جوزف اسٹگلیز
جوزف اسٹگلیز (Joseph Eugene Stiglitz) ایک یہودی امریکی ماہر معاشیات ہے۔ وہ کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہے۔ اسے 2001 میں معاشیاتی سائنس میں نوبل انعام مل چکا ہے۔ جوزف اسٹگلیز ورلڈ بینک میں چیف اکونومسٹ کے عہدے پر کام کر چکا ہے اور امریکی صدر کلنٹن کی کونسل آف اکونومک ایڈوائزر کا چیئرمین بھی رہ چکا ہے۔ وہ بہت ساری کتابوں کا مصنف ہے۔ 2009 ء میں اس نے بیان دیا تھا کہ امریکی وزیر خزانہ Geithner کا منصوبہ toxic asset plan دراصل امریکی عوام کی دولت پر ڈاکہ ہے۔ [24]
Joseph Stiglitz | |
---|---|
(انگریزی میں: Joseph Stiglitz) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (انگریزی میں: Joseph Eugene Stiglitz) |
پیدائش | 9 فروری 1943ء (81 سال)[1][2][3][4] گری |
رہائش | گری انڈیانا |
شہریت | ریاستہائے متحدہ امریکا [5][6][7] |
جماعت | ڈیموکریٹک پارٹی |
رکن | رائل سوسائٹی [8]، قومی اکادمی برائے سائنس [9]، برٹش اکیڈمی ، امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون [10]، سائنس کی روسی اکادمی ، امریکن فلوسوفیکل سوسائٹی [11] |
عملی زندگی | |
مادر علمی | فٹز ولیم ایمہرسٹ کالج (–1964) میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی (1966–1967) جامعہ شکاگو |
تخصص تعلیم | معاشیات |
تعلیمی اسناد | بی اے ،پی ایچ ڈی |
ڈاکٹری مشیر | رابرٹ سولو |
پیشہ | ماہر معاشیات ، استاد جامعہ ، سائنسی مصنف ، غیر فکشن مصنف ، پروفیسر [12][13][14]، نقاد ، مصنف [15][16][17] |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [18][19] |
شعبۂ عمل | معاشیات |
ملازمت | جامعہ اوکسفرڈ ، جامعہ پرنسٹن ، جامعہ مانچسٹر ، جامعہ سٹنفورڈ ، عالمی بنک ، ییل یونیورسٹی ، جامعہ کولمبیا |
مؤثر | جان مینارڈ کینز، رابرٹ سولو، جیمز مرلیس |
متاثر | پاول کرگمین، Jason Furman، Stephany Griffith-Jones، Huw Dixon |
اعزازات | |
سڈنی امن انعام (2018)[20] نوبل میموریل انعام برائے معاشیات (2001)[21] جان سائمن گوگین ہیم میموریل فاؤنڈیشن فیلوشپ (1969)[22] فل برائٹ اسکالرشپ (1967)[23] فیلو آف برٹش اکیڈمی |
|
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | http://www.josephstiglitz.com/ |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
جوزف اسٹگلیز | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(انگریزی میں: Joseph Stiglitz) | |||||||
World Bank Chief Economist | |||||||
مدت منصب 1997 – 2000 | |||||||
17th Chair of the Council of Economic Advisors | |||||||
مدت منصب 28 جون 1995 – 13 فروری 1997 | |||||||
صدر | بل کلنٹن | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائشی نام | (انگریزی میں: Joseph Eugene Stiglitz) | ||||||
پیدائش | 9 فروری 1943ء (81 سال)[1][2][3][4] گری |
||||||
رہائش | گری انڈیانا |
||||||
شہریت | ریاستہائے متحدہ امریکا [5][6][7] | ||||||
جماعت | ڈیموکریٹک پارٹی | ||||||
رکن | رائل سوسائٹی [8]، قومی اکادمی برائے سائنس [9]، برٹش اکیڈمی ، امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون [10]، سائنس کی روسی اکادمی ، امریکن فلوسوفیکل سوسائٹی [11] | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | فٹز ولیم ایمہرسٹ کالج (–1964) میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی (1966–1967) جامعہ شکاگو |
||||||
تخصص تعلیم | معاشیات | ||||||
تعلیمی اسناد | بی اے ،پی ایچ ڈی | ||||||
ڈاکٹری مشیر | رابرٹ سولو | ||||||
پیشہ | ماہر معاشیات ، استاد جامعہ ، سائنسی مصنف ، غیر فکشن مصنف ، پروفیسر [12][13][14]، نقاد ، مصنف [15][16][17] | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [18][19] | ||||||
شعبۂ عمل | معاشیات | ||||||
ملازمت | جامعہ اوکسفرڈ ، جامعہ پرنسٹن ، جامعہ مانچسٹر ، جامعہ سٹنفورڈ ، عالمی بنک ، ییل یونیورسٹی ، جامعہ کولمبیا | ||||||
مؤثر | پاؤل سیمیولسن ، رابرٹ سولو ، جان مینارڈ کینز | ||||||
اعزازات | |||||||
سڈنی امن انعام (2018)[20] نوبل میموریل انعام برائے معاشیات (2001)[21] جان سائمن گوگین ہیم میموریل فاؤنڈیشن فیلوشپ (1969)[22] فل برائٹ اسکالرشپ (1967)[23] فیلو آف برٹش اکیڈمی |
|||||||
ویب سائٹ | |||||||
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ، باضابطہ ویب سائٹ | ||||||
IMDB پر صفحات | |||||||
درستی - ترمیم |
ورلڈ بینک کے بارے میں وہ بتاتا ہے کہ مختلف ممالک کو بینکوں کا غلام بنانے کے لیے ورلڈ بینک کا چار مرحلوں پر مشتمل یہ منصوبہ ہوتا ہے۔
اس مرحلے میں اس ملک کے لیڈروں کو رشوت دے کر اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے اثاثے کئی ارب ڈالر کم قیمت پر ورلڈ بینک کے ہاتھوں بیچ دیں۔ اس کے لیے ان بددیانت لیڈروں کو دس فیصد کمیشن دیا جاتا ہے جو ان کے سوئیس بینک کے خفیہ اکاونٹ میں جمع ہو جاتا ہے۔[25]
دوسرا مرحلہ۔ سرمائے کی آزادانہ منتقلی
ترمیماس مرحلے میں وہ سارے قوانین منسوخ کرائے جاتے ہیں جو سرمایہ بیرون ملک بھیجنے میں آڑے آتے ہیں یا ان پر ٹیکس کا تقاضا کرتے ہیں۔ پھر باہر سے بڑی مقدار میں سرمایہ اس ملک میں داخل ہوتا ہے اور جائیدادوں کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس ملک کی کرنسی کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ ملک بہت تیزی سے ترقی کرنے والا ہے۔ عین اس موقع پر بیرونی سرمایہ اچانک ملک سے باہر چلا جاتا ہے اور معیشت بُری طرح بیٹھ جاتی ہے۔
اب اس ملک کو آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے اور آئی ایم ایف اس شرط پر مدد فراہم کرتا ہے کہ شرح سود میں 30 سے 80 فیصد تک اضافہ کیا جائے۔ یہ سب انڈونیشیا اور برازیل میں ہو چکا ہے اور اس کے علاوہ ایشیا اور جنوبی امریکا کے کئی ممالک میں بھی ہوا ہے۔ بلند شرح سود کی وجہ سے اس ملک پر غربت چھا جاتی ہے، جائیدادوں کی قیمتیں بہت زیادہ گر جاتی ہیں، صنعتی پیداوار صفر کی سطح پر آ جاتی ہے اور حکومتی ادارے مفلس ہو جاتے ہیں۔
تیسرا مرحلہ۔ مہنگائی اور بے امنی
ترمیمخراب معیشت اور کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت کی وجہ سے اس ملک میں مہنگائی بہت بڑھ جاتی ہے۔ جب غذائی اجناس، پانی اور گھریلو استعمال کی بجلی گیس کی قیمت بڑھتی ہے تو اس ملک میں عوامی بے چینی بڑھتی ہے اور پہلے سے لگائے ہوئے اندازے کے مطابق جرائم اور فسادات شروع ہو جاتے ہیں۔ امن و امان کی بگڑتی صورت حال دیکھ کر اس ملک کے سرمایہ دار اپنے پیسے دوسرے ممالک جنہیں وہ محفوظ تصور کرتے ہیں وہاں منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح حکومت کے بینک کنگال ہو جاتے ہیں۔
چوتھا مرحلہ۔ آزاد تجارت
ترمیماب وہ وقت ہوتا ہے جب بین الاقوامی کارپوریشنیں ان ممالک کا رخ کرتی ہیں اور مقامی صنعت کو کچل دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکا اور یورپ ان بیچارے ممالک کی زراعتی پیداوار کی اپنے ہاں درآمد پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ اب ان ممالک کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا جسے بیچ کر وہ کما سکیں۔ امیر ممالک اپنی دوائیں تک اتنی مہنگی کر دیتے ہیں کہ ان غریب ممالک میں بیماری اور موت کی شرح بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس میں کتنے ہی لوگوں کا نقصان کیوں نہ ہو، بینکار ہمیشہ نفع میں رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے قرضہ لینے والے ہر ترقی پزیر ملک پر قرضہ لینے کی شرط ہی یہ رکھی ہے کہ بجلی پانی ٹیلی فون اور گیس کے نظام پر آئی ایم ایف کا کنٹرول ہو گا۔ اندازہ ہے کہ عوام کی اس دولت کی مالیت 4000 ارب ڈالر ہے۔[26]
