محمد طیب قاسمی

ہندوستانی عالمِ دین، دار العلوم دیوبند کے نصف صدی تک رہنے والے مہتمم

حضرت مولانا قاری قاری محمد طیب قاسمی دیوبندی مکتب فکر کے جید عالم گذرے ہیں۔ بانئ دار العلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی آپ کے دادا ہیں۔ آپ نصف صدی تک دار العلوم دیوبند کے مہتمم رہے۔ آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بانی و پہلے صدر ہیں، آپ جمعیۃ تبلیغ السلام صوبۂ متحدہ کانپور کے 1941 میں نائب صدر بھی رہے[1]

محمد طیب قاسمی
معلومات شخصیت
پیدائش اپریل1897ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیوبند،  سہارنپور،  اتر پردیش  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 17 جولا‎ئی 1983ء (85–86 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیوبند  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد محمد اسلم قاسمی،  محمد سالم قاسمی  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد محمد احمد نانوتوی  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ محمد رسول خان ہزاروی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص مولانا محمد شریف جالندھری،  نصیر احمد خان بلند شہری  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف،  دانشور  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت ترمیم

آپ امام محمد قاسم نانوتوی کے پوتے ہیں اور مولانا محمد احمد نانوتوی کے فرزندِ ارجمند۔ آپ کی پیدائش 1315ھ مطابق 1898ء میں ہوئی۔ آپ کا تاریخی نام مظفرالدین ہے۔[2]

تعلیم ترمیم

7 سال کی عمر میں دار العلوم میں داخل کیا گیا۔ ممتاز بزرگوں کے عظیم الشان اجتماع میں مکتب نشینی کی تقریب عمل میں آئی۔ دوسال کی قلیل ترین مدت میں قرآن مجید قرأت وتجوید کے ساتھ حفظ کیا، پانچ سال فارسی اور ریاضی کے درجات میں تعلیم حاصل کرکے عربی کا نصاب شروع کیا، جس سے 1337ھ مطابق 1918ء میں فراغت اور سند فضیلت حاصل کی۔ دوران میں تعلیم میں امام المحدثین علامہ انور شاہ کشمیر اور پھر الامام المجدد حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے اعلیٰ پیمانے اور مخصوص طریق پرآپ کی تعلیم و تربیت کی، حدیث کی خصوصی سند آپ کو وقت کے مشاہیر علما و اساتذہ سے حاصل ہوئی، علامۃ العصر مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ علم حدیث میں آپ کے خاص استاذ ہیں۔ 1350ھ مطابق 1931ء میں الامام المجدد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے خلافت حاصل ہوئی۔[2]

مشہور اساتذہ ترمیم

آپ کے اساتذہ میں علامہ مشہور علمائے دین علامہ علامہ سید انور شاہ کشمیری، مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی، مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا اصغر حسین جیسے جید علما شامل ہیں۔

تدریس ترمیم

فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند ہی میں مدرس مقرر ہوئے۔ علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، ذاتی علم و فضل، ذہانت و ذکاوت اور آبائی نسبت و وجاہت کے باعث بہت جلد طلبہ کے حلقے میں آپ کے ساتھ گرویدگی پیدا ہو گئی،اوائل 1341ھ مطابق 1924ء میں نائب مہتمم کے منصب پر آپ کا تقرر کیا گیا، جس پر اوائل 1348ھ مطابق 1928ء تک آپ اپنے والد ماجد مولانا محمد احمد صاحبؒ اور حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحبؒ کی زیر نگرانی ادارۂ اہتمام کے انتظامی معاملات میں حصہ لیتے رہے، وسط 1348ھ مطابق 1929ء میں مولانا حبیب الرحمٰن صاحب کے انتقال کے بعد آپ کو مہتمم بنایا گیا۔ سابقہ تجربۂ اہلیت کار اور آبائی نسبت کے پیش نظر یہ ثابت ہو چکا تھا کہ آپ کی ذات میں اہتمام دار العلوم کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ چنانچہ مہتمم ہونے کے بعد آپ کو اپنے علم و فضل اور خاندانی وجاہت و اثر کی بنا پر ملک میں بہت جلد مقبولیت اور عظمت حاصل ہو گئی، جس سے دار العلوم کی عظمت و شہرت کو کافی فوائد حاصل ہوئے۔[2]

مناصب ترمیم

1341ھ بمطابق 1923ء میں آپ کو دار العلوم کا نائب مہتمم بنادیا گیا، پھر 1348ھ بمطابق 1930ء میں باقاعدہ طور پر دار العلوم کا مہتمم مقرر کیا گیا۔ آپ حدیث کی اونچی اونچی کتابیں پڑھاتے تھے۔

بیعت و اجازت ترمیم

1339ھ میں آپ محمود الحسن سے بیعت ہوئے۔ ان کے وصال کے بعد 1350ھ میں مشہور عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی نے آپ کو خلافت سے نوازا۔

تصانیف ترمیم

خطابت و تقریرکی طرح تحریر و تصنیف پر بھی قدرت حاصل ہے، آپ کی تصانیف کی تعداد کافی ہے۔ چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:

  1. التشبہ فی الاسلام،
  2. مشاہیر امت،
  3. کلمات طیبات،
  4. اطیب الثمرفی مسئلۃ القضاء والقدر،
  5. سائنس اور اسلام،
  6. تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام،
  7. مسئلۂ زبان اردو ہندوستان میں،
  8. دین و سیاست،
  9. اسباب عروج و زوال ِ
  10. اقوام،
  11. اسلامی آزادی کا مکمل پروگرام،
  12. الاجتہاد والتقلید،
  13. اصول دعوتِ اسلام،
  14. اسلامی مساوات،
  15. تفسیر سورۂ فیل،
  16. فطری حکومت
  17. شہید کربلا اور یزید
  18. انسانیت کا امتیاز وغیرہ۔[2]

آخری ایام اور وفات ترمیم

آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک ملت اسلامیہ کے لیے خدمات انجام دیں۔ 1980ء میں جشن آغاز دار العلوم دیوبند کے بعد حکیم الاسلام قاری محمد طیب ؒکی صحت بہت تیزی سے بدلنے لگی۔ پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود آپ اپنی قیام گاہ پر لوگوں سے ملاقات فرماتے تھے۔ بالآخر یوم اجل آ گیا اور آپ نے 17جولائی 1983 مطابق 6شوال 1403ھ بروز اتوار وفات پائی، اس وقت آپ کے گرد بہت سے جانثار و محبین موجود تھے جو اللہ کے نام کی تلقین کر رہے تھے۔ آپ کی نماز جنازہ دار العلوم دیوبند کے احاطہ میں آپ کے بیٹے مولانا محمد سالم قاسمی نے پڑھائی۔ ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی۔ آپ کے جسد خاکی کو آپ کے جد امجد اور بانئ دارالعلوم دیوبند محمد قاسم النانوتوی کی قبر کے بالکل قریب دفن کیا گیا ہے۔

حوالہ جات ترمیم