جہانگیر کرامت
جنرل جہانگیر کرامت (20 فروری1941 کو پیدا ہوئے) ایل او ایم، این آئی (ایم)، ایس بی ٹی، جو بہترین طور پر جے کے نام سے مشہور تھے۔ ایک ریٹائرڈ فوراسٹار درجے کے آرمی جنرل، سفارتکار، عوامی دانشور اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں سیاسی سائنس کے سابق پروفیسر تھے۔ جنرل جہانگیر کرامت پاکستانی فوج کے بارہویں سپہ سالار، 12 جنوری 1996 سے 7 اکتوبر 1998 تک سپہ سالار رہے۔ 1996 میں پاکستان آرمی کے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کے لیے منتخب کیے گئے۔ وہ 1997 سے 1998 تک مشترکہ سربراہ اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر نامزد ہوئے. جنرل جہانگیر کرامت ان چند ایک فوجی افسروں میں سے ہیں جنھوں نے سول حکومت سے اختلافات پر استعفا دیا تھا۔
جہانگیر کرامت | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مناصب | |||||||
سربراہ پاک فوج | |||||||
برسر عہدہ 12 جنوری 1996 – 6 اکتوبر 1998 |
|||||||
| |||||||
چیئرمین مشترکہ رؤسائے عملہ کمیٹی [1] | |||||||
برسر عہدہ 9 نومبر 1997 – 7 اکتوبر 1998 |
|||||||
ریاستہائے متحدہ میں پاکستانی سفیر | |||||||
برسر عہدہ 17 نومبر 2004 – 3 جون 2006 |
|||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 20 فروری 1941ء (83 سال) کراچی |
||||||
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | ریاستہائے متحدہ آرمی کمانڈ اینڈ جنرل اسٹاف کالج پاکستان ملٹری اکیڈمی سینٹ پیٹرک اسکول |
||||||
پیشہ | سفارت کار | ||||||
ملازمت | جامعہ سٹنفورڈ | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
شاخ | پاک فوج | ||||||
عہدہ | جرنیل | ||||||
لڑائیاں اور جنگیں | پاک بھارت جنگ 1965ء | ||||||
درستی - ترمیم |
جنرل کاکڑ کی سبک دوشی کے وقت جنرل جہانگیر کرامت ہی سب سے سینیئر جنرل تھے چنانچہ انھیں اگلا سپہ سالار بنا دیا گیا۔
فوج میں مشہور ہے کہ سنہ 1965 کی لڑائی میں لیفٹیننٹ کرامت کشمیر میں اکھنور کے محاذ پر اپنی یونٹ 13 لانسرز کے ساتھ تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے اپنی ہی دھن میں دشمن کے علاقے میں 23 میل اندر گھس گئے اور بعد ازاں یونٹ کو واپسی کا حکم ملا۔ مگر اس جرات پر ان کے یونٹ کو سپِئیر ہیڈ کا خطاب بھی ملا۔
سنہ 1971 کی جنگ میں جہانگیر کرامت شکر گڑھ محاذ پر رہے۔ دورانِ ملازمت بین الاقوامی تعلقات اور وار سٹڈیز میں ڈگریاں حاصل کیں۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں سٹرٹیجک سٹڈیز اور وار کالج میں ملٹری سائنس پڑھاتے رہے۔ 80 کی دہائی میں سعودی عرب میں فوجی مشیر بھی رہے۔
ان کی سپہ سالاری کے دوران صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کیا۔
کہا جاتا ہے کہ ممکنہ برطرفی کی سن گن ملتے ہی جنرل جہانگیر کرامت نے مبینہ طور پر سپیکر قومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی کے ذریعے صدر اور وزیرِ اعظم کو پیغام بھیجا کہ باہمی اختلافات جتنی جلد دور کر لیں اتنا ہی جمہوریت کے لیے بہتر ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اختلافات جب ذاتیات تک پہنچ جائیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو ہوا۔ عبوری حکومت کے تحت انتخابات ہوئے۔ نواز شریف کو دوسری بار وزیرِ اعظم بننے کا موقع ملا۔
پھر جہانگیر کرامت کو سپہ سالاری کے ساتھ ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ بھی تفویض کر دیا گیا۔ جب نواز شریف کی چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ ٹھن گئی تو اس لڑائی میں جنرل جہانگیر کرامت نے غیر جانبداری برتی۔ انھی کے دور میں بھارت کے جوہری دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کیے۔
زندگی ٹھیک ہی چل رہی تھی کہ اکتوبر 1998 میں جنرل جہانگیر کرامت نے نیول وار کالج میں خطاب کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ ریاستی ڈھانچے کے استحکام کے لیے ترکی کی طرز پر نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نواز شریف حکومت اس تجویز سے یہ سمجھی کہ جنرل صاحب کے ارادے ٹھیک نہیں۔ چنانچہ ان سے استعفیٰ مانگ لیا گیا۔ پھر وہ امریکا چلے گئے اور سٹینفورڈ یونیورسٹی اور بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے علمی و تحقیقی کاموں سے خود کو منسلک کر لیا۔
جنرل مشرف کے دور میں لگ بھگ دو برس واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر رہے۔ بعد ازاں اپنا تھنک ٹینک سپئیر ہیڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کر لیا۔
ان کے دورِ سالاری میں یوکرین سے ٹینکوں کی خریداری کے کمیشن اور شمالی کوریا کو جوہری ٹیکنا لوجی کی فراہمی کے معاملات بھی اچھلے لیکن ٹھنڈے پڑ گئے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ بنام: Jehangir Karamat — اخذ شدہ بتاریخ: 27 اپریل 2022
فوجی دفاتر | ||
---|---|---|
ماقبل فرخ خان
|
چیف آف جنرل اسٹاف 1994–1996 |
مابعد |
ماقبل | سربراہ پاک فوج 1996–1998 |
مابعد |
ماقبل | سربراہ عسکریہ پاکستان 1997–1998 | |
سفارتی عہدے | ||
ماقبل | ریاستہائے متحدہ میں پاکستانی سفیر 2004–2006 |
مابعد |