ہندو مسلم اتحاد ایک مذہبی سیاسی نظریہ ہے جس میں برِصغیر کے دو بڑے مذہبی گروہوں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مشترکہ نصب العین کے لیے کام کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ ماضی میں اس نظریے کی ترویج متعدد مسلمان بادشاہوں مثلاً جلال الدین اکبر[1] نے بھی کی تھی اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے دوران میں مہاتما گاندھی اور خان عبدالغفار خان[2] کے علاوہ سیاسی جماعتوں بشمول انڈین نیشنل کانگریس، خدائی خدمتگار اور آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس نے بھی کی۔[3]

خدائی خدمتگار کے خان عبدالغفار خان اور انڈین نیشنل کانگریس کے موہن داس گاندھی دونوں ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے۔

تاریخ

ترمیم

مغل دور کے ہندوستان میں شہنشاہ اکبر نے ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کی اور اپنے دربار میں دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو مقرر کیا۔[4] اکبر نے دونوں مذاہب کے مذہبی تہواروں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ان میں حصہ بھی لیا۔[5] اس کے علاوہ اس نے کئی نئے تہوار بھی متعارف کرائے کہ ہر مذہب کے پیروکار ان کو مناتے تھے۔[6]

ہندوستان میں 1857 کی جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمانوں نے مل کر برطانیہ سے لڑائی کی تھی۔ 2007 میں منموہن سنگھ نے سای جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات ‘ہندو مسلم اتحاد کو ظاہر کرتے ہیں جو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں‘۔

اسی طرح 1883ئ میں شاہ اکبر داناپوری نے ہنرنامہ کے عنوان سے ایک نظم لکھی اور اس نظم کے ذریعہ یہ پیغام دیا کہ ہندوستان کی آزادی ہندو مسلم اتحاد پر ہی ممکن ہے جس پر عمل کرنے کے بعد آخر کار ہمیں آزادی مل ہی گئے۔[7]

1916ء کے میثاق لکھنؤ کو ہندو مسلم اتحاد کے لیے بہت اہم مرحلہ سمجھا جاتا ہے کہ اس دور میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک چل رہی تھی۔[8] محمد علی جناح نے اپنے ابتدائی سیاسی دور میں ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کی۔[9] گوپال کرشنا گوکھلے نے بتایا کہ جناح ‘تمام تر مذہبی تعصبات سے پاک ہیں اور انھیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر بنانا چاہیے‘۔[10]

دیوبند مکتب فکر کے مسلم علما جیسا کہ قاری محمد طیب اور کفایت اللہ دہلوی ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے اور متحد ہندوستان کے داعی بھی۔[11]

ہندو مسلم اتحاد کو لاحق خطرات

ترمیم

1857 کی جنگِ آزادی میں ہندو اور مسلمانوں نے مل کر برطانیہ کا سامنا کیا۔[12] اس بڑھتی ہوئی قومیت پرستی سے خائف ہو کر برطانیہ نے ان مذاہب کے ماننے والوں کو الگ الگ بھڑکانے کی کوشش کی تاکہ ان کی حکومت کو خطرہ نہ ہو۔[13] محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے پرنسپل تھیوڈور بیک نے سید احمد خان کو کہا کہ انگریز اور مسلمان تو متحد ہو سکتے ہیں مگر ہندو مسلم اتحاد کو کسی طور بھی عقل نہیں مانتی اور یہ بھی کہ مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس کے اغراض و مقاصد سے کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔[14]

متحدہ قومیت اور اسلام کے مصنف حسین احمد مدنی جو دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور متحد ہندوستان کے داعی تھے، ان کا خیال تھا کہ برطانوی حکومت مسلمانوں کو اس خیال سے ڈرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی شناخت سے ہاتھ دھو کر ہندو ثقافت میں شامل ہونا پڑے گا۔ اس طرح مسلمان کمزور ہو کر ہندوستان کی آزادی کی جہدوجہد سے دور ہو جائیں گے۔[15] مدنی کے خیال میں دو قومی نظریے نے برطانوی حکومت کو مضبوط کیا۔[16]

سپریم کورٹ کے جج اور کشمیری بھارتی سیاست دان مرکنڈے کاٹجو نے دی نیشن میں لکھا:

1857ء تک ہندوستان میں کسی قسم کا مذہبی مسئلہ نہیں تھا۔ اس سے قبل ہندو اور مسلمانوں میں بہت سارے اختلافات تو تھے جیسا کہ ہندو مندروں کو اور مسلمان مساجد کو جاتے تھے مگر ان میں کوئی دشمنی نہیں تھی۔حقیقتاً ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے، ہندو عید کی تقریبات میں شامل ہوتے تو مسلمان ہولی اور دیوالی ہندوؤں کے ساتھ مناتے تھے۔ مسلمان حکمران جیسا کہ مغل، نوابِ اودھ اور نوابِ مرشد آباد، ٹیپو سلطان وغیرہ سبھی مذہبی طور پر غیر جانبدار تھے۔ وہ رام لیلا کا انتظام کرتے، ہولی، دیوالی وغیرہ میں بھی شامل ہوتے تھے۔ غالب نے اپنےہندو دوست منشی شیو نرائن آرام، ہرگوپال تفتہ وغیرہ کو جس طرح خطوط لکھتے تھے، وہ ظاہر کرتے تھے کہ اُس دور کے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے کتنے قریب تھے۔ 1857 میں جب غدر ہوا تو ہندو اور مسلمان مل کر برطانیہ کے خلاف لڑے۔ اس سے برطانوی حکومت کو اتنا دھچکا لگا کہ انہوں نے غدر کو فرو کرنے کے بعد تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنا لی۔ تمام تر مذہبی فسادات 1857 کے بعد شروع ہوئے جن کو برطانوی حکمرانوں نے ترتیب دیا تھا۔وہ ہندو پنڈت کو بلا کر پیسے دیتے اور مسلمانوں کے خلاف بولنے کا کہتے اور ساتھ ہی مولوی کو پیسے دیتے کہ وہ ہندوؤں کے خلاف بات کرے۔ اس طرح ہماری سیاست میں فرقہ وارنہ زہر گھلتا چلا گیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Mahmoud Masaeli، Monica Prabhakar (2018)۔ India as a Model for Global Development (بزبان انگریزی)۔ Cambridge Scholars Publishing۔ صفحہ: 30۔ ISBN 978-1-5275-1856-8 
  2. Y. G. Bhave (1997)۔ The Mahatma and the Muslims (بزبان انگریزی)۔ Northern Book Centre۔ صفحہ: 39۔ ISBN 9788172110819 
  3. Anuradha Veeravalli (2016)۔ Gandhi in Political Theory: Truth, Law and Experiment (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ صفحہ: 84۔ ISBN 978-1-317-13099-4 
  4. K. P. Bahadur (1990)۔ Rasikapriya of Keshavadasa (بزبان انگریزی)۔ Motilal Banarsidass۔ صفحہ: i۔ ISBN 9788120807341 
  5. K.P. Bahadur (1976)۔ Selections from Rāmacandrikā of Keśavadāsa (بزبان انگریزی)۔ Motilal Banarsidass Publishers۔ صفحہ: 1۔ ISBN 9788120827899 
  6. Indian and Foreign Review, Volume 23 (بزبان انگریزی)۔ Publications Division of the Ministry of Information and Broadcasting, Government of India۔ 1985۔ صفحہ: 82 
  7. ریان ابوالعُلائی۔ انوار اکبری 
  8. "'1857 revolt tribute to Hindu–Muslim unity'" (بزبان انگریزی)۔ ہندوستان ٹائمز۔ 10 مئی 2007 
  9. The Pearson CSAT Manual 2011 (بزبان انگریزی)۔ Pearson Education India۔ 2011۔ ISBN 9788131758304۔ An important step forward in achieving Hindu–Muslim unity was the Lucknow Pact, 1916. 
  10. IAN BRYANT WELL۔ AMBASSADOR OF HINDU–MUSLIM UNITY JINNAH'S EARLY POLITICS۔ Vanguard Books۔ ISBN 8178241447۔ 26 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2019 
  11. Derryl N. MacLean (2013)۔ Cosmopolitanisms in Muslim Contexts (بزبان انگریزی)۔ Edinburgh University Press۔ ISBN 978-0-7486-5609-7 
  12. Lubna Shireen Syeda (2014)، "Madani and Composite Nationalism"، A study of Jamiat-Ulama-i-Hind with special reference to Maulana Hussain Ahmad Madani in freedom movement (A.D. 1919 – A.D.1947)، Dr. Babasaheb Ambedkar Marathwada University/Shodhganga، صفحہ: 207–211, 257–258 
  13. Lubna Shireen Syeda (2014)، "Madani and Composite Nationalism"، A study of Jamiat-Ulama-i-Hind with special reference to Maulana Hussain Ahmad Madani in freedom movement (A.D. 1919 – A.D.1947)، Dr. Babasaheb Ambedkar Marathwada University/Shodhganga، صفحہ: 207–211, 257–258 
  14. Lubna Shireen Syeda (2014)، "Madani and Composite Nationalism"، A study of Jamiat-Ulama-i-Hind with special reference to Maulana Hussain Ahmad Madani in freedom movement (A.D. 1919 – A.D.1947)، Dr. Babasaheb Ambedkar Marathwada University/Shodhganga، صفحہ: 207–211, 257–258 
  15. Lubna Shireen Syeda (2014)، "Madani and Composite Nationalism"، A study of Jamiat-Ulama-i-Hind with special reference to Maulana Hussain Ahmad Madani in freedom movement (A.D. 1919 – A.D.1947)، Dr. Babasaheb Ambedkar Marathwada University/Shodhganga، صفحہ: 207–211, 257–258 
  16. Lubna Shireen Syeda (2014)، "Madani and Composite Nationalism"، A study of Jamiat-Ulama-i-Hind with special reference to Maulana Hussain Ahmad Madani in freedom movement (A.D. 1919 – A.D.1947)، Dr. Babasaheb Ambedkar Marathwada University/Shodhganga، صفحہ: 207–211, 257–258