حیدر علی

جنوبی ہند دکن کی سلطنت میسور کے سلطان

سلطان حیدر علی خان (ولادت: 1721ء – وفات: 7 دسمبر 1782ء) جنوبی ہند دکن کی سلطنت میسور کے سلطان تھے۔ ان کا نام حیدر نائک تھا۔ ان کا دور حکومت 1761ء سے 1782ء تھا۔

حیدر علی
سلطنت میسور کے سلطان
1761ء - 1782ء
پیشروکرشناراجہ واڈیار دوم
جانشینٹیپو سلطان
مکمل نام
شمس الملک، امیر الدولہ، نواب حیدر علی بہادُر
خاندان سلطنت میسور کے سلطان
والدفتح محمد
پیدائش1720ء
بدیکوٹ، کولار، کرناٹک
وفات7 دسمبر 1782(1782-12-07)[1](60 -61 سال)
چتور، آندھرا پردیش
تدفینسرنگاپٹنا، کرناٹک
12°24′36″N 76°42′50″E / 12.41000°N 76.71389°E / 12.41000; 76.71389
مذہباسلام

والئی میسور۔ نسلا ہاشمی قریشی تھے۔ [2]ان کے پردادا گلبرگہ دکن میں پنجاب کے علاقہ ساہیوال سے آکر آباد ہو گئے تھے۔ والد فتح محمد ریاست میسور میں فوجدار تھے۔ حیدر علی پانچ برس کے ہوئے تو والد ایک لڑائی میں مارے گئے۔ ان کے چچا نے انھیں فنون سپہ گری سکھائے۔ سلطان حیدر علی نے 1752ء میں میسور کے ہندو راجا کی فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور بڑی بہادری سے مرہٹوں کے حملوں سے ریاست کو بچایا لیکن وہ اپنی بہادری اور قابلیت کی بدولت جلد ہی (1755ء) میں راجا کی فوجوں کے سپہ سالار بن گئے۔ راجا اور اس کے وزیر نے حیدر علی کے بڑھتے ہوئے اقتدار سے خوفزدہ ہو کر جب اس کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو حیدر علی نے میسور کے تخت پر قبضہ کر لیا۔ راجا کو اس نے اب بھی برقرار رکھا، لیکن اقتدار پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کی حکومت کا آغاز 1761ء سے ہوتا ہے۔ حیدر علی کی تخت نشینی کے وقت ریاست میسور میں صرف 33 گاؤں تھے۔ مگر انھوں نے تھوڑے ہی عرصے میں اسی ہزار مربع میل علاقے میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ انگریزوں کے خلاف سلطان حیدر علی نے دو جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ میسور 1767ء تا 1769ء میں حیدر علی نے مدراس کی دیواروں کے نیچے پہنچ کر انگریزوں کو صلح پر مجبور کر دیا۔ دوسری جنگ میسور 1780ء تا 1784ء میں انھوں نے کرنل بیلی اور میجر منرو کو فیصلہ کن شکستیں دیں۔ اسی جنگ کے دوران میں 7 دسمبر 1782ء میں سلطان نے بعارضہ سرطان وفات پائی۔

سلطان حیدر علی ان پڑھ تھے مگر بڑے بیدار مغز حکمران تھے۔ وہ پانچ مختلف زبانوں میں بات چیت کرسکتے تھے۔ ان کی قوت حافظہ بہت تیز تھی۔ وہ بیک وقت کئی احکامات جاری کرتے اور لکھواتے وقت ہر حکم کی عبارت میں تسلسل قائم رکھتے اور پیچیدہ گھتیوں کو فوراً حل کر لیتے تھے۔ شخصی خوبیوں کو بھانپنے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ ان میں تعصب نام کو بھی نہ تھا۔ ہر مذہب اور ہر فرقے کے لوگوں سے یکساں سلوک کرتے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کسی سے رعایت نہ کرتے تھے۔ ان کی عقابی نگاہوں نے مغل سلطنت کے زوال، ہندوستان کی طوائف الملوکی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے استعماری منصوبوں کو بھانپ لیا اور ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی داغ بیل ڈالی۔ آپ کی وفات کی کے بعد آپ کے فرزند ٹیپو سلطان تخت میسور پر بیٹھے۔

1782 میں فرانسیسی بحریہ کے امیرالبحر سوفرین کے ساتھ ملاقات۔
سلطان حیدر علی کی مزار، کولار کرناٹک میں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Mohibbul Hasan (2005)۔ History of Tipu Sultan۔ Aakar Books۔ صفحہ: 21۔ ISBN 8187879572۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2013 
  2. "نسب قریش،صفحہ نمبر 1"