خداداد خان (مصنف)

مصنف، مورخ، انگریز عملدار

خان بہادر خداداد خان (پیدائش: 1838ء - وفات:1903ء) پاکستان کے انیسویں صدی کے مورخ اورانگریز راج میں سندھ کے سرکاری ملازم تھے۔ فارسی زبان میں ان کی تالیف لب تاریخ سندھ سندھ کی تاریخ پر اہم مآخذ مانی جاتی ہے۔

خداداد خان (مصنف)
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1838ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سکھر ،  سندھ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1903ء (64–65 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سکھر ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مورخ ،  مصنف ،  وقائع نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  سندھی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل سندھ کی تاریخ ،  سفرنامہ ،  کرانیکل   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

خان بہادر خداداد خان 1838ء میں سکھر سندھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد رضا محمد خان کا تعلق پشین، بلوچستان کے ترین پٹھانوں سے تھا جو پشین سے ہجرت کرکے سکھر میں سکونت پزیر ہوئے۔ خداداد خان نے ابتدائی تعلیم سکھر کے قریب گاؤں میں حاصل کی۔ ان دنوں میجر گولڈسمتھ سندھی اسکولوں کا ناظرِ مکتب تھا جس نے خداداد خان کی لیاقت کو دیکھتے ہوئے سرکاری ملازمت دی۔ 1853ء میں شکارپور، سندھ کے جوڈیشل ڈپٹی مجسٹریٹ کے منشی مقررہوئے اور اپنی قابلیت سے 1857ء میں کمشنر سندھ کے سیکریٹریٹ میں داخل ہوئے۔ وہاں سے ترقی کرتے ہوئے پولیٹیکل سروس میں شامل ہوئے اور سرکاری کمیشن کے ساتھ بغداد، دہلی، مکران اور کوئٹہ تک سفر کیا۔ خداداد خان 1896ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہوکر پرانے سکھر میں واقع اپنے بنگلے میں رہائش پزیر ہوئے جہاں ان کی مسجد بھی واقع ہے۔[1]

اعزازات

ترمیم

پہلے خان صاحب اور 1893ء میں خان بہادر کا خطاب ملا اور اس کے علاوہ تین سو ایکڑ زمین دو پشتوں تک بطور جاگیر ملی۔ 1898ء میں کمشنر سندھ ہنری جیمس نے سندھ چھوڑنے سے پہلے سکھر میں دربار کے دوران خداداد خان کو ان کی علمی لیاقتوں کے صلے میں تلوار، تمغا اور سند دے کر جاگیر کے لیے سفارش کرتے گئے۔[1]

تصانیف

ترمیم

لب تاریخ سندھ

ترمیم

سندھ کی فارسی میں تاریخ ہے جو 1900ء میں ریاض الہند پریس امرتسر سے شائع ہوئی۔ اس تاریخ میں سندھ کے کمشنروں کا احوال درج ہے۔ اس کتاب کا نسخہ ثانی سندھی ادبی بورڈ جامشورو نے شائع کیا ہے۔[2]

وقائع سیر جیسلمیر

ترمیم

خداداد خان 1859ء میجر گولڈ سمتھ کے ساتھ جیسلمیر گئے تھے۔ یہ کتاب اسی سفر کی داستان ہے۔ یہ کتاب 1867ء میں شائع ہوئی۔[2]

خلیج نامہ

ترمیم

خداداد خان کے 1861ء میں کمشنر سندھ مینسفیلڈ کے ساتھ بغداد گئے تھے۔ اس کتاب میں ایرانی خلیج کا احوال ہے۔[2]

مکران نامہ

ترمیم

1862ء میں خداداد خان میجر گولڈسمتھ کے ساتھ مکران اور ایران کی حد بندی کرنے کے سلسلے میں گئے تھے۔ اس کتاب میں انیسویں صدی کی حالتوں، لسبیلہ اور مکران کا احوال پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 1862ء میں شائع ہوئی۔[2]

پل نامہ

ترمیم

1886-87ء میں بمبئی کے گورنر لارڈ رے (ڈانلڈ میکے) سکھر کے لینسڈائون پل کا افتتاح کرنے کے لیے سندھ آئے تھے۔ بکھر کے قلعہ میں دربار ہوا۔ سندھ، پنجاب اور ہندوستان سے بہت سے لوگ آئے۔ سکھر میونسپل کی طرف سے گورنر کو سپاس نامہ پیش کیا گیا۔ اس تمام جلسے کا انتظام و انصرام خداداد خان نے کیا جو مذکورہ کتاب "پل نامہ" میں درج ہے۔[2]

سیاحت نامہ

ترمیم

1892ء میں خداداد خان سرکاری دورے پر راجکوٹ، احمد آباد، پونہ، اجمیر، دہلی اور امرتسر گئے۔ مذکورہ شہروں کا احوال سیاحت نامہ میں درج ہے۔[2]

خیرپور نامہ

ترمیم

میر سہراب خان ٹالپر اور ان کے بیٹے میر رستم خان ٹالپر، میر مبارک خان ٹالپر اور میر علی مراد خان ٹالپر کی جاگیروں، سیاسی حالتوں اور وفات کا احوال خیرپور نامہ میں درج ہے۔ یہ کتاب 1894ء میں کراچی سے شائع ہوئی۔[2]

سندھی کی جاگیرداری کی تاریخ

ترمیم

خداداد خان نے سندھ کی جاگیرداری کی تاریخ مرتب کی جو 1886ء میں ہسٹری آف ایلینیشن ان دی پراونس آف سندھ جلد 1 میں انگریزی میں درج ہے۔[3]

سندھ کے شہر

ترمیم

کمشنر سندھ میری ویدر کے حکم سے خان بہادر خداداد خان نے سندھ کے ابتدائی تین ضلعوں کراچی، حیدرآباد اور شکارپور کے اہم شہروں اور بزرگوں کا احوال 1896ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کو حکومت نے ترجمہ کراکے سندھ کے سرکاری عملداروں اور برطانیہ کے معززین میں تقسیم کی[3]

وفات

ترمیم

خان بہادر خداداد خان کی وفات 1903ء میں ہوئی اور اپنے رہاشی بنگلے کے احاطے میں دفن ہوئے۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ رحیمداد خان مولائی شیدائی: تاریخ سکھر، سندھی ادبی بورڈ، جامشورو،2005ء، ص 268
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج تاریخ سکھر، ص 269
  3. ^ ا ب تاریخ سکھر، ص 270