جلائری قبائل ایل خانیوں ہی کی ایک شاخ تھی اور یہ نسلاً منگول تھے۔ جب ایل خانی سلطان ابو سعید کا انتقال ہوا تو امرا مرکز میں صاحب اقتدار ہو گئے۔ وہ جس کو چاہتے تخت نشین کرتے اور جس کو چاہتے تخت سے اتار دیتے۔ ان میں جلائری سردارشیخ حسن بزرگ نے جب اقتدار حاصل کیا تو وہ ایل خانی حکمرانوں کوکٹھ پتلیوں کی طرح نچاتا تھا۔ جب آخری ایل خانی حکمران نوشیرواں مرگیا تو حسن بزرگ (1339ء تا 1356ء) عراق پر قابض ہو گیا اور بغداد کو دار الحکومت بناکر ایک مستقل حکومت قائم کرلی۔

جلائر سلطنت
Jalayirid Sultanate
1335–1432
ایل خانی علاقائی تقسیم
ایل خانی علاقائی تقسیم
دار الحکومتبغداد (حتی 1411), بصرہ (1411-1432)
عمومی زبانیںعربی، فارسی، منگولی
حکومتبادشاہت
تاریخ 
• 
1335
• 
1432
ماقبل
مابعد
ایل خانی
قرہ قویونلو
موجودہ حصہ ایران
 عراق

حسن بزرگ کے بعد اس کا لڑکا اویس خان (1356ء تا 1374ء) تخت نشین ہوا۔ اس نے ترکمانوں سے جوآذربائیجان اور مشرقی اناطولیہ پر قابض ہو گئے تھے تبریز اور آذربائیجان چھین لیا اور موصل اور دیار بکر پر بھی قبضہ کر لیا۔

اویس کے جانشین حسین (1374ء تا 1382ء) کی سیاہ میشی (قرہ قویونلو)(کالی بھیڑوالے) ترکمانوں اور آل مظفر سے لڑائیاں رہیں۔ ترکمانوں سے تو اس کی صلح ہو گئی لیکن آل مظفر کے حکمران شاہ شجاع نے اس کو آذربائیجان اور عراق کے بڑے حصے سے کچھ مدت کے لیے بے دخل کر دیا۔ حسین کے بعد اس کی حکومت دو بیٹوں میں اس طرح تقسیم ہوئی کہ عراق اور آذربائیجان سلطان احمد (1382ء تا 1410ء) کو اور کردستان بایزید کو ملا۔ سلطان احمد کو اطمینان سے حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ تیمور کی فتوحات کا سلسلہ آذربائیجان تک پہنچ چکا تھا اور اس نے 1393ء میں بغداد اور عراق پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلطان احمد بھاگ کر مصر چلا گیا۔ اس کے بعد یہ ہوتا تھا کہ جب تیمور بغداد سے چلا جاتا تھا تو سلطان احمد مصری حکومت کی مدد سے بغداد پر قابض ہوجاتا اور جب تیمور اس کی طرف رخ کرتا تو وہ پھر بھاگ جاتا تھا۔ آخر میں وہ بغداد پر قابض ہو گیا تھا لیکن آذربائیجان پر قبضہ کرنے کی کوشش میں قرہ قویونلو(کالی بھیڑوالے) حکمران قرہ یوسف خان(کالے یوسف خان) کے ہاتھوں شکست کھاکر مارا گیا۔ اس کے بعد اس کا بھتیجا شاہ ولد بغداد میں جانشیں ہوا لیکن اگلے سال ہی قرہ قویونلو(کالی بھیڑوالے) ترکمانوں نے بغداد پر قبضہ کرکے جلائری خاندان کا خاتمہ کر دیا۔ جلائر کی ایک شاخ اس کے بعد بھی 829ھ تک بصرہ، واسط اور شستر کے علاقے پر حکومت کرتی رہی لیکن وہ تیموری سلطنت کی باجگزار تھی بالآخر اس حکومت کو بھی قرہ قویونلو(کالی بھیڑوالے) نے ختم کر دیا۔

جلائریوں کا دور تعمیر و ترقی کے کاموں کے لحاظ سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ فارسی کے مشہور قصیدہ گو مسلمان ساوجی (متوفی 1378ء) اور عرب مورخ ابن عرب شاہ (1388ء تا 1450ء) کا جلائری دربار سے تعلق تھا۔ ابن عرب شاہ کی تاریخ عجائب المقدور اس دور کی تاریخ خصوصا امیر تیمور کے حالات کا بڑا قیمتی ماخذ ہے۔ یہ عربی میں ہے اور اس میں تیمور کی برائیاں کی گئی ہیں۔ امیر تیمور بغداد فتح کرنے کے بعد ابن عرب شاہ کو سمرقند لے گیا تھا۔ احمد جلائر نے فارسی کے شاعر حافظ شیرازی کی سرپرستی بھی کی تھی۔

جلائر سلطنت کے سلاطین

ترمیم
شاہی لقب[1] ذاتی نام دور حکومت
Taj-ud-Din
تاج الدین
حسن بزرگ 1336–1356
Mu'izz-ud-duniya wa al-Din
معزالدنیا والدین
Bahadur Khan
بهادرخان
شیخ اویس جلائر 1356–1374
Jalal-ud-Din
جلال الدین
شیخ حسن جلائر 1374
Ghiyas-ud-Din
غیاث الدین
شیخ حسین جلائر 1374–1382
شیخ بایزید جلائر
حکمران عراق عجم بمقام سلطانیہ اور تخت کا دعویدار
1382-1384
Sultan
سلطان
سلطان احمد جلائر
حکمران عراق عرب بمقام بغداد اور تخت کا دعویدار
1382–1410
شاه ولد جلائر
ولد شیخ علی جلائر
1410–1411
Sultan
سلطان
سلطان محمود جلائر
تاندو خاتون کے تحت
1411 (بار اول)
Sultan
سلطان
سلطان اویس جلائر 1411-1421
Sultan
سلطان
سلطان محمد جلائر 1421
Sultan
سلطان
سلطان محمود جلائر 1421-1425 (بار دوم)
حسین بن علاء الدولہ جلائر 1425-1432
قرہ قویونلو جنوبی عراق کی فتح

حوالہ جات

ترمیم
  1. The new Islamic dynasties: a chronological and genealogical manual New Edinburgh Islamic Surveys Series; Author:Clifford Edmund Bosworth ISBN 0-7486-2137-7, ISBN 978-0-7486-2137-8