مبارک شاہ (سید خاندان)
معز الدین ابوالفتح مبارک شاہ (وفات: 19 فروری 1434ء) سلطنت دہلی کے سید خاندان سے حکمران تھا۔ مبارک شاہ نے 1421ء سے 1434ء تک حکومت کی۔
مبارک شاہ (سید خاندان) | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
تاریخ پیدائش | 14ویں صدی | ||||||
وفات | 19 فروری 1434 دہلی |
||||||
مدفن | لودھی باغ ، نئی دہلی | ||||||
والد | خضر خان | ||||||
خاندان | سید خاندان | ||||||
مناصب | |||||||
سلطان | |||||||
برسر عہدہ 21 مئی 1421 – 19 فروری 1434 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | مقتدر اعلیٰ | ||||||
درستی - ترمیم |
تخت نشینی
ترمیمخضر خان کو اپنی علالت کے دوران یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اُس کا وقت آخر قریب ہے تو اُس نے اپنے بڑے بیٹے مبارک شاہ کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا۔ مبارک شاہ نے باپ خضر خان کے انتقال کے تیسرے دن 24 مئی 1421ء کو حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی اور اپنا لقب معز الدین ابو الفتح مبارک شاہ رکھا۔[1]
فتوحات
ترمیممبارک شاہ نے پرانے امرا اور مشائک کے عہدوں کو حسبِ سابق بحال رکھا اور اُن کی جاگیریں اور وظائف پرانی نوعیت پر بحال رکھے گئے۔ بعض لوگوں کو جو روزینہ ملتا تھا، اُس میں اضافہ کر دیا۔ مبارک شاہ نے اپنے بحتیجے ملک بدر کے عہدے کو بڑھا کر اُس کو فیروزآباد اور ہانسی کا صوبہ دار مقرر کر دیا۔ ملک رجب جو سدھونادری کا بیٹا تھا، کو ہانسی اور فیروزآباد کی صوبیداری سے معزول کرکے پنجاب اور دیپالپور کا صوبہ دار مقرر کر دیا۔ ماہِ جمادی الاول 823ھ میں کشمیر کے بادشاہ سلطان علی کو مسخر کر لیا۔
خضر خان کی زندگی میں ہی خطۂ پنجاب میں شورش شروع ہو گئی تھی۔ لیکن خضر خان کے انتقال کے بعد اِس شورش نے باقاعدہ بغاوت کی شکل اختیار کرلی۔ خطۂ پنجاب میں باغیوں کا سرغنہ شیخا کھوکھر کا بیٹا ملک مصطفیٰ جسرت کھوکھر تھا جو دہلی پر حکومت کے خواب سجائے بیٹھا تھا۔ چنانچہ ظفر علی خان کے مرتے ہی اُس نے خطۂ پنجاب میں اپنی قوت میں اضافہ کرنا شروع کر دیا اور اچھا خاصا ہنگامہ برپا کر دیا۔ شاہی کارروانوں کو لوٹنے لگا اور لاہور اور اِس کے مضافات کو تباہ و بردباد کر دیا کہ باشندے لاہور شہر کو چھوڑ کر دوسرے شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ مبارک شاہ کو جب اُس کی تباہ کاریوں کا علم ہوا تو اُس نے اِس کی سرکوبی کے لیے عسکری سرداروں کو روانہ کیا مگر جسرت کھوکھر اور کھوکھر خاندان کی اعلی جنگی صلاحیتوں کے باعث ناکامی کا سامنا کرنا پڑا. مبارک شاہ اُس کی سرکوبی کے واسطے خود لاہور آیا، لیکن لاہور ویران ہو چکا تھا۔ مبارک شاہ نے اِسے دوبارہ آباد کیا مگر جسرت کھوکھر کا فتنہ مبارک شاہ کی کوشش کے باوجود ختم نہ ہو سکا۔ جسرت کھوکھر کو جب موقع ملتا وہ لوٹ مار شروع کر دیا کرتا تھا۔ بالآخر 1431 میں جسرت کھوکھر نے مبارک شاہ کو جنگ میں شکست دے کر اس سے دہلی کی گدی چھین کر دہلی سلطنت پر قبضہ کر لیا مگر یہ قبضہ زیادہ دیر تک نا رہ سکا. ستمبر 1432 میں مبارک شاہ نے دوبارہ جنگ کی اور جسرت کھوکھر سے دہلی کی گدی واپس لے لی. مبارک شاہ 1421ء سے 1434ء تک برابر بغاوتیں فرو کرنے میں مصروف رہا۔ اِس مدت میں اٹاوہ اور کھیڑا کی مہمات میں حصہ لیا۔ گوالیار، میوات اور بیانہ کی جنگوں میں حصہ لیا۔ امیر شیخ عل؛ی حاکم کابل نے امیر تیمور کے طریق پر خطۂ پنجاب میں اور ملتان کے علاقوں کو لوٹ کر تباہ کر دیا تھا۔ لیکن عماد الملک نے ملتان کے علاقہ میں امیر شیخ علی کا اِس جرات سے مقابلہ کیا کہ اُسے تمام سامان چھوڑ کر کابل بھاگ جانا پڑا۔ لیکن جسرت کھوکھر کی تحریک پر امیر شیخ علی حاکم کابل نے دوبارہ ہندوستان پر لشکر کشی کردی۔ اول جسرت کھوکھر نے خطۂ پنجاب کو لوٹا اور پھر حاکم کابل امیر شیخ علی نے ملتان اور خطۂ پنجاب پر لشکر کشی کرکے اِسے غارت گری کا نشانہ بنایا۔ مبارک شاہ امیر شیخ علی کے مقابلے پر خود دہلی سے خطۂ پنجاب کو روانہ ہوا تو سلطانی لشکر نے حاکم کابل کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔[2]
آخری ایام
ترمیممبارک شاہ جب سے تخت نشیں ہوا تھا، برابر اُسے مختلف بغاوتوں، الجھنوں اور پریشانیوں نے اُلجھائے رکھا۔ اپنے باپ خضر خان کی طرح وہ بھی سلطنت کا لطف نہ اُٹھا سکا۔ اپنی حکومت کے اختتامی سال میں جب وہ مبارک آباد کی عمارتوں کو دیکھنے گیا، جو دریائے جمنا کے نزدیک بسایا گیا تھا۔ وہاں بروز جمعہ 9 رجب 837ھ/ 19 فروری 1434ء کو جمعہ کی نماز پڑھتے ہوئے ملک سرور الملک وزیر کے اشارے پر اُس پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، سب سے پہلے سدھ پال نامی ایک ہندو نے بادشاہ کی پیشانی پر تلوار کی ضرب لگائی جس کے بعد اُس کے تمام ساتھی بادشاہ پر حملہ آور ہو گئے اور مبارک شاہ کو قتل کر دیا گیا۔[3][4] مبارک شاہ نے بحیثیت سلطان سلطنت دہلی 12 سال 8 ماہ 29 دن (شمسی) تک حکومت کی۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیمماقبل | سلطان سلطنت دہلی 21 مئی 1421ء– 19 فروری 1434ء |
مابعد |