تور، ایران کی افسانوی ملّی داستان شاہنامہ میں بادشاہ فریدون کا دوسرا بیٹا تھا۔

تفصیل ترمیم

بادشاہ نے اسے سلطنت کی تقسیم کے وقت توران(ترکستان) اور چین دیے تھے۔ تور نے بڑے بھائی سلم کے ساتھ مل کر سب سے چھوٹے بھائی ایرج کو مار ڈالا۔ اسی پر ایران و توران کے درمیان لڑائیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہاں تک ایرج کا بیٹا منوچہر جوان ہوا۔ جس نے ایک بڑی فوج کے ساتھ تور اور سلم کے ملکوں پر چڑھائی کی۔ ان دونوں سے تصادم کی جگہ بحیرہ خزر کے شمال بتائی گئی ہے۔ اس طرح منوچہر دونوں کو شکست دے دیتا ہے اور اس شکست کے بعد بھی تور سے یورششیں جاری رہتی ہیں۔ زیادہ تر کتب میں سلم کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ تور، سلم اور ایرج ہم نسل تھے اور ان کی حکومت یا مملکت کا علاقہ توران تھا اور تور کا ذکر اس لیے ملتا ہے کہ اس کی مسلسل آویزشیں ایرانیوں سے جاری رہتی ہیں۔

ایک قدیم کتاب میں یہ کلمہ توچ آیا ہے۔ قدیم دور میں تور سے مراد توران یا ترک لیے جاتے تھے جب کہ اوستا میں یہ کلمہ تورہ آیا۔ [1] پرانوں میں یہ کلمہ ترشکا آیا ہے اور قدیم زمانے میں شمال مغرب سمت سے برصغیر پر حملہ کرنے والوں کو ترشکا کہا جاتا تھا۔ بعد میں اس کا اطلاق مسلمانوں پر کیا جانے لگا اور وہ ترک کہلانے لگے۔ اس لیے ابتدا میں مسلمانوں کو ترک کے نام سے موسوم کیا جانے لگا۔ راجپوتوں کا ایک خاندان توار کہلاتا تھا جو راجپوتوں کے چھبیس شاہی خاندانوں میں شامل ہے۔ [2]

افغانوں کے شجرہ نسب میں بہت سے کلمے تور سے بنے ہیں۔ تور پشتو کلمہ ہے جس کے معنی تلوار کے ہیں اور طور اس کا معرب ہے۔ یہ کلمہ تور من، تور کش اور تورجن کی شکل میں بھی ملتا ہے۔ ان سب میں تور مشترک ہے۔ ترخان خراسان کا قدیم قبیلہ تھا۔ گمان یہ کہ قبل اسلام بھی ترخان خراسان میں آباد تھے اور زابلستان میں ابدالیوں کے وارثوں میں تھے۔ اس کلمہ کا پہلا حصہ تر پشتو کے طور سے مطابقت رکھتا ہے۔ ترخان دسویں صدی ہجری میں سندھ آ گئے تھے۔ اور 962 ھ میں مرزا عیسیٰ ترخان ولد عبد العلی عبد العلی ٹھٹھہ میں تخت نشین ہوا۔ ترخان تور کا معرب ہے۔ اس کا املا مختلف طور پر آیا ہے۔ مثلاً تبر خان، تزخان لیکن ترخان صیح ہے اور اس کا معرب طر خان ہے۔ البیرونی نے آثار الباقیہ اور ابن خرابا نے طر خان = طوخون سمر قند کے بادشاہ کا لقب لکھا ہے۔ ابونصر الفارابی کے والد کا نام طرخان بن اوزلغ تھا۔ [3]

سفید ہن کی سلطنت جو وسط ہند سے لے کر رہی اس کے سربراہ کا نام ٹورامن تھا۔ خٹکوں کے مورثِ علیٰ کا نام بھی ٹورامن تھا۔ ترکانہ خاتون ،علاؤ الدین تکش کی بیوی کا نام تھا۔ توراکینہ چنگیز خان کے پوتے اوکتائی کی بیوی کا نام تھا۔ سندھ میں سومروں کے پہلے پایہ تخت کا نام مہاتم تور یا محمد تور تھا۔ بلوچستان کی ایک ریاست توران کہلاتی تھی۔ [4] راجپوتوں کا ایک خاندان توار تھا، جس نے دہلی کو ازسرِ نو آباد کیا۔ توار، تور کی تخریب ہے۔

اس بالاالذکر بحث سے ہم نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کلمہ مختلف شکلوں میں وسط ایشیا سے برصغیر تھا اور افغانستان کے علاوہ دوسری قوموں میں یہ کلمہ زمانے سے رائج رہا ہے۔ ان سب قوموں کا تعلق وسط ایشیا سے رہا ہے۔ افغان اپنا جد امجد طالوت کو بتاتے ہیں جو بنی اسرائیل کا پہلا بادشاہ تھا اور یہ گمان ا نہیں اس کلمہ تور کی نسبت سے آیا ہے اور کلمہ تور کو معرب کرکے اسے طور بنا لیا اور شجرہ نسب ترتیب دیتے ہوئے اسے طالوت قرار دیتے ہوئے اسے اپنا جد امجد تصور کر لیا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. (سلم۔ معارف اسلامیہ)
  2. (جیمزٹاڈ۔ تاریخ راجستان جلد اول، 99۔ 117۔ 247)
  3. (عبد الحئی حبیبی۔ تقلیمات طبقات ناصری جلد دوم، 424)
  4. (اعجاز الحق قدوسی۔ تاریخ سندھ، جلد اول، 296۔ 413)