تخت نادری جواہرات سے مرصع ایک تخت ہے جو گلستان محل، تہران میں موجود ہے اور اب یہ مرکزی بینک جمہوری اسلامی ایران کی تحویل میں ہے۔ یہ تخت خاندان قاجار کے زمانہ حکومت میں بنایا گیا تھا۔ اِس تخت کا شہنشاہ ایران نادر شاہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اِس کا نام فارسی زبان کے لفظ نادر سے رکھا گیا ہے جس کے معنی ہیں: منفرد، نایاب۔ یہ تخت قاجار شہنشاہ ایران فتح علی شاہ قاجار کے حکم سے بنایا گیا تھا۔ اُس عہد کی کئی مصور تصاویر میں یہ تخت دکھائی دیتا ہے مگر تخت خورشید کے مقابلہ میں یہ تخت نہیں بلکہ ایک شاہی کرسی نما شکل میں بنایا گیا ہے جسے جواہرات سے مرصع کیا گیا۔

یہ تخت بارہ حصوں یا ٹکڑوں میں ہے جنہیں مختلف پہلوؤں سے موڑ کر بند کیا جا سکتا ہے، دراصل یہ لکڑی سے بنا ہوا تخت ہے جس پر سونے کے پترے چڑھائے گئے ہیں اور جواہرات سے مرصع کیا گیا ہے۔ قاجار شہنشاہ جب موسم گرماء گزارنے کے لیے اپنے گرمائی دار الحکومت تک سفر کرتے تو یہ تخت بند حالت میں ساتھ لایا جاتا تھا۔ تخت نادری میں مرصع جواہرات کی کل تعداد 26 ہزار 733 ہے۔ تخت کے پہلے حصہ پر جو شہنشاہ کی کمر پر ہوتا تھا، پر چار بڑے یاقوت جڑے ہوئے ہیں جن میں سے ایک بڑے یاقوت کا وزن 65 قیراط یعنی 13 گرام ہے۔ چار بڑے زمرد جڑے ہوئے ہیں جن میں سے بڑے زمرد کا وزن 225 قیراط یعنی 45 گرام ہے۔ تخت کی بلندی 225 سینٹی میٹر یعنی 7.38189 فٹ(2.25 میٹر) ہے۔

شہنشاہ ایران فتح علی شاہ قاجار کے عہد کے کئی سفرناموں اور تاریخی کتب سے اُس کے اِس تخت کو استعمال کرنے کے شواہد ملتے ہیں۔ بعد ازاں شہنشاہ ناصر الدین شاہ قاجار نے اِس تخت میں تجدید کروائی۔ تخت کی کمر پشت والا حصہ مور کے پروں کی مانند بنایا گیا ہے۔ اِس حصہ میں مختلف اقسام کی شبیہ دیکھی جا سکتی ہیں جن میں پتے، بطخ اور درخت دیکھے جا سکتے ہیں۔ تخت پر شہنشاہ براجمان ہوتا تو تب ایک شیر شہنشاہ کے پاؤں میں اِس طرح بٹھایا جاتا کہ شہنشاہ کا رعب و دبدبہ قائم ہوجاتا۔

یہ تخت آخری بار 26 اکتوبر 1967ء کو ایرانی شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی کی تخت نشینی پر استعمال کیا گیا تھا۔[1] یہ تخت اب مرکزی بینک جمہوری اسلامی ایران کی تحویل میں ہے اور گلستان محل، تہران میں رکھا ہوا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم

بھی دیکھیں

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم