محمد بن حسن مہدی

بارہ شیعہ اماموں میں سے بارہویں اور آخری

محمد بن حسن یعنی امام مہدی اہل تشیع اہل سنت اور اسلام کے بہت سارے فرقوں موجودہ زمانے میں امام یعنی بارہویں اور آخری خلیفہ امام ہیں جو گیارہویں امام حسن عسکری کے بیٹے یعنی پہلے امام علی بن ابی طالب کی اولاد اہلبیت میں سے ہوں گے اور ان کا نام احمد ولد عبد اللہ ہوگا مہدی ان کا لقب ہوگا اور وہ ہمدرد رکھنے والے ہوں گے اور وہ اپنی اس محبت اور اللہ کے فضل سے پوری دنیا میں سات سے نو سال تک کی خلافت اقدار میں آکر اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے

شجرہ نسب

ترمیم

مہدی بن حسن العسکری بن علی نقی بن محمد تقی بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقربن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن علی بن ابی طالب اور فاطمہ زہرا علیہم السلام اجمعین۔

ولادت

ترمیم

آپ کی ولادت 15 شعبان 255ھ مطابق 29 جولائی 869ء کو سامراء (موجودہ عراق) میں ہوئی اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے بیٹے ہیں اور والدہ کا نام نرجس یا ملیکہ تھا جو قیصرِ روم کی نسل سے تھیں۔ ان کی پیدائش سے پہلے حاکم وقت نے ان کے قتل کا حکم دیا تھا اس لیے ان کی پیدائش کا زیادہ چرچا نہیں کیا گیا۔ حاکم وقت نے ان احادیث کو سن رکھا تھا کہ اہل بیت سے بارہ امام ہوں گے جن میں سے آخری امام مہدی علیہ السلام ہوں گے جو حکومت قائم کریں گے۔ تمام اسلامی فرقے متفق ہیں کہ ان کا نام احمد ولد عبد اللہ اور کنیت ابو القاسم ہوگی۔

آپ کی والدہ گرامی حضرت نرجس خاتون کو جنہیں ریحانہ اور سوسن بھی کہا گیا ہے۔ شیخ صدوق نے غیاث سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا امام حسن عسکری کا جانشین جمعہ کے دن پیدا ہوا اس کی والدہ ریحانہ تھیں کہ جنہیں نرجس ،صیقل اور سوسن بھی کہاجاتا تھا ۔۔۔ کمال الدین وتمام النعمۃ ،ص٤٣٢

القاب

ترمیم

ابو القاسم محمد بن حسن عسکری، جو کہ 12 امامی اسلام میں آخری نجات دہندہ ہیں، کو کئی القابات سے جانا جاتا ہے، جن میں شامل ہیں: المہدی (یعنی 'صحیح راہنمائی کرنے والا')، القائم (یعنی 'وہ جو اٹھے گا')، المنتظر (یعنی 'منتظر')، صاحب الزمان (یعنی 'زمانے کا مالک')، الغائب (یعنی 'غائب')، الحجہ/حجت اللہ (یعنی 'خدا کی دلیل')، صاحب الامر (یعنی 'معاملے کا مالک')، صاحب الحق (یعنی 'حق کا مالک')، بقیۃ اللہ (یعنی 'خدا کی باقیات')۔[1][2]

عنوان "القائم" ظلم کے خلاف اٹھنے کی نشاندہی کرتا ہے، اگرچہ چھٹے شیعہ امام، جعفر صادق سے منسوب ایک واحد حدیث اس عنوان کو القائم کے موت کے بعد اٹھنے سے جوڑتی ہے۔ چونکہ یہ ایک واحد حدیث ہے، اس لیے ماہرین اسے قابل اعتماد نہیں سمجھتے، جیسا کہ شیعہ عالم محمد باقر مجلسی (وفات 1699) لکھتے ہیں، خاص طور پر کیونکہ یہ 12 امامی عقیدے کے خلاف ہے کہ زمین کبھی بھی امام سے خالی نہیں ہو سکتی، کیونکہ امام خدا کی حجت ہیں۔ مجلسی یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ اس حدیث میں موت کا مطلب مجازی ہو سکتا ہے، جو القائم کی طویل غیبت کے بعد ان کی بھولی ہوئی یادداشت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

عبدالعزیز سچدینہ کے مطابق، القائم اور صاحب الامر کے القابات کا زیادہ سیاسی زور ہے، جبکہ المہدی کا عنوان زیادہ تر آخری زمانے کے نجات دہندہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دوسری طرف، حجت کا عنوان نجات دہندہ کے مذہبی کردار کو اجاگر کرتا ہے۔ درحقیقت، ہر شیعہ امام کو حجت اللہ، یعنی خدا کی (اعلیٰ) دلیل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جن کے ذریعے قرآن کے باطنی معانی نبی کی وفات کے بعد قابل رسائی ہوتے ہیں۔ تاہم، یہ عنوان بارہویں امام کے لیے زیادہ نمایاں ہے، ممکنہ طور پر دسویں امام، علی الہادی سے منسوب ایک حدیث کی وجہ سے۔

اہل تشیع کے عقیدہ کے مطابق امام مہدی پیدا ہو چکے ہیں۔ وہ پانچ سال کی عمر میں غیبت میں چلے گئے مگر اپنے عمال یا نائبین کے ساتھ رابطہ رکھا۔ اس وقت کو غیبت صغریٰ کہتے ہیں۔ غیبتِ صغرٰی کے دوران وہ اپنے معاملات اپنے نائبین کے ذریعے چلاتے رہے۔ ایسے چار نائبین کے نام تاریخ میں ملتے ہیں۔ غیبتِ صغریٰ 260ھ سے 329ھ تک چلتی رہی۔ بعد میں وہ مکمل غیبت میں چلے گئے جسے غیبت کبرٰی کہتے ہیں اس دوران انھیں کوئی نہیں دیکھ سکتا اور ان کا ظہور حدیث کے مطابق آخرالزمان یا قیامت کے قریب ہوگا۔ تب تک نیک علما لوگوں کی رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ اس دنیاہ میں جب انسان پیدا ہوتا ہے تب پیدا ہونے والا ناپاک اور ناسمج ہوتا ہے لیکن اپنی مادری تربیت سے اور کتابی تعلیم پر اگر انسان غور کرے تو موجودا نظام بہت ہی الگ ہے کیوں کے چار کتاب جن کا ذیکر قرآن مجید میں توریت زبور انجیل میں بی ترشے عمل زندگی کا بیان پیار محبت اور اخلاق ہے لیکن موجودا دنیاوی نظام میں ہر ایک انسان دوسرے انسان کو بس غلت سابت کرنے پر لگا ہوا ہے نا تو کسی درد مند کا کوی درد محسوس کرتا ہے نا کسی غریب کی غربت کا کوی احساس ہے دولت تو کافی جمالی ہے 45% لوگوں نے لیکن سکون کسی کی زندگی میں نہی دولت مند ہونے کے باوجود کیوں وہ ساری دولت بنکوں میں جمع ہے کسی غریب بیمار کے کام نہی آتی دولت مند انسان دولت جمع کر کے ایک دن فوت ہونے کے بعد خالی ہاتھ اس دنیا سے چلا جاتا ہے سب کچھ ادھر کا ادھر ہی رے جاتا لیکن انسان کے اچھے عمال اس کے ساتھ مرنے کے بعد دوسری دنیا میں اس کے کام آتے ہیں لیکن وہ عمل کسی کے کام آنے کے ہیں کسی بھوکے کو روٹی کھلانے کے ہیں کسی نگے کو کپڑا پہنانے کے ہیں کسی پیاسے کو پانی پلانے کے ہیں زندگی میں لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ہیں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر ایک عمل انسانیت کا درس دیتا ہے لیکن ہمارے ہاں تو آگے بڑھنے کی کوشش میں آج کا انسان چھوٹے بھڑے کی تمیز اور تہزیب ہی لوگ بھول گے ہوئے ہیں

آپ سے منسوب دعا و زیارات

ترمیم

دعائے عہد متن ترجمہ اَللَّهُمَّ رَبَّ النُّورِ الْعَظِیمِ وَ رