جاوید اقبال (سلسلہ وار قاتل)

جاوید اقبال مغل (8 اکتوبر، 1956ء8 اکتوبر ،2001ء) ایک پاکستانی سلسلہ وار قاتل تھا، وہ 100 بچوں کے قتل اور انھیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا مجرم تھا۔

جاوید اقبال (سلسلہ وار قاتل)
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1961ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 8 اکتوبر 2001ء (39–40 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سینٹرل جیل لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات زہر خورانی   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی اسلامیہ کالج لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سلسلہ وار قاتل   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الزام و سزا
جرم قتل
بچوں کا جنسی استحصال   ویکی ڈیٹا پر (P1399) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

اقبال کے والد ایک تاجر تھے اور اقبال کا نمبر اپنے بہن بھائیوں میں چھٹا تھا۔ اس نے گورنمنٹ اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ لاہور سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ 1978ء میں اس نے اسٹیل کا کاروبار شروع کیا۔ اقبال کچھ لڑکوں کے ساتھ ایک الگ حویلی میں رہا کرتا تھا جو شاد باغ میں واقع تھی۔[1]

قتل، گرفتاری، مواخذہ

ترمیم

30 دسمبر 1999ء کو اقبال نے پولیس اور ایک اخباری مدیر خاور نعیم ہاشمی کو ایک خط لکھا جس میں اس نے 100 بچوں کے قتل کا اعتراف کیا جن کی عمریں 6 سے 16 سال کے درمیان تھیں۔ اس نے ساتھ میں یہ بھی اعتراف کیا کہ اس نے ان بچوں کو گلا گھونٹ کر مارا اور ان کے جسم کے کئی ٹکڑے کیے۔ وہ ان بچوں کو جو گھر سے بھاگے تھے یا سڑک کنارے رہنے والے یتیم لاوارث بچے تھے، کو نشانہ بنایا کرتا تھا۔ نیز قتل کے بعد ان کے جسم کو تیزاب (ہائیڈروکلورک ایسڈ) میں ڈال دیا کرتا اس کے بعد وہ اسے دریا میں بہا دیتا۔ جب پولیس اور رپورٹر اس کے گھر گئے تو انھوں نے کئی نشانہ بننے والوں کی تصویریں پائیں، نیز دیواریں بھی خون سے آلودہ تھیں اور انھیں زنجیریں بھی ملی جو اقبال کے مطابق گلا گھونٹنے کے لیے تھیں۔ ان تمام چیزوں پر مجرم نے تحریریں لکھی تھیں جو ان چیزوں کے تعارف میں تھیں۔ نیز پولیس والوں کو ایک بیگ بھی ملا جس میں تیزاب اور جسمانی بقایاجات تھیں جس پر مجرم نے لکھا تھا کہ "اسے میں نے اس لیے ٹھکانے نہیں لگایا تاکہ حکام کو ثبوت مل سکے"۔[2]

اقبال کے ان انکشافات کے بعد لاہور پولیس نے پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے چھاپوں کا آغاز کیا جس میں اقبال کے ساتھ رہنے والے چار لڑکوں کو بھی گرفتار کیا گیا جن میں سے ایک کی موت مبینہ طور پر جیل سے فرار ہوتے ہوئے ہوئی جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس پر روز تشدد کیا جاتا رہا تھا۔.[3]

اس سے ایک ماہ قبل اقبال جنگ نیوز کے دفتر گیا تھا جس کے بعد اسے گرفتار کیا گیا اس کے مطابق وہ وہاں اس لیے گیا تھا کیوں کہ اسے پولیس سے اپنی جان کا خطرہ تھا۔[2]

اقبال کی ڈائری میں اس کے ہاتھوں قتل کیے گئے تمام بچوں کی تفصیلات تھیں لیکن عدالت میں اقبال نے خود کو بے گناہ قرار دیا۔ اس کے مطابق اس نے یہ تمام کہانی گھر سے بھاگنے والے بچوں کے معاملات کو سامنے لانے کے لیے گھڑی تھی۔ 100 افراد نے اقبال کے جرم سے متعلق شہادتیں جمع کرائیں[حوالہ درکار]جس پر عدالت کے جج نے ان الفاظ میں فیصلہ دیا "تمھیں ان والدین جن کے بچوں کے تم قاتل ہو، کے سامنے گلا گھونٹ کر مارا جائے گا۔ تمھاری لاش کے سو ٹکڑے کیے جائیں گے اور اس کے بعد اسے تیزاب میں ڈالا جائے گا۔"[4]

8 اکتوبر کو اقبال اور اس کے ساتھی ساجد احمد نے کوٹ لکھپت جیل میں خود کشی کر لی۔ ان لوگوں نے اپنے پیچھے کوئی وصیت نہیں چھوڑی۔ وہ آخری بیان دینے پر بھی راضی نہیں تھے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Serial killer Javed Iqbal who sexually abused and killed 100 children in Pakistan" (). انڈیا ٹی وی. Updated 26 February 2014. Retrieved on 26 May 2014.
  2. ^ ا ب McGraw, Seamus. "A Letter from a Killer." All about Javed Iqbal. Crime Library p. 4 بذریعہ crimelibrary.com (Error: unknown archive URL) (آرکائیو شدہ (Date missing)) (Archive).
  3. "Police detained after suspect's death." برطانوی نشریاتی ادارہ. Wednesday 8 December 1999.
  4. "Death for Pakistan serial killer." برطانوی نشریاتی ادارہ. Thursday 16 March 2000.

مزید پڑھیے

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم