جنوب مشرقی ایشیا کی تاریخ

جنوب مشرقی ایشیا کو دو حصوں میں بانٹا گیا ہے: ہند چین جس میں موجودہ دور کے ویت نام، لاؤس، کمبوڈیا، تھائی لینڈ، میانمار (میانمار) جزیرہ نما ملائیشیا ممالک شامل ہیں اور سمندری جنوب مشرقی ایشیا جس میں موجودہ دور کے انڈونیشیا، مشرقی ملائیشیا، سنگاپور، فلپائن، مشرقی تیمور، برونائی، جزائر کوکوس، جزیرہ کرسمس جیسے ممالک شامل ہیں۔[1][2]

جنوب مشرقی ایشیا

ہند چین کے علاقہ میں پہلی آبادی تقریباً 50 ہزار سال قبل اور سمندری جنوب مشرقی ایشیا میں تقریباً 40 ہزار سال قبل شروع ہوئی۔ 10 ہزار سال قبل ہون بیہیان لوگوں نے اوزار سازی اور فنون کو شروع کیا اور اس طرح خطہ میں تہذیب کی ابتدا ہوئی۔ نئے سنگی دور میں جنوبی ایشیائی زبانوں کے بولنے والے لوگوں نے ہند چین میں زمینی راستہ سے آکر اپنی آبادی بائی اورآسٹرونیشیائی زبانوںکے بولنے والے لوگوں نے جنوبی ایشیا میں اپنے گھر بسائے۔ یہ لوگ مہاجرین تھے۔ ہند چین کے نچلے اور سمندر کے نزدیکی علاقوں میں تقریباً 1700 ق م میں کھیتی باڑی کرنے والی قوم نے باجرہ اور دھان کی کھیتی شروع کی۔[3] موجودہ شمالی ویتنام اور تھائی لینڈ میں 2000 ق م میں تانبہ کا استعمال شروع ہوا۔ ان کے بعد ڈونگ سون ثقافت کا 500 ق م میں ظہور ہوا جنھوں نے کانسی کی صنعت ایجاد کی اور اس کی کئی مصنوعات تیار کیں جو بہت عمدہ اور نفیس تھیں۔ تقریباً اسی زمانہ میں پہلی حد بندی والی حکومت کا آغاز ہوا جہاں سرحدیں بنائی گئیں جیسے فوان، دریائے میکانگ اور پپدریائے سرخ دہانہ (ویتنام) میں وانگ لانگ وغیرہ۔[4] یہاں سے سمندری تجارت کو بہت فروغ ملا اور بہت جلد اس کی وسعت میں اضافہ ہوا۔

جنوب مشرقی ایشیا کی تاریخ یہاں کی متنوع جغرافیائی خصوصیات کی وجہ بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ سمندری جنوب مشرقی ایشیا میں بورینو اور سماٹرا کو چھوڑ کر دیگر علاقوں میں سمندی-خشکی لین دین چلتا رہا ہے۔ خطہ میں ایک طرح غیر تسلسل [5]سا رہا ہے مگر سمندر کے راستے سے تجارت ہوتی رہی ہے۔ ہند چین کا خطہ اس سلسلہ میں قدرے مختلف تھا۔ یہاں کی زمین اور جغرافیہ تھوڑا مشکل مگر یہاں تسلسل پایا جاتا ہے۔ یہاں خمیر قوم اور مون قوم کو ابھرنے کا موقع ملا۔ ساحلی علاقوں اور جنوب اور جنوب مشرقی علاقوں میں ندیوں جیسے ایراوادی، سوالین، چاو پھرایا، میکونگ اور سرخ ندی کی وجہ علاقائی تجارت، سماجی ثقافتی اور معاشی سرگرمیوں کو بڑھنے کا موقع ملا ہے اور بحر ہند اور بحیرہ جنوبی چین کی طرف سے ان تمام چیزوں کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔[6][7]

بوروبدور مندر in جاوا

حوالہ جات ترمیم

  1. Daigorō Chihara (1996)۔ Hindu-Buddhist Architecture in Southeast Asia۔ BRILL۔ ISBN 978-90-04-10512-6 
  2. Victor T. King (2008)۔ The Sociology of Southeast Asia: Transformations in a Developing Region۔ NIAS Press۔ ISBN 978-87-91114-60-1 
  3. Kenneth R. Hall۔ A History of Early Southeast Asia: Maritime Trade and Societal Development, 100-1500 
  4. Alison Kyra Carter (2010)۔ "Trade and Exchange Networks in Iron Age Cambodia: Preliminary Results from a Compositional Analysis of Glass Beads"۔ Bulletin of the Indo-Pacific Prehistory Association۔ 30۔ doi:10.7152/bippa.v30i0.9966۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2017 
  5. Willem van Schendel۔ "Geographies of knowing, geographies of ignorance: jumping scale in Southeast Asia 2002 – Willem van Schendel Asia Studies in Amsterdam" (PDF)۔ University of Amsterdam۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 فروری 2017 
  6. "Chinese trade" (PDF)۔ Britishmuseum.org۔ 05 جولا‎ئی 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2017 
  7. "Culture, Regionalism and Southeast Asian Identity" (PDF)۔ Amitavacharya.com۔ 17 مئی 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جنوری 2017