جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام

جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام (انبالہ)[1]

ترمیم

1921ء میں ہندو مہا سبھا قائم ہوئی اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے سنگٹھن کی تحریک شروع کی گئی۔ڈاکٹر مونجے کا کہنا تھا کہ 70 ملین مسلمان جن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے 220 ملین ہندوؤں کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ شہروں اور دیہاتوں میں سنگٹھن تنظیم کے مراکز بنائے گئے جہاں انتہا پسند ہندو نوجوانوں کو مسلمانوں کے خلاف منظم کرنے کے لیے ورزشوں، لاٹھی، خنجر، تلوار اور بندوق استعمال کرنے کی تربیت دی جانے لگی، سنگٹھن تحریک کا بانی انتہا پسند پنڈت موہن مالویہ تھا جس کا مقصد ہندوستان کو مکمل طور پر ہندوبنانے اور مسلمانوں کویہاں سے نکالنے کے لیے سنگٹھن جیسی پر تشدد تحریک کا آغازکیا۔ جس کا مقصد پہلے مسلمانوں کو ہندو (شدھی) بنانا اگر وہ نہ مانیں توا نہیں قتل کرنا تھا۔

اس طرح کے حلالات کو نظر میں رکھتے ہؤے جناب سید غلام بھیک نیرنگ نے یکم جولائی 1923 کو جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام[2] (انبالہ) کی بنیاد رکھی جس کے سر پرست حاجی مولوی سر رحیم بخش[3] تھے،

جمعیت تبلیغ الاسلام صوبجات متحدہ (آگرہ)

ترمیم

اگرہ سے جب مسلسل مسلمانوں کو شدھی کرنے کی خبر آئی تو موقع پر مولانا عبد الماجد بدایونی، کنور عبد الوہاب خاں (وفات 1937) اور سید محمد عبدالحی کوڑوی (ولادت 1895-وفات 1970) نے مل کر ہندوستان کی تمام تنظیموں کو آگرہ میں جمع ہونے کی دعوت دی اس جلسہ میں 94 انجمنوں کے نمائندہ شریک ہوئے اس مجلس نے شدھی کے مقابلہ کے لیے مجلس نمائند گان تبلیغ کی بنیاد ڈالی جو 25 ستمبر 1923 میں "جمعیت تبلیغ الاسلام صوبجات متحدہ (اگرہ)" کے نام سے موسوم ہوئ اور اس کا الحاق انبالہ کی "جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام (انبالہ)" پنجاب سے ملحق کر دی گئی، جو یکم جولائ 1923 کو وجود میں آ چکی تھی، اس انجمن کے ناظم کلیات کنور عبد الوہاب خاں رئس مڈراک، علی گڑھ اور ناظم مولانا سید محمد عبدالحی منتخب ہوئے اور فتنئہ ارتداد کے انسداد و استیصال کا کام متحدہ و متفقہ طور پر با ضابطہ شروع ہو گیا.

ممبر و عہدے دارن جمعیۃ تبلیغ السلام صوبجات متحدہ آگرہ 1930ء میں

ترمیم

چند نام درج ذیل ہیں-

کانپور منتقلی

ترمیم

مولانا سید محمد عبدالحی صاحب کی وقتاً فوقتاً بیماریوں کی وجہ سے اور ان کی جگہ پر کوئی مناسب شخص نہ ملنے کی وجہ سے "جمعیت تبلیغ الاسلام صوبجات متحدہ (اگرہ)" کو 1938 میں کانپور منتقل کر دیا گیا، 1947 کے فسادات میں انبالہ کا ہیڈ آفس شر پسندوں نے جلا ڈالا اور وہاں کا سارا رکارڈ بھی ضائع ہو گیا، چونکہ غلام بھیک نیرنگ پنجاب ہی میں تھے اس لیے وہ پاکستان منتقل ہو گئے اور مولانا سید محمد عبدالحی نے کئی سفر غلام بھیک نیرنگ صاحب سے ملاقات کے لیے کیے اور یہ طے ہوا کہ جمعیت کی پاکستان میں ضرورت نہیں ہے ہندوستان میں اس کے لیے کام کرنے کا بڑا وسیع میدان ہے اور چونکہ انبالہ کا آفس جل چکا ہے اس لیے اسے کانپور منتقل کر دیا جائے اور اس طرح "جمعیت تبلیغ الاسلام صوبجات متحدہ(اگرہ)" و "جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام(انبالہ)" میں ضم ہو گیا، مولانا سید محمد عبدالحی صاحب اس کے معتمد عمومی (جنرل سیکریٹری) متعین ہوئے اور ہندوستانی حکومت کی طرف سے ان پر جلسہ کرنے اور تقریر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی، اس میں سب سے بڑا دخل اس کا بات کا بھی رہا ہو گا کہ جمعیت کے کارکن حکیم سمیع اللہ میکش انصاری صاحب نے 19 مئ 1936 کو گانھی جی کے صاحب زادہ ہیرا لال گاندھی کو مسلمان کر لیا تھا۔

جمعیت کے اکثر معاونین پاکستانی حصّے میں تھے اور اور جو ہندوستان میں تھے وہ پاکستان منتقل ہو گئے اس طرح مالی اعتبار سے جمعیت کی کمر ٹوٹ گئی اس وقت سے اب تک جمعیت سنبھل نہ سکی۔ بعض مخیر حضرات کی امداد سے لٹریچر شائع کر کے مفت تقسیم کرتی ہے اور کچھ غریب طلبہ کو وضائف بھی تقسیم کرتی رہتی ہے

ممبر و عہدے دارن جمعیۃ تبلیغ السلام صوبۂ متحدہ کانپور 1941 میں

ترمیم

چند نام درج ذیل ہیں-

  • صدر- مولانا قطب الدین عبد الولی فرنگی محل لکھنؤ
  • نائب صدر- مولانا قاری محمد طیب قاسمی مہتمم دار العلوم دیوبند
  • نائب صدر- مولانا فضل الحسن حسرت موہانی کانپور
  • نائب صدر- قاری حافظ سلطان حسن آگرہ
  • نائب صدر- مولوی عبد الماجد بدایونی عثمانی بدایوں
  • نائب صدر- نواب محمد اسماعیل خاں میرٹھ
  • ناظم کلیات- حاجی محمد فضل حسین کانپور
  • ناظم تبلیغ- سید محمد عبدالحی کوڑہ جہان آباد، ضلع فتحپور
  • ناظم مال- سید ساجد رضا صاحب رضوی آگرہ
  • ناظم تعلیم- سید حسن احمد شاہ کانپور
  • ممبر- سید حسین احمد مدنی دار العلوم دیوبند، سید شاہ عبد الہادی نقشبندی، وغیرہ

مقاصد

ترمیم

جس کا سب سے اہم مقصد سنگٹھن تحریک و شدھی تحریک سے مقابلہ کرنا اور اچھوتوں میں تبلیغ کرنا تھا، اسکول اور مدارس کھولنا، غریبوں اور نو مسلموں کی امداد کرنا، اردو اور ہندی میں لٹریچر تیار کرنا اور ان کو تقسیم کرنا

جمعیت کے لیے علما اور مفتیان کرام کی تائید

ترمیم

تقیسیم ہند و پاک سے پہلے کی بات ہے جب بٹ کے رہے گا ہندوستان بن کے رہے گا پاکستان کا بخار مسلمانوں پر سوار تھا حضرات علما کو سب و شتم کا نشانہ بنایا جاتا تھا عوام جمعیت کے لوگوں پر کفر کے فتوے لگاتے تھے ہندوؤں کا درخرید کہتے تھے ان پر قاتلانا حملے کرتے تھے ایسی حالات میں مولانا سید محمد عبدالحی صاحب نے متعدد علما اور مفتیان گرامی کو استفتاء لکھا کہ ان حالات میں تبلیغ اشاعت اسلام کیا ترک کر دینا چاہیے، 3 مفتیان و علما کے جواب درج ذیل ہیں

اس وقت کے مشہور مفتی اعظم کفایت اللہ دہلوی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ(دہلی) نے اس کام کو وقت کی اہم ضرورت بتایا اور فرمایا اس کام میں مدد کرنے والے مجاہد اسلام ہیں

تبلیغ احکام اسلام فرض کفایہ ہے اس کے منکر فرض کفایہ کے منکر اور گنہگار ہیں اور امداد کرنے والے فرض کفایہ کے ثواب کے مستحق ہیں

اشاعت اسلام واجب اور ضروری ہے اس کا مخالف گنہگار ہے اور معاون ماجور و مثاب ہے

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Haryana:A HISTORICAL PERSPECTIVE by S.C. Mittal"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جون 2018 
  2. https://books.google.com/books/about/Freedom_Movement_in_Punjab_1905_29.html?id=ZSwKAQAAIAAJ
  3. گذشتہ صدی کی بات ہے کہ ایک راجپوت ریاست بہاولپور کا بے تاج بادشاہ تھا سر رحیم بخش ٹھسکہ میرانجی ضلع کرنال کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ اپنی خداداد صلاحیت...

حوالہ کے لیے دیکھیے کتاب '"جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام[1]" تحریر: مولانا مولانا سید محمد عبدالسمیع ندوی

  1. About central Jamiat tablig ul islam جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام تعارف و خدمات : Free Download, Borrow, and Streaming : Internet Archive