قرونِ اولیٰ کی معروف صوفی شخصیت رابعہ بصری کی پیدائش 95ھ سے 99ھ کے دوران عراق کے شہر بصرہ میں ہوئی۔ آپ کی ابتدائی زندگی کی زیادہ تر تفصیلات شیخ فریدالدین عطار نے بیان کی ہیں۔ اسلامی ادب میں رابعہ بصری سے جڑی بے شمار روحانی کرامات کے واقعات ملتے ہیں، جن میں سے کچھ خود ساختہ بھی ہیں۔ رابعہ بصری نے خود کوئی تحریری کام نہیں چھوڑا، چنانچہ ان سے متعلق زیادہ تر شیخ فریدالدین عطار کی طرف سے بیان کی گئی معلومات و حوالہ جات کو مستند مانا جاتا ہے، جو ان کے بعد کے زمانے کے ولی اور صوفی شاعر ہیں۔

رابعہ بصری
(عربی میں: رابعة العدوية القيسية‎ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رابعہ بصری کی عکاسی، ناج پیستے ہوئے، ایک فارسی لغت میں شامل تصویر

معلومات شخصیت
پیدائش 710ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 801ء (90–91 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ [3]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ
دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  فلسفی ،  متصوف ،  مصنفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تصوف ،  شاعری   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

رابعہ بصری اپنے والدین کی چوتھی بیٹی تھیں، اسی لیے آپ کا نام رابعہ یعنی ”چوتھی“ رکھاگیا۔ وہ ایک انتہائی غریب لیکن معزز گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ رابعہ بصری کے والدین کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جس شب رابعہ بصری پیدا ہوئیں،آپ کے والدین کے پاس دیا جلانے کے لیے تیل تھا اور نہ آپ کو لپیٹنے کے لیے کوئی کپڑا۔ آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے درخواست کی کہ پڑوسیوں سے تھوڑا تیل ہی لے آئیں تاکہ دیا جلایا جا سکے۔ آپ کے والد نے پوری زندگی اپنے خالقِ حقیقی کے علاوہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا تھا، چنانچہ وہ پڑوسی کے دروازے تک تو گئے لیکن خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے۔

رات کو رابعہ بصری کے والد کو خواب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انھوں نے رابعہ کے والد کو بشارت دی کہ ”تمھاری نومولود بیٹی، خدا کی برگزیدہ بندی بنے گی اور مسلمانوں کو صحیح راہ پر لے کر آئے گی۔ تم امیرِ بصرہ کے پاس جاؤ اور اسے ہمارا پیغام دو کہ تم (امیرِ بصرہ) ہر روز رات کو سو (100) مرتبہ اورجمعرات کو چار سو (400) مرتبہ درود کا نذرانہ بھیجتے ہو، لیکن پچھلی جمعرات کو تم نے درودشریف نہ پڑھا، لہٰذا اس کے کفارہ کے طور پر چارسو (400) دینار بطور کفارہ یہ پیغام پہنچانے والے کو دے دو۔[4]

رابعہ بصری کے والد اٹھے اور امیرِ بصرہ کے پاس پہنچے۔ اس دوراں آپ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری تھے۔ جب امیرِ بصرہ کو رابعہ بصری کے والد کے ذریعے حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاپیغام ملا تو یہ جان کر انتہائی خوش ہوا کہ وہ نبی آخرالزماں کی نظروں میں ہے۔ اس نے شکرانے کے طور پر فوراً ایک ہزار (1,000) دینارغرباء میں تقسیم کرائے اور چارسو (400) دینار رابعہ بصری کے والد کو ادا کیے اور ان سے درخواست کی کہ جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو بلاجھجھک تشریف لائیں۔

کچھ عرصے بعد رابعہ بصری کے والد انتقال کر گئے۔ اس اثناء میں بصرہ کو سخت قحط نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ قحط کے دوران آپ (رابعہ بصری) اپنی بہنوں سے بچھڑگئیں۔ ایک بار رابعہ بصری ایک قافلے میں جا رہی تھیں کہ قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور ڈاکوؤں کے سرغنہ نے رابعہ بصری کو اپنی تحویل میں لے لیا اور آپ کو لوٹ کے مال کی طرح بازارمیں لونڈی بنا کر بیچ دیا۔ آپ کا آقا آپ سے انتہائی سخت محنت و مشقت کا کام لیتاتھا۔ اس کے باوجود آپ دن بھر میں کام کرتیں اور رات بھر عبادت کرتی رہتیں اور دن میں بھی زیادہ تر روزے رکھتیں۔ اتفاقاً ایک دفعہ رابعہ بصری کا آقا آدھی رات کو جاگ گیا اور کسی کی گریہ و زاری کی آوازسن کر دیکھنے چلا کہ رات کے اس پہر کون اس طرح گریہ و زاری کر رہا ہے! وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ رابعہ بصری اللہ کے حضورسربسجود ہیں اور نہایت عاجزی کے ساتھ کہہ رہی ہیں:

مضامین بسلسلہ

تصوف

 

”اے اللہ! تو میری مجبوریوں سے خوب واقف ہے۔ گھر کا کام کاج مجھے تیری طرف آنے سے روکتا ہے۔ تو مجھے اپنی عبادت کے لیے پکارتا ہے مگر میں جب تک تیری بارگاہ میں حاضر ہوتی ہوں، نمازوں کا وقت گذر جاتا ہے۔ اس لیے میری معذرت قبول فرما لے اورمیرے گناہوں کو معاف کر دے۔“

اپنی کنیزکا یہ کلام اور عبادت کا یہ منظر دیکھ کر رابعہ بصری کا مالک خوفِ خدا سے لرز گیا۔ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ایسی اللہ والی کنیزسے اپنی خدمت کرانے کی بجائے بہتر یہ ہوگا کہ خود اس کی خدمت کی جائے۔ صبح ہوتے ہی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے فیصلے سے آپ کو آگاہ کیا۔ اس نے کہا کہ آج سے آپ میری طرف سے آزاد ہیں۔ اگر آپ اسی گھر میں قیام کریں تو میری خوش نصیبی ہوگی وگرنہ آپ اپنی مرضی کی مالک ہیں، تاہم اگرآپ یہاں سے کوچ کر جانے کا فیصلہ کرتی ہیں تو میری بس ایک درخواست ہے کہ میری طرف سے کی جانے والی تمام زیادتیوں کو اس ذات کے صدقے معاف کر دیں،جس کی آپ راتوں کو جاگ جاگ کر عبادت کرتی ہیں۔[5]

گوشہ نشینی

ترمیم

رابعہ بصری نے گوشہ نشینی اورترک دنیاکے شوق کے پیش نظر آزادی ملنے کے بعد صحراؤں کارخ کیا۔[6] وہ دن رات معبودِ حقیقی کی یاد میں محو ہوگئیں۔ خواجہ حسن بصری، رابعہ بصری کے مرشد تھے۔ غربت، نفی ذات اورعشقِ الٰہی اُن کے ساتھی تھے۔ اُن کی کل متاع حیات ایک ٹوٹا ہوا برتن، ایک پرانی دری اور ایک اینٹ تھی، جس سے وہ تکیہ کا کام بھی لیتی تھیں۔ وہ تمام رات عبادت و ریاضت میں گزار دیتی تھیں اور اس خوف سے نہیں سوتی تھیں کہ کہیں عشق الٰہی سے دور نہ ہوجائیں۔ جیسے جیسے رابعہ بصری کی شہرت بڑھتی گئی،آپ کے معتقدین کی تعدادمیں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ آپ نے اپنے وقت کے جید علما ومحدثین اور فقہا سے مباحثوں میں حصہ لیا۔ رابعہ بصری کی بارگاہ میں بڑے بڑے علما نیازمندی کے ساتھ حاضر ہواکرتے تھے۔ ان بزرگوں اور علما میں سرفہرست حضرت امام سفیان ثوری ہیں، جو امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ہم عصر تھے اورجنہیں ’امیر المومنین فی الحدیث‘ کے لقب سے بھی یادکیا جاتا ہے۔

گو رابعہ بصری کو شادی کے لیے کئی پیغامات آئے،جن میں سے ایک پیغام امیرِ بصرہ کا بھی تھا لیکن آپ نے تمام پیغامات کو رد کر دیا، کیونکہ آپ کے پاس سوائے اپنے پروردگار کے اورکسی چیزکے لیے وقت تھا اور نہ طلب۔ رابعہ بصری کوکثرتِ رنج و الم اورحزن و ملال نے دنیا اور اس کی دلفریبیوں سے بیگانہ کر دیا تھا۔ رابعہ بصری کے مسلک کی بنیاد”عشقِ الٰہی “ پر ہے۔

ارشاداتِ رابعہ بصری

ترمیم
  • ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصری جذب کی حالت بصرہ کی گلیوں میں ایک ہاتھ میں مشعل اور دوسرے ہاتھ میں پانی لیے جا رہی تھیں۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کرنے جا رہی ہیں؟ تو رابعہ بصری نے جواب دیا کہ میں اس آگ سے جنت کو جلانے اور اس پانی سے دوزخ کی آگ بجھانے جا رہی ہوں، تاکہ لوگ اپنے معبودِ حقیقی کی پرستش جنت کی لالچ یا دوزخ کے خوف سے نہ کریں، بلکہ لوگوں کی عبادت کا مقصد محض اللہ کی محبت بن جائے[7]
  • ایک مرتبہ رابعہ بصری سے پوچھاگیا کہ کیا آپ شیطان سے نفرت کرتی ہیں؟ رابعہ بصری نے جواب دیاکہ خدا کی محبت نے میرے دل میں اتنی جگہ ہی نہیں چھوڑی کہ اس میں کسی اور کی نفرت یا محبت سما سکے۔

اشعار

ترمیم
عـرفت الهـوى مذ عرفت هـواكواغـلـقـت قلـبـي عـمـن سـواك
وكــنت أناجيـــك يـــا من تــرىخـفـايـا الـقـلـوب ولسـنـا نـراك
احبـــك حـبـيــن حـب الهـــــوىوحــبــــا لأنـــك أهـــل لـــذاك
فــأما الــذي هــو حب الهــــوىفشـغلـي بـذكـرك عـمـن سـواك
مـــا الـــذي أنــت أهــل لــــهفكـشـفـك للـحـجـب حـتـى أراك
فـلا الحـمد فـي ذا ولا ذاك لـــيولـكـن لك الـحـمـد فـي ذا وذاك
أحبــك حـبـيـن.. حــب الهـــوىوحــبــــا لأنــــك أهـــل لـــذاك
وأشتـاق شوقيـن.. شوق النـوىوشـوق لقرب الخطــى من حمـاك
فأمـا الــذي هــو شــوق النــوىفمسـري الدمــوع لطــول نـواك
أمــا اشتيـــاق لقـــرب الحمـــىفنــار حيـــاة خبت فــي ضيــاك
ولست على الشجو أشكو الهوىرضيت بما شئت لـي فـي هداكـا

ایک اور قصیده :

يا سروري ومنيتي وعمـاديوأنـيـسـي وعـدتـي ومــرادي.
أنت روح الفؤاد أنت رجائـيأنت لي مؤنس وشوقك زادي.
أنت لولاك يا حياتي وأنســيمـا تـشـتت في فـسـيـح البـلاد.
كم بدت منةٌ، وكم لك عنــديمـن عـطـاء ونـعـمـة وأيـادي.
حبـك الآن بغيتـي ونعـيـمــيوجـلاء لعيـن قلبــي الصـادي.
إن تكـن راضيـاً عنـي فإننــييا منـى القلب قد بـدا إسعـادي.

مزید کچھ اشعار:

؎فليتك تحلو والحيـاة مريرة

وليتك ترضى والانـــام غضاب

وليت الذي بيني وبينك عامر

وبيني وبين العـالمين خراب

اذا صح الود فيك فالكل هين

وكل الذي فــوق التراب تراب

وفات

ترمیم

رابعہ بصری نے تقریباً اٹھاسی (88) سال کی عمر پائی۔ آپ نے آخری سانس تک عشق الٰہی کی لذت و سرشاری کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ یہاں تک کہ اپنی آخری سانس تک معبودِ حقیقی کی محبت کا دم بھرتی رہیں۔ آخری وقت آپ نے اپنے ولی اور صوفی ساتھیوں کو بتایا کہ ”میرا محبوب و معبود ہمیشہ سے میرے ساتھ ہے۔“[8]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ربط: https://d-nb.info/gnd/11893970X — اخذ شدہ بتاریخ: 12 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
  2. عنوان : Dictionary of Women Worldwide — ISBN 978-0-7876-7585-1
  3. ربط: https://d-nb.info/gnd/11893970X — اخذ شدہ بتاریخ: 31 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
  4. چارسو (400) دینار بطور کفارہ
  5. حضرت رابعہ بصری
  6. "رابعہ بصری ترک دنیا"۔ 27 ستمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مارچ 2008 
  7. گلدستہ - کتاب گھر
  8. رحلت

بیرونی روابط

ترمیم

(مراجع)