بیگہ بیگم

بادشاہ ہمایوں کی پہلی بیوی


بیگہ بیگمحاجی بیگم (پیدائش: 1511ء— وفات: 17 جنوری 1582ء) مغلیہ سلطنت کے دوسرے بادشاہ ہمایوں کی بیوی اور مغلیہ سلطنت کی ملکہ تھیں۔ انھوں نے ہمایوں کی دو بار کی حکومت میں بطور ملکہ حکمرانی کی۔ حج کی ادائیگی کے بعد سے انھیں حاجی بیگم کے نام سے بھی پکارا جانا لگا [1] اور اِسی نام سے وہ عہدِ اکبری کی کتب ہائے تواریخ میں یاد کی جاتی ہیں۔ بیگہ بیگم 1535ء سے 1540ء تک اور 1555ء سے 1556ء تک بطور پادشاہ بیگم حکمرانی کی۔[2][3][4][5] سولہویں صدی عیسوی میں دہلی میں مغل طرز تعمیر کا نہایت شاندار مقبرہ مقبرہ ہمایوں بھی بیگہ بیگم کی زیر نگرانی تعمیر ہوا جسے تاج محل کی تعمیر سے قبل ہندوستان میں ہند اسلامی طرز تعمیر کا شاندار اور عظیم الشان شاہکار قرار دِیا جاتا ہے۔[6][7][8][9][10][11]

بیگہ بیگم
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1511ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خراسان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 17 جنوری 1582ء (70–71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرہ ہمایوں  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات نصیر الدین محمد ہمایوں (1527–27 جنوری 1556)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد الامان مرزا  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان تیموری خاندان  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
ہمسر ملکہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
30 دسمبر 1530  – 17 مئی 1540 
در مغلیہ سلطنت 
ماہم بیگم 
رقیہ سلطان 
پادشاہ بیگم   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
27 اپریل 1535  – 17 مئی 1540 
در مغلیہ سلطنت 
ماہم بیگم 
رقیہ سلطان 
ہمسر ملکہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
22 فروری 1555  – 27 جنوری 1556 
در مغلیہ سلطنت 
ماہم بیگم 
رقیہ سلطان 

سوانح ترمیم

خاندان ترمیم

بیگہ بیگم نسلاً خراسان سے تھیں۔[12] اُن کے والد یادگار بیگ سلطان علی مرزا کے بھائی تھے جو کامران مرزا کے سسر اور زوجہ کامران مرزا گل رخ بیگم کے والد تھے۔

پیدائش اور تعلیم و تربیت ترمیم

 
مقبرہ ہمایوں، دہلی

بیگہ بیگم کی پیدائش 1511ء میں خراسان میں ہوئی۔ وہ عاقلہ تھیں اور تعلیم سے شغف کی بنا پر اُن کی اچھی تربیت کی گئی اور علم طب میں دلچسپی کی وجہ سے وہ پہلی ملکہ تھیں جنہیں علم طب سے آشنائی حاصل تھی۔

نصیر الدین محمد ہمایوں سے عقدِ نکاح ترمیم

1527ء میں بیگہ بیگم کی شادی نصیر الدین محمد ہمایوں سے ہوئی جو اُس وقت مغل شہزادہ اور کابل کا گورنر تھا۔ نومبر 1528ء میں نصیر الدین محمد ہمایوں سے ایک بیٹا الامان مرزا پیدا ہوا جس پر ظہیر الدین محمد بابر نے اِس جوڑے کو مبارکباد دی۔ لیکن شومئی قسمت سے یہ شہزادہ محض 7 سال کی عمر میں 1536ء میں فوت ہو گیا۔

پادشاہ بیگم ترمیم

بیگہ بیگم ماہم بیگم کی زندگی میں پادشاہ بیگم ہونے کا درجہ حاصل نہیں کر پائیں۔ ماہم بیگم کی وفات کے بعد وہ 27 اپریل 1535ء کو پادشاہ بیگم بن گئیں اور مغل شہنشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں کے پہلے دور یعنی 1540ء تک بدستور وہ اِس عہدے پر فائز رہیں اور ہمایوں کے عہدِ جلاوطنی میں وہ مغل قافلے کے ساتھ ایران گئیں اور وہاں مقیم رہیں۔ ہمایوں کی ہندوستان پر دوبارہ لشکرکشی میں وہ مغل فوج کے ساتھ تھیں اور 22 فروری 1555ء کو دوبارہ پادشاہ بیگم کی حیثیت سے اِس عہدے پر فائز ہوگئیں۔ ہمایوں کی وفات کے بعد وہ دربار میں محض ایک مشیر خاص کی حیثیت سے اپنے تشخص کی بنا پر منفرد رہیں۔ مقبرہ ہمایوں کی تعمیر کے وقت جلال الدین اکبر نے انھیں دہلی بھیج دیا تاکہ وہ اِس مقبرے کی تعمیر کی نگرانی کرسکیں۔ [13][14] 1564ء میں وہ شاہی خواتین کے ہمراہ سفر حج کو روانہ ہوئیں۔ اِس سفر میں گلبدن بیگم بھی اُن کے ہمراہ تھیں۔ 1567ء میں شاہی خواتین کا یہ قافلہ حج سے واپس ہوکر ہندوستان پہنچا۔ بیگہ بیگم کو ادائیگی حج کے بعد حاجی بیگم بھی کہا جانے لگا۔[15][16][17]

وفات ترمیم

بیگہ بیگم نے 70 یا 71 کی عمر میں 17 جنوری 1582ء کو دہلی میں وفات پائی۔ اُن کی تدفین مقبرہ ہمایوں میں کی گئی۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. "Humayun's Tomb"۔ 25 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2013 
  2. Annemarie Schimmel، Burzine K. Waghmar (2004)۔ The Empire of the Great Mughals: History, Art and Culture۔ Reaktion Books۔ صفحہ: 149 
  3. S.K. Banerji (1938)۔ Humayun Badshah۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 97, 232 
  4. Neeru Misra، Tanay Misra (2003)۔ The garden tomb of Humayun: an abode in paradise۔ Aryan Books International۔ صفحہ: 1 
  5. R. Nath (1982)۔ History of Mughal architecture (1. publ. ایڈیشن)۔ Atlantic Highlands, N.J.: Humanities Press۔ ISBN 9780391026506 
  6. Takeo Kamiya۔ "HUMAYUN'S TOMB in DELHI"۔ یونیسکو۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولا‎ئی 2013 
  7. S. M. Burke (1989)۔ Akbar, the Greatest Mogul۔ Munshiram Manoharlal Publishers۔ صفحہ: 191 
  8. Abraham Eraly (2007)۔ The Mughal world : Life in India's Last Golden Age۔ Penguin Books۔ صفحہ: 369۔ ISBN 9780143102625 
  9. Vincent Arthur Smith (1919)۔ Akbar: The Great Mogul 1542-1605۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 125 
  10. Carol E. Henderson (2002)۔ Culture and Customs of India۔ Greenwood Press۔ صفحہ: 90۔ ISBN 9780313305139 
  11. "Mausoleum that Humayun never built"۔ دی ہندو۔ April 28, 2003۔ 06 دسمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2013 
  12. A. S. Bhalla (2015)۔ Monuments, Power and Poverty in India: From Ashoka to the Raj۔ I.B.Tauris۔ صفحہ: 74۔ ISBN 1784530875 
  13. edited by Deborah Cherry، Helland, Janice (2005)۔ Local/global : Women Artists in the Nineteenth Century۔ Ashgate۔ صفحہ: 70۔ ISBN 9780754631972 
  14. John Capper (1997)۔ Delhi, the capital of India. (AES reprint. ایڈیشن)۔ New Delhi: Asian Educational Services۔ صفحہ: 81۔ ISBN 9788120612822 
  15. Vincent Arthur Smith (1919)۔ Akbar: The Great Mogul 1542-1605۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 75 
  16. Ruby Lal (2005)۔ Domesticity and power in the early Mughal world۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ صفحہ: 212۔ ISBN 9780521850223 
  17. Neeru Misra، Tanay Misra (2003)۔ The garden tomb of Humayun: an abode in paradise۔ Aryan Books International۔ صفحہ: 1