ملک مصطفیٰ جسرت کھوکھر

(جسرتھ کھوکھر سے رجوع مکرر)

جسرت کھوکھر 1420-1442 کے دوران شاہی کھوکھر خاندان کے سردار اور حکمران تھے. [4] وہ کھوکھر قبائلی سرداری حکومت کے چوتھے اور آخری حاکم ہونے کے لیے جانے جاتے ہیں جو پنجاب ، جموں کشمیر ، ہریانہ ، ہماچل پردیش اور خیبرپختونخوا پر پھیلی ہوئ تھی ۔ ان کی مہمات میں دہلی بھی شامل تھا مگر دہلی پر زیادہ عرصہ حکومت قائم نا رکھ سکے.

ملک مصطفیٰ جسرت کھوکھر
کھوکھر حاکم و سردار
c. 1420 – 1442 [1]
پیشروشیخا کھوکھر
مکمل نام
ملک مصطفی جسرت شیخا کھوکھر
خاندانکھوکھر
والدشیخا کھوکھر
پیدائشLate 14th century
سیالکوٹ, خطۂ پنجاب (موجودہ پنجاب، پاکستان)
وفاتc. 1442
مذہباسلام[2] [3]

ابتدائی اور ذاتی زندگی

ترمیم

مصطفی جسرت کھوکھر ایک شاہی مسلمان اور حاکم خاندان یعنی کھوکھر خاندان میں شیخا کھوکھر کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے والد کی ایک لڑائی میں ، ان کو تیموریوں نے پکڑ لیا اور پھر سمرقند میں قید کر لیا مگر اپنی قابلیت اور اعلی جنگی صلاحیتوں کے باعث جسرت کھوکھر کو تیموری فوج میں جرنیل مقرر کیا گیا اور بعد ازاں تیموری/ مغل برلاس خاندان کی ایک شہزادی, سعادت سلطان آغا جو شاہ رخ مرزا کی بیٹی اور شہنشاہ تیمور کی پوتی تھیں, ان سے جسرت کھوکھر کی شادی ہوئ. تیمور کی موت کے بعد ، وہ سمرقندچھوڑ کر پنجاب واپس چلے آے ۔ [5]

اقتدار میں

ترمیم

اپنے والد شیخا کھوکھر کی شہادت کے بعد ، جسرت کھوکھر کو کھوکھر نواب خاندان کا سربراہی تاج پہنایا گیا اور حاکم مقرر کیا گیا۔ اگلے سال ، زین العابدین اور علی شاہ کے مابین کشمیر میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ زین العابدین نے خود جسرت کھوکھر سے علی شاہ کے خلاف اتحاد کیا اور مدد مانگی۔ اس طرح صرف جسرت کھوکھر کی مدد سے علی شاہ کو شکست دی گئی اور زین العابدین نے کھوکھروں کی مدد سے اپنے علاقے میں شاہ میر خاندان کی حکمرانی برقرار رکھی۔ اس کے بعد جسرت کھوکھر نے جموں خطے پر بھی قبضہ کر لیا۔ [6] جموں خطے سے تعلق رکھنے والے راجپوت راجا رائے بھیم نامی ایک اور حکمران جو جسرت کھوکھر کے خسر بھی تھے, انھوں نے بھی کھوکھروں اور شاہ میر خاندان کی حکمرانی کے خلاف علی شاہ سے اتحاد کر لیا مگر سب اکٹھے ہو کر بھی جسرت کھوکھر کا مقابلہ نا کر سکے اور اس کے بعد رائے بھیم اور علی شاہ جسرت کے خلاف جنگ میں مارے گئے ۔ [7] کھوکھر خاندان کی ان قابل ذکر فتوحات کے بعد جسرت کھوکھر نے دہلی کے تخت پر نگاہ ڈالی۔ اس کے بعد انھوں نے اسی سال ، 1421 میں ، لاہور پر بھی قبضہ کر لیا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ 1431 میں ہی انھوں نے دہلی کی گدی پر بھی قبضہ کر لیا.

مہمات

ترمیم

شمالی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کو محفوظ بنانے کے بعد جسرت کھوکھر نے 1431 میں جنوبی پنجاب کی طرف پیش قدمی کی ۔ جنوبی پنجاب لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ پر قبضہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنی نگاہ دہلی سلطنت پر مرکوز کی اور پھر اسی سال انھوں نے دہلی سلطنت کے خلاف جنگ لڑی اور جالندھر ، گورداس پور ، لدھیانہ اور ہماچل پردیش کو فتح کیا۔ اس کے بعد بالآخر انھوں نے 1431 میں دہلی کا اقتدار سنبھال لیا۔ لیکن بعد میں 1432 ستمبر کو ، ان سے مبارک شاہ نے دہلی کی گدی چھین لی مگر پھر بھی جسرت کھوکھر کے ہاتھوں اپنے بہت سے علاقے کھو بیٹھا. جسرت کھوکھر نے بعد ازاں بھی مبارک شاہ کے خلاف لڑائیاں جاری رکھیں اور کامیاب بھی ہوئے. [8]

جسرت کھوکھر کو 1442 میں ان کی بیوی نے قتل کیا جو راجپوت راجا رائے بھیم کی بیٹی تھی. جسرت کو قتل کرنے کا مقصد صرف اپنے باپ کی موت کا بدلہ لینا تھا جو جسرت کے خلاف جنگ کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔  جسرت کھوکھر (مصطفے ملک) کی تدفین دریائے چناب کے کنارے ہیڈ مرالہ کے قریبی گاؤں کری شریف میں ایک ٹیلے پر کی گئی ،اس کے گرد و نواح بہت سے گاؤں ،جیسے کری شریف ،متیانوالہ،خلیلپور،ماڑی کھوکھراں،شامپور کھوکھراں،رندھیر کھوکھراں،وغیرہ آباد ہیں۔

جسرت کھوکھر کا سالانہ عرس ہر سال 25اگست کو کری شریف تھانہ ٹانڈہ ضلع گجرات میں بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے،

  1. Elliot & Dowson (1872), Chapter XXIX Tabakát-i Bábarí, of Shaikh Zain.
  2. Khan، M.A۔ "Islamic Jihad: A Legacy of Forced Conversion, Imperialism, and Slavery"۔ Google Books۔ iUniverse, Inc.۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-06-11
  3. Encyclopaedia of Ancient, Medieval and Modern, By Raj Kumar, Kalpaz Publ., Page 280
  4. Elliot & Dowson (1872).
  5. Lal (1995).
  6. Elliot & Dowson (1872), Chapter XXI Tárikh-i Mubárak Sháhí, of Yahyá bin Ahmad.
  7. Kumar (2008).
  8. Charak (1985).

حوالہ جات

ترمیم
  1. Charak، Sukh Dev Singh (1985)۔ A Short History of Jammu Raj: From Earliest Times to 1846 A.D.۔ Ajaya Prakashan {{حوالہ کتاب}}: الوسيط |ref=harv غير صالح (معاونت)
  2. Elliot، Henry Miers؛ Dowson، John (1872)۔ The History of India, as Told by Its Own Historians: The Muhammadan Period (pdf)۔ Trübner۔ ج 4 {{حوالہ کتاب}}: الوسيط |ref=harv غير صالح (معاونت)
  3. Gaṇeśadāsa، Baḍehra۔ Billawaria، Anita K (مدیر)۔ Rājdarshani: a Persian history of north-western India from earliest times to A.D. 1847۔ ترجمہ از Charak، Sukh Dev Singh۔ Jay Kay Book House {{حوالہ کتاب}}: الوسيط |ref=harv غير صالح (معاونت)
  4. Gazetteer of the Multan District۔ Punjab (India): Civil and Military Gazette Press۔ 1902 {{حوالہ کتاب}}: الوسيط |ref=harv غير صالح (معاونت)
  5. Kumar، R (2008)۔ Encyclopaedia of Ancient, Medieval and Modern۔ Kalpaz۔ ص 322۔ ISBN:978-8178356648۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-02-03 {{حوالہ کتاب}}: الوسيط |ref=harv غير صالح (معاونت)
  6. Lal، K S (1995)۔ Growth of tribes and castes in medieval India۔ Aditya Prakashan۔ ص 75۔ ISBN:978-8186471036۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-02-03 {{حوالہ کتاب}}: الوسيط |ref=harv غير صالح (معاونت)