خواجہ پرویز (پیدائش: 28 دسمبر 1932ء— وفات: 21 جون 2011ء) ایک مایہ ناز پاکستانی فلمی نغمہ ساز غنائی شاعر اور نغمہ نگار تھے جنہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں کے لیے موسیقی دی۔ ان کا پیشہ ورانہ کیریئر 40 سال پر محیط ہے۔ [1][2][3]

خواجہ پرویز
معلومات شخصیت
پیدائش 28 دسمبر 1932  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امرتسر  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 21 جون 2011 (79 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن میانی صاحب قبرستان  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت Flag of Pakistan.svg پاکستان
British Raj Red Ensign.svg برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ غنائی شاعر،  نغمہ نگار،  مصنف،  شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پنجابی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائشترميم

28 دسمبر 1932ء میں ہندوستان کے شہر امرتسر کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام خواجہ غلام محی الدین تھا اور وہ پرویز تخلص کیا کرتے تھے۔ پھر یہی تخلص ان کی پہچان بن گیا اور یوں وہ فلمی دنیا میں خواجہ پرویز کے نام سے مشہور ہوئے۔[4]

تعلیمترميم

انہوں نے 1954ء میں دیال سنگھ کالج سے گریجویشن کی جہاں اس وقت کے معروف ہدایت کار ولی کے صاحبزادے ظفر اقبال بھی زیر تعلیم تھے،[5]

ہدایت کاریترميم

خواجہ پرویز کی ظفر اقبال سے دوستی تھی جس کی وجہ سے ان کی ہدایت کار ولی تک رسائی ہوئی اور انہوں نے 1955ء میں انہیں اپنا اسسٹنٹ رکھ لیا اور یوں ایک طرح سے ان کی فلمی کیئریر کا آغاز ہوا۔

اس دوران انہوں نے تین پنجابی فلمیں’گڈی گڈا‘،’لکن میٹی‘اور سوہنی کمہارن مکمل کروائیں لیکن پھر وہ فلمی ادارہ ہی بند ہوگیا جس میں خواجہ پرویز کام کررہے تھے۔

لاہور کی فلمی دنیا میں اسسٹنٹ ڈائریکٹروں کی تعداد ہزاروں میں ہوگی لیکن ان میں سے بہت کم اپنا کیریئر بنا پاتے ہیں۔ خواجہ پرویز ان خوش قسمت اسسٹنٹ ڈائریکٹرز میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ہدایت کاری میں نہ سہی لیکن نغمہ نگاری میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے،[6]

نغمہ نگاریترميم

تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آگئے اور لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔ ان دنوں لاہور فلمی صنعت کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔

وہ معروف نغمہ نگار سیف الدین سیف کے اسسٹنٹ اور شاگرد بن گئے۔ ان کی طبعیت پہلے سے ہی نغمہ نگاری کی طرف مائل تھی اور سیف الدین سیف کی شکل میں انہیں جیسے من کی منزل مل گئی۔

سب سے پہلے ہدایت کار دلجیت مرزا نے اپنی فلم ’رواج‘ کے گیت ان سے لکھوائے۔اس فلم میں مالا کی آواز میں گایا گیا ان کا تحریر کردہ گیت ’کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا‘ بہت مقبول ہوا۔اس گانے کی دھن ماسٹر عنایت نے بنائی تھی۔

بعد ازاں خواجہ پرویز شباب کیرانوی کے ادارے سے منسلک ہو گئے جہاں ایم اشرف جیسے عظیم موسیقار بھی تھے۔ یہاں خواجہ پرویز کے لکھے گیت ایک کے بعد ایک ہٹ ہوتے چلے گئے۔

نوجوان خواجہ پرویز 1950ء کی دہائی میں گیت نگاری سے وابستہ ہوگئے مگر ان کو فلمی شاعر کے طور پر حقیقی پہچان ان کے 1964ء میں لکھے گئے نغمے ”تم ہی ہو محبوب میرے، میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں“ سے ملی۔ خواجہ پرویز نے 10 ہزار سے زائد فلمی نغمے تحریر کیے۔ انہیں یہ کمال حاصل تھا کہ وہ بیک وقت اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں گیت نگاری کرتے تھے۔ اگر کہیں ’’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘‘ اور ’’ جب بھی کوئی پیار سے بلائےگا‘‘ گنگنائے گئے تو کہیں ”سُن وے بلوری اکھ والیا“ اور ”او وے سونے دے یا کنگنا“ گائے گئے۔ مسرت نذیر کے شادی بیاہ کے گیتوں کی معروف البم کے نغمے بھی خواجہ پرویز نے ہی تحریر کیے تھے اور استاد نصرت فتح علی خان نے بھی خواجہ پرویز کے کئی مقبول نغمے گائے جن میں

  • ”اکھیاں اڈیک دیاں دل واجاں مار دا“
  • " جب کوئی پیار سے بلائے گا"
  • ،"کسے دا یار نہ وچھڑے"،"
  • ماہی آوے گا"،
  • "میری چیچی دا چھلا ماہی لاہ لیا"
  • ،"،’’تم ہی محبوب میرے‘‘،’
  • ’تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں‘‘۔،
  • دو دل اک دوجے کولوں دور ہو گئے

جیسے مقبول گیت شامل ہیں ۔

ملکہ ترنم نورجہاں ، مہدی حسن اور فلمی صنعت کے تقریباً سب ہی اہم گلوکاروں نے خواجہ پرویز کے لکھے ہوئے گیت گائے۔ حالیہ برسوں میں پاکستانی فلمی صنعت روبہ زوال ہوئی تو خواجہ پرویز نے گیت نگاری مختصر کی اور اسٹیج کے لیے لکھنا شروع کردیا۔ انہوں نے نصف صدی تک پاکستانی فلمی صنعت کی بطور گیت نگار خدمت کی۔ وہ ایک باغ و بہار شخصیت تھے۔ وہ جس محفل میں ہوتے جان محفل بن جاتے۔ ان کے برجستہ جملے دوستوں کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیرتے تھے۔[7]

ان کے کچھ مقبول گیتترميم

نغمہ گلوکار موسیقی فلم اور سال
تم ہی ہو محبوب میرے[8] آئرین پروین اور مسعود رانا ایم اشرف فلم آئینہ (1966)
"میری چیچی دا چھلا ماہی لا لیا"[1] نور جہاں ایم اشرف فلم دھی رانی (1969)
سن وے بلوری اکھ والیا نور جہاں طافو فلم انورا (1970)
دل وی دھک دھک پائے دھمالاں[9] نور جہاں طافو فلم پہلوان جی ان لندن (1971)
وے سب توں سوہنیا, ہائے وے من موہنیا تصور خانم نذیر علی فلم رنگیلا (1970)
اکھ لڑی بدو بدی, موقع ملے کدی کدی نور جہاں بخشی وزير فلم بنارسی ٹھگ (1973)
نشیاں نے ساڑیا مسعود رانا بخشی وزير فلم بنارسی ٹھگ (1973)
پیار بھرے دو شرمیلے نین[10] مہدی حسن رابن گھوش فلم چاہت (1974)
میری ویل دی قمیص اج پاٹ گئی اے نور جہاں طافو فلم ڈاڈا (1977)
یہی ہے پیارے زندگی, کبھی ہیں غم کبھی خوشی اخلاق احمد کمال احمد فلم پرنس (1978)
جے میں ہوندی ڈھولنا سونے دی تویتڑی نور جہاں وجاہت عطرے فلم شعلے (1984)
ماہی آوے گا میں پھلاں نال دھرتی سجاواں گی نور جہاں نذیر علی فلم قیدی (1986)
میرا لونگ گواچا مسرت نذیر وزير افضل پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک پروڈکشن
سانوں اک پل چین نہ آوے سجناں تیرے بنا[10] نصرت فتح علی خان نصرت فتح علی خان 1993 رلیز
اکھیاں اڈیکدیاں نصرت فتح علی خان نصرت فتح علی خان

سٹیج شوزترميم

پاکستانی فلمی صنعت میں بحران کی وجہ سے فلمی گانے لکھنا تو تقریباً ختم تھا تاہم خواجہ پرویز نے اس دوران کئی مشہور اسٹیج ڈرامے تحریر کیے اور ان دنوں وہ اسٹیج شوز کی میزبانی بھی کر رہے تھے

وفاتترميم

خواجہ پرویز 20 جون 2011ء کی شام اپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپرد کیے گئے، خواجہ پرویز ذیایبطس کے مرض میں مبتلا تھے اور ایک ہفتے سے لاہور کے میو ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔[11] اچانک ان کی طبعیت مزید بگڑ گئی اور انہیں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔ انہوں نے اپنے سوگواروں میں پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں چھوڑیں۔[12]

حوالہ جاتترميم

بیرونی روابطترميم