حافظ شیرازی
حافظ محمد شیرازی (پیدائش: 1315ء— وفات: 1390ء) فارسی کے عظیم ترین شاعر ہیں۔
حافظ شیرازی | |
---|---|
(فارسی میں: خواجه شمسالدین محمد حافظ شیرازی) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1325ء [1][2][3] شیراز |
وفات | سنہ 1389ء (63–64 سال)[3][1][2] شیراز |
مدفن | مزار حافظ شیرازی |
شہریت | آل مظفر تیموری سلطنت |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، غنائی شاعر ، مصنف [4] |
مادری زبان | فارسی |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، تاجک زبان ، عربی |
کارہائے نمایاں | دیوان حافظ |
مؤثر | ابن عربی ، سنائی غزنوی ، انوری ، نظامی گنجوی ، افضل الدین خاقانی ، شیخ فرید الدین عطار ، حسین بن منصور حلاج |
تحریک | غنائی شاعری |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیمحافظ کا نام محمد ،لقب شمس الدین اور تخلص حافظ تھا۔ حافظ نے خود اپنا نام یوں تحریر کیا ہے : محمد بن المقلب بہ شمس الحافظ الشیرازی۔ حافظ کے سال ولادت کے بارے میں محققین کا نقطہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ انسائکلو پیڈیا آف اسلام میں تحریر ہے کہ حافظ آٹھویں صدی کے آغاز میں پیدا ہوئے۔ آقای نفیسی نے حافظ کا سال پپیدائش 726 ہجری سے 729 ہجری کے درمیان قرار دیا ہے۔ مختلف شہادتوں کی بنیاد پر حافظ کا سال ولادت 726 ہجری مانا جاتا ہے۔ حافظ شیرازی کا ایک بیٹا 764 ہجری میں فوت ہوا۔ اس وقت حافظ کی عمر 37 سال تھی۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حافظ کا سال ولادت 726 ہجری ہے۔ اس طرح حافظ کا سال وفات 792 ہجری تحریر کیا گیا ہے۔ اس طرح وفات کے وقت حافظ کی عمر 65 سال تھی۔ حافظ کے دادا کا لقب غیاث الدین اور باپ کا لقب بعض تذکرہ نگاروں نے بہاءلدین اور بعض نے کمال لدین تحریر کیا ہے۔
عبد النبی نے "" میخانہ عبد النبی "" میں لکھا ہے کہ حافظ کا والد اصفہان میں رہتا تھا۔ بعد میں اپنا وطن چھوڑ کر تجارت کی غرض سے اہل و عیال کے ساتھ شیراز آن بسا۔ حافظ کی والدہ کازرونی تھی اور شیراز میں دروازہ کازرون میں رہتی تھی۔ والد کی وفات پر خواجہ کی ماں اور دو بھائی باقی رہ گئے۔ بھائیوں میں حافظ سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے بڑے بھائی خواجہ خلیل عادل 775 ھجری میں وفات پا گئے جبکہ دوسرا بھائی ماں اور بھائی کو تنہا چھوڑ گیا۔ حافظ خمیر گیری کرکے روزی کماتا اور فرصت کے وقت قریبی مدرسے میں تعلیم حاصل کرتا۔ انھوں نے بعد میں شیراز کے نامور اساتذہ سے متداولہ علوم حاصل کیے اور قرآن مجید حفظ کیا اور اسی نسبت سے حافظ تخلص اپنایا۔ آپ نے الہیات، تفسیر ،فقہ اور حکمت کا مطالعہ کیا۔ علم ہندسہ اور موسیقی سے بھی آپ کو بہت لگاؤ تھا۔ آپ کے معاصر اور ہم درس نے آپ کو مولانا الاعظم، استاد تحاریرالادباء اور فخرالعلماء کے ناموں سے یاد کیا ہے۔
دورِ حافظ
ترمیمحافظ شیرازی کی زندگی کا زمانہ 726 سے 792 ہجری شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ایران میں جنگ و جدال اور ناآرامی کا زمانہ تھا۔ تیموری حملوں کے نتیجے میں ایران کی بستیاں تباہ و برباد ہو گئیں۔ اس کے باوجود علما اور شعرا علمی اور عرفانی محفلیں برقرار رکھتے تھے۔ حافظ نے شیخ مجدالدین، شیخ بہاؤ الدین، سید شریف جرجانی اور شمس الدین عبد اللہ شیرازی سے استفادہ کیا۔ انھیں شیراز سے بے حد محبت تھی اسی لیے انھوں نے مصلی اور رکن آباد سے دوری اختیار نہ کی۔ اپنی پوری زندگی میں یزد اور ہرمز کی جانب دو مختصر سفر کیے جو ان کے لیے خوشگوار نہ تھے۔ دیوان حافظ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کے اہل و عیال بھی تھے جن کی رفاقت میں وہ اپنے دکھ بھول جایا کرتے تھے۔ ان کا ایک بیٹا ان کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا مگر اس کے باوجود ان کے دل سے اپنے گھر اور اہل خانہ کی محبت کم نہ ہوئی۔
برصغیر
ترمیمحافظ دربار سے بھی وابستہ رہے۔ ابو اسحاق نے 743 ھجری میں شیراز پر حکومت قائم کر لی۔ وہ حافظ سے ہمیشہ مربیانہ سلوک کرتا تھا اور بہت مہربانی سے پیش آتا تھا۔ ایران کے بادشاہوں کے علاوہ برصغیر کے سلاطین بھی حافظ کے کلام کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ محمود شاہ دکنی نے حافظ شیرازی کو اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی حتی محمود شاہ نے اس کے لیے زاد راہ بھی ارسال کیا مگر شیراز کی محبت آڑے آئی اور سفر کی صعوبتوں سے فرار کے لیے حافظ نے وہاں حانے کا ارادہ ترک کر دیا اور محمود شاہ کی خدمت میں ایک غزل لکھ کر ارسال کر دی۔
انتقال
ترمیمحافظ نے 791 ہجری میں شیراز کے مقام پر وفات پائی اور مصلی کے مقام پر دفن ہوئے۔ ان کا مزار ہر خاص و عام کی زیارت گاہ ہے ۔
نمونہ کلام
ترمیماَلآ یَا اَیُّهَا السَّاقِیْ اَدِرْ کَأْسًا وَّ نَاوِلْهَا
که عشق آسان نمود اول ولی افتاد مشکلها
به بوی نافهای کاخر صبا زان طره بگشاید
ز تاب جعد مشکینش چه خون افتاد در دلها
مرا در منزل جانان چه امن عیش چون هر دم
جرس فریاد میدارد که بربندید محملها
به می سجاده رنگین کن گرت پیر مغان گوید
که سالک بیخبر نبود ز راه و رسم منزلها
شب تاریک و بیم موج و گردابی چنین هایل
کجا دانند حال ما سبکباران ساحلها
همه کارم ز خود کامی به بدنامی کشید آخر
نهان کی ماند آن رازی کز او سازند محفلها
حضوری گر همیخواهی از او غایب مشو "حافظ"
مَتيٰ مَا تَلْق مَنْ تَهْویٰ دَعِ الدُّنْیَا وَ اَهْمِلْهَا۔ [5]
تصانیف
ترمیمحافظ کی زندہ جاوید تصنیف اس کا دیوان ہے جو غزلیات، قصائد ،قطعات اور رباعیوں پر مشتمل ہے۔ یہ دیوان انھوں نے خود مرتب نہیں کیا بلکہ ان کے معاصر محمد گل اندام نے ترتیب دیا۔ قدوة المحققین حضرت عبد الرحمان جامی رحمة الله علیه لکھتے ہیں کہ صوفی اگر مرد ہے تو پھر دیوانِ حافظ اس کے لیے بہترین مَنفع ہے۔ اس کے علاوہ حافظ نے تفسیر قرآن بھی تحریر کی تھی۔ محمد گل اندام کے بقول حافظ شیرازی نے کشاف اور مصباح کے حواشی بھی تحریر کیے۔ اللہ پاک نیک کاموں کا اجر عطا فرمائیں
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب عنوان : Encyclopédie Larousse en ligne — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://www.larousse.fr/encyclopedie/ — اخذ شدہ بتاریخ: 24 مئی 2018
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — ربط: بی این ایف - آئی ڈی — اخذ شدہ بتاریخ: 24 مئی 2018 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب خالق: گیٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ — ربط: یو ایل اے این - آئی ڈی — اخذ شدہ بتاریخ: 24 مئی 2018
- ↑ عنوان : Library of the World's Best Literature — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
- ↑ دیوان حافظ کا سب سے پہلا شعر
ویکی ذخائر پر حافظ شیرازی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |