جان ایلیٹ ڈرنک واٹر بیتھون

جان ایلیٹ ڈرنک واٹر بیتھون (1801ء – 1851ء) ایک اینگلو ہندوستانی وکیل، انیسویں صدی کے ہندوستان میں تعلیم نسواں کے نقیب، بیرسٹر اور گورنر جنرل کی کاؤنسل کے ایک رکن تھے۔ ان کے والد نے اپنے نام کے ساتھ "بیتھون" لگایا تو ایلیٹ بھی لگانے لگے۔ سنہ 1849ء میں جان ایلیٹ نے اس وقت کے برطانوی ہندوستان کے دار الحکومت کلکتہ (موجودہ کولکاتا) میں تعلیم نسواں کا ایک ادارہ قائم کیا۔ بعد میں اس ادارے کا نام جان ایلیٹ کے نام پر کر دیا گیا اور وہ بیتھون کالج کے نام سے معروف ہوا۔[1]

جان ایلیٹ ڈرنک واٹر بیتھون

معلومات شخصیت
پیدائش 1801
ایلنگ، لندن، انگلستان
وفات 12 اگست 1851ء
کولکاتا، ہندوستان
شہریت متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی ٹرینٹی کالج، کیمبرج   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ وکالت، تعلیم نسواں کے لیے جد و جہد
پیشہ ورانہ زبان انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

جان ایلیٹ کی پیدائش ایلنگ میں ہوئی۔ ان کے والد شہرہ آفاق کتاب "محاصرہ جبل الطارق کی تاریخ" (History of the Siege of Gibraltar) کے مصنف جان ڈرنک واٹر بیتھون تھے۔ جان ایلیٹ کی تعلیم ویسٹ منسٹر اسکول اور ٹرینٹی کالج، کیمبرج یونیورسٹی[2] میں ہوئی۔ جلد ہی انھیں پارلیمان میں انتظامی منصب کے لیے بار کاؤنسل کا اہل سمجھ لیا گیا۔[1][3] وہ یونانی، لاطینی، جرمن، فرانسیسی اور اطالوی زبانوں کے ماہر اور شاعر تھے۔ سنہ 1848ء میں انھیں گورنر جنرل کی کاؤنسل کا رکن بنا کر ہندوستان بھیجا گیا، بعد ازاں وہ ایجوکیشن کاؤنسل کے صدر بھی بنے۔[1]

بیتھون اسکول

ترمیم

جان ایلیٹ نے سنہ 1849ء میں دکشی نرنجن مکھرجی، رام گوپال گھوش، ایشور چندر ودیا ساگر[4] اور مدن موہن ترکالنکر[5] جیسے افراد کی مدد سے ایک نسواں اسکول قائم کیا اور اپنی ساری جائداد اسکول کو وقف کر دی۔[1] یہ کلکتہ میں اپنی نوعیت کی پہلی کوشش تھی چنانچہ اس کا معاشرے پر زبردست اثر ہوا۔[3] حکومت نے سنہ 1856ء میں اسے اپنے تابع کر لیا اور سنہ 1862-63 میں اس کا نام بیتھون اسکول رکھ دیا۔[5] ایشور چندر ودیا ساگر، دوارکا ناتھ ودیا بھوشن اور دیگر آزاد خیال افراد نے بیس برس تک اسکول کی حمایت اور تعاون کیا لیکن اسے عوامی پزیرائی نہ مل سکی۔ سنہ 1868ء میں اسکول کی صدر معلمہ مس پیگوٹ کو اس بات پر استعفا دینے پر مجبور کیا گیا کہ انھوں نے تدریسی پروگرام میں مسیحیت کو داخل کرنے کی کوشش کی۔[6]

دیگر سرگرمیاں

ترمیم

جان ایلیٹ کو بنگالی زبان میں ترجمہ نگاری سے خاصی دلچسپی تھی۔ کلکتہ میں کلکتہ پبلک لائبریری اس کی پسندیدہ جگہ ہوتی۔ پنڈت گرموہن ودیا لنکر نے تعلیم نسواں پر ایک مقالہ لکھا تھا، جان ایلیٹ نے اسے اپنی جانب سے شائع کرکے مفت تقسیم کروایا۔[1] سنہ 1849ء میں گورنر جنرل کی کاؤنسل میں شامل ہونے کے معاً بعد بیتھون نے ایک مسودہ تیار کیا جس میں برطانوی الاصل رعایا کو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے قوانین اور عدالتوں کے دائرہ کار میں لانے کی کوشش کی۔ یورپی افراد نے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا۔[7] اسی سال جب مائیکل مدھوسودن دت نے اپنی انگریزی نظموں کا مجموعہ "captive lady" شائع کیا تو بیتھون کی رائے تھی کہ غیر انگریز کا خود کو انگریز شاعر بنانے کی کوشش کرنا حماقت ہے۔ یہی صلاحیت اگر مقامی زبانوں میں صرف کی جائے تو ملک کو بڑا نفع ہوگا۔[8]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ Sengupta, Subodh Chandra and Bose, Anjali (editors), (1976/1998), Sansad Bangali Charitabhidhan (Biographical dictionary) Vol I, in Bengali, p 366, آئی ایس بی این 81-85626-65-0
  2. "Drinkwater (subsequently Drinkwater-Bethune), John Elliot (DRNR819JE)"۔ A Cambridge Alumni Database۔ University of Cambridge 
  3. ^ ا ب Sivanath Sastri (2001) [1903]، Ramtanu Lahiri O Tatkalin Banga Samaj (in Bengali)، New Age Publishers Pvt. Ltd.  p112-114
  4. He was secretary of the school. Ref: Sengupta, Subodh Chandra and Bose, Anjali, p64.
  5. ^ ا ب Acharya, Poromesh, Education in Old Calcutta, in Calcutta, the Living City, Vol I, edited by Sukanta Chaudhuri, pp86-87, Oxford University Press, آئی ایس بی این 0-19-563696-1.
  6. Kopf, David (1979), The Brahmo Samaj and the Shaping of the Modern Indian Mind, p34 Princeton University Press, آئی ایس بی این 0-691-03125-8
  7. Sengupta, Nitish, (2001/2002) History of the Bengali-speaking People, p284, UBS Publishers' Distributors Pvt. Ltd., آئی ایس بی این 81-7476-355-4.
  8. Sastri, Sivanath, pp138-139.

بیرونی روابط

ترمیم