اقتباس
ترمیم- سمجھا جاتا ہے کہ جنگ معیشت کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ جنگ عظیم دوم نے دنیا کو کساد عظیم سے باہر نکالا اور اس طرح جنگ کی شہرت میں اضافہ ہوا کہ یہ معیشت کو بڑھاوا دیتی ہے۔ کچھ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ کیپیٹل ازم کے لیے جنگ ضروری ہے ورنہ کساد بازاری کا خطرہ رہتا ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ یہ سب بکواس ہے۔ 1990 کی دہائی میں ہونے والی معاشی ترقی نے ثابت کر دیا کہ معیشت کے لیے امن جنگ سے کہیں بہتر ہے۔ 1991ء کی گلف وار نے دکھا دیا کہ جنگ معیشت کے لیے بہت بُری ہوتی ہے۔[27]
- Stiglitz wrote in 2003:
- War is widely thought to be linked to economic good times. The second world war is often said to have brought the world out of depression, and war has since enhanced its reputation as a spur to economic growth. Some even suggest that capitalism needs wars, that without them, recession would always lurk on the horizon. Today, we know that this is nonsense. The 1990s boom showed that peace is economically far better than war. The Gulf war of 1991 demonstrated that wars can actually be bad for an economy.
- کینیڈا کے شہر کیوبک میں اکتوبر 2016 میں ہونے والی ایک کانفرنس میں جوزف اسٹگلیز نے بتایا کہ پچھلی تین یا چار دہائیوں سے دنیا کے امیر ترین ایک فیصد افرادکی آمدنی انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ 90 فیصد غریب افراد کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا۔ اعلیٰ ترین طبقہ کی دولت میں بہت اضافہ ہوا ہے،مڈل کلاس ختم کی جا رہی ہے اور غریبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
- “Incomes of the top 1% of the population have been growing exponentially for the past three or four decades, while those of the bottom 90% have stagnated. We have more money at the top, more people in poverty and the middle class is being eviscerated.” [28]
- جوزف اسٹگلیز نے بتایا کہ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ ریگولیٹڈ بینکنگ کی موجودگی میں غیر ریگولیٹڈ بینکنگ کو کام کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ چند مالدار یہی چاہتے ہیں۔ G7 ممالک کے بینک اگر ایسے آف شور بینکوں سے ڈیل کرنا بند کر دیں تو ایسے بینک خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ لیکن وہ اس لیے قائم ہیں کیونکہ معیاری بینک ان سے لین دین کرتے ہیں۔
You ask why, if there's an important role for a regulated banking system, do you allow a non-regulated banking system to continue? It's in the interest of some of the moneyed interests to allow this to occur. It's not an accident; it could have been shut down at any time. If you said the US, the UK, the major G7 banks will not deal with offshore bank centers that don't comply with G7 banks regulations, these banks could not exist. They only exist because they engage in transactions with standard banks.[29]
- "After decades of neoliberalism, we are at the mercy of a cluster of cartels who are lobbying politicians hard and using monopoly power to boost profits.”
Joseph Stiglitz, The Price of Inequality (2012)[30]
مزید دیکھیے
ترمیمانگریزی ویکی پیڈیا پر
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب ربط: https://d-nb.info/gnd/120068524 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ^ ا ب Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/stiglitz-joseph-e — بنام: Joseph E. Stiglitz — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000023918 — بنام: Joseph E. Stiglitz
- ^ ا ب object stated in reference as: 1943
- ^ ا ب اشاعت: نیو یارک ٹائمز — تاریخ اشاعت: 24 فروری 2004 — U.N. Study Finds Global Trade Benefits Are Uneven — اخذ شدہ بتاریخ: 15 مارچ 2021
- ^ ا ب اشاعت: نیو یارک ٹائمز — تاریخ اشاعت: 15 ستمبر 2009 — Two Ways to Find Mediocrity in Food — اخذ شدہ بتاریخ: 15 مارچ 2021
- ^ ا ب اشاعت: نیو یارک ٹائمز — تاریخ اشاعت: 9 ستمبر 2009 — At Long Last, Environmental Supplement to GDP Takes Shape — اخذ شدہ بتاریخ: 15 مارچ 2021
- ^ ا ب https://royalsociety.org/people/joseph-stiglitz-12354/ — اخذ شدہ بتاریخ: 26 ستمبر 2019
- ^ ا ب http://www.nasonline.org/member-directory/members/8900.html — اخذ شدہ بتاریخ: 26 ستمبر 2019
- ^ ا ب https://www.amacad.org/person/joseph-eugene-stiglitz — اخذ شدہ بتاریخ: 26 ستمبر 2019
- ^ ا ب ربط: این این ڈی بی شخصی آئی ڈی
- ^ ا ب اشاعت: ہف پوسٹ — تاریخ اشاعت: 11 مارچ 2014 — The Innovation Enigma
- ^ ا ب مصنف: جوزف اسٹگلیز — جلد: 21 — صفحہ: 329-339 — شمارہ: 2-3 — https://dx.doi.org/10.1080/08913810902934133 — The Anatomy of a Murder: Who Killed America's Economy?
- ^ ا ب تاریخ اشاعت: 20 دسمبر 2006 — India warning on globalisation
- ^ ا ب اشاعت: لنکڈ ان — http://www.linkedin.com/groups/Peoples-Economics-Alternative-Solutions-4878927
- ^ ا ب اشاعت: فوربس — تاریخ اشاعت: 29 جنوری 2009 — Where Do Bankers Smile? On The Davos Party Circuit
- ^ ا ب جلد: 44 — صفحہ: 585-594 — شمارہ: 3 — https://dx.doi.org/10.2307/2296910 — Risk Sharing, Sharecropping and Uncertain Labour Markets
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12278641d — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/8886115
- ^ ا ب https://sydneypeacefoundation.org.au/sydney-peace-prize/
- ^ ا ب ناشر: نوبل فاونڈیشن — The Sveriges Riksbank Prize in Economic Sciences in Memory of Alfred Nobel 2001 — اخذ شدہ بتاریخ: 29 جنوری 2021
- ^ ا ب Guggenheim fellows ID: https://www.gf.org/fellows/all-fellows/joseph-e-stiglitz/
- ^ ا ب https://us.fulbrightonline.org/about/history — اخذ شدہ بتاریخ: 26 ستمبر 2019
- ↑ "Elites Get the Stimulus … and the Little Guy Gets the Austerity"۔ 16 نومبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 نومبر 2015
- ↑ "Privatization – which Stiglitz said could more accurately be called, Briberization.'"۔ 11 اکتوبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2016
- ↑ "The History of the "Money Changers""۔ 11 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جون 2013
- ↑ Proof that War Is GOOD for the Economy </not>
- ↑ Sprott Money
- ↑ Komisar, Lucy (Spring 2003)۔ "Offshore banking, the secret threat to America"۔ Dissent Magazine۔ July 23, 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ Clubs, Cartels, And Bilderberg
پیش نظر صفحہ نوبل انعام یافتگان سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |