جنوبی امریکا میں واقع دنیا کی سب سے بلند جھیل جو جہاز رانی کے قابل ہے۔ یہ جھیل کوہ انڈیز کے سلسلے کے ساتھ بولیویا اور پیرو کے درمیان سرحد پر واقع ہے۔ یہ جھیل سطح سمندر سے 12،507 فٹ بلند ہے۔ جھیل کا کل سطحی رقبہ 8,372 مربع کلومیٹر ہے۔ جھیل 190 کلو میٹر طویل اور 80 کلومیٹر عریض ہے۔ اس کی اوسط گہرائی 107 اور زیادہ سے زیادہ گہرائی 281 میٹر ہے۔

جھیل ٹیٹیکاکا کا نقشہ

25 سے زائد چھوٹے بڑے دریا اس جھیل میں گرتے ہیں جبکہ جھیل میں کل 41 جزائر ہیں جن میں سے چند انتہائی گنجان آباد ہیں۔

جھیل ٹیٹیکاکا کوہ اینڈیز میں بولیویا اور پیرو کی سرحد پر واقع میٹھے پانی کی ایک بڑی جھیل ہے۔ اسے جہاز رانی کے قابل دنیا کی بلند ترین جھیل کہا جاتا ہے۔ رقبے اور مقدار کے حوالے سے یہ جھیل براعظم جنوبی امریکہ کی سب سے بڑی جھیل ہے۔

جھیل ٹیٹیکاکا سطح سمندر سے ۳،۸۱۲ میٹر بلند ہے۔ تجارتی جہاز رانی کے اعتبار سے اسے دنیا کی بلند ترین جھیل مانا جاتا ہے۔ اس سے چھوٹی کئی جھیلیں اس سے زیادہ بلندی پر پائی جاتی ہیں مگر وہاں جہاز رانی ممکن نہیں۔ بہت برس تک اس جھیل میں سب سے بڑا بحری جہاز ۲،۲۰۰ ٹن وزنی اور ۷۹ میٹر طویل ایس ایس اولانتا تھا۔ آج اسی وزن کے برابر دیگر بارج مانکو کاپاک چلتا ہے جو پیرو ریل کمپنی چلاتی ہے۔

جائزہ ترمیم

پیرو اور بولیویا کی سرحد پر واقع کوہ اینڈیز میں آلٹی پلانو کی سطح مرتفع پر واقع یہ جھیل ایسے مقام پر ہے جہاں اس میں مختلف دریا تو گرتے ہیں مگر اس سے کوئی دریا نہیں نکلتا۔

جھیل کے دو الگ تھلگ حصے ہیں۔ دونوں حصوں کو خلیج ٹیکینا ملاتی ہے جو کم از کم ۸۰۰ میٹر چوڑی ہے۔ بڑا حصہ لاگو گرانڈے کہلاتا ہے جس کی اوسط گہرائی ۱۳۵ میٹر جبکہ گہرا ترین مقام ۲۸۴ میٹر ہے۔ چھوٹا حصہ لاگو پیکوئنو کہلاتا ہے، کی اوسط گہرائی ۹ میٹر جبکہ زیادہ سے زیادہ گہرائی ۴۰ میٹر ہے۔ جھیل کی اوسط گہرائی ۱۰۷ میٹر بنتی ہے۔

جھیل ٹیٹیکاکا میں ۵ بڑے دریا گرتے ہیں جن کے نام رامیس، کواٹا، الاوے، ہوانکانے اور سوچیز ہیں۔ ۲۰ سے زیادہ چھوٹی نہریں بھی جھیل میں گرتی ہیں۔ جھیل میں ۴۱ جزیرے ہیں جن میں بعض پر گنجان انسانی آبادیاں بھی ہیں۔

پانی کی گردش کے لیے صرف ایک موسم مناسب ہے اور جھیل میں پانی کا درجہ حرارت سطح سے تہہ تک یکساں رہتا ہے۔ جھیل سے محض ایک دریا نکلتا ہے جو پانی کو جنوب میں بولیویا کی جھیل پُوپو کو لے جاتا ہے۔ اس دریا سے جھیل کا محض ۱۰ فیصد پانی خارج ہوتا ہے جبکہ باقی ۹۰ فیصد پانی تیز ہوا، آبی بخارات اور بلندی پر تیز دھوپ کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے۔ اس طرح جھیل میں پانی کی مقدار برقرار رہتی ہے۔ اس جھیل کو لگ بھگ بند جھیل بھی کہا جاتا ہے۔

۲۰۰۰ سے جھیل ٹیٹیکاکا میں پانی کی مقدار متواتر کم ہوتی جا رہی ہے۔ ۲۰۰۹ میں اپریل سے نومبر کے دوران جھیل میں پانی کی سطح ۸۱ سینٹی میٹر گری جو ۱۹۴۹ کے بعد کم ترین سطح ہے۔ پانی کی کمی کی اہم وجوہات اس کے معاون دریاؤں کو بھرنے والے گلیشیئروں کے پگھلنے اور کم بارشیں ہیں۔ جھیل میں آنے والے دریاؤں کے کنارے بڑھتی ہوئی انسانی آبادی سے پیدا ہونے والی آبی آلودگی اہم مسئلہ ہے کہ شہری انتظامی ڈھانچہ تمام آلودگیوں کو بروقت صاف نہیں کر پاتا۔ ۲۰۱۲ میں اس جھیل کو خطرے کا شکار جھیل قرار دیا گیا۔

درجہ حرارت ترمیم

بلندی اور سرد ہوا کی وجہ سے جھیل کی سطح کا اوسط درجہ حرارت ۱۰ سے ۱۴ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ جون سے دسمبر تک کے موسم سرما میں گہرے پانی سطحی پانی سے ملتے ہیں۔

نام ترمیم

جھیل ٹیٹیکاکا کے نام کی حالیہ یا سابقہ کسی وجہ کا علم نہیں۔ جھیل کنارے آباد بے شمار مقامی قبائل کی وجہ سے اس جھیل کا ایک نام ہونا دشوار ہے۔

ٹیٹی اور کاکا الفاظ کے معنی مختلف زبانوں میں فرق ہیں۔ آئیمارا زبان میں ٹیٹی کا مطلب "پوما"، "سیسہ" یا "بھاری دھات" ہے۔ کاکا سفید یا بھورے بالوں کو ظاہر کرتا ہے اور اسے دراڑ یا کھائی یا کنگھی بھی کہہ سکتے ہیں۔

کچھ مؤرخین کے مطابق اس جھیل کے ایک جزیرے پر واقع مزار کا نام تھکھسی کالا تھا جو ہسپانویوں نے اس وجہ سے اپنایا کہ مقامی قبائل اسے متبرک مانتے تھے اور امتدادِ زمانہ سے یہ لفظ ٹیٹیکاکا بن گیا۔

مقامی طور پر بولیویا اور پیرو میں جھیل کے الگ الگ نام استعمال ہوتے ہیں۔

ماحولیات ترمیم

جھیل میں آبی پرندوں کی بہت سی اقسام رہتی ہیں اور ۲۶ اگست ۱۹۹۸ کو اسے رامسر مقام قرار دیا گیا ہے۔ شدید خطرے کا شکار انواع جیسا کہ بڑا ٹیٹیکاکا آبی مینڈک اور نہ اڑ سکنے والی ٹیٹیکاکا گریبی مکمل طور پر غالب طور پر جھیل تک محدود ہیں اور جھیل کی ایک خاص مچھلی ۱۹۳۸ میں معدوم ہو چکی ہے جس کی وجہ یہاں ریبنو ٹراؤٹ اور سلورسائیڈ نامی مچھلیوں کا متعارف کرایا جانا ہے۔جھیل میں پائی جانے والی مچھلیوں کی ۹۰ فیصد اقسام مقامی ہیں جن کا ۲۳ فیصد اور کہیں نہیں پایا جاتا۔ جھیل میں سفید چوٹی والی گریبی، پونا آئیبس، چلیئن فلیمنگو یعنی چلی والے لم ڈھینگ، اینڈین گل، اینڈین ٹی ٹی رام، سفید پشت والے چہے، بڑے چہے، سفید بگلے، شب بیدار بڑے بگلے، اینڈین کُوٹ، عام چنگر، کامن ریل، مختلف اقسام کی بطیں اور دیگر پرندے یہاں رہتے ہیں۔

ٹیٹیکاکا میں میٹھے پانی کے ۲۴ اقسام کے گھونگھے رہتے ہیں اور سات اقسام کی سیپیاں بھی پائی جاتی ہیں جن کے بارے زیادہ سائنسی معلومات نہیں۔ جھیل میں قشریات کے غول بھی ملتے ہیں۔

جھیل میں توتورا نامی نرسل بھی پائے جاتے ہیں جو ۳ میٹر سے کم گہرے پانی میں ملتے ہیں۔ بندرگاہوں اور دیگر آڑ والی جگہوں پر دیگر اقسام کے پودے بھی ملتے ہیں۔

زیرِ آب اثار قدیمہ ترمیم

کھووا کے جزیرے کھووا ریف کے اردگرد ہونے والی کھدائیوں اور مطالعات سے ہزاروں کی تعداد میں آثار قدیمہ برآمد ہوئے ہیں۔ ان میں جانوروں کی شکل کے اگربتی دان، چھوٹے لاما کے تراشے ہوئے بت، عمدگی سے بنی دھاتی اشیا، خول اور پتھر سے بنے زیورات شامل ہیں۔ ۱۵ویں اور ۱۶ویں صدی کے دوران جھیل ٹیٹیکاکا کو پراسرار مقام مانا جاتا تھا اور انکا قبائل یہاں زیارات کے لیے آتے تھے۔ کھووا کے پاس وہ جگہ ہے جہاں قربانی کی اشیا جھیل میں ڈالی جاتی تھیں۔

موسم ترمیم

جھیل ٹیٹیکاکا الپائن یا نیم استوائی موسم کی حامل مانی جاتی ہے جہاں سارا سال درجہ حرارت سرد سے نسبتاً سرد رہتا ہے۔ سال بھر میں ۶۱۰ ملی میٹر بارش ہوتی ہے جس کا زیادہ تر حصہ گرمیوں میں طوفان بادوباراں سے آتا ہے۔ سردیوں میں رات اور صبح کا وقت بہت سرد ہوتا ہے مگر دوپہر کو معتدل ہو جاتا ہے۔

جزائر ترمیم

اُروس ترمیم

اُورو قبائل توتورا نرسلوں سے جھیل میں تیرتے جزیرے بناتے ہیں جو جھیل میں بکثرت اگتا ہے۔ یہ قبائل جھیل کنارے اگنے والے ان نرسلوں کو کاٹ کاٹ کر پہلے سے موجود نرسلوں کے اوپر ڈالتے رہتے ہیں۔

روایت ہے کہ کولمبین دور سے قبل اُورو لوگ ایمازن سے نقل مکانی کر کے یہاں آئے کہ دیگر مقامی قبائل نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا تھا اور یہ لوگ اپنے لیے زمین حاصل نہ کر سکے۔ انہوں نرسل کاٹ کر گہرے پانیوں کا رخ کیا جہاں وہ حملہ آور ہمسائیوں سے محفوظ رہ سکتے تھے اور ان جزائر کو حرکت دینا بھی آسان تھا۔

سنہرے رنگ کے یہ جزیرے عموماً ۱۵ میٹر چوڑے اور ۱۵ ہی میٹر لمبے ہوتے ہیں۔ ہر جزیرے پر گھاس سے بنی جھگیاں ہوتی ہیں اور عموماً ایک جزیرے کے باشندے ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض جزائر پر نرسل سے بنی دیگر عمارات اور مینار بھی ہوتے ہیں جہاں سے وہ نگرانی کر سکتے ہیں۔

ماضی میں اُورو قبائل جھیل کے وسط میں کنارے سے ۱۴ کلومیٹر دور جزیرے بنا کر رہتے تھے مگر ۱۹۸۶ کے تباہ کن طوفان سے یہ جزیرے تباہ ہو گئے تو اُورو نے کنارے کے قریب جزیرے بنا لیے۔ ۲۰۱۱  میں ۱،۲۰۰ اُورو افراد ایسے ۶۰ مصنوعی جزائر پر رہتے تھے جو پُونو کے قریب جھیل کے مغربی کنارے پر تھے۔ پُونو پیرو کا بڑا بندرگاہی شہر ہے۔ یہ جزائر پیرو میں آنے والے سیاحوں کے لیے کشش کا سبب ہیں اور اُورو افراد سیاحوں کو کشتیوں میں اپنے جزائر کی سیر کرا کر اور ان کو دستکاری والی اشیا بیچ کر اضافی پیسے کماتے ہیں۔

امانتانی ترمیم

جھیل ٹیٹیکاکا کا چھوٹا جزیرہ امانتانی ہے جہاں کیچوا بولنے والے افراد رہتے ہیں۔ ۱۵ مربع کلومیٹر پر ۱۰ بستیوں میں ۴،۰۰۰ افراد آباد ہیں۔ جزیرے میں دو چھوٹی چوٹیاں ہیں جن کو پاچاتاتا (دھرتی باپ) اور پاچاماما (دھرتی ماں) کہا جاتا ہے۔ ان چوٹیوں پر قدیم کھنڈرات بھی ہیں۔ پہاڑی کنارے جو جھیل سے اٹھتے ہیں، پر بنے کھیتوں میں گندم، آلو اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔ زیادہ تر چھوٹے کھیتوں میں ہاتھ سے کاشتکاری ہوتی ہے۔ پتھر سے بنی باڑوں سے کھیتوں کو الگ الگ کیا گیا ہے اور مویشی اور بھیڑیں پہاڑی کنارے چرتے ہیں۔

جزیرے پر کسی قسم کی مشین نہیں لائی جا سکتی، سو کاریں اور ہوٹل بھی یہاں نہیں پائے جاتے۔ کاشتکاری ہاتھ سے ہوتی ہے۔ چند چھوٹی دکانیں بنیادی ضروت کی اشیا بیچتی ہیں۔ پہلے جنریٹر کی مدد سے چند گھنٹے بجلی آتی تھی مگر ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے اب یہ سلسلہ رک گیا ہے۔ زیادہ تر خاندان اب موم بتیاں یا سیل سے چلنے والی بیٹریاں استعمال کرتے ہیں۔ حال ہی میں چند گھروں پر شمسی پینل لگائے گئے ہیں۔

ٹُؤر گائیڈ کے ساتھ مل کر چند گھرانی سیاحوں کو اپنے گھر رات رکنے کی اجازت دیتے ہیں اور ان کے لیے کھانا بھی بناتے ہیں۔ مہمانوں کے لیے الگ کمرے کا بندوبست لازم ہے اور یہ گھرانے سیاحتی اداروں کے بنائے اصولوں پر سختی سے کاربند رہتے ہیں۔ زیادہ تر مہمان کھانے پینے کی چیزیں (تیل، چاول وغیرہ مگر چینی لانے پر پابندی ہے کہ جزیرے پر دندان سازی کا کوئی انتظام نہیں) تحفتاً ساتھ لاتے ہیں۔ بعض سیاح جزیرے پر بنے سکول کے بچوں کے لیے بھی تدریسی سامان لاتے ہیں۔ مقامی لوگ سیاحوں کے لیے رات کو روایتی رقص کا انتظام کرتے ہیں اور ان کو مقامی پہناوے بھی پہناتے ہیں۔

تاکیلے ترمیم

تاکیلے جزیرہ پُونو سے ۴۵ کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ یہ جزیرہ تنگ اور طویل ہے اور ہسپانوی اسے ۲۰ویں صدی تک جیل کے طور پر استعمال کرتے رہے تھے۔ ۱۹۷۰ میں اس کی ملکیت تاکیلے قبیلے کو ملی جو اس جزیرے پر آباد ہو گئے۔ جزیرے کی موجودہ آبادی ۲،۲۰۰ ہے اور جزیرہ ۵ء۵ کلومیٹر لمبا اور ۶ء۱ کلومیٹر چوڑا ہے اور اس کا رقبہ ۷۲ء۵ مربع کلومیٹر ہے۔ گاؤں سطح سمندر سے ۳،۹۵۰ میٹر بلند ہے جبکہ جزیرے کا بلند ترین مقام سطح سمندر سے ۴،۰۵۰ میٹر بلند ہے۔ انکا دور سے قبل کے کھنڈرات جزیرے کے بلند ترین مقام پر ملتے ہیں اور پہاڑی کناروں پر کھیت ہیں۔ تاکیلے کی پہاڑی سے پیرو کے اونچے پہاڑوں کا اچھا نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کے باشندوں کو تاکیلینوز کہا جاتا ہے جو جنوبی کیچوا بولتے ہیں۔

تاکیلے دستکاری کے حوالے سے بہت مشہور ہے اور اس کی دستکاری عمدہ ترین معیار کی مانی جاتی ہے جسے یونیسکو کی طرف سے خصوصی درجہ ملا ہوا ہے۔ کپڑا بننے کا کام مرد کرتے ہیں جو ۸ سال کی عمر سے یہ کام سیکھتے ہیں جبکہ دھاگہ بنانے کا کام خواتین کرتی ہیں۔

تاکیلی لوگ برادری کی بنیاد پر سیاحت کا انتظام سنبھالتے ہیں جس میں گھروں میں قیام، نقل و حمل اور کھانے پینے کی سہولیات شامل ہیں۔ ۱۹۷۰ کی دہائی میں تاکیل میں سیاحت شروع ہوئی اور دن والے سیاحتی مواقع پر تاکیل لوگوں کا قابو نہ رہا اور بیرونی لوگ اس پر قابض ہو گئے۔ اس لیے تاکیل لوگوں نے متبادل انتظام کے تحت جماعت کی شکل میں سیاحوں کے قیام، ثقافتی سرگرمیوں اور دو سالہ تربیت کے بعد مقامی رہنماؤں کا بندوبست کیا۔

مقامی لوگ اپنی روایات پر سختی سے عمل کرتے ہیں جو چوری نہ کرنا، جھوٹ نہ بولنا اور کاہل نہ بننا ہیں۔ یہاں کی معشیت کا دارومدار ماہی گیری، آلو کی کاشت اور سیاحت سے پیدا ہونے والی آمدن پر ہے کہ یہاں ہر سال ۴۰،۰۰۰ سیاح آتے ہیں۔

ایسلا دیل سول (سورج کا جزیرہ) ترمیم

جھیل میں بولیوین جانب واقع یہ جزیرہ بولیویا کے کوپاکبانا سے کشتی سے جڑا یہ جزیرہ جھیل کے بڑے جزائر میں سے ایک ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہاں کی سرزمین ناہموار، پتھریلی اور پہاڑی ہے۔ جزیرے پر نہ تو گاڑیاں ہیں اور نہ ہی پختہ سڑکیں۔ یہاں رہنے والے ۸۰۰ خاندانوں کی اہم معاشی سرگرمیاں کاشتکاری، ماہی گیری اور سیاحت سے متعلق آمدنی ہیں۔

جزیرے پر ۱۸۰ کھنڈرات ہیں جن میں سے زیادہ تر ۱۵ویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جزیرے کی پہاڑیوں پر چھجے دار کھیت بنے ہیں جن پر کاشتکاری ہوتی ہے۔ کھنڈرات میں ایک مقدس چٹان ہے۔ انکا عقیدے کے مطابق سورج دیوتا یہاں پیدا ہوا تھا۔

۱۹۸۷ تا ۱۹۹۲ یوہان رائنہارٹ نے جزیرے کے پاس زیرِ آب آثارِ قدیمہ کی تحقیق کی اور انکا اور تیاہواناکو قبائل کی پیش کردہ بھینٹوں کو نکالا تھا اور اب یہ چلاپامپا کے عجائب گھر میں رکھے ہیں۔

ایسلا دی لا لونا (چاند کا جزیرہ) ترمیم

ایسلا دیل سول کے مشرق میں واقع یہ چھوٹا جزیرہ ہے۔ دونوں جزیرے بولیویا کے لاپاز محکمے کے ماتحت ہیں۔ انکا روایت ہے کہ ایسلا دے لا لونا سے ہی دیوتا ویراکوچا نے چاند کو طلوع ہونے کا حکم دیا تھا۔

آثارِ قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ ۶۵۰ عیسوی سے ۱۰۰۰ عیسوی کے دوران تیواناکو قبیلے نے یہاں ایک بڑا مندر بنایا تھا۔ جھیل ٹیٹیکاکا کے مختلف جزائر سے ان لوگوں کے بنائے ہوئے برتن ملے ہیں۔

سوریکی ترمیم

سوریکی بولیویا کی جانب واقع جزیرہ ہے۔ یہ آخری جزیرہ ہے جہاں اس وقت بھی نرسلوں سے کشتیاں بنانے کا ہنر باقی ہے (۱۹۹۸)۔

نقل و حمل ترمیم

مانکو کاپک نامی بارج ٹرین کے ڈبوں کی منتقلی کا کام کرتا ہے۔

ماضی کی نقل و حمل ترمیم

ماضی میں جھیل میں برطانوی ساختہ دخانی جہاز چلتے تھے جنہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے یہاں لا کر جوڑا گیا تھا۔

۱۸۶۲ میں دریائے ٹیمز پر واقع تھیمز آئرن ورکس نے فولادی جہاز ایس ایس یاواری اور ایس ایس یاپورا بنائے جن کا ٹھیکہ انہیں برمنگھم کی جیمز واٹ فاؤنڈری سے ملا تھا۔ ان جہازوں کو مسافر، سامان اور پیرو کی جنگی کشتیوں کی منتقلی کا کام کرنا تھا۔ کئی سال کی تاخیر کے بعد یاواری کو ۱۸۷۰ جبکہ یاپورا کو ۱۸۷۳ میں چالو کیا گیا۔ یاواری ۳۰ میٹر لمبا تھا مگر ۱۹۱۴ میں اس کا عرشہ مزید لمبا کیا گیا اور نیا انجن لگایا گیا۔

نومبر ۱۸۸۳ میں بحرالکاہل کی جنگ کے آخر میں چلی کی فوج نے جھیل ٹیٹیکاکا میں پہلی بار جنگی جہاز اتارا۔

۱۸۹۲ میں ولیم ڈینی اینڈ برادرز نے سکاٹ لینڈ کے دریائے کلائیڈ پر ایس ایس کویا جہاز بنایا جو ۵۲ میٹر طویل تھا اور اس نے ۱۸۹۳ میں جھیل میں کام شروع کیا۔

۱۹۰۵ میں ہمبر کے کنگسٹن اپان ہل کے ارلز شپ بلڈنگ نے ایس ایس انکا جہاز بنایا۔ اُس وقت تک جھیل کنارے ریل پہنچ چکی تھی اور اس جہاز کو ریل کے ذریعے جھیل تک پہنچایا گیا۔ اس جہاز کی لمبائی ۶۷ میٹر اور وزن ۱،۸۰۹ ٹن تھا اور یہ جہاز اس جھیل پر تب تک کا سب سے بڑا جہاز تھا۔ ۱۹۲۰ کی دہائی میں جہاز بنانے والوں نے جہاز کا نیا پیندہ بذریعہ ریل بھجوایا۔

بڑھتی ہوئی تجارت کی وجہ سے ۱۹۳۰ میں ارلز کمپنی نے ایس ایس اولانتا تیار کیا جو حصوں میں بانٹ کر پہلے بحری جہاز اور پھر ریل کی مدد سے جھیل تک پہنچایا گیا۔ اس جہاز کی لمبائی ۷۹ میٹر اور وزن ۲،۲۰۰ ٹن تھا۔ یہ جہاز انکا سے سے کافی بڑا تھا اور اس کی تیاری کے لیے نیا انتظام کیا گیا اور ۱۹۳۱ میں اس جہاز نے اپنا سفر شروع کیا۔

۱۹۷۵ میں یاواری اور یاپورا کو پیرو کی بحریہ کے حوالے کر دیا گیا جس نے یاپورا کو ہسپتال جہاز بنایا اور اس کا نام بے اے پی پونو رکھا۔ بحریہ نے یاپوری کو کباڑ میں پھینک دیا مگر ۱۹۸۷ میں مخیر اداروں نے اس جہاز کو خرید کر اس کی بحالی کا کام شروع کیا۔ بحالی کے کام کے دوران یہ جہاز خلیج پونو پر لنگر انداز رہا اور سیاح اس کی سیر کو آتے رہے۔ کویا ۱۹۸۴ میں خشکی پر چڑھ گیا مگر اسے ۲۰۰۱ میں تیرتا ریستوران بنا دیا گیا۔ انکا ۱۹۹۴ تک کام کرتا رہا اور پھر تباہ ہو گیا۔ اولانتا کو حسبِ ضرورت پیرو ریل مسافروں کے لیے استعمال کرتی ہے۔

  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