک کر دی اور مغربی پاکستان ہجرت کر لی۔ ان کا گھر بعد میں سراج الدین حسین اور ابوالکلام آزاد کے خاندانوں کو تحفے میں دیا گیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جنگ کے دوران میں البدر فورسز کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ وہ بعد ازاں جائداد لینے واپس آگئیں اور وہاں رہنے والے خاندانوں کے خلاف ایک عدالتی مقدمہ چلا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب فریدہ شہید، مدیر (1998)۔ Shaping Women's Lives: Laws, Practices and Strategies in Pakistan۔ شرکت گاہ۔ صفحہ: 367 
  2. راشد الخیری (1973)۔ سفرنامہ مشرقی پاکستان [Book of travels to East Pakistan]۔ Allama Rashid ul Khairi Academy۔ صفحہ: 178 
  3. Masrūr, Mihr Nigār (1980)۔ Raʼana Liaquat Ali Khan: A Biography۔ All Pakistan Women's Association۔ صفحہ: 118 
  4. Debates: Official Report (بزبان انگریزی)۔ Manager of Publications.۔ 1968۔ صفحہ: 3212 
  5. United States Central Intelligence Agency (1966)۔ Daily Report, Foreign Radio Broadcasts (بزبان انگریزی)۔ صفحہ: 8