وائس آف امریکہ کا گمشدہ آرٹیکل ترمیم

http://askabida.com/my-articles/salim-gilani-interview

سائیکلوں کی دکان سے لوگوں کے دلوں تک
وائس آف امریکہ کے لئےریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل سید سلیم گیلانی کے ساتھ ڈاکٹر عابدہ رپلی کے انٹرویو سے اقتباس
مہدی حسن
س: یہ بات کہ مہدی حسن کو بر سر عام لانے کا سہرا آپ کے سر ہے اس کی تفصیل بتائیے۔
ج: مہدی حسن کی سائیکلوں کی دکان تھی منٹگمری میں۔ اس کے ایک ماموں تھے، نہال عبداللہ نام تھا ان کا۔ میں جب کراچی میں تھا لاہور آنے سے پہلے میری تقرری وہاں ہوئی تھی اسسٹنٹ ڈائیریکٹر کے طور پر۔ تو نہال عبداللہ وہاں بڑا اچھا گانےوالے تھے بڑے خوش گلو، سیکھے ہوئے ، تربیت یافتہ تھے اچھی غزل گایا کرتے تھے۔ دو تین بندے تھے گانے والے جن میں وہ سب سے اچھا گاتے۔ نہال کی آواز بہت اچھی تھی ۔ پھر میں لاہور آگیا۔ کچھ عرصے کے بعد ایک صاحب آئے اور کہا کہ ’میرا نام مہدی حسن ہے مجھے نہال عبداللہ نے بھیجا ہے آپ کے پاس اور کہا ہے کہ وہ آپ کے لئے کچھ کرینگے ۔ آپ انہیں گانا سنائیے اور جیسا وہ مشورہ دیں ویسا آپ کریں۔‘
س: کونسے سنہ کی بات ہے یہ؟
ج: یہ تقریبا 1956ء کی بات ہے ۔ میں نے سنا اور مجھے اچھا لگامہدی حسن۔ آواز بھی اچھی لگی ۔اور آداب و اطوار بھی مجھے پسند آئے۔ تو میں نے کہا کہ بھئی مشورہ تو یہ ہے کہ تمھیں گانا چاہئے تو یہ بتاؤ کہ اب تک تم نے کیا گایا ہے؟ اس نے کہا میں دوسرے گویوں کے گائے ہوئے فلمی گانے گاتا ہوں محفلوں میں اور تھوڑے سے پیسے مجھے مل جاتے ہیں۔کچھ انڈیا کے فن کار ہیں جن میں طلعت محمود بھی شامل ہے، ان کے گانےگاتا ہوں۔ وہ اس نے مجھے سنائے۔ میں نے پوچھا شب و روز کیسے گذرتے ہیں۔ کہا دوست احباب ہیں ان کے ساتھ بیٹھا گپیں لگاتا رہتا ہوں، باجا بھی بجاتا ہوں، اور تھوڑا بہت فلموں میں بھی اگر کوئی لے کا ساز بجانا ہو تو مجھے اس کا بھی تھوڑا سا تجربہ ہے۔
میں نے کہا بات یہ ہے مہدی حسن کہ مجھے اچھی لگتی ہے تمہاری آواز لیکن میں تمہیں خود پروڈیوس کرنا چاہتا ہوں، کسی کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ میں جا رہا ہوں امریکہ۔ تو وہاں سے واپسی پر ہو سکتا ہے سال لگ جائے، دو، تین سال لگ جائیں۔ اس نے کہا کہ پھر جیسے آپ حکم کریں۔
میں نے کہا حکم یہ ہے کہ تمہیں اس دوران میں گانابالکل نہیں ہے اور ریڈیو کے لئے تو قطعا مت گاؤ ۔ جاؤ کہیں گاؤں وغیرہ میں اور وہاں بیٹھ کے ریاض کرو ۔اور بس ریاض ہی کرو آواز کا ۔ پھر جب میں امریکہ سے واپس آؤں گا، انشااللہ تو پھربات کریں گے ۔
س: فلموں سے منع کرنا تو سمجھ میں آتا مگر ریڈیو سے کیوں روکا ، آپ تو خودریڈیو کے آدمی تھے؟
ج: وہ اس لئے کہ ان کی گایکی کا ابھی کچھ ڈھب طے نہیں ہوا تھا ۔ اس لیے خطرہ تھا کہ کوئی انہیں کسی غلط جگہ پر نہ لگا دے جیسے فوک میں یا گیت گنوانے لگیں ۔ اس میں ان کا فن صحیح پنپ نہ سکتا ۔یعنی ان کی آواز کا بہترین استعمال یہ نہیں تھا۔ چنانچہ جب تین سال کے بعد میں واپس آیا تو اس وقت پوسٹنگ تو میری کراچی ہی میں تھی مگر میں یہاں لاہور آیا، دورے پر ۔ ہمارے دوست ہیں رضی ترمذی صاحب ۔ اچھے شاعر ہیں اور بہت پیارے آدمی ہیں ۔ ان کے کمرے میں ملنے کے لئے گیا تو ان کے چپڑاسی نے بتایا کہ صاحب ایک بندہ باہربڑی دیر سے بیٹھا ہوا ہے اور وہ کئی دنوں سے آرہا ہے، کہتا ہے آپ سے ملنا ہے ۔ مہدی حسن نام ہے اس کا ۔ مجھے یاد آگیا ۔ میں نے فوری سارے کام چھوڑ کر اس کو بلوا لیا۔
اس کے ساتھ اس کے کوئی کزن وغیرہ بھی تھے ۔ کہا میں نے سنا تھا آپ آنے والے ہیں چنانچہ میں روز آتا تھا دیکھنے کہ شاید آپ بیٹھے ہوں ۔ اب میرے لئے کیا حکم ہے جناب ؟ میں نے ریڈیو پہ گانا نہیں گایا، سٹیج پہ نہیں گایا ۔ بالکل کہیں نہیں گایا، جیسے آپ نے فرمایا تھا۔
میں اس بات سے بڑا متاثر ہوا ۔ پوچھا کیا کرتے رہے ۔کہا ہمارے ایک زمیندار تھے ان کے گھر کے پاس ایک جھیل تھی ان کے پاس ایک ناؤ تھی ۔ اس ناؤ میں بیٹھ جاتا اور وہاں گانا گاتا رہتا اور ریاض کرتا جیسا آپ نے کہا تھا ۔ میں نے کہا میں تو یہاں نہیں ہوں بلکہ کراچی ہوں۔ تم کراچی آؤ تو پھر بات کریں ۔ پوچھا آپ کب کراچی جا رہے ہیں ۔ میں نے کہا کل جا رہا ہوں۔ کہا آپ ہوائی جہاز سے جائیں گے؟ میں نے کہا ہاں ۔ بولے میں پہنچ جاؤں گا ۔
اسی وقت وہ ریڈیوسٹیشن سے گھر جانے کے بجائے سیدھا ریلوے سٹیشن گیا اور ٹکٹ لے کے کراچی پہنچ گیا ۔ اگلے روز صبح جب میں ہوائی جہازسے گیا تو دو تین گھنٹوں کے بعد دیکھا کہ وہ ریڈیو سٹیشن پر موجود تھا ۔ یہاں سے بات شروع ہوئی ۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا گائے ۔آواز تو بہت اچھی تھی، روشن ۔ چمک دار آواز ۔ اس پر ریاض بھی تھا۔
س: ایک سیکنڈ ، یہ جو آپ نے کہا تھا کہ تین سال ریاض کرو تو آپ کو ان کے فن میں کیا کچا پن دکھائی دیا تھا؟
ج: نہیں، ریاض تو جتنا ہو اتنا ہی اچھا ہوتا ہے نا ۔ اتنی پختگی آتی ہے ۔
س: تو پھر تین سال ہی کیوں، دس سال کیوں نہیں، ڈیڑھ سال کیوں نہیں؟
ج: مجھے اندازہ نہیں تھا تین سال کا۔ میں نے تو کہا تھا جب تک میں نہ آؤں، تب تک ریاض کرو ۔ بکھر مت جاؤ ۔ کسی ایک طرز پہ گانا شروع کر دیا تو پھر وہ بعد میں صحیح نہیں ہو سکے گا۔
س: گویا کوئی خاص کمی نوٹ نہیں کی آپ نے؟
ج: نہیں، کمی تو ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ جتنا ریاض آپ کریں اتنے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ اس طرح سر آدمی کے تابع ہو جاتے ہیں، پہلے آدمی سروں کا تابع ہوتا ہے ۔ پھر کوشش کر کے ریاض کر کے سروں کو اپنی مرضی سے قابو میں کر سکتا ہے ۔ چنانچہ میں نے ۔۔۔ کیا بات کر رہا تھا میں؟
س: آواز بہت روشن تھی۔
ج: ہاں روشن تھی ۔ اب سوال یہ تھا کہ اس کا کریں کیا ۔ اسکو خوب سنا ۔ سٹوڈیو میں بیٹھ کر ایک دو گھنٹے تک آواز سنی ۔ اب یہی مسئلہ تھا کہ اس آواز کا مصرف کیا ہو ۔ پوچھا میاں تم کیا گاتے ہو ۔ کہا جی میں راجستھان کا فوک گاتا ہوں، اور میں ٹھمری گا تا ہوں، کلاسیکل بھی گاتا ہوں، راگ مجھے یاد ہیں ۔ کئی خیال یاد ہیں، پھر گھرانہ بتایا اپنا ، کہ فلاں گھرانا ہے بہت پرانا گھرانا،بھائی کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت اچھا گاتے ہیں اور وہ استاد بھی ہیں ۔ اور کہا میرے ماموں ہیں، میرے تایا ہیں وہ یہاں منٹگمری میں کسی زمیندار کے پاس ملازم ہیں ، وہ بھی کلاسیکل کے استاد ہیں۔
اب اس کی تو مجھے تلاش نہیں تھی۔ کلاسیکل گانے والے تو اس زمانے میں الحمد للہ بہت تھے ۔ استادبڑے غلام علی خان زندہ تھے استاد چھوٹے غلام علی زندہ تھے اور بھی بےشمار لوگ تھے ۔اس سے میں نےکہا کہ غزل کے بارے میں کیا خیال ہے ۔ کہا وہ تو اردو میں ہوتی ہے میں نے کہا تم اردو پڑھ لیتے ہو ۔ کہا میں بالکل نہیں پڑھ سکتا۔
س: جب ان کا اپنا شوق لوک گیت گانے کا تھا تو غزل یا نظم یا اردو کی بات آپ نے کیوں کی؟
ج: بات یہ ہے کہ جو مہدی حسن کی آواز کا لہجہ تھا اس میں شرافت بہت زیادہ تھی ۔ آواز تو خیر بہت سوں کی اچھی ہوتی ہے لیکن اس کی آواز میں جو سب سے بڑی بات مجھے لگی وہ یہ تھی کہ اس میں کوئی چھچھوراپن، کوئی گھٹیا پن یاتمسخر جیسی شے نہیں تھی ۔ جیسے مثلا کچھ اور لوگوں کی آوازوں میں ایسا تھا کہ وہ کوئی شریر گانا گا سکتے تھے ۔ مہدی حسن کی آواز میں شرارت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا تھا، بلکہ بہت زیادہ تمیز والی آواز تھی ۔اور اس تمیز والی آواز کے لیے الفاظ بھی بہت زیادہ تمیز والے چاہیئے تھے۔
س: اور یہ بات غزل سے زیادہ کہاں مل سکتی ہے ؟
ج: جی بالکل، اس کی آواز کے لیے تہذیب کی زبان چاہئے تھی مگر اردو اسے پڑھنی نہیں آتی تھی۔ میں نے کہا اگر میں کچھ یاد کراؤں تو کر لو گے؟ کہا آپ بولیں گے تو سن کر یاد کر لوں گا ۔ پوچھا اپنا نا م لکھ لیتے ہو ۔کہا لکھ لیتا ہوں۔ پوچھا کس زبان میں؟ کہا ہندی میں لکھتا ہوں۔ ہندی پڑھ بھی لیتا ہوں۔ مجھے بھی ہندی آتی تھی ۔میں نے ہندی میں لکھا:
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
اور اس سے کہا اسے پڑھو۔ اس نے پڑھ دیا، اور ٹھیک پڑھا۔ بس پھر اس کی طرز بنی، طرز بننے کے بعد گانا شروع کیا۔ پھر یہ تھا کہ کہاں رکنا ہے،کہاں سانس لینی ہے، کس لفظ پر زور دینا ہے ۔ طرز بنانے میں اہتمام کرنا کہ کون سا لفظ اجاگر کرنا ہے، کون سے لفظ سے جلدی گذرنا ہے۔ یہ غزل کی گایکی میں سب سے بڑی بات تھی۔
سازندے میرے پاس تھے ہی۔ سارے کے سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہاں۔ انہوں نے مدد کی اور بہت اچھی طرز بن گئی، اور لہجہ اس کا ٹھیک تھا ۔لیکن مسئلہ جو تھا وہ یہ کہ اس نے مجھے بتایا کہ میں تین آوازوں میں گاناگاتا ہوں ۔رگی میں گانا گاتا ہوں۔ ایک اور پچ سے بھی گاتا ہوں اوراسکے علاوہ ایک اور پچ سے بھی۔ تو پہلے آپ یہ بتائیں کہ میں کونسا پچ استعمال کروں اور کس آواز میں گانا گایا کروں؟
سوبہت سی غزلیں اس سے سنیں مختلف آوازوں میں۔ وہ سننے کے بعد ایک انتخاب کیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ یہ پچ ہے جس میں ان کی آواز کی زیادہ سے زیادہ گنجائشیں نکلتی ہیں۔ چنانچہ یہ طے ہو گیا کہ مہدی حسن اس پچ پہ گایا کرےگا۔اس کے علاوہ یہ بھی طے ہو گیا کہ اس کے سوا مہدی حسن کسی اورآواز میں ہرگز، ہرگز نہیں گائے گا۔بلکہ اسی ایک پچ کو سنوارے گا اور اجالے گا۔ اسی پہ مرکوز رہے گا، چاہے کچھ ہو جائے۔
اب گائیکی کا انداز بھی ویسا بن گیاجس میں الفاظ واضح ہوں، سروں کے تابع ہوں۔ سروں پر لفظ سوار نہ ہوں نہ سر لفظوں پہ سوار ہوں۔ لے بھی ایسی ہو کہ جو مناسب ہو، جس میں لفظ کٹیں نہیں۔ کہیں اضافت نہ کٹے۔ جس لفظ میں لمبا ہونے کی گنجائش نہیں وہ لمبا نہ ہو۔ اور یوں بے تکا نہ لگے۔ جیسے کہ اب تک غزل گائی جاتی تھی۔
س: کیا اب تک غزل بے تکے انداز میں گائی جاتی تھی؟
ج: اس دور میں غزل ایک خاص انداز سے گا ئی جاتی تھی۔ غزل گانے کا رواج تو تھا ، پورا ایک موسم تھا۔ ایک دور تھا۔پہلے تو غزل گائی ہی نہیں جاتی تھی یا بہت کم گائی جاتی تھی۔ کلاسیکل والے اسے ٹھمریوں کے انداز میں گایا کرتے تھے، یا گیت کی صورت میں گالیتے تھے ۔ ورنہ تو یہ تھا کہ سیدھا سیدھا کہا یہ راگ کیدارا ہے اسکی بندش کرنی ہے۔ یا یہ راگ بھوپالی ہے اس میں بندش کرنی ہے ۔ اس غزل کو فلاں راگ میں کر لو اس کو فلاں میں۔ مثلاً مالکونس میں کر لو۔ چنانچہ سر کو لے کے، چھیڑ کے کھینچ تان کے وہ پورا کر لیتے تھے ۔گلے تو گانے والوں اور گانے والیوں کے تیار تھے ۔ تھوڑا سا الاپ کرتے،لے تال کا، سرکا انہیں پتہ تھا، تو وہ نبھا لیتے تھے۔
س: تو پھر مسئلہ کیا تھا؟
ج: مسئلہ یہ تھا کہ جو لفظ ہیں وہ کہاں جائیں اس پر غور نہیں ہوتا تھا۔ بحرجو ہے وہ تو سمٹ گئی، الفاظ سمٹ گئے۔ لیکن الفاظ جو ہیں وہ مفہوم کیا ادا کر رہے ہیں، اس کی ان کو زیادہ فکر نہیں ہوتی تھی۔ گانے میں آجائیں، راگ میں پورے ہو جائیں، بس۔ بیچ میں چاہا تواپنے پاس سے الاپ کر لیا ، اسی راگ کا اورپھر وہیں سے بول پکڑ لیے۔
تو اس میں وہ غزل کے مصرعے کا ذہنی تسلسل جو ہے،یا شعر کے لفظ کا، وہ منقطع ہوجاتا۔غزل کا اسلوب الگ تھا۔ اس کے ساتھ بڑی محنت کرنی پڑتی۔لیکن بہرکیف اور کوئی صورت نہیں تھی۔ سب لوگ کہتے تھے کہ یہ اچھا ہے، ٹھیک ہے۔بڑے بڑے لوگ ایسے ہی گاتے تھے۔ اسی اسلوب کاایک پورا سکول بن گیا۔
س: وہ سکول کیا کہلاتا تھا؟
برکت علی خان صاحب کا سکول جس میں سارے لوگ تھے۔ فریدہ خانم تھیں، اقبال بانو تھیں، علی بخش ظہور تھے اور اختری فیض آبادی تھیں۔یہ سب ایک ہی گھرانا تھا ۔ان سب کو پورا عبور تھا موسیقی کے راگوں پر ۔ لفظ جو تھے و ہ تھوڑا بہت یاد کر کے کھینچ تان کر اس راگ میں اور اس لے میں جس میں گاتے، اسے پورا کر لیتے ۔سننے والوں کے لیے یہی بڑا غنیمت تھا کہ راگ بھی ہو رہا ہے، سر تال بھی ہے، تانیں بھی لگ رہی ہیں ، موسیقی کا مزہ بھی آرہا ہے، بیچ میں الاپ بھی ہو رہے ہیں۔
میں یہ کافی نہیں سمجھتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ غزل گائی جائے تو اسی حساب سے گائی جائے کہ سارے کے سارے الفاظ جو ہیں ان کا حق ادا ہو۔ لفظ بھی وہ ہوں جومطابقت رکھتے ہوں، سر وہ ہوں جو لفظوں کے سا تھ مطابقت رکھتے ہوں ، لہجہ جو ہے وہ ٹھیک ہو ۔ اگر کہیں فارسی کی اضافت ہے تو وہ واضح ہو۔ یہ نہیں کہ کھینچ تان کر پورا کر دیا آ پ نے۔ مطلب تو سمجھ میں آجاتا ہے لیکن برا لگتا ہے ،اچھا نہیں لگتا اگر اس میں سلیقہ شامل نہ ہو ۔ ایک مصرعہ ہے:
بھنویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں
کو
بھنویں تنتی۔ ہیں خنجر ہا ۔تھ میں ہیں تن ۔ کے بیٹھے ہیں
سے بھی سیدھا کاٹا جا سکتا ہے، لے کے حساب سے اس طرح کٹ جاتے ہیں۔ اور ایسی بےشمار غزلیں ہیں جہاں لفظ اسطرح کٹتے ہیں بیچ میں۔ لیکن سننے والااپنے ذہن سے پورا کر لیتا ہے اور محفل جم جا تی ہے۔ تو ہم نے سوچا کہ یہ اب نہیں ہوگا۔ کم از کم ہونا نہیں چاہئیے۔
س: اب کیا فرق آگیا تھا؟
ج: اب یہ تھا کہ ہم نے سوچا کہ یہ جو بندہ ہے، مہدی حسن، یہ اٹھا لیتا ہے، اس کو سر بھی پتا ہے، لے بھی پتا ہے، راگ بھی پتا ہے، یہ کہنا بھی مان رہا ہے ، محنتی بھی ہے اور شوق بھی رکھتا ہے ۔ تو اس سے ایسی بات کی جائے ۔چناں چہ ویسے ہی اس سے کہا گیا۔ تین چار غزلیں گائیں ایسی۔تو ایک مزاج بن گیا ، آواز تو تھی ہی اچھی۔ لفظ بھی اچھے ادا ہوئے سروں کی مطابقت بھی لفظوں کے ساتھ بنی اور جو حروف کا ، لے کا الفاظ کا بحر کا مفہوم کا جو مزاج تھا اس نے بھی ساتھ دیا۔
تو تین چار غزلوں میں مہدی حسن مشہور ہوگیا۔ریڈیو سے جو گانے بجتے رہے یہ بھی مقبول ہوئے۔ تو ہم نے مہدی حسن کے لیے خاص طور سے غزلیں ڈھونڈیں کہ چھوٹا سا ذخیرہ ہو گیا۔
س: اچھا، پھر کیا ہوا؟
ج: اس کے بعد ایک واقعہ یہ ہوا کہ انہوں نے کہا کہ جی میں لاہور جا رہا ہوں۔ وہاں میں پہلے بھی رہا اور فلمی گانے گانے کی کوشش کر تارہاتھا۔فلموں میں اپنے تعلقات کی وجہ سے کچھ ناموں سے تو میں بھی واقف تھا، کچھ ریڈیو کی وجہ سے، کچھ گانے بجانے والوں کی صحبت میں نام سن رکھے تھے۔ تو اس فہرست سے میں نے دو نام چنے اور کہا ان دو کے گانے گا دو، باقی سے کہہ دو ٹائم نہیں ہے۔
کہا، ’ صاحب ایسے ہی کہہ دوں؟‘ کہا، ’ہاں، کہہ دو‘۔ کہنے لگے ’ابھی ٹیلیفون آئےگا۔‘اور واقعی ایک بجے ٹیلیفون آ گیا ۔کہنے لگے ’صاحب، آپ گیلانی صاحب سے بات کریں۔‘ میں نے کہا ’وہ تو آپ سے بات کرناچاہ رہے ہیں ، آپ بتائیے ٹائم آپ کے پاس ہے یا نہیں ہے‘؟ کہنے لگے ’میرے پاس تو ٹائم نہیں ہے۔‘
س: تو پھر کچھ لوگوں کے لیے انھوں نے فلمی گانے گائے؟
ج: جی، مہدی حسن کے چند گانے فلموں میں آئے اوربہت مقبول ہوئے۔ ریڈیوپر تو خیر ان کے پروگرام مستقل ہوتے تھے۔ فلموں کا کام بھی چلتا رہا اور یہ آہستہ آہستہ مقبول بھی ہوئے اور مشہور بھی۔ ہندوستان میں بھی اورپاکستان میں بھی۔ گانے والوں سے بھی ان کی شناسائی ہوگئی اور لوگ ان کا نام بھی لینے لگے۔بس اس طرح سے یہ سامنے آگئے۔
س: آپ کے خیال میں مہدی حسن کے عروج کی سب سے بڑی وجہ کیا تھی ؟ آپ نے خود کہا کہ آواز تو بہت سوں کی اچھی ہوتی ہے؟
ج: سب سے اچھی بات یہ تھی کہ کیا نہیں گانا چاہیئے، کیسے نہیں کرنا چاہئے، یہ سبق انہوں نے بہت احتیاط سے سیکھا تھا، اس پر بہت زیادہ کاربند رہے۔ میں سمجھتاہوں کہ اسی کی برکت سے اللہ نے ان کو بہت عروج دیا۔ جہاں گئے عزت کرائی۔
س: اور کوئی چیز ایسی تھی جو مہدی حسن ہی سے خاص ہو؟
ج: ہاں، انھوں نے صحیح طریقے سے لفظوں کی ادائیگی کی اور ایک ایسا نیا اسلوب غزل کی گائیکی کا بن گیا جو اس سے پہلے نہیں تھا۔ یا یوں کہیئے کہ اس سے پہلےایک دور تھا جو ختم ہو چکا تھا ۔ اس دور کے بعدغزل کی گائیکی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔اس نئے دور کے پہلے فنکار جو ہیں وہ مہدی حسن ہیں۔
س: تو گائیکی کے اس مکتب میں اور کون کون لوگ بعد میں شامل ہوئے؟
ج: بہت سے لوگوں نے ان کو دیکھا، سنا، ان کی نقل کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن کسی میں کوئی کمی تھی کسی میں کوئی کمی تھی۔ بہر حال وہ ایک سلسلہ چل پڑا اگرچہ مہدی حسن جیسی بات تو نہیں بن سکی لیکن غزل کی گائیکی کا ایک مکتب بہر حال چل نکلا۔

وکی طالب علمتبادلہ خیال

بیرونی روابط کی درستی (جون 2021) ترمیم

تمام ویکیپیڈیا صارفین کی خدمت میں آداب عرض ہے،

ابھی میں نے مہدی حسن پر بیرونی ربط میں ترمیم کی ہے۔ براہ کرم میری اس ترمیم پر نظر ثانی کر لیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ بوٹ ان روابط یا صفحے کو نظر انداز کرے تو براہ کرم مزید معلومات کے لیے یہ صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ میری تبدیلیاں حسب ذیل ہیں:

نظر ثانی مکمل ہو جانے کے بعد آپ درج ذیل ہدایات کے مطابق روابط کے مسائل درست کر سکتے ہیں۔

As of February 2018, "External links modified" talk page sections are no longer generated or monitored by InternetArchiveBot. No special action is required regarding these talk page notices, other than ویکیپیڈیا:تصدیقیت using the archive tool instructions below. Editors have permission to delete these "External links modified" talk page sections if they want to de-clutter talk pages, but see the RfC before doing mass systematic removals. This message is updated dynamically through the template {{sourcecheck}} (last update: 15 July 2018).

  • If you have discovered URLs which were erroneously considered dead by the bot, you can report them with this tool.
  • If you found an error with any archives or the URLs themselves, you can fix them with [iabot.wmcloud.org/iabot/index.php?page=manageurlsingle this tool].

شکریہ!—InternetArchiveBot (بگ رپورٹ کریں) 03:37، 7 جون 2021ء (م ع و)

بیرونی روابط کی درستی (فروری 2022) ترمیم

تمام ویکیپیڈیا صارفین کی خدمت میں آداب عرض ہے،

ابھی میں نے مہدی حسن پر بیرونی ربط میں ترمیم کی ہے۔ براہ کرم میری اس ترمیم پر نظر ثانی کر لیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ بوٹ ان روابط یا صفحے کو نظر انداز کرے تو براہ کرم مزید معلومات کے لیے یہ صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ میری تبدیلیاں حسب ذیل ہیں:

نظر ثانی مکمل ہو جانے کے بعد آپ درج ذیل ہدایات کے مطابق روابط کے مسائل درست کر سکتے ہیں۔

As of February 2018, "External links modified" talk page sections are no longer generated or monitored by InternetArchiveBot. No special action is required regarding these talk page notices, other than ویکیپیڈیا:تصدیقیت using the archive tool instructions below. Editors have permission to delete these "External links modified" talk page sections if they want to de-clutter talk pages, but see the RfC before doing mass systematic removals. This message is updated dynamically through the template {{sourcecheck}} (last update: 15 July 2018).

  • If you have discovered URLs which were erroneously considered dead by the bot, you can report them with this tool.
  • If you found an error with any archives or the URLs themselves, you can fix them with [iabot.wmcloud.org/iabot/index.php?page=manageurlsingle this tool].

شکریہ!—InternetArchiveBot (بگ رپورٹ کریں) 20:04، 26 فروری 2022ء (م ع و)

بیرونی روابط کی درستی (دسمبر 2023) ترمیم

تمام ویکیپیڈیا صارفین کی خدمت میں آداب عرض ہے،

ابھی میں نے مہدی حسن پر بیرونی ربط میں ترمیم کی ہے۔ براہ کرم میری اس ترمیم پر نظر ثانی کر لیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ بوٹ ان روابط یا صفحے کو نظر انداز کرے تو براہ کرم مزید معلومات کے لیے یہ صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ میری تبدیلیاں حسب ذیل ہیں:

نظر ثانی مکمل ہو جانے کے بعد آپ درج ذیل ہدایات کے مطابق روابط کے مسائل درست کر سکتے ہیں۔

As of February 2018, "External links modified" talk page sections are no longer generated or monitored by InternetArchiveBot. No special action is required regarding these talk page notices, other than ویکیپیڈیا:تصدیقیت using the archive tool instructions below. Editors have permission to delete these "External links modified" talk page sections if they want to de-clutter talk pages, but see the RfC before doing mass systematic removals. This message is updated dynamically through the template {{sourcecheck}} (last update: 15 July 2018).

  • If you have discovered URLs which were erroneously considered dead by the bot, you can report them with this tool.
  • If you found an error with any archives or the URLs themselves, you can fix them with [iabot.wmcloud.org/iabot/index.php?page=manageurlsingle this tool].

شکریہ!—InternetArchiveBot (بگ رپورٹ کریں) 16:34، 9 دسمبر 2023ء (م ع و)

واپس "مہدی حسن" پر