جزیرہ جیکل کا عفریت
دی کری ایچر فروم جیکل آئیس لینڈ (جزیرہ جیکل کا عفریت) ایک کتاب کا نام ہے جسے G. Edward Griffin نے لکھا اور 1994ء میں چھپی تھی۔ اس میں ان حالات کا ذکر ہے جن کے تحت امریکی ڈالر چھاپنے والے نجی ادارے فیڈرل ریزرو کو بنایا گیا جو اب امریکی حکومت پر درپردہ حکومت کرتا ہے۔
بینکاروں کی دھمکی
ترمیمجب انیسویں صدی کا اختتام ہوا اس وقت دنیا بھر کے کاغذی کرنسی چھاپنے والے مختلف بینکار متحد ہونا شروع ہوئے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر دنیا بھر میں ہارڈ کرنسی کی جگہ کاغذی کرنسی کا رواج مستحکم ہو جائے تو وہ کس قدر امیر بن سکتے ہیں اور پوری دنیا پر اپنی درپردہ حکمرانی قائم کر سکتے ہیں۔ اس وقت امریکا میں کوئی سینٹرل بینک نہیں تھا اور امریکا کے بہت سے بڑے بینک اپنی کاغذی کرنسی خود جاری کرتے تھے۔ روتھشیلڈ اور جیکب شیف نے چیمبر آف کامرس نیویارک میں یہ دھمکی دی کہ اگر ہمارے پاس کریڈٹ جاری کرنے والا سینٹرل بینک نہیں ہو گا تو اس ملک میں بدترین کرنسی کا بحران آ جائے گا۔
اسٹاک مارکیٹ کو ڈبونا
ترمیم1907ء میں جے پی مورگن نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اسٹاک مارکیٹ کو ڈبو دیا۔ وہ جانتے تھے کہ بہت سے چھوٹے بینک فریکشنل ریزرو بینکنگ کے تحت کام کر رہے ہیں اور ان کے پاس ایک فیصد بھی سرمایہ نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں چند دن کے اندر ہی پورے امریکا میں آئے دن بینک رن ہونا شروع ہو گئے۔
اب مورگن صاحب سامنے آئے اور انہوں نے عوام میں اعلان کیا کہ وہ ان ڈوبتے ہوئے بینکوں کو سہارہ دیں گے۔ جو بات انہوں نے نہیں بتائی وہ یہ تھی کہ وہ یہ رقم خود تخلیق کریں گے۔ اور اسکے بعد ایک حیرت انگیز بات ہوئی۔ کانگریس نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ مورگن نے 20 کروڑ ڈالر چھاپے اور اس میں سے کچھ دوسروں کو قرض دیے۔ اس طرح عوام کا کاغذی کرنسی پر اعتماد بھی بحال ہوا اور بڑے بینکوں کی اجارہ داری میں بھی اضافہ ہوا۔
ایلڈرچ کا دورہ یورپ
ترمیممسٹر جے پی مورگن اب امریکا میں ایک ہیرو کا درجہ اختیار کر چکا تھا۔ ووڈ ورڈ ولسن نے بڑے فخر سے کہا کہ یہ سارا بحران نہ آتا اگر ہمارے ملک کے معاملات طے کرنے کے لیے جے پی مورگن جیسے چھ سات آدمیوں کی ایک کمیٹی بنا دی جاتی۔
امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے "نیشنل مونیٹوری کمیشن" بنا دیا تا کہ وہ بینکنگ کے مسائل جانچے اور کونگریس کی راہنمائی کرے۔ اس میں جے پی مورگن کے ہی ساتھی بھرے ہوئے تھے۔
اس کمیشن کا سربراہ سینیٹر نیلسن ایلڈرچ تھا جو امریکا کے امیر ترین بینکنگ خاندانوں سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی بیٹی جون ڈی روک فیلر سے بیاہی ہوئی تھی۔ ان کا بیٹا نیلسن 1974ء میں امریکا کا نائب صدر بنا۔
نیشنل مونیٹوری کمیشن بنتے ہی سینیٹر نیلسن ایلڈرچ دو سال کے لیے یورپ چلا گیا جہاں اس نے انگلینڈ فرانس اور جرمنی کے نجی سنٹرل بینکوں سے تفصیلی گفت و شنید کی۔ در حقیقت یہ تینوں بینک روتھشیلڈ خاندان کی ہی ملکیت ہیں۔ امریکی حکومت نے اس دورے کے اخراجات 3 لاکھ ڈالر برداشت کیئے جو اس زمانے میں ایک بہت بڑی رقم تھی
جزیرہ جیکل میں خفیہ ملاقات
ترمیم22 نومبر 1910ء کو سینیٹر ایلڈرچ اپنے یورپ کے دورے پر سے واپس آیا۔ اسکے کچھ ہی دنوں بعد امریکا کے چند نہایت ہی امیر اور با اثر لوگ نہایت رازداری کے ساتھ سینیٹر نیلسن ایلڈرچ کی ذاتی ریل کار میں بیٹھ کر نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ لوگ جارجیا کے ساحل سے کچھ دور جیکل کے جزیرے پر پہنچے۔ اس گروپ میں پال واربرگ بھی شامل تھا جو روتھشیلڈ کی Kuhn, Loeb & Company میں ملازم تھا اور اسکی سالانہ تنخوہ 5 لاکھ ڈالر تھی! (پال واربرگ کا بھائی میکس واربرگ اس وقت جرمنی کی سیکریٹ سروس کا سربراہ تھا۔[1])
پال واربرگ کا کام امریکا میں نجی سینٹرل بینک بنانے کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔ وہاں جیکب شیف بھی موجود تھا جو خود بھی روتھشیلڈ خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور جس نے انگلینڈ سے امریکا آتے ہی Kuhn, Loeb & Company خرید لی تھی۔ روتھشیلڈ، واربرگ اور شیف آپس میں رشتہ دار بھی تھے۔
اس میٹننگ میں رازداری اپنی انتہا کو تھی۔ مہمانوں کو بھی یہ تاکید تھی کہ کسی کو بھی انکے خاندانی نام سے نہ پکاریں جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے بلکہ صرف ابتدائی نام سے مخاطب کریں تاکہ نوکروں کو بھی پتہ نہ چلے کہ یہاں کون کون آیا ہوا ہے۔ کئی سالوں کے بعد 9 فروری 1935ء کے ہفتے کے "ایوننگ پوسٹ" کے شمارے میں فرینک وانڈرلپ نے جو نیشنل سٹی بینک کا صدر تھا، اور جو اس محفل میں شریک تھا، انکشاف کیا کہ ہم نے سخت رازداری اس لیے برتی کہ اگر یہ سب پتہ چل جاتا کہ ہم نے مل کر یہ مسودہ قانون بنایا ہے تو یہ کبھی بھی کانگریس سے پاس نہ ہوتا۔
1910ء تک پچھلے دس سالوں میں امریکا میں بینکوں کی تعداد دگنی ہو کر 20 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ جون ڈی روکفیلر کا کہنا تھا کہ "مسابقت عذاب ہے"۔
ایلڈرچ کا اعتراف
ترمیمسینیٹر نیلسن ایلڈرچ نے بعد میں ایک میگزین میں اعتراف کیا کہ "اس قانون کے پاس ہونے سے پہلے نیویارک کے بینکار صرف نیویارک کی دولت پر کنٹرول رکھتے تھے۔ اب ہم پورے ملک کی دولت پر کنٹرول رکھتے ہیں"۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سازش کر کے یہ قانون بنانے کا ایک مقصد بینکوں کو اپنے کنٹرول میں لانا تھا اور دوسرا مقصد امریکا کی انڈسٹری کو اپنے قابو میں رکھنا تھا کیونکہ امریکا میں معیشت اتنی مضبوط تھی کہ بہت ساری کمپنیاں اپنے منافع سے دوسری نئی کمپنی بنا لیتی تھیں اور بڑے بینکوں سے قرضہ نہیں لیتی تھیں۔ درحقیقت پچھلے دس سالوں میں 70 فی صد کمپنیاں قرض لیے بغیر وجود میں آ گئی تھیں اور بڑے بینکار نہیں چاہتے تھے کہ ایسا ہوتا رہے۔
جیکل آئی لینڈ کلب ہوٹل کے کانفرنس روم میں اس بات پر بھی بڑی بحث ہوئی کہ اس نئے سنٹرل بینک کا کیا نام ہو۔ سینیٹر ایلڈرچ کا اصرار تھا کہ نام میں لفظ "بینک" نہ ہو۔ وار برگ چاہتا تھا کہ اس قانون کا نام "نیشنل ریزرو بل" یا "فیڈرل ریزرو بل" ہونا چاہیے تاکہ یہ اندازہ نہ ہونے پائے کہ یہ ایک نجی ادارہ ہے۔ لیکن سینیٹر نیلسن ایلڈرچ کے اصرار پر اسے "ایلڈرچ بل" کا نام دیا گیا۔ نو روز تک ہر پہلو سے اس پلان کا جائزہ لیا گیا اور پھر یہ لوگ منتشر ہو گئے۔
اس گروپ کے شرکا نے فوراً ایک 50 لاکھ ڈالر کا تعلیمی فنڈ بنایا تاکہ بہترین یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کو رشوت دے کر اس کام پر آمادہ کیا جا سکے کہ وہ اس قانون کی حمایت کریں۔ اس بل کے تحت بینک آف انگلینڈ کی طرز پر امریکہ میں بھی صرف ایک ہی نجی ادارے کو کرنسی نوٹ چھاپنے کا اختیار ملنے والا تھا۔ عوام کو یہ احساس دلانے کے لیے کہ یہ ادارہ حکومت کا ہے اعلان کیا گیا کہ اس ادارے کے بورڈ آف گورنرز کی نامزدگی امریکی صدر کرے گا اور اسے سینٹ منظوری دے گی۔ بینکار اچھی طرح جانتے تھے کہ جمہوری حکومت میں وہ رشوت دے کر اپنی مرضی کے آدمی بورڈ آف گورنرز میں منظور کروا سکتے ہیں۔
سینیٹ کو دھوکا
ترمیمجب یہ بل منظوری کے لیے کانگریس میں پیش ہوا تو بڑی جلدی اندازہ لگا لیا گیا کہ یہ بینکاروں کے مفاد میں ہے۔ بحث کے دوران میں ری پبلکن چارلس لنڈبرگ نے کہا کہ "ایلڈرچ کا منصوبہ وال اسٹریٹ کا منصوبہ ہے۔ اس سے مزید بحران آئینگے۔ ایلڈرچ جس پر حکومت نے عوام کی نمائندگی کرنے کے لیے اخراجات کئے، وہ بینکاروں کی طرفداری کا منصوبہ پیش کر رہا ہے۔"
بینکاروں کو بھی جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ ری پبلک پارٹی کی حکومت میں یہ بل کبھی پاس نہیں ہو سکتا اس لیے انہوں نے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ووڈ ورڈ ولسن پر بے تحاشا خرچ کرنا شروع کر دیا۔ اگرچہ ڈیموکریٹک پارٹی کا وعدہ تھا کہ وہ سنٹرل بینک نہیں بننے دیں گے مگر وہ پورا نہ ہوا۔ 5 نومبر 1912ء کو ووڈ ورڈ ولسن صدر منتخب ہوا اور 13 مہینوں کے بعد نیا سنٹرل بینک بن گیا۔ الیکشن جیتنے کے بعد اس دفعہ اسے Glass-Owen Bill کا نام دیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ ایلڈرچ بل سے بالکل مختلف ہے مگر حقیقت میں یہ وہی بل تھا۔ پروپیگینڈا اس قدر زیادہ تھا کہ واربرگ کو، جس نے دونوں بل بنائے تھے، اپنے خریدے ہوئے کانگریس نمائیندوں کو بتانا پڑا کہ درحقیقت دونوں بل ایک ہی ہیں اور آپ لوگ اسے پاس کرنے کی حمائت میں ووٹ دیں۔ یہ بات عوام کے علم میں نہیں آئی۔ اور تو اور خود سینیٹر ایلڈرچ اور روک فیلر کے نیشنل سٹی بینک کے صدر فرینک وانڈرلپ نے بھی اس بل کی مخالفت کی تاکہ لوگ اسے مختلف بل سمجھیں۔ اس بل پر بحث سے اندازہ ہو چلا تھا کہ یہ بل عوام کے حق میں نہیں ہے۔ لیکن اسی دوران میں کرسمس کی چھٹیاں نزدیک آ گئیں۔بہت سے سینیٹروں کو کرسمس منانے اپنے گھر جانا تھا۔ حکومت نے ان سینیٹروں کو بتایا تھا کہ جب تک وہ لوگ چھٹیوں سے واپس نہیں آجاتے اس بل پر کچھ نہیں کیا جائے گا۔ لیکن 22 دسمبر 1913ء کو یعنی کرسمس سے صرف تین دن پہلے کانگرس نے یہ بل پاس کر دیا اور اگلے ہی دن وہ سینٹ میں بھی پاس ہو گیا۔ سینٹ میں حمایت میں 43 اور مخالفت میں 25 ووٹ آئے جبکہ 27 سینیٹر غیر حاضر تھے۔ صرف دو مہینے پہلے کانگریس نے اکتوبر میں ایک اور قانون پاس کیا تھا کہ اب ٹیکس براہ راست لیا جائے گا۔ اس قانون کا مسودہ بھی ایلڈرچ نے ہی پیش کیا تھا۔ یہ قانون سولہویں ترمیم کہلاتا ہے۔ یہ انکم ٹیکس کا قانون بعد میں بننے والے فیڈرل ریزرو کے لیے انتہائی ضروری تھا۔ فیڈرل ریزرو کو اپنے دیے گئے قرض پر سود وصول کرنا تھا۔ اگر فیڈرل ریزرو مختلف ریاستوں سے ٹیکس لیتا تو اس میں مشکلات آ سکتی تھیں۔ ریاستیں مضبوط حیثیت رکھتی ہیں اور وہ قرض کم رکھنے کے لیے سیاسی دباو ڈال سکتی تھیں یا بغاوت کر سکتی تھیں کہ ہم اپنی ہی رقم پر سود کیوں دیں۔ اس لیے براہ راست عوام پر ٹیکس لگایا گیا جو ایک کمزور حیثیت رکھتے ہیں۔ بینک آف انگلینڈ پہلے ہی یہ سب کر چکا تھا۔ سولہویں ترمیم سے مشابہ قانون سپریم کورٹ 1895ء اور 1909ء میں غیر آئینی قرار دے چکا تھا۔
اس وقت امریکا میں ہر ریاست کے قانونی ماہرین سینیٹر کا چناو کرتے تھے۔ اس کے توڑ کے لیے ایک اور ترمیم لائی گئی جسے سترھویں ترمیم کہتے ہیں۔ اسکے تحت ہر ریاست سے دو سینیٹر عوام کے ووٹ سے چنے جانے لگے۔ اب بینکاروں کے لیے اپنی مرضی کے آدمی کو سینیٹر بنانا اور بھی زیادہ آسان ہو گیا۔
فیڈرل ریزرو کے بورڈ آف گورنرز کے سات ممبر میں سے صرف دو ممبر امریکی صدر منتخب کرتا ہے اور وہ بھی 14 سال کے لیے۔ یعنی صدر کی مدت سے کہیں زیادہ عرصے کے لیے۔ اس لیے ہر صدر کو ان ممبران کی نامزدگی کا موقع نہیں ملتا۔
پہلی جنگ عظیم
ترمیم1913ء کے اختتام میں فیڈرل ریزرو بنا۔ 1914ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ جرمن روتھشیلڈ نے جرمنی کو قرض دیے۔ اسی طرح برطانوی روتھشیلڈ نے برطانیہ اور فرانسیسی روتھشیلڈ نے فرانس کو قرض دیے۔ 1915ء میں جے پی مورگن کو فرانس اور برطانیہ کی طرف سے سامان جنگ کی خریداری کے بورڈ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ روزانہ ایک کروڑ ڈالر کی خریداری ہوتی تھی۔ ایک دوسرے بینکر برنارڈ باروچ کو جنگی سامان بنانے والی انڈسٹریوں کا سربراہ بنا دیا گیا۔
جنگ کے بعد کسی یہودی جرمن بینکار نے تبصرہ کیا "جرمنی جنگ ہار گیا تو کیا ہوا؟ یہ تو فوجی معاملات ہیں۔ ہم تو انٹرنیشنل بینکرز ہیں۔"[2]
یہ بینکرز عرصہ دراز سے روس میں بھی ایک سنٹرل بینک بنانا چاہتے تھے مگر زار روس انہیں اجازت نہیں دے رہا تھا۔ 1917ء میں روتھشیلڈ خاندان کے جیکب شیف نے دو کروڑ ڈالر انقلاب روس کے لیے خرچ کیئے۔
نیویارک کے میئر کا بیان
ترمیم26 مارچ 1922ء کو نیویارک کے میئر جوہن ہائیلن نے نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ " ہمارے ملک کو اصل خطرہ اُس نظر نہ آنے والی حکومت سے ہے جس نے ایک بہت بڑے آکٹوپس کی طرح ہمارے شہر، ہماری ریاستوں اور ہماری قوم کو جکڑ رکھا ہے۔ اسکے لمبے اور طاقتور بازو ہمارے بیوروکریٹ، ہماری اسمبلیوں، ہماری یونیورسٹیوں، ہماری عدالتوں، ہمارے اخبار اور ہمارے فلاحی بہبود کے ہر ادارے کو جکڑے ہوئے ہیں۔ اس آکٹوپس کا سربراہ روکفیلر اور گنتی کے چند بینکرز ہیں۔ ان طاقتور انٹرنیشنل بینکرز کا گروہ عملاً امریکی حکومت کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے چلاتا ہے۔ یہ دونوں پارٹیوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے اپنے آدمی حکومت میں داخل کروا دیتے ہیں۔ یہی بینکرز ہمارے ملک کے بیشتر اخبارات اور میگزین کنٹرول کرتے ہیں۔"
1921ء میں امریکی صدر وورڈ ورڈ ولسن کی جگہ وارن جی ہارڈنگ نے عہدہ سنبھالا۔ اسکے زمانے میں عوام کی حالت کافی بہتر ہوگئی۔ جنگ کے دنوں میں بھی اور اسکے بعد بھی امریکا میں سونا آتا رہا۔ اس نمایاں ترقی کی وجہ یہ تھی کہ صدر ہارڈنگ نے ٹیکس کم کر دیے تھے اور امپورٹ ڈیوٹی بڑھا دی تھی۔ 2 اگست 1922ء کو صدر ہارڈنگ ریل کے سفر کے دوران میں پُراسرار حالت میں مارا گیا۔ بتایا یہی گیا کہ اسے فوڈ پوائزننگ یا فالج کا حملہ ہوا تھا مگر پوسٹ مارٹم نہیں کرنے دیا گیا۔
اپریل 1929ء میں پال واربرگ نے اپنے دوستوں کو ایک خفیہ وارننگ دی کہ سال کے آخر میں اسٹاک مارکیٹ کو ڈبونے کا منصوبہ ہے۔ وال اسٹریٹ کی دیو قامت شخصیات جیسے جوہن ڈی روکفیلر، جے پی مورگن، جوزف کینیڈی اور برنارڈ باروت وغیرہ حیرت انگیز طور پر اسٹاک مارکیٹ ڈوبنے سے پہلے ہی اپنا سارا سرمائیہ وہاں سے نکال چکے تھے۔
میک فیڈن کا بیان
ترمیمکانگریس میں ریپبلیکن نمائندے میک فیڈن نے، جو دس گیارہ سال چِئرمین آف دا ہاوس برائے بینکنگ اینڈ کرنسی کمیٹی بھی رہ چکا تھا، کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی اپنے بین الاقوامی بینکاروں کے ہاتھوں میں بک چکا تھا۔ ان جرمن بینکاروں نے جرمنی کی ہر ہر شئے خرید لی تھی۔ ان بینکاروں نے جرمنی کی ساری صنعتیں خرید لی تھیں، ساری زمینیں رہن رکھ لی تھیں، وہ جرمنی کی ساری پیداوار کنٹرول کرتے تھے، اور وہ عوام کے استعمال کی ہر چیز کے مالک تھے۔ انہوں نے جرمنی کی حکومت کی مدد کرنا کم کر دی اور ہٹلر کو پوری طرح مالی امداد فراہم کی تا کہ وہ شاندار طریقے سے الیکشن جیت سکے۔ جب بروننگ ان بینکاروں کے مطالبات پورے کرنے میں ناکام ہو گیا تو اسے ہٹا کر ہٹلر کو لایا گیا۔ فیڈرل ریزرو بورڈ نے جرمنی کو 30 ارب ڈالر دیے تاکہ وہ دوسری جنگ عظیم کے لیے تیاریاں کر سکے۔[4]
- Panic Is The Way Of Maintaining Power[1]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب Time, Money, and People Change. Liquidity Crises Don't.
- ↑ کرنسی کا قحط
- ↑ wall street turned out just as predicted
- ↑ "The History of the Money Changers"۔ 2013-05-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-05-02
- ↑ A فروری 2, 1910 editorial cartoon in Puck titled: "The Central Bank—Why should Uncle Sam establish one, when Uncle Pierpont is already on the job?"