صوفی سید احمد شاہ ملتانی
اسڑ عصر، اسڑ عراق کے ایک مالدار مکیر نامی شخص کے بیٹے کا نام اسڑ تھا جس سے یہ قبیلہ بنا، اسڑ کے 9 بیٹے تھے، اِن کا پیشہ مالداری(مویشی) اور کاشت کاری کرتے تھے، تاہم یہ خاندان مال مویشی کے کاروبار میں مشہور ہوا اور یہ اعلی نسل کے گھوڑے پالنے اور فروخت کرنے میں مشہور تھے، قابل از اسلام تک اِن کی نسل خاصی بڑھ چکی تھی اور یہ حضرت عیسی ع کے پیروکار تھے تاہم اسلام آنے کے بعد اِس قبیلے کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، علم سے خاصہ لگاو رکھنے والے تھے، اِس نسل کا شمار زہین اور بہادر قبیلوں میں ہوتا آیا ہے، یہ جسمانی لڑائی سے زیادہ زہنی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے مخالف گروہ کو توڑنے میں کامیاب رہتے تھے، عراق میں یہ اسڑ، ایران میں عصر اور برصغیر کے حصے پنجاب میں اسڑ سے جانے جاتے ہیں، پرصغیر میں ہندووں سے اِن کی بہت سی لڑائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں پنجاب کے علاقے ہرنولی کی لڑائی مشہور ہے جس کے بعد یہ ہرنولی کے بشتر حصے پر قابض ہوئے، یہ قبیلہ ازل سے جہاں بھی آباد ہوئے وہاں کے مقامی چوہدری، سردار، وڈیرے کے مخالف رہے ،یہ ان کی قوت توڑنے اور کمزور کرنے کے مہر تھے، تاہم آج کچھ حصوں میں خود سردار ہیں، آج یہ قبیلہ شام، عراق، ایران، پاکستان میں بشتر علاقوں میں موجود ہے، یہ اُن چند درجہ اول کے قبیلوں میں سے قبیلہ ہے جو نا کسی کی شاخ ہے نا اِس سے کوئی دوسری شاخ ہے۔ تحقیق و تصدیق بحوالہ کتاب تاریخ ملتان 1903ء
اسڑ (انگریزی: Asura)، (سنسکرت असुर) ’ مالک ‘ اس کا ایک مطلب #آگ بھی نکلتا ہے۔ اور اخر ویدی دور سے تاحال اس دوسرے معنی کا غلبہ چلا آ رہا ہے۔ اس لفظ کے بہت سے مصادر تجویز کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی کو سنسکرت کے معاصر ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ اس کا اولین استعمال دلالت کرتا ہے کہ لفظ دراصل ’ اس ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’ موجود ہونا ‘ یا ’ ہونا ‘ کے ہیں دوسرا مصدر ’ اسو ‘ ہے، جس کا مطلب حیات یا سانس ہے۔ اسڑوں سے آگ کی روشنی سے تعلق کے باعث ’ اسڑ ‘ معنی چمکنے سے ہونا بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے یہ لفظ ہند آریائی یا ایرانی الاصلی ہے اور فطرت کے مظاہر خصوصاً بار آوری سے متعلق ان مظاہر کی تجسیم ہے جن کی تفہیم ناقص رہی ہے۔ لیکن خشک سالی، گرہن، بیماری وغیرہ جیسے فطرتی مظاہر بھی جو مفید مظاہر کی تجسیم کے مد مقابل ملتے ہیں اور آگ نہیں سمجھے جاتے ہیں اسڑ کہلاتے ہیں ۔
اسڑ سے وابستہ مذکورہ بالا دو متضاد خصوصیات ایرانیوں کی اوستا آہورہ سے متماثل ہیں۔ لیکن غالباً ایک اور روایت کے پیش نظر اسڑ دیو اور بعض اوقات ہم معنی لیے جاتے ہیں۔ یعنی دونوں کو ایسے افلاکی وجود تصور کیا جاتا ہے جو تخلیق سے وابستہ ہیں۔ سب برہمن کے اسطورے میں اس روایت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس اسطورے کے کو استعمال کرتے ہوئے اسڑ کے منفی اور مثبت پہلوؤں یعنی اسڑ بطور دیوتا اور بطور ان کے مدمخالف قوتوں کے کی وضاحت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسطورے کی رو سے دیو ( دیوتا) اور اسڑ دونوں نے خالق پرجا پتی سے جنم لیا اور دونوں کی صفت عطا ہوئی۔ بالاخر دیوتاؤں نے جھوٹ ترک کر دیا اور اسڑ سے چمٹے رہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اگرچہ دیوتا اور اسڑ اختیارات میں برابر تھے۔ لیکن ان استعمال میں متضاد تھے۔ اسڑ اپنے اختیارات دن کے وقت جب کہ دیوتا فقط رات کے استعمال کرسکتے تھے۔ بعد ازاں اسڑ کی اصلاح دشمن ، مقامی حکمرانوں اور آریاؤں کے مذہبی اور سیاسی پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والے قبائل کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔
خوش آمدید!
ترمیم(?_?)
جناب صوفی سید احمد شاہ ملتانی کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔
ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔ آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
|
-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 08:29، 31 اگست 2021ء (م ع و)
تاریخِ ملتان
ترمیمعصر، اسر، اسڑ عراق کے ایک مالدار مکیر نامی شخص کے بیٹے کا نام اسر تھا جس سے یہ قبیلہ بنا، اسر کے 9 بیٹے تھے، اِن کا پیشہ مالداری(مویشی) اور کاشت کاری کرتے تھے، تاہم یہ خاندان مال مویشی کے کاروبار میں مشہور ہوا اور یہ اعلی نسل کے گھوڑے پالنے اور فروخت کرنے میں مشہور تھے، قابل از اسلام تک اِن کی نسل خاصی بڑھ چکی تھی اور یہ حضرت عیسی ع کے پیروکار تھے تاہم اسلام آنے کے بعد اِس قبیلے کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، علم سے خاصہ لگاو رکھنے والے تھے، اِس نسل کا شمار زہین اور بہادر قبیلوں میں ہوتا آیا ہے، یہ جسمانی لڑائی سے زیادہ زہنی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے مخالف گروہ کو توڑنے میں کامیاب رہتے تھے، عراق میں یہ اسر، ایران میں عصر اور برصغیر کے حصے پنجاب میں اسڑ سے جانے جاتے ہیں، پرصغیر میں ہندووں سے اِن کی بہت سی لڑائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں پنجاب کے علاقے ہرنولی کی لڑائی مشہور ہے جس کے بعد یہ ہرنولی کے بشتر حصے پر قابض ہوئے، یہ قبیلہ ازل سے جہاں بھی آباد ہوئے وہاں کے مقامی چوہدری، سردار، وڈیرے کے مخالف رہے ،یہ ان کی قوت توڑنے اور کمزور کرنے کے مہر تھے، تاہم آج کچھ حصوں میں خود سردار ہیں، آج یہ قبیلہ شام، عراق، ایران، پاکستان میں بشتر علاقوں میں موجود ہے، یہ اُن چند قبیلوں میں سے قبیلہ ہے جو نا کسی کی شاخ ہے نا اِس سے کوئی دوسری شاخ ہے۔ بحوالہ تاریخ ملتان 1903ء صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:49، 31 اگست 2021ء (م ع و)
عصر، اسر، اسڑ عراق کے ایک مالدار مکیر نامی شخص کے بیٹے کا نام اسر تھا جس سے یہ قبیلہ بنا، اسر کے 9 بیٹے تھے، اِن کا پیشہ مالداری(مویشی) اور کاشت کاری کرتے تھے، تاہم یہ خاندان مال مویشی کے کاروبار میں مشہور ہوا اور یہ اعلی نسل کے گھوڑے پالنے اور فروخت کرنے میں مشہور تھے، قابل از اسلام تک اِن کی نسل خاصی بڑھ چکی تھی اور یہ حضرت عیسی ع کے پیروکار تھے تاہم اسلام آنے کے بعد اِس قبیلے کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، علم سے خاصہ لگاو رکھنے والے تھے، اِس نسل کا شمار زہین اور بہادر قبیلوں میں ہوتا آیا ہے، یہ جسمانی لڑائی سے زیادہ زہنی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے مخالف گروہ کو توڑنے میں کامیاب رہتے تھے، عراق میں یہ اسر، ایران میں عصر اور برصغیر کے حصے پنجاب میں اسڑ سے جانے جاتے ہیں، پرصغیر میں ہندووں سے اِن کی بہت سی لڑائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں پنجاب کے علاقے ہرنولی کی لڑائی مشہور ہے جس کے بعد یہ ہرنولی کے بشتر حصے پر قابض ہوئے، یہ قبیلہ ازل سے جہاں بھی آباد ہوئے وہاں کے مقامی چوہدری، سردار، وڈیرے کے مخالف رہے ،یہ ان کی قوت توڑنے اور کمزور کرنے کے مہر تھے، تاہم آج کچھ حصوں میں خود سردار ہیں، آج یہ قبیلہ شام، عراق، ایران، پاکستان میں بشتر علاقوں میں موجود ہے، یہ اُن چند قبیلوں میں سے قبیلہ ہے جو نا کسی کی شاخ ہے نا اِس سے کوئی دوسری شاخ ہے۔ بحوالہ تاریخ ملتان 1903ء صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:50، 31 اگست 2021ء (م ع و)
اسڑ عصر، اسر، اسڑ عراق کے ایک مالدار مکیر نامی شخص کے بیٹے کا نام اسر تھا جس سے یہ قبیلہ بنا، اسر کے 9 بیٹے تھے، اِن کا پیشہ مالداری(مویشی) اور کاشت کاری کرتے تھے، تاہم یہ خاندان مال مویشی کے کاروبار میں مشہور ہوا اور یہ اعلی نسل کے گھوڑے پالنے اور فروخت کرنے میں مشہور تھے، قابل از اسلام تک اِن کی نسل خاصی بڑھ چکی تھی اور یہ حضرت عیسی ع کے پیروکار تھے تاہم اسلام آنے کے بعد اِس قبیلے کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، علم سے خاصہ لگاو رکھنے والے تھے، اِس نسل کا شمار زہین اور بہادر قبیلوں میں ہوتا آیا ہے، یہ جسمانی لڑائی سے زیادہ زہنی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے مخالف گروہ کو توڑنے میں کامیاب رہتے تھے، عراق میں یہ اسر، ایران میں عصر اور برصغیر کے حصے پنجاب میں اسڑ سے جانے جاتے ہیں، پرصغیر میں ہندووں سے اِن کی بہت سی لڑائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں پنجاب کے علاقے ہرنولی کی لڑائی مشہور ہے جس کے بعد یہ ہرنولی کے بشتر حصے پر قابض ہوئے، یہ قبیلہ ازل سے جہاں بھی آباد ہوئے وہاں کے مقامی چوہدری، سردار، وڈیرے کے مخالف رہے ،یہ ان کی قوت توڑنے اور کمزور کرنے کے مہر تھے، تاہم آج کچھ حصوں میں خود سردار ہیں، آج یہ قبیلہ شام، عراق، ایران، پاکستان میں بشتر علاقوں میں موجود ہے، یہ اُن چند قبیلوں میں سے قبیلہ ہے جو نا کسی کی شاخ ہے نا اِس سے کوئی دوسری شاخ ہے۔ بحوالہ تاریخ ملتان 1903ء صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 10:02، 31 اگست 2021ء (م ع و)
اسڑ
ترمیمعصر، اسر، اسڑ عراق کے ایک مالدار مکیر نامی شخص کے بیٹے کا نام اسر تھا جس سے یہ قبیلہ بنا، اسر کے 9 بیٹے تھے، اِن کا پیشہ مالداری(مویشی) اور کاشت کاری کرتے تھے، تاہم یہ خاندان مال مویشی کے کاروبار میں مشہور ہوا اور یہ اعلی نسل کے گھوڑے پالنے اور فروخت کرنے میں مشہور تھے، قابل از اسلام تک اِن کی نسل خاصی بڑھ چکی تھی اور یہ حضرت عیسی ع کے پیروکار تھے تاہم اسلام آنے کے بعد اِس قبیلے کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، علم سے خاصہ لگاو رکھنے والے تھے، اِس نسل کا شمار زہین اور بہادر قبیلوں میں ہوتا آیا ہے، یہ جسمانی لڑائی سے زیادہ زہنی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے مخالف گروہ کو توڑنے میں کامیاب رہتے تھے، عراق میں یہ اسر، ایران میں عصر اور برصغیر کے حصے پنجاب میں اسڑ سے جانے جاتے ہیں، پرصغیر میں ہندووں سے اِن کی بہت سی لڑائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں پنجاب کے علاقے ہرنولی کی لڑائی مشہور ہے جس کے بعد یہ ہرنولی کے بشتر حصے پر قابض ہوئے، یہ قبیلہ ازل سے جہاں بھی آباد ہوئے وہاں کے مقامی چوہدری، سردار، وڈیرے کے مخالف رہے ،یہ ان کی قوت توڑنے اور کمزور کرنے کے مہر تھے، تاہم آج کچھ حصوں میں خود سردار ہیں، آج یہ قبیلہ شام، عراق، ایران، پاکستان میں بشتر علاقوں میں موجود ہے، یہ اُن چند قبیلوں میں سے قبیلہ ہے جو نا کسی کی شاخ ہے نا اِس سے کوئی دوسری شاخ ہے۔ بحوالہ تاریخ ملتان 1903ء صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 10:01، 31 اگست 2021ء (م ع و)
آداب؛ اسڑ نامی مضمون کے متعلق یہ گفتگو جاری ہے کہ آیا یہ ویکیپیڈیا کی ہدایات اور پالیسیوں کے مطابق ہے یا اسے حذف کر دیا جائے۔
اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل یہاں اس مضمون پر آزادانہ گفتگو جاری رہے گی جس میں تمام صارفین اور آپ بذات خود شریک ہو سکتے اور اپنی رائے پیش کر سکتے ہیں۔ نیز دوران گفتگو میں صارفین کو مذکورہ مضمون میں ترمیم و تبدیلی کی اجازت ہے تاکہ حذف کے امکانات ختم ہو جائیں اور مضمون باقی رہ سکے، تاہم گفتگو مکمل ہونے سے قبل مضمون سے حذف کا ٹیگ نہیں ہٹایا جا سکتا۔
طاہر محمود (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 11:29، 31 اگست 2021ء (م ع و)
تحقیق و تصدیق کتاب تاریخ ملتان 1903 صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:57، 2 ستمبر 2021ء (م ع و)
اسڑ صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 07:01، 3 ستمبر 2021ء (م ع و)
اسڑ
ترمیماسڑ (انگریزی: Asura)، (سنسکرت असुर) ’ مالک ‘ اس کا ایک مطلب #آگ بھی نکلتا ہے۔ اور اخر ویدی دور سے تاحال اس دوسرے معنی کا غلبہ چلا آ رہا ہے۔ اس لفظ کے بہت سے مصادر تجویز کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی کو سنسکرت کے معاصر ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ اس کا اولین استعمال دلالت کرتا ہے کہ لفظ دراصل ’ اس ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’ موجود ہونا ‘ یا ’ ہونا ‘ کے ہیں دوسرا مصدر ’ اسو ‘ ہے، جس کا مطلب حیات یا سانس ہے۔ اسڑوں سے آگ کی روشنی سے تعلق کے باعث ’ اسڑ ‘ معنی چمکنے سے ہونا بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے یہ لفظ ہند آریائی یا ایرانی الاصلی ہے اور فطرت کے مظاہر خصوصاً بار آوری سے متعلق ان مظاہر کی تجسیم ہے جن کی تفہیم ناقص رہی ہے۔ لیکن خشک سالی، گرہن، بیماری وغیرہ جیسے فطرتی مظاہر بھی جو مفید مظاہر کی تجسیم کے مد مقابل ملتے ہیں اور آگ نہیں سمجھے جاتے ہیں اسڑ کہلاتے ہیں ۔
اسڑ سے وابستہ مذکورہ بالا دو متضاد خصوصیات ایرانیوں کی اوستا آہورہ سے متماثل ہیں۔ لیکن غالباً ایک اور روایت کے پیش نظر اسڑ دیو اور بعض اوقات ہم معنی لیے جاتے ہیں۔ یعنی دونوں کو ایسے افلاکی وجود تصور کیا جاتا ہے جو تخلیق سے وابستہ ہیں۔ سب برہمن کے اسطورے میں اس روایت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس اسطورے کے کو استعمال کرتے ہوئے اسڑ کے منفی اور مثبت پہلوؤں یعنی اسڑ بطور دیوتا اور بطور ان کے مدمخالف قوتوں کے کی وضاحت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسطورے کی رو سے دیو ( دیوتا) اور اسڑ دونوں نے خالق پرجا پتی سے جنم لیا اور دونوں کی صفت عطا ہوئی۔ بالاخر دیوتاؤں نے جھوٹ ترک کر دیا اور اسڑ سے چمٹے رہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اگرچہ دیوتا اور اسڑ اختیارات میں برابر تھے۔ لیکن ان استعمال میں متضاد تھے۔ اسڑ اپنے اختیارات دن کے وقت جب کہ دیوتا فقط رات کے استعمال کرسکتے تھے۔ بعد ازاں اسڑ کی اصلاح دشمن ، مقامی حکمرانوں اور آریاؤں کے مذہبی اور سیاسی پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والے قبائل کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:29، 2 ستمبر 2021ء (م ع و)
اسڑ
ترمیماسڑ (انگریزی: Asura)، (سنسکرت असुर) ’ مالک ‘ اس کا ایک مطلب #آگ بھی نکلتا ہے۔ اور اخر ویدی دور سے تاحال اس دوسرے معنی کا غلبہ چلا آ رہا ہے۔ اس لفظ کے بہت سے مصادر تجویز کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی کو سنسکرت کے معاصر ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ اس کا اولین استعمال دلالت کرتا ہے کہ لفظ دراصل ’ اس ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’ موجود ہونا ‘ یا ’ ہونا ‘ کے ہیں دوسرا مصدر ’ اسو ‘ ہے، جس کا مطلب حیات یا سانس ہے۔ اسڑوں سے آگ کی روشنی سے تعلق کے باعث ’ اسڑ ‘ معنی چمکنے سے ہونا بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے یہ لفظ ہند آریائی یا ایرانی الاصلی ہے اور فطرت کے مظاہر خصوصاً بار آوری سے متعلق ان مظاہر کی تجسیم ہے جن کی تفہیم ناقص رہی ہے۔ لیکن خشک سالی، گرہن، بیماری وغیرہ جیسے فطرتی مظاہر بھی جو مفید مظاہر کی تجسیم کے مد مقابل ملتے ہیں اور آگ نہیں سمجھے جاتے ہیں اسڑ کہلاتے ہیں ۔
اسڑ سے وابستہ مذکورہ بالا دو متضاد خصوصیات ایرانیوں کی اوستا آہورہ سے متماثل ہیں۔ لیکن غالباً ایک اور روایت کے پیش نظر اسڑ دیو اور بعض اوقات ہم معنی لیے جاتے ہیں۔ یعنی دونوں کو ایسے افلاکی وجود تصور کیا جاتا ہے جو تخلیق سے وابستہ ہیں۔ سب برہمن کے اسطورے میں اس روایت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس اسطورے کے کو استعمال کرتے ہوئے اسڑ کے منفی اور مثبت پہلوؤں یعنی اسڑ بطور دیوتا اور بطور ان کے مدمخالف قوتوں کے کی وضاحت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسطورے کی رو سے دیو ( دیوتا) اور اسڑ دونوں نے خالق پرجا پتی سے جنم لیا اور دونوں کی صفت عطا ہوئی۔ بالاخر دیوتاؤں نے جھوٹ ترک کر دیا اور اسڑ سے چمٹے رہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اگرچہ دیوتا اور اسڑ اختیارات میں برابر تھے۔ لیکن ان استعمال میں متضاد تھے۔ اسڑ اپنے اختیارات دن کے وقت جب کہ دیوتا فقط رات کے استعمال کرسکتے تھے۔ بعد ازاں اسڑ کی اصلاح دشمن ، مقامی حکمرانوں اور آریاؤں کے مذہبی اور سیاسی پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والے قبائل کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:32، 2 ستمبر 2021ء (م ع و)
#اسڑ
ترمیم- اسڑ عصر، اسڑ عراق کے ایک مالدار مکیر نامی شخص کے بیٹے کا نام اسڑ تھا جس سے یہ قبیلہ بنا، اسڑ کے 9 بیٹے تھے، اِن کا پیشہ مالداری(مویشی) اور کاشت کاری کرتے تھے، تاہم یہ خاندان مال مویشی کے کاروبار میں مشہور ہوا اور یہ اعلی نسل کے گھوڑے پالنے اور فروخت کرنے میں مشہور تھے، قابل از اسلام تک اِن کی نسل خاصی بڑھ چکی تھی اور یہ حضرت عیسی ع کے پیروکار تھے تاہم اسلام آنے کے بعد اِس قبیلے کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، علم سے خاصہ لگاو رکھنے والے تھے، اِس نسل کا شمار زہین اور بہادر قبیلوں میں ہوتا آیا ہے، یہ جسمانی لڑائی سے زیادہ زہنی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے مخالف گروہ کو توڑنے میں کامیاب رہتے تھے، عراق میں یہ اسڑ، ایران میں عصر اور برصغیر کے حصے پنجاب میں اسڑ سے جانے جاتے ہیں، پرصغیر میں ہندووں سے اِن کی بہت سی لڑائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں پنجاب کے علاقے ہرنولی کی لڑائی مشہور ہے جس کے بعد یہ ہرنولی کے بشتر حصے پر قابض ہوئے، یہ قبیلہ ازل سے جہاں بھی آباد ہوئے وہاں کے مقامی چوہدری، سردار، وڈیرے کے مخالف رہے ،یہ ان کی قوت توڑنے اور کمزور کرنے کے مہر تھے، تاہم آج کچھ حصوں میں خود سردار ہیں، آج یہ قبیلہ شام، عراق، ایران، پاکستان میں بشتر علاقوں میں موجود ہے، یہ اُن چند درجہ اول کے قبیلوں میں سے قبیلہ ہے جو نا کسی کی شاخ ہے نا اِس سے کوئی دوسری شاخ ہے۔ تحقیق و تصدیق بحوالہ کتاب تاریخ ملتان 1903ء
اسڑ (انگریزی: Asura)، (سنسکرت असुर) ’ مالک ‘ اس کا ایک مطلب #آگ بھی نکلتا ہے۔ اور اخر ویدی دور سے تاحال اس دوسرے معنی کا غلبہ چلا آ رہا ہے۔ اس لفظ کے بہت سے مصادر تجویز کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی کو سنسکرت کے معاصر ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ اس کا اولین استعمال دلالت کرتا ہے کہ لفظ دراصل ’ اس ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’ موجود ہونا ‘ یا ’ ہونا ‘ کے ہیں دوسرا مصدر ’ اسو ‘ ہے، جس کا مطلب حیات یا سانس ہے۔ اسڑوں سے آگ کی روشنی سے تعلق کے باعث ’ اسڑ ‘ معنی چمکنے سے ہونا بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے یہ لفظ ہند آریائی یا ایرانی الاصلی ہے اور فطرت کے مظاہر خصوصاً بار آوری سے متعلق ان مظاہر کی تجسیم ہے جن کی تفہیم ناقص رہی ہے۔ لیکن خشک سالی، گرہن، بیماری وغیرہ جیسے فطرتی مظاہر بھی جو مفید مظاہر کی تجسیم کے مد مقابل ملتے ہیں اور آگ نہیں سمجھے جاتے ہیں اسڑ کہلاتے ہیں ۔
اسڑ سے وابستہ مذکورہ بالا دو متضاد خصوصیات ایرانیوں کی اوستا آہورہ سے متماثل ہیں۔ لیکن غالباً ایک اور روایت کے پیش نظر اسڑ دیو اور بعض اوقات ہم معنی لیے جاتے ہیں۔ یعنی دونوں کو ایسے افلاکی وجود تصور کیا جاتا ہے جو تخلیق سے وابستہ ہیں۔ سب برہمن کے اسطورے میں اس روایت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس اسطورے کے کو استعمال کرتے ہوئے اسڑ کے منفی اور مثبت پہلوؤں یعنی اسڑ بطور دیوتا اور بطور ان کے مدمخالف قوتوں کے کی وضاحت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسطورے کی رو سے دیو ( دیوتا) اور اسڑ دونوں نے خالق پرجا پتی سے جنم لیا اور دونوں کی صفت عطا ہوئی۔ بالاخر دیوتاؤں نے جھوٹ ترک کر دیا اور اسڑ سے چمٹے رہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اگرچہ دیوتا اور اسڑ اختیارات میں برابر تھے۔ لیکن ان استعمال میں متضاد تھے۔ اسڑ اپنے اختیارات دن کے وقت جب کہ دیوتا فقط رات کے استعمال کرسکتے تھے۔ بعد ازاں اسڑ کی اصلاح دشمن ، مقامی حکمرانوں اور آریاؤں کے مذہبی اور سیاسی پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والے قبائل کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:39، 2 ستمبر 2021ء (م ع و)
اسڑ
ترمیم- اسڑ عصر، اسڑ عراق کے ایک مالدار مکیر نامی شخص کے بیٹے کا نام اسڑ تھا جس سے یہ قبیلہ بنا، اسڑ کے 9 بیٹے تھے، اِن کا پیشہ مالداری(مویشی) اور کاشت کاری کرتے تھے، تاہم یہ خاندان مال مویشی کے کاروبار میں مشہور ہوا اور یہ اعلی نسل کے گھوڑے پالنے اور فروخت کرنے میں مشہور تھے، قابل از اسلام تک اِن کی نسل خاصی بڑھ چکی تھی اور یہ حضرت عیسی ع کے پیروکار تھے تاہم اسلام آنے کے بعد اِس قبیلے کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، علم سے خاصہ لگاو رکھنے والے تھے، اِس نسل کا شمار زہین اور بہادر قبیلوں میں ہوتا آیا ہے، یہ جسمانی لڑائی سے زیادہ زہنی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے مخالف گروہ کو توڑنے میں کامیاب رہتے تھے، عراق میں یہ اسڑ، ایران میں عصر اور برصغیر کے حصے پنجاب میں اسڑ سے جانے جاتے ہیں، پرصغیر میں ہندووں سے اِن کی بہت سی لڑائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں پنجاب کے علاقے ہرنولی کی لڑائی مشہور ہے جس کے بعد یہ ہرنولی کے بشتر حصے پر قابض ہوئے، یہ قبیلہ ازل سے جہاں بھی آباد ہوئے وہاں کے مقامی چوہدری، سردار، وڈیرے کے مخالف رہے ،یہ ان کی قوت توڑنے اور کمزور کرنے کے مہر تھے، تاہم آج کچھ حصوں میں خود سردار ہیں، آج یہ قبیلہ شام، عراق، ایران، پاکستان میں بشتر علاقوں میں موجود ہے، یہ اُن چند درجہ اول کے قبیلوں میں سے قبیلہ ہے جو نا کسی کی شاخ ہے نا اِس سے کوئی دوسری شاخ ہے۔ تحقیق و تصدیق بحوالہ کتاب تاریخ ملتان 1903ء
اسڑ (انگریزی: Asura)، (سنسکرت असुर) ’ مالک ‘ اس کا ایک مطلب #آگ بھی نکلتا ہے۔ اور اخر ویدی دور سے تاحال اس دوسرے معنی کا غلبہ چلا آ رہا ہے۔ اس لفظ کے بہت سے مصادر تجویز کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی کو سنسکرت کے معاصر ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ اس کا اولین استعمال دلالت کرتا ہے کہ لفظ دراصل ’ اس ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’ موجود ہونا ‘ یا ’ ہونا ‘ کے ہیں دوسرا مصدر ’ اسو ‘ ہے، جس کا مطلب حیات یا سانس ہے۔ اسڑوں سے آگ کی روشنی سے تعلق کے باعث ’ اسڑ ‘ معنی چمکنے سے ہونا بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے یہ لفظ ہند آریائی یا ایرانی الاصلی ہے اور فطرت کے مظاہر خصوصاً بار آوری سے متعلق ان مظاہر کی تجسیم ہے جن کی تفہیم ناقص رہی ہے۔ لیکن خشک سالی، گرہن، بیماری وغیرہ جیسے فطرتی مظاہر بھی جو مفید مظاہر کی تجسیم کے مد مقابل ملتے ہیں اور آگ نہیں سمجھے جاتے ہیں اسڑ کہلاتے ہیں ۔
اسڑ سے وابستہ مذکورہ بالا دو متضاد خصوصیات ایرانیوں کی اوستا آہورہ سے متماثل ہیں۔ لیکن غالباً ایک اور روایت کے پیش نظر اسڑ دیو اور بعض اوقات ہم معنی لیے جاتے ہیں۔ یعنی دونوں کو ایسے افلاکی وجود تصور کیا جاتا ہے جو تخلیق سے وابستہ ہیں۔ سب برہمن کے اسطورے میں اس روایت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس اسطورے کے کو استعمال کرتے ہوئے اسڑ کے منفی اور مثبت پہلوؤں یعنی اسڑ بطور دیوتا اور بطور ان کے مدمخالف قوتوں کے کی وضاحت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسطورے کی رو سے دیو ( دیوتا) اور اسڑ دونوں نے خالق پرجا پتی سے جنم لیا اور دونوں کی صفت عطا ہوئی۔ بالاخر دیوتاؤں نے جھوٹ ترک کر دیا اور اسڑ سے چمٹے رہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اگرچہ دیوتا اور اسڑ اختیارات میں برابر تھے۔ لیکن ان استعمال میں متضاد تھے۔ اسڑ اپنے اختیارات دن کے وقت جب کہ دیوتا فقط رات کے استعمال کرسکتے تھے۔ بعد ازاں اسڑ کی اصلاح دشمن ، مقامی حکمرانوں اور آریاؤں کے مذہبی اور سیاسی پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والے قبائل کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:44، 2 ستمبر 2021ء (م ع و)
اسڑ
ترمیم- اسڑ عصر، اسڑ عراق کے ایک مالدار مکیر نامی شخص کے بیٹے کا نام اسڑ تھا جس سے یہ قبیلہ بنا، اسڑ کے 9 بیٹے تھے، اِن کا پیشہ مالداری(مویشی) اور کاشت کاری کرتے تھے، تاہم یہ خاندان مال مویشی کے کاروبار میں مشہور ہوا اور یہ اعلی نسل کے گھوڑے پالنے اور فروخت کرنے میں مشہور تھے، قابل از اسلام تک اِن کی نسل خاصی بڑھ چکی تھی اور یہ حضرت عیسی ع کے پیروکار تھے تاہم اسلام آنے کے بعد اِس قبیلے کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، علم سے خاصہ لگاو رکھنے والے تھے، اِس نسل کا شمار زہین اور بہادر قبیلوں میں ہوتا آیا ہے، یہ جسمانی لڑائی سے زیادہ زہنی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے مخالف گروہ کو توڑنے میں کامیاب رہتے تھے، عراق میں یہ اسڑ، ایران میں عصر اور برصغیر کے حصے پنجاب میں اسڑ سے جانے جاتے ہیں، پرصغیر میں ہندووں سے اِن کی بہت سی لڑائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں پنجاب کے علاقے ہرنولی کی لڑائی مشہور ہے جس کے بعد یہ ہرنولی کے بشتر حصے پر قابض ہوئے، یہ قبیلہ ازل سے جہاں بھی آباد ہوئے وہاں کے مقامی چوہدری، سردار، وڈیرے کے مخالف رہے ،یہ ان کی قوت توڑنے اور کمزور کرنے کے مہر تھے، تاہم آج کچھ حصوں میں خود سردار ہیں، آج یہ قبیلہ شام، عراق، ایران، پاکستان میں بشتر علاقوں میں موجود ہے، یہ اُن چند درجہ اول کے قبیلوں میں سے قبیلہ ہے جو نا کسی کی شاخ ہے نا اِس سے کوئی دوسری شاخ ہے۔ تحقیق و تصدیق بحوالہ کتاب تاریخ ملتان 1903ء
اسڑ (انگریزی: Asura)، (سنسکرت असुर) ’ مالک ‘ اس کا ایک مطلب #آگ بھی نکلتا ہے۔ اور اخر ویدی دور سے تاحال اس دوسرے معنی کا غلبہ چلا آ رہا ہے۔ اس لفظ کے بہت سے مصادر تجویز کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی کو سنسکرت کے معاصر ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ اس کا اولین استعمال دلالت کرتا ہے کہ لفظ دراصل ’ اس ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’ موجود ہونا ‘ یا ’ ہونا ‘ کے ہیں دوسرا مصدر ’ اسو ‘ ہے، جس کا مطلب حیات یا سانس ہے۔ اسڑوں سے آگ کی روشنی سے تعلق کے باعث ’ اسڑ ‘ معنی چمکنے سے ہونا بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے یہ لفظ ہند آریائی یا ایرانی الاصلی ہے اور فطرت کے مظاہر خصوصاً بار آوری سے متعلق ان مظاہر کی تجسیم ہے جن کی تفہیم ناقص رہی ہے۔ لیکن خشک سالی، گرہن، بیماری وغیرہ جیسے فطرتی مظاہر بھی جو مفید مظاہر کی تجسیم کے مد مقابل ملتے ہیں اور آگ نہیں سمجھے جاتے ہیں اسڑ کہلاتے ہیں ۔
اسڑ سے وابستہ مذکورہ بالا دو متضاد خصوصیات ایرانیوں کی اوستا آہورہ سے متماثل ہیں۔ لیکن غالباً ایک اور روایت کے پیش نظر اسڑ دیو اور بعض اوقات ہم معنی لیے جاتے ہیں۔ یعنی دونوں کو ایسے افلاکی وجود تصور کیا جاتا ہے جو تخلیق سے وابستہ ہیں۔ سب برہمن کے اسطورے میں اس روایت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس اسطورے کے کو استعمال کرتے ہوئے اسڑ کے منفی اور مثبت پہلوؤں یعنی اسڑ بطور دیوتا اور بطور ان کے مدمخالف قوتوں کے کی وضاحت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسطورے کی رو سے دیو ( دیوتا) اور اسڑ دونوں نے خالق پرجا پتی سے جنم لیا اور دونوں کی صفت عطا ہوئی۔ بالاخر دیوتاؤں نے جھوٹ ترک کر دیا اور اسڑ سے چمٹے رہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اگرچہ دیوتا اور اسڑ اختیارات میں برابر تھے۔ لیکن ان استعمال میں متضاد تھے۔ اسڑ اپنے اختیارات دن کے وقت جب کہ دیوتا فقط رات کے استعمال کرسکتے تھے۔ بعد ازاں اسڑ کی اصلاح دشمن ، مقامی حکمرانوں اور آریاؤں کے مذہبی اور سیاسی پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والے قبائل کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:55، 2 ستمبر 2021ء (م ع و)
اسڑ
ترمیم- اسڑ عصر، اسڑ عراق کے ایک مالدار مکیر نامی شخص کے بیٹے کا نام اسڑ تھا جس سے یہ قبیلہ بنا، اسڑ کے 9 بیٹے تھے، اِن کا پیشہ مالداری(مویشی) اور کاشت کاری کرتے تھے، تاہم یہ خاندان مال مویشی کے کاروبار میں مشہور ہوا اور یہ اعلی نسل کے گھوڑے پالنے اور فروخت کرنے میں مشہور تھے، قابل از اسلام تک اِن کی نسل خاصی بڑھ چکی تھی اور یہ حضرت عیسی ع کے پیروکار تھے تاہم اسلام آنے کے بعد اِس قبیلے کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، علم سے خاصہ لگاو رکھنے والے تھے، اِس نسل کا شمار زہین اور بہادر قبیلوں میں ہوتا آیا ہے، یہ جسمانی لڑائی سے زیادہ زہنی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے مخالف گروہ کو توڑنے میں کامیاب رہتے تھے، عراق میں یہ اسڑ، ایران میں عصر اور برصغیر کے حصے پنجاب میں اسڑ سے جانے جاتے ہیں، پرصغیر میں ہندووں سے اِن کی بہت سی لڑائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں پنجاب کے علاقے ہرنولی کی لڑائی مشہور ہے جس کے بعد یہ ہرنولی کے بشتر حصے پر قابض ہوئے، یہ قبیلہ ازل سے جہاں بھی آباد ہوئے وہاں کے مقامی چوہدری، سردار، وڈیرے کے مخالف رہے ،یہ ان کی قوت توڑنے اور کمزور کرنے کے مہر تھے، تاہم آج کچھ حصوں میں خود سردار ہیں، آج یہ قبیلہ شام، عراق، ایران، پاکستان میں بشتر علاقوں میں موجود ہے، یہ اُن چند درجہ اول کے قبیلوں میں سے قبیلہ ہے جو نا کسی کی شاخ ہے نا اِس سے کوئی دوسری شاخ ہے۔ تحقیق و تصدیق بحوالہ کتاب تاریخ ملتان 1903ء
اسڑ (انگریزی: Asura)، (سنسکرت असुर) ’ مالک ‘ اس کا ایک مطلب #آگ بھی نکلتا ہے۔ اور اخر ویدی دور سے تاحال اس دوسرے معنی کا غلبہ چلا آ رہا ہے۔ اس لفظ کے بہت سے مصادر تجویز کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی کو سنسکرت کے معاصر ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ اس کا اولین استعمال دلالت کرتا ہے کہ لفظ دراصل ’ اس ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’ موجود ہونا ‘ یا ’ ہونا ‘ کے ہیں دوسرا مصدر ’ اسو ‘ ہے، جس کا مطلب حیات یا سانس ہے۔ اسڑوں سے آگ کی روشنی سے تعلق کے باعث ’ اسڑ ‘ معنی چمکنے سے ہونا بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے یہ لفظ ہند آریائی یا ایرانی الاصلی ہے اور فطرت کے مظاہر خصوصاً بار آوری سے متعلق ان مظاہر کی تجسیم ہے جن کی تفہیم ناقص رہی ہے۔ لیکن خشک سالی، گرہن، بیماری وغیرہ جیسے فطرتی مظاہر بھی جو مفید مظاہر کی تجسیم کے مد مقابل ملتے ہیں اور آگ نہیں سمجھے جاتے ہیں اسڑ کہلاتے ہیں ۔
اسڑ سے وابستہ مذکورہ بالا دو متضاد خصوصیات ایرانیوں کی اوستا آہورہ سے متماثل ہیں۔ لیکن غالباً ایک اور روایت کے پیش نظر اسڑ دیو اور بعض اوقات ہم معنی لیے جاتے ہیں۔ یعنی دونوں کو ایسے افلاکی وجود تصور کیا جاتا ہے جو تخلیق سے وابستہ ہیں۔ سب برہمن کے اسطورے میں اس روایت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس اسطورے کے کو استعمال کرتے ہوئے اسڑ کے منفی اور مثبت پہلوؤں یعنی اسڑ بطور دیوتا اور بطور ان کے مدمخالف قوتوں کے کی وضاحت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسطورے کی رو سے دیو ( دیوتا) اور اسڑ دونوں نے خالق پرجا پتی سے جنم لیا اور دونوں کی صفت عطا ہوئی۔ بالاخر دیوتاؤں نے جھوٹ ترک کر دیا اور اسڑ سے چمٹے رہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اگرچہ دیوتا اور اسڑ اختیارات میں برابر تھے۔ لیکن ان استعمال میں متضاد تھے۔ اسڑ اپنے اختیارات دن کے وقت جب کہ دیوتا فقط رات کے استعمال کرسکتے تھے۔ بعد ازاں اسڑ کی اصلاح دشمن ، مقامی حکمرانوں اور آریاؤں کے مذہبی اور سیاسی پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والے قبائل کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 10:06، 2 ستمبر 2021ء (م ع و)
اسڑ عصر
ترمیم- اسڑ عصر، اسڑ عراق کے ایک مالدار مکیر نامی شخص کے بیٹے کا نام اسڑ تھا جس سے یہ قبیلہ بنا، اسڑ کے 9 بیٹے تھے، اِن کا پیشہ مالداری(مویشی) اور کاشت کاری کرتے تھے، تاہم یہ خاندان مال مویشی کے کاروبار میں مشہور ہوا اور یہ اعلی نسل کے گھوڑے پالنے اور فروخت کرنے میں مشہور تھے، قابل از اسلام تک اِن کی نسل خاصی بڑھ چکی تھی اور یہ حضرت عیسی ع کے پیروکار تھے تاہم اسلام آنے کے بعد اِس قبیلے کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، علم سے خاصہ لگاو رکھنے والے تھے، اِس نسل کا شمار زہین اور بہادر قبیلوں میں ہوتا آیا ہے، یہ جسمانی لڑائی سے زیادہ زہنی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے مخالف گروہ کو توڑنے میں کامیاب رہتے تھے، عراق میں یہ اسڑ، ایران میں عصر اور برصغیر کے حصے پنجاب میں اسڑ سے جانے جاتے ہیں، پرصغیر میں ہندووں سے اِن کی بہت سی لڑائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں پنجاب کے علاقے ہرنولی کی لڑائی مشہور ہے جس کے بعد یہ ہرنولی کے بشتر حصے پر قابض ہوئے، یہ قبیلہ ازل سے جہاں بھی آباد ہوئے وہاں کے مقامی چوہدری، سردار، وڈیرے کے مخالف رہے ،یہ ان کی قوت توڑنے اور کمزور کرنے کے مہر تھے، تاہم آج کچھ حصوں میں خود سردار ہیں، آج یہ قبیلہ شام، عراق، ایران، پاکستان میں بشتر علاقوں میں موجود ہے، یہ اُن چند درجہ اول کے قبیلوں میں سے قبیلہ ہے جو نا کسی کی شاخ ہے نا اِس سے کوئی دوسری شاخ ہے۔ تحقیق و تصدیق بحوالہ کتاب تاریخ ملتان 1903ء
اسڑ (انگریزی: Asura)، (سنسکرت असुर) ’ مالک ‘ اس کا ایک مطلب #آگ بھی نکلتا ہے۔ اور اخر ویدی دور سے تاحال اس دوسرے معنی کا غلبہ چلا آ رہا ہے۔ اس لفظ کے بہت سے مصادر تجویز کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی کو سنسکرت کے معاصر ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ اس کا اولین استعمال دلالت کرتا ہے کہ لفظ دراصل ’ اس ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’ موجود ہونا ‘ یا ’ ہونا ‘ کے ہیں دوسرا مصدر ’ اسو ‘ ہے، جس کا مطلب حیات یا سانس ہے۔ اسڑوں سے آگ کی روشنی سے تعلق کے باعث ’ اسڑ ‘ معنی چمکنے سے ہونا بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے یہ لفظ ہند آریائی یا ایرانی الاصلی ہے اور فطرت کے مظاہر خصوصاً بار آوری سے متعلق ان مظاہر کی تجسیم ہے جن کی تفہیم ناقص رہی ہے۔ لیکن خشک سالی، گرہن، بیماری وغیرہ جیسے فطرتی مظاہر بھی جو مفید مظاہر کی تجسیم کے مد مقابل ملتے ہیں اور آگ نہیں سمجھے جاتے ہیں اسڑ کہلاتے ہیں ۔
اسڑ سے وابستہ مذکورہ بالا دو متضاد خصوصیات ایرانیوں کی اوستا آہورہ سے متماثل ہیں۔ لیکن غالباً ایک اور روایت کے پیش نظر اسڑ دیو اور بعض اوقات ہم معنی لیے جاتے ہیں۔ یعنی دونوں کو ایسے افلاکی وجود تصور کیا جاتا ہے جو تخلیق سے وابستہ ہیں۔ سب برہمن کے اسطورے میں اس روایت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس اسطورے کے کو استعمال کرتے ہوئے اسڑ کے منفی اور مثبت پہلوؤں یعنی اسڑ بطور دیوتا اور بطور ان کے مدمخالف قوتوں کے کی وضاحت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسطورے کی رو سے دیو ( دیوتا) اور اسڑ دونوں نے خالق پرجا پتی سے جنم لیا اور دونوں کی صفت عطا ہوئی۔ بالاخر دیوتاؤں نے جھوٹ ترک کر دیا اور اسڑ سے چمٹے رہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اگرچہ دیوتا اور اسڑ اختیارات میں برابر تھے۔ لیکن ان استعمال میں متضاد تھے۔ اسڑ اپنے اختیارات دن کے وقت جب کہ دیوتا فقط رات کے استعمال کرسکتے تھے۔ بعد ازاں اسڑ کی اصلاح دشمن ، مقامی حکمرانوں اور آریاؤں کے مذہبی اور سیاسی پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والے قبائل کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 10:07، 2 ستمبر 2021ء (م ع و)
پابندی
ترمیمویکیپیڈیا میں آپ کی ترمیم کاری پر ایک ہفتہ تک پابندی لگا دی گئی ہے کیونکہ آپ نے تخریب کاری کی بنا پر ویکیپیڈیا کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر آپ کی رائے میں یہ پابندی غلط ہے تو ذیل میں {{پابندی ختم|وجہ تحریر کریں}} درج کریں۔ نیز جس منتظم نے آپ پر پابندی لگائی ہے، اگر آپ اسے متوجہ کرنا چاہیں تو {{سنیے|منتظم کا نام تحریر کریں}} کو استعمال کر سکتے ہیں۔
|
حسن (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 14:52، 2 ستمبر 2021ء (م ع و)
اسڑ، assar, asar
ترمیم- اسڑ عصر، اسر عراق کے ایک مالدار مکیر نامی شخص کے بیٹے کا نام اسر تھا جس سے یہ قبیلہ بنا، اسر کے 9 بیٹے تھے، اِن کا پیشہ مالداری(مویشی) اور کاشت کاری کرتے تھے، تاہم یہ خاندان مال مویشی کے کاروبار میں مشہور ہوا اور یہ اعلی نسل کے گھوڑے پالنے اور فروخت کرنے میں مشہور تھے، قابل از اسلام تک اِن کی نسل خاصی بڑھ چکی تھی اور یہ حضرت عیسی ع کے پیروکار تھے تاہم اسلام آنے کے بعد اِس قبیلے کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، علم سے خاصہ لگاو رکھنے والے تھے، اِس نسل کا شمار زہین اور بہادر قبیلوں میں ہوتا آیا ہے، یہ جسمانی لڑائی سے زیادہ زہنی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے مخالف گروہ کو توڑنے میں کامیاب رہتے تھے، عراق میں یہ اسڑ، ایران میں عصر اور برصغیر کے حصے پنجاب میں اسڑ سے جانے جاتے ہیں، پرصغیر میں ہندووں سے اِن کی بہت سی لڑائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں پنجاب کے علاقے ہرنولی کی لڑائی مشہور ہے جس کے بعد یہ ہرنولی کے بشتر حصے پر قابض ہوئے، یہ قبیلہ ازل سے جہاں بھی آباد ہوئے وہاں کے مقامی چوہدری، سردار، وڈیرے کے مخالف رہے ،یہ ان کی قوت توڑنے اور کمزور کرنے کے مہر تھے، تاہم آج کچھ حصوں میں خود سردار ہیں، آج یہ قبیلہ شام، عراق، ایران، پاکستان میں بشتر علاقوں میں موجود ہے، یہ اُن چند درجہ اول کے قبیلوں میں سے قبیلہ ہے جو نا کسی کی شاخ ہے نا اِس سے کوئی دوسری شاخ ہے۔ تحقیق و تصدیق بحوالہ کتاب تاریخ ملتان 1903ء
اسڑ ،اسر (انگریزی: Asura)، (سنسکرت असुर) ’ مالک ‘ اس کا ایک مطلب #آگ بھی نکلتا ہے۔ اور اخر ویدی دور سے تاحال اس دوسرے معنی کا غلبہ چلا آ رہا ہے۔ اس لفظ کے بہت سے مصادر تجویز کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی کو سنسکرت کے معاصر ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ اس کا اولین استعمال دلالت کرتا ہے کہ لفظ دراصل ’ اس ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’ موجود ہونا ‘ یا ’ ہونا ‘ کے ہیں دوسرا مصدر ’ اسو ‘ ہے، جس کا مطلب حیات یا سانس ہے۔ اسڑوں سے آگ کی روشنی سے تعلق کے باعث ’ اسڑ ‘ معنی چمکنے سے ہونا بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے یہ لفظ ہند آریائی یا ایرانی الاصلی ہے اور فطرت کے مظاہر خصوصاً بار آوری سے متعلق ان مظاہر کی تجسیم ہے جن کی تفہیم ناقص رہی ہے۔ لیکن خشک سالی، گرہن، بیماری وغیرہ جیسے فطرتی مظاہر بھی جو مفید مظاہر کی تجسیم کے مد مقابل ملتے ہیں اور آگ نہیں سمجھے جاتے ہیں اسڑ کہلاتے ہیں ۔
اسڑ سے وابستہ مذکورہ بالا دو متضاد خصوصیات ایرانیوں کی اوستا آہورہ سے متماثل ہیں۔ لیکن غالباً ایک اور روایت کے پیش نظر اسڑ دیو اور بعض اوقات ہم معنی لیے جاتے ہیں۔ یعنی دونوں کو ایسے افلاکی وجود تصور کیا جاتا ہے جو تخلیق سے وابستہ ہیں۔ سب برہمن کے اسطورے میں اس روایت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس اسطورے کے کو استعمال کرتے ہوئے اسڑ کے منفی اور مثبت پہلوؤں یعنی اسڑ بطور دیوتا اور بطور ان کے مدمخالف قوتوں کے کی وضاحت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسطورے کی رو سے دیو ( دیوتا) اور اسڑ دونوں نے خالق پرجا پتی سے جنم لیا اور دونوں کی صفت عطا ہوئی۔ بالاخر دیوتاؤں نے جھوٹ ترک کر دیا اور اسڑ سے چمٹے رہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اگرچہ دیوتا اور اسڑ اختیارات میں برابر تھے۔ لیکن ان استعمال میں متضاد تھے۔ اسڑ اپنے اختیارات دن کے وقت جب کہ دیوتا فقط رات کے استعمال کرسکتے تھے۔ بعد ازاں اسڑ کی اصلاح دشمن ، مقامی حکمرانوں اور آریاؤں کے مذہبی اور سیاسی پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والے قبائل کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 04:44، 3 ستمبر 2021ء (م ع و)
اسڑ، اسر، عصر
ترمیماسڑ عصر، اسر عراق کے ایک مالدار مکیر نامی شخص کے بیٹے کا نام اسر تھا جس سے یہ قبیلہ بنا، اسر کے 9 بیٹے تھے، اِن کا پیشہ مالداری(مویشی) اور کاشت کاری کرتے تھے، تاہم یہ خاندان مال مویشی کے کاروبار میں مشہور ہوا اور یہ اعلی نسل کے گھوڑے پالنے اور فروخت کرنے میں مشہور تھے، قابل از اسلام تک اِن کی نسل خاصی بڑھ چکی تھی اور یہ حضرت عیسی ع کے پیروکار تھے تاہم اسلام آنے کے بعد اِس قبیلے کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، علم سے خاصہ لگاو رکھنے والے تھے، اِس نسل کا شمار زہین اور بہادر قبیلوں میں ہوتا آیا ہے، یہ جسمانی لڑائی سے زیادہ زہنی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے مخالف گروہ کو توڑنے میں کامیاب رہتے تھے، عراق میں یہ اسڑ، ایران میں عصر اور برصغیر کے حصے پنجاب میں اسڑ سے جانے جاتے ہیں، پرصغیر میں ہندووں سے اِن کی بہت سی لڑائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جن میں پنجاب کے علاقے ہرنولی کی لڑائی مشہور ہے جس کے بعد یہ ہرنولی کے بشتر حصے پر قابض ہوئے، یہ قبیلہ ازل سے جہاں بھی آباد ہوئے وہاں کے مقامی چوہدری، سردار، وڈیرے کے مخالف رہے ،یہ ان کی قوت توڑنے اور کمزور کرنے کے مہر تھے، تاہم آج کچھ حصوں میں خود سردار ہیں، آج یہ قبیلہ شام، عراق، ایران، پاکستان میں بشتر علاقوں میں موجود ہے، یہ اُن چند درجہ اول کے قبیلوں میں سے قبیلہ ہے جو نا کسی کی شاخ ہے نا اِس سے کوئی دوسری شاخ ہے۔ تحقیق و تصدیق بحوالہ کتاب تاریخ ملتان 1903ء
اسڑ ،اسر (انگریزی: Asura)، (سنسکرت असुर) ’ مالک ‘ اس کا ایک مطلب #آگ بھی نکلتا ہے۔ اور اخر ویدی دور سے تاحال اس دوسرے معنی کا غلبہ چلا آ رہا ہے۔ اس لفظ کے بہت سے مصادر تجویز کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی کو سنسکرت کے معاصر ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ اس کا اولین استعمال دلالت کرتا ہے کہ لفظ دراصل ’ اس ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’ موجود ہونا ‘ یا ’ ہونا ‘ کے ہیں دوسرا مصدر ’ اسو ‘ ہے، جس کا مطلب حیات یا سانس ہے۔ اسڑوں سے آگ کی روشنی سے تعلق کے باعث ’ اسڑ ‘ معنی چمکنے سے ہونا بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے یہ لفظ ہند آریائی یا ایرانی الاصلی ہے اور فطرت کے مظاہر خصوصاً بار آوری سے متعلق ان مظاہر کی تجسیم ہے جن کی تفہیم ناقص رہی ہے۔ لیکن خشک سالی، گرہن، بیماری وغیرہ جیسے فطرتی مظاہر بھی جو مفید مظاہر کی تجسیم کے مد مقابل ملتے ہیں اور آگ نہیں سمجھے جاتے ہیں اسڑ کہلاتے ہیں ۔
اسڑ سے وابستہ مذکورہ بالا دو متضاد خصوصیات ایرانیوں کی اوستا آہورہ سے متماثل ہیں۔ لیکن غالباً ایک اور روایت کے پیش نظر اسڑ دیو اور بعض اوقات ہم معنی لیے جاتے ہیں۔ یعنی دونوں کو ایسے افلاکی وجود تصور کیا جاتا ہے جو تخلیق سے وابستہ ہیں۔ سب برہمن کے اسطورے میں اس روایت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس اسطورے کے کو استعمال کرتے ہوئے اسڑ کے منفی اور مثبت پہلوؤں یعنی اسڑ بطور دیوتا اور بطور ان کے مدمخالف قوتوں کے کی وضاحت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسطورے کی رو سے دیو ( دیوتا) اور اسڑ دونوں نے خالق پرجا پتی سے جنم لیا اور دونوں کی صفت عطا ہوئی۔ بالاخر دیوتاؤں نے جھوٹ ترک کر دیا اور اسڑ سے چمٹے رہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اگرچہ دیوتا اور اسڑ اختیارات میں برابر تھے۔ لیکن ان استعمال میں متضاد تھے۔ اسڑ اپنے اختیارات دن کے وقت جب کہ دیوتا فقط رات کے استعمال کرسکتے تھے۔ بعد ازاں اسڑ کی اصلاح دشمن ، مقامی حکمرانوں اور آریاؤں کے مذہبی اور سیاسی پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والے قبائل کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ صوفی سید احمد شاہ ملتانی (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 06:58، 3 ستمبر 2021ء (م ع و)