خاطر غزنوی

ادیب، شاعر، پروفیسر، نقاد
(خاطر غزنوي سے رجوع مکرر)

پروفیسر خاطر غزنوی (پیدائش: 25 نومبر، 1925ء - وفات: 7 جولائی، 2008ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر، ادیب، نقاد، پشاور یونیورسٹی کے استاد اور اکادمی ادبیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل تھے۔

خاطر غزنوی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: مرزا ابراہیم بیگ ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 1925ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پشاور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 7 جولا‎ئی 2008ء (82–83 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پشاور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعۂ پشاور   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہرِ لسانیات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  ہندکو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت ریڈیو پاکستان ،  اکادمی ادبیات پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

خاطر غزنوی 25 نومبر، 1925ء کو اس وقت کے برطانوی ہندوستان کے شہر پشاور میں پیدا ہوئے۔[1][2] ان کا اصل نام مرزا ابراہیم بیگ اور خاطر تخلص تھا[3]۔ انھوں نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان پشاور سے کیا۔ بعد ازاں پشاور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا اور اسی شعبہ میں تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ اس دوران وہ دو ادبی جرائد سنگ میل اور احساس سے منسلک رہے۔ 1984ء میں انھیں اکادمی ادبیات پاکستان کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔[2]

خاطرغزنوی جدید اردو اور ہندکو شاعری اور نثر میں ایک منفرد حیثیت کے حامل تھے۔ ان کی شاعری میں انسان بولتا ہے، وقت اپنی راگنی سناتا ہے، ماحول اپنے نغمے الاپتا ہے۔ جدید دور کی زندگی میں جو کچھ ہے، جو کچھ ہو سکتا ہے یا جو کچھ ہونا چاہیے، اس کی ان گنت تصویریں خاطر کی شاعری میں نمایاں ہو کر مجموعی طور پر اس کو نئی زندگی کا مرقع بلکہ نگار خانہ بناتی ہیں اور یہی ان کی شاعری کی نمایاں ترین خصوصیت ہے۔ ان مشہور غزل ملاحظہ ہو:[1]

گو ذرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئےلیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
میں اِسے شہرت کہوں یا اپنی رُسوائی کہوںمجھ سے پہلے اُس گلی میں، میرے افسانے گئے
یوں تو وہ، میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدیک تر آنسوؤں کی دُھند میں، لیکن نہ پہچانے گئے
وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر ہو گئیں ہم جہاں پہنچے، ہمارے ساتھ ویرانے گئے
اب بھی ان یادوں کی خوشبو ذہن میں محفوظ ہے بارہا ہم جن سے گلزاروں کو مہکانے گئے
کیا قیامت ہے کہ خاطر کشتۂ شب بھی تھے ہم صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے

تصانیف

ترمیم

شاعری

ترمیم
  • روپ رنگ
  • خواب درخواب
  • شام کی چھتری
  • کونجاں
  • اُردو زبان کا مآخذ ہندکو
  • زندگی کے لیے پھول
  • پھول اور پتھر
  • چٹانیں اور رومان
  • رزم نامہ
  • سرحد کے رومان
  • پشتو متلونہ
  • دستار نامہ
  • پٹھان اور جذباتِ لطیف
  • خوش حال نامہ
  • چین نامہ
  • اصناف ادب
  • ایک کمرہ
  • جدید اُردو ادب

اعزازات

ترمیم

حکومت پاکستان نے خاطر غزنوی کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر صدراتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔[2]

وفات

ترمیم

خاطر غزنوی 7 جولائی، 2008ء کو پشاور، پاکستان میں وفات پاگئے اور قبرستان رحمٰن بابا پشاور میں آسودۂ خاک ہوئے۔[1][2][3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ "خاطر غزنوی، پاکستانی کنیکشنز، برمنگھم برطانیہ"۔ 23 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2015 
  2. ^ ا ب پ ت ص 1011، پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء
  3. ^ ا ب ریختہ ویب، بھارت