دعائے ندبہ اہل تشیع میں مروج ایک مشہور دعا ہے جو تشیع کے چھٹے امام جعفر الصادق سے منقول ہے۔ یہ دعا روز جمعہ، عید الفطر، عید الاضحی اور روز غدیر کو پڑھی جاتی ہے۔ ندبہ کے معنی گریہ و بکا کے ہیں جو اِس دعا کے متن میں واقع تشیع کے بارہویں امام یعنی امام المہدی المنتظر کے فراق، استغاثہ اور اُن کی غیبت کبریٰ کے اظہار تاسف پر کیا گیا ہے۔

اوقات قرات ترمیم

شیعہ علماء کے نزدیک دعائے ندبہ کی قرات عید الفطر، عید الاضحی، روز غدیر اور جمعہ کے دن کرنا مستحب ہے۔[1] عموماً یہ دعا جمعہ کے دن طلوع آفتاب سے قبل اہل تشیع کے بارہویں غائب امام یعنی امام منتظر المہدی کے فراق میں پڑھی جاتی ہے۔

 
دعائے ندبہ

سند ترمیم

سید علی بن موسیٰ بن طاؤس (متوفی 664ھ/ 1266ء) نے اقبال الاعمال[1] اور کتاب مصباح الزائر میں اور چھٹی صدی ہجری کے عالم محمد بن جعفر بن مشہدی حائری نے اپنی کتاب مزار المعروف بہ مزار ابن مشہدی میں نقل کیا ہے۔[2] علامہ باقر مجلسی نے اِس دعا کو بحار الانوار میں اور تحفۃ الزائر میں نقل کیا ہے اور بحار الانوار کے دیباچہ میں اِس دعا کی سند کے معتبر ہونے کی شہادت دی ہے اور زادالمعاد میں اِس دعا کا سلسلہ امام جعفر الصادق تک پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔[3][4]

متن دعا ترمیم

اردو ترجمہ ترمیم

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو جہانوں کا پروردگار ہے اور درود و سلام ہو ہمارے آقا و سرور جناب محمد(ص) پر جو اس کے پیغمبر ہیں اور آپ(ص) کے خاندان پر، سلام کامل ہو ان پر خداوندا! تیرے لیے ہیں، تمام تعریفیں، اس قضا و قدر کے لیے جو جاری ہوئی تیرے مقرب بندوں پر، جنہیں تو نے خالص کر دیا اپنے لیے اور اپنے دین کے لیے، جب تو نے اختیار کیا اپنے ہاں سے ان کے لیے اس عظیم اور دائمی نعمت کو، جو تیرے پاس ہے، وہی نعمیت جس زوال نا پزیر اور فنا ناپذیر ہے اور (یہ) اس کے بعد (تھا جب) تو نے ان کے ساتھ مشروط کیا کہ وہ اجتناب کریں اور زہد اختیار کریں اس پست دنیا کے درجات (اور دنیاوی منزلتوں) سے اور اس کے زیب و زیور سے، تو انھوں نے بھی تیری اس شرط کو قبول کیا اور تو نے ان کی وفا کو اس شرط کے بموجب جان لیا اور انھیں قبول کیا اور اپنی درگاہ کے مقربین میں شامل کیا اور عطا کیا ان کو بلند چرچا اور ان کی ثناء کو ظاہر و آشکار کیا اور بھیجے تو نے اپنے فرشتے ان کی طرف اور ان کی تکریم کی اپنی وحی سے اور ان کو مدد پہنچا دی اپنے علم سے اور انھیں قرار دیا واسطہ اپنی درگاہ کا اور وسیلہ اپنی خوشنودی کی جانب، تو بعض کو تو نے اپنے بہشت میں بسایا یہاں تک کہ انھیں وہاں سے نکال دیا اور بعض کو اپنی کشتی میں سوار کیا اور انھیں اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو ہلاکت سے نجات دلائی، اپنی مہربانی سے اور بعض کو تو نے اپنے لیے دوست اور خليل قرار دیا اور انھوں نے تجھ سے اگلی امتوں میں نیک نام کی درخواست کی، تو تو نے استجابت کردی اور بلند قرار دیا ان کے نام کو اور بعض کے ساتھ تو نے خاص طور پر درخت کے ذریعے کلام کیا اور ان کے بھائی کو قرار دیا ان کے لیے ناصر و مددگار اور وزیر اور بعض کو تو نے باپ کے بغیر پیدا کیا اور انھیں آشکار نشانیاں عطا کیں اور روح القدس کے واسطے سے اور ان میں سے ہر ایک کے لیے دین اور قانون مقرر کیا اور طریقہ و منہاج قرار دیا اور منتخب کیا ان کے لیے، ایسے اوصیاء اور جانشینوں کو، تاکہ حافظ و نگہبان رہیں یکے بعد دیگرے، ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک، تاکہ قائم رہے تیرا دین اور وہ اور حجت ہوں تیرے بندوں پر، تاکہ زوال پزیر نہ ہو (دین) حق اپنے مقام سے اور تاکہ کامیاب نہ ہو باطل اہل حق پر اور کوئی بھی یہ نہ کہہ سکے کہ تو نے کیوں نہیں بھیجا جو ہمیں ڈرائے اور تو نے قائم کیوں نہیں کیا ایسا راہنما پرچم جس کی ہم پیروی کریں تیری نشانیوں کی، قبل اس کے کہ ہم خوار و رسوا ہوجاتے؛ حتی کہ تو نے پہنچا دیا کام کو پہنچا دیا اپنے حیبب اور برگزیدہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ تک، تو آپ(ص) ویسے ہی تھے جس طرح کہ تو نے چن لیا آپ(ص) کو بطور آقا اپنی مخلوقات کے، بطور برگزیدہ اپنے برگزیدوں کے اور افضل قرار دیا ان لوگوں میں جنہیں تو نے پسند فرمایا اور آپ(ص) تیرے بہترین اور معتمد برگزیدہ تھے جنہیں تو نے مقدّم کیا اپنے انبیا پر اور آپ(ص) کو مبعوث فرمایا جنّ و انس میں سے سے، اپنے بندوں کی جانب اور عالَم کے مشرقوں اور مغربوں کو آپ(ص) کے قدموں کے لیے ہموار کر دیا اور بُرّاق کو ان کے لیے مسخّر کیا اور آپ(ص) کو معراج کرائی اپنے آسمان کی اور آپ(ص) کو عطا کیا اپنی مخلوقات کے ماضی و مستقبل کا علم، خلقت کے خاتمے تک؛ اور پھر آپ(ص) کی نصرت فرمائی (آپ(ص) کے دشمنوں کے دلوں میں) رعب اور خوف کے ذریعے اور آپ(ص) کو گھیر دیا جبرائیل و میکائیل اور اپنے نشان زدہ فرشتوں سے اور آپ(ص) کو وعدہ دیا کہ آپ(ص) کا دین غالب آئے گا تمام ادیان پر، خواہ یہ مشرک لوگوں کو ناپسند ہی کیوں نہ ہو اور یہ سب اس کے بعد تھا جب تو نے آپ(ص) کے خاندان سے آپ(ص) کو صداقت کے مقام پر جگہ دی (یعنی آپ(ع) کے خاندان کو آپ(ص) کے دین کے تحفظ کے لیے متعین فرمایا) اور قرار دیا آپ(ص) کے لیے اور آپ(ص)کے خاندان کے لیے جو مقرر ہوا تمام لوگوں کے لیے، سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے لیے مقرر ہوا، وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت اور سرمایہ ہدایت تمام جہانوں کے لیے، اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، خصوصیت سے مقام ابرہیم اور جو اس کے اندر پہنچ جائے وہ امن میں ہے' اور تو نے فرمایا: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اے اس گھر والو! اللہ تمھیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے؛ اور پھر تو نے اپنی کتاب میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے اجر (رسالت) کو ان (اہل بیت(ع) کی مودت قرار دیا، پس تو نے اپنی کتاب میں فرمایا: کہئے (اے میرے حبیب کہ)! میں تم سے اس (رسالت) کے عوض کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا قرابت داروں کی محبت کے اور تو نے فرمایا: کہئے کہ میں نے تم سے جو اجر طلب کیا ہے، وہ تو تمھارے ہی لیے ہے؛ اور فرمایا: کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس (رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا مگر جو چاہے کہ اپنے پروردگار کی طرف راستہ بنائے؛ اور یہی اہل بیت ہی تھے وہی راستہ جو تیری طرف آتا ہے اور تیری خوشنودی حاصل کرنے کی طرف سلوک کا رستہ اور جب آپ(ص) کا زمانہ اختتام کو پہنچا تو آپ(ص) نے اپنے جانشین علی بن ابی طالب کو اپنا ولی اور جانشین متعین فرمایا ـ کہ تیرا درود ہو ان دونوں پر ـ اور ان دونوں کے خاندان پر کیونکہ آپ(ص) متنبہ کرنے والے اور تیرے عذاب سے ڈرانے والے تھے اور ہر قوم کا ایک راہنما ہوتا ہے، تو آپ(ص) نے فرمایا اور لوگ آپ(ص) کے سامنے تھے کہ میں جس جس کا مولا اور سرپرست ہوں یہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہیں، خداوندا تو دوست رکھ اسے جو انھیں دوست رکھے اور دشمنی رکھ اس سے جو ان سے دشمنی کرے اور مدد کر اس کی جو ان کی مدد کرے اور چھوڑ دے اسے جو انھیں تنہا چھوڑ دے؛ اور فرمایا: میں جس جس کا پیغمبر ہوں تو علی(ع) بھی اس کے امیر اور فرمانروا ہیں اور فرمایا: میں اور علی(ع) ایک ہی درخت سے ہیں اور دوسرے لوگ مختلف دوسرے درختوں سے ہیں اور آپ(ص) نے اپنی نسبت علی(ع) کو وہی رتبہ عطا کیا جو موسی(ع) کے نزدیک ہارون(ع) کو حاصل تھا اور آپ(ع) سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے علی! تمھاری منزلت میرے نزدیک وہی ہے جو موسی(ع) کے نزدیک ہارون(ع) کو حاصل تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے اور اپنی بیٹی ـ جہانوں کی خواتین کی سردار ـ کا نکاح علی(ع) سے کرایا اور اپنی مسجد میں علی(ع) کے لیے وہ سب کچھ حلال کیا جو آپ(ص) کے لیے حلال تھا اور مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کر دیا سوائے علی(ع) کے گھر کے دروازے کے، پھر اپنی دانش و حکمت کو علی(ع) کے سپرد کیا اور فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں، تو جو اس شہر کی حدود نیز حدودِ حکمت میں داخل ہونا چاہے، تو اسے شہر کے دروازے سے آنا چاہیے اور فرمایا: پھر فرمایا: اے علی(ع)! تم میرے بھائی اور جانشین اور وارث ہو، تمھارا گوشت میرے گوشت سے ہے، تمھارا خون میرے خون سے ہے اور تمھاری صلح میری صلح ہے، تمھاری جنگ میری جنگ ہے اور ایمان تمھارے گوشت اور خون میں گھل مل گیا ہے، جس طرح کہ وہ میرے گوشت اور خون میں میں شامل ہے اور تم کل (بروز قیامت) حوض کوثر پر میرے جانشین ہو اور تم ہی میرے قرض اتارو گے اور میرے وعدے نبھاؤگے اور تمھارے شیعہ جنت میں میرے مقامِ قرب میں، سفید (اور نورانی) چہروں کے ساتھ، نور کے منبروں پر رونق افروز ہوں گے اور وہ میرے پڑوسی ہیں اور اگر تم نہ ہوتے اے علی! تو میرے بعد اہل ایمان کی پہچان ممکن نہ ہوتی اور علی(ع) آپ(ص) کے بعد راہنما تھے گمراہی سے، وہ ہدایت دلانے والے اور اندھیرے سے اجالے میں لانے والے اور اللہ کی مضبوط رسی اور اس کا سیدھا راستہ تھے، نہ تو صاحبان قرابت میں آپ(ع) سے کوئی بڑھ کر تھا نہ ہی دین میں آپ(ع) سے کوئی سابق اور نہ ہی کوئی آپ(ع) کی کسی منقبت میں آپ(ع) تک پہنچ سکا؛ آپ(ع) رسول خدا(ص) کی مانند تھے ـ درود و سلام ہو ان دونوں پر اور ان کی آل پر ـ اور علی(ع) ہی تھے جو تأویل قرآن پر لڑے اور اللہ کی راہ میں کبھی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کی اور اس راہ میں آپ(ع) نے عرب کے سرداروں کو ہلاک کر ڈالا اور ان کے دلیروں کو قتل کیا اور ان کے بھیڑیوں سے لڑے، تو آپ(ع) نے کینہ بھر دیا ان کے دلوں میں، بدر، و خیبر اور حنین کا؛ چنانچہ عرب آپ(ع) کی دشمنی پر اکٹھے ہوئے اور آپ(ع) کے خلاف جنگ و مخالفت کا سلسلہ شروع کیا، حتی کہ قتل کیا آپ(ع) نے ناکثین (عہد شکنوں = طلحہ و زبیر اور ان کے ساتھیوں) کو اور جابروں و ستمگروں کو اور (دین سے ) باہر جانے والے (مارقین = اصحاب نہروان اور خوارج) کو اور جب آپ(ع) نے اپنا وقت پورا کر لیا اور بعد والوں کے بدبخت ترین شخص نے آپ(ع) کو قتل کیا پہلے والوں کے بدبخت ترین شخص کی پیروی کرتے ہوئے، چنانچہ فرماں برداری نہیں ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے فرمان کی، جو آپ(ص) نے یکے بعد دیگرے آنے والے راہنماؤں کے بارے میں جاری کیا تھا اور امت نے آپ(ع) کی دشمنی اور عداوت پر ہٹ دھرمی دکھائی اور آپ(ع) کی قطع رحمی اور آپ(ع) کی اولاد کو خانہ و کاشانہ چھوڑنے پر مجبور کرنے پر مجتمع ہوئی، سوائے ان کے حق کی رعایت کرنے کی خاطر (مختلف موقف اختیار کرنے والے) بہت تھوڑے سے لوگوں کے، پس آپ(ع) کی اولاد میں سے کچھ لوگ قتل ہوئے اور کچھ کو اسیر کیا گیا اور کچھ کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور قضا و تقدیر اس طرح سے ان پر جاری ہوئی جس میں اجر و ثواب کی امید کی جاتی ہے، کیونکہ یقینا زمین اللہ کی ہے، وہ اس پر تسلط عطا کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اور آخرت کی بہتری پرہیز گاروں ہی کا حصہ ہے اور پاک ہے ہمارا پروردگار بے شک ہمارے پروردگار کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے اور، چنانچہ محمد و علی ـ درود و سلام ہو ان دونوں پر اور ان کی آل پر ـ کے خاندان کی پاکیزہ ہستیوں کے لیے روئیں رونے والے اور ان ہی مظلوموں کے لیے گریہ و ندبہ کریں گریہ کرنے والے اور ان جیسے بزرگواروں کے لیے اپنے اشکوں کو رواں کریں اور آہ و فغاں کریں اور اپنے آپ کو وقفِ نالہ و شیون کریں اور آہ و فریاد کرنے والے آہ و فریاد کریں کہ:'

کہاں ہے حسن، کہاں ہے حسین؟، کہاں ہیں فرزندانِ حسین جو صالح تھے یکے بعد دیگرے، سچے تھے یکے بعد دیگرے؟، کہاں ہے حق کا وہ راستہ، پچھلے راہ حق کے بعد، کہاں ہیں وہ برگزیدہ ہستیاں، برگزیدہ ہستیوں کے بعد، کہاں ہیں وہ تابندہ سورج، کہاں ہیں دمکتے ہوئے چاند؟ کہاں ہیں درخشندہ ستارے؟ کہاں ہیں دین کے نشانات اور علم و دانش کے ستون؟ کہاں ہے خدا کا با قی ماندہ (حضرت مہدی(عج)، جو رہبروں کے اس خاندان سے کہیں باہر نہیں ہے، کہاں ہیں ستمگروں کی جڑیں قطع کرنے کے لیے تیار کیے جانے والے؟ کہاں ہیں جن کا انتظار کیا جا رہا ہے کجیوں کو راست کرنے اور ناہمواریوں کو ہموار کرنے کے لیے؟ کہاں ہیں وہ جن کی آنے کی امید کی جارہی ہے ظلم و جارحیت و تجاوز کے خاتمے کے لیے؟ کہاں ہے وہ جسے ذخیرہ کیا گیا ہے فرائض اور سنن کی تجدید و احیاء کے لیے؟ کہاں ہے وہ جس کو منتخب کیا گیا ہے دین و شریعت کو پلٹا کر لانے کے لیے؟ کہاں ہے جس کے آنے کی آرزو ہے کتاب اور اس کے حدود کے احیاء کے لیے؟ کہاں ہے دین کے آثار و نشانات نیز اہل دین کو زندہ کرنے والا؟ کہاں ہے جابروں کی شوکت کو توڑ کر رکھنے والا؟ کہاں ہے شرک اور منافقت کی عمارتیں ڈھانے والا؛ کہاں ہے بدکاروں، نافرمانوں اور سرکشوں کی کو تباہ کرنے والا؟ کہاں ہے گمراہی اور انتشار کی ٹہنیاں کاٹ دینے والا؟ کہاں ہے کجرویوں اور ہوئیٰ و ہوس کے اثرات کو مٹانے والا؟ کہاں ہے جھوٹ اور بہتان کے پھندے کاٹ دینے والا؟ کہاں ہے سرکشوں اور باغیوں کو نیست و نابود کردینے والا؟ کہاں ہے عناد اور دشمنی برتنے والا، گمراہ کرنے والوں اور بے دین گمراہوں کی جڑیں اکھاڑنے والا؟ کہاں ہے دوستوں کو عزت دینے والا اور دشمنوں کو خوار و ذلیل کرنے والا؟ کہاں ہیں پرہیزگاری کی بات کو جمع کردینے والے؟ کہاں ہے اللہ کی وہ درگاہ جس سے مؤمنین وارد ہوں؟ کہاں ہے خدا کا وہ آئینہ جس کی طرف متوجہ ہوں اولیاء؟ کہاں ہے وہ جو زمین و آسمان کے درمیان متصل ہے؟ کہاں ہے یوم فتح کا فرمانروا اور پرچم ہدایت لہرانے والا؟ کہاں ہے نیکی اور رضائے الہی کو اکٹھا کرنے والا؟ کہاں ہے انبیا اور اولاد انبیا کا خون (ناحق) طلب کرنے والا؟ کہاں ہے شہید کربلا کا خون طلب کرنے والا؟ کہاں ہے وہ نصرت یافتہ جو اپنے اوپر ظلم کرنے والے اور جھوٹ باندھنے والے پر غلبہ پائے گا؟ کہاں ہے وہ درماندہ اور پریشان حال جو اگر دعا کرے تو قبول ہوتی ہے؟ کہاں ہے مخلوقات کا سربرآوردہ نیک اور پرہیزگار بزرگ؟ کہاں ہے برگزیدہ پیغمبر کا فرزند اور علی مرتضی کا فرزند اور روشن جبیں خدیجہ اور فاطمۂ کبری کا فرزند حضرت مہدی(عج)؟

میرے ماں بات فدا ہوں آپ پر اور میری جان ڈھال ہو آپ پر آنے والی ہر ناگواری کے سامنے، اے آقاؤں کے فرزند، اے بہترین نسب کے کثیر الخیر ترین پاک نہادوں کے فرزند، اے راہ یافتہ راہنماؤں کے فرزند، اے پاکیزہ نیک سرداروں کے فرزند، اے نیک اور برگزیدہ ترین بزرگوں کے فرزند، اے طیب اور پاک اور پاک کیے جانے والوں کے فرزند، اے برگزیدہ سروروں کے فرزند، اے بہت زیادہ بخشش و عطاء کے مالک سیدوں کے فرزند، اے درخشندہ چاندوں کے فرزند، اے ضوء فشاں چراغوں کے فرزند، اے تابناک تاروں کے فرزند، اے بصارت افررز انجم کے فرزند، اے روشن راستوں کے فرزند، اے آشکار نشانوں کے فرزند اے علوم کاملہ کے فرزند، اے مشہور و معروف سنتوں کے فرزند، اے موصولہ معالم اور نشانیوں کے فرزند، اے موجودہ معجزوں کے فرزند، اے دلائل مشہودہ کے فرزند، اے سیدھے راستے کے فرزند، اے نبأِ عظیم (عظیم خبر) کے فرزند، اے اس ہستی کے فرزند جو اصل نوشتے میں خدا کے ہاں "علی" اور صاحب حکمت ہے، اے واضح آیتوں کے فرزند، اے ہویدا دلیلوں کے فرزند، اے آشکار اور ضیاء بخش ب رہانوں کے فرزند، اے کامل اور بامعنی حجتوں کے فرزند، اے وسیع نعمتوں کے فرزند، اے طہ اور حکمات قرآن کے فرزند، اے یس اور ذاریات کے فرزند، اے طور اور عادیات کے فرزند، اے اس بزرگوار کے فرزند جو (شب معراج) قریب ہوا اور زیادہ قریب ہوا، پس دو کمانوں جتنا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم، مقام قرب پر علی الاعلیٰ کے نزدیک،

کاش میں جانتا کہ کس مقام پر آپ نے منزل اختیار کی ہے اور کس جگہ اور کس سرزمین اور کس مٹی نے آپ کو اپنے ہاں روک رکھا ہے، کیا رضویٰ میں ہیں یا پھر ذی طُویٰ میں، بہت دشوار ہے میرے لیے کہ لوگوں کو تو دیکھتا رہوں لیکن آپ نہ دیکھے جائیں اور میں نہ سنوں آپ کی طرف سے کوئی صدا اور نہ ہی کوئی سرگوشی، دشوار ہے میرے لیے میرے بغیر آپ کو تنہائی میں آزمائشیں گھیر لیں اور میری طرف سے کوئی زاری اور شکوہ آپ تک نہ پہنچنے پائے،

میری جان آپ پر فدا ہو کہ آپ ایسے غائب ہیں جو ہم سے باہر نہیں ہے، میری جان قربان ہو آپ پر، آپ اس طرح سے دور ہیں جو ہم سے دور نہیں، میری جان فدا ہو آپ پر، آپ ہر مشتاق کی تمنا ہیں، ان صاحب ایمان مردوں اور عورتوں میں سے، جو آپ کو یاد کرکے آپ کے فراق میں آہ و نالہ کرتے ہیں، میری جان فدا ہو آپ پر، آپ وہ صاحب عزت ہیں جس کا کوئی ہم رتبہ نہیں، میری جان فدا ہو آپ پر، آپ مجد و عظمت کا وہ ریشہ دار درخت ہیں جس کی کوئی برابری نہیں کرسکتا، میری جان فدا ہو آپ پر، آپ وہ دیرینہ نعمت ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ہے، میری جان قربان ہو آپ پر، آپ اس شرف کے مالک ہیں وہ صاحب شرف ہیں جس کا کوئی معادل نہیں،

اے میرے مولا! کب تک میں آپ کے لیے بے چین اور حیرت زدہ رہوں گا اور کب تک اور کس خطاب سے آپ کا وصف کروں اور کس قسم کی سرگوشی سے؟ دشوار اور ناگوار ہے میرے لیے کہ جواب آپ کے سوا کسی اور سے سنوں اور کوئی اور مجھے مسرت بخش باتیں سنائے، دشوار ہے میرے لیے کہ آپ کے لیے رؤوں لیکن لوگ آپ کو چھوڑے رہیں، گراں ہے میرے لیے کہ گذرے آپ پر، جو گذرے اور دوسروں پر نہ گذرے، کیا کوئی مددگار ہے جس کے ساتھ مل کر طویل آہ و بکا کروں؟

کیا ہے کوئی بے چین کہ جب وہ خلوتوں میں جاتا ہے تو بے چینی میں اس کی مساعدت کروں؟ کیا ایسی کوئی آنکھ ہے جس میں فراق کا کانٹا چبھ گیا ہو اور میں اس کے ساتھ مل کر غم کے آنسو بہاؤں؟ کیا کوئی راستہ ہے آپ کی طرف اے فرزند احمد! ہے کوئی راستہ کہ میں آپ کا دیدار کروں؟ کیا ہمارا جدائی کا دن آپ کے وعدے سے متصل ہو سکے گا جس سے ہم بہرہ ور ہوجائیں؟ کب ہوگا وہ وقت جب ہم آپ کے پر آب چشمے میں داخل ہوکر سیراب ہوجائیں؟ وہ وقت کب ہوگا جب ہم آپ کے وصل کے پانی سے سیراب ہوں، بے شک تشنگی طویل ہو گئی ہے ہم اپنی صبح و شام آپ کے ساتھ گزاریں تاکہ ہماری انکھوں کو ٹھنڈک ملے، کب دیکھیں گے ہمیں آپ اور کب دیکھیں گے ہم آپ کو، جبکہ آپ فتح و نصرت کا پرچم لہرا چکے ہوں اور لوگ اس کا مشاہدہ کر رہے ہوں؟

کیا وہ دن آئے گا جب آپ ہمیں دیکھ لیں کہ آپ کے ارد گرد جمع ہوئے ہیں اور آپ خلق خدا کی امامت کر رہے ہوں اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر چکے ہوں اور اپنے دشمنوں کو ذلت اور اور سزا کا مزہ چکھا دیا ہو اور سرکشوں اور منکرین حق کو نابود کرچکے ہوں اور متکبرین اور گردن کشوں کی پشت پناہیوں کو منقطع کرچکے ہوں اور ہم کہہ رہے ہوں: "حمد و تعریف مختص ہے اللہ کے لیے جو پروردگار ہے جہانوں کا"۔

اے معبود تو ہے دکھوں اور مصیبتوں کو دور کرنے والا میں تیرے حضور شکایت لایا ہوں کہ تو مداوا کرتا ہے اور توہی دنیا و آخرت کا پروردگار ہے پس میری فریاد سن اے فریادیوں کی فریاد سننے والے، اے میرے خدا تو ہی ہے مصیبتوں اور دکھوں کو برطرف کرنے والا اور میں اپنا شکوہ تیری بارگاہ میں لے کر آیا ہوں کیونکہ مدد صرف تیرے پاس ہے اور تو آخرت اور دنیا کا پروردگار ہے، تو فریاد رسی فرما اے فریادیوں کے فریاد رس، اپنے آزمایشوں میں مبتلا حقیر بندے کی اور دیدار کرا دے اس کو اس کے آقا و سید کا، اے مضبوط طاقتوں والے صاحب قدرت اور ان کے ذریعے اس سے اس کے دل کا سوز اور غم زائل کر دے اور اس کی پیاس بجھا دے اے وہ جس کا اقتدار عرش پر قائم ہے اور اسی کی طرف پلٹنا ہے اور آخر میں پہنچنا اسی ہی تک ہے، اے معبود! ہم تیرے ولی (امام مہدی(عج) کے شیدائی ہیں وہی جو لوگوں کو تیری اور تیرے پیغمبر(ص) کی یاد دلائیں گے، جن کو تو نے خلق فرمایا ہمارے لیے بطور حافظ و نجات اور قرار دیا ان کو ہمارے لیے اور سہارا اور پناہ اور قرار دیا ان کو ہم میں سے مؤمنوں کے لیے امام پس پہنچا دے ہماری طرف سے اس کو تحیت اور سلام اور ان کے ذریعے اے پروردگار ہماری عزت افزائی فرما اور ان کا ٹھکانا ہمارے لیے ٹہرنے کی جگہ اور قیامگاہ قرار دے اور کامل کر دے اپنی نعمت کو ہمارے لیے یوں کہ مقدم کر دے ان کو ہمارے آگے، تا کہ وہ ہمیں داخل کر دے تیرے بہشتوں اور اپنے خالص و مخلص شہداء کی رفاقت اور ہم نشینی میں،

اے معبود! دورد و رحمت نازل فرما محمد(ص) اور آل محمد(ص) پر، جو ان کے جد امجد اور تیرے رسول(ص)، جو بڑے سردار ہیں اور علی(ع) پر جو (آپ(ص) سے ) چھوٹے سردار ہیں اور ان کی نانی صدیقۂ کبری (حضرت فاطمہ(س) بنت محمد(ص) پر اور ان کے آباء و اجداد میں ان برگزیدہ ہستیوں پر جنہیں تو نے چنا ہے اور اس امام پر درود و سلام بھیج دے، بہترین، کامل ترین، مکمل ترین، مُدام ترین اور بیش ترین، درود و سلام جو بھیجا ہو تو نے اپنے کسی برگزیدہ پر اور اپنی مخلوقات کی بہترین ہستیوں پر، درود و سلام بھیج دے آن جناب(عج) پر بھیج دے ایسا درود و سلام جو شمار نہ کیا جاسکے اور اس کی مدت لامتناہی اور تمام نہ ہونے والی ہو، اے معبود! اور ان کے ہاتھوں حق کو بپا کر دے اور باطل کو ان کے ذریعے نیست و نابود فرما اور اپنے دوستوں کو ان کے توسط سے غلبہ عطا کر اور ذلیل فرما ان کے وسیلے سے اپنے دشمنوں کو اور ہمارے اور ان کے درمیان پیوند برقرار کر دے ایسا پیوند جو ہمیں ان کے گذشتہ آباء و اجدا کی معیت و رفاقت تک پہنچا دے اور قرار دے ہمیں ان لوگوں میں سے جو ان کا دامن تھامتے ہیں اور ان کے لطف کے سائے میں قیام کرتے ہیں اور ہماری مدد فرما کہ ہم ان کے حقوق ان کو ادا کریں اور توفیق دے کہ ہم ان کی فرماں برداری میں کوشاں رہیں اور ان کی فرماں برداری سے پرہیز کریں اور ان کی خوشنودی عطا کرکے ہم پر احسان فرما اور ان کی شفقت و مہربانی اور رحمت و دعا اور خیر و برکت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس کے وسیلے سے تیری وسیع رحمت اور تیری بارگاہ قرب میں کامیابی حاصل کرسکیں اور ہماری نمازوں کو ان کے وسیلے سے مقبول کر، ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری دعاؤں کو مستجاب فرما اور ہماری روزياں ان کے وسیلے سے کشادہ کر دے اور ہماری پریشانیاں دور کر، ہمیں ان کے ذریعے سے حاجت روا فرما اور اپنے جلوۂِ کریمانہ سے ہماری طرف توجہ فرما اور اپنی درگاہ میں ہمارا تقرب قبول فرما اور ہم پر نظر فرما، رحمت سے بھری نظر، وہی جس کے ذریعے ہم تیری بارگاہ میں اپنی منزلت کو کمال تک پہنچا دیں اور اپنے جود و کرم کے واسطے، اس مہربانانہ نظر کو ہم سے نہ پلٹا اور ہمیں ان کے جد امجد صلی اللہ علیہ و آلہ کے حوض سے اور آپ(ص) کے پیالے اور آپ(ص) کے ہاتھ سے، سیر و سیراب فرما، کامل اور لذت بخش و سیرابی سے، جس کے بعد کوئی پیاس نہ ہو؛ اے رحم والوں میں سے سے بڑے رحم والے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب سید علی بن موسیٰ بن طاؤس: قبال الاعمال، صفحہ 604- 609، مطبوعہ موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان، 1417ھ/ 1997ء۔
  2. محمد بن جعفر بن مشہدی حائری: مزار ابن مشهدی، صفحہ 537 تا 584۔
  3. محمد باقر مجلسی: بحار الانوار، جلد 99، صفحہ 104، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1403ھ/ 1983ء۔
  4. محمد باقر مجلسی: زادالمعاد، صفحہ 303، مطبوعہ چاپ علاءالدین اعلمی، بیروت، لبنان، 1423ھ/ 2003ء۔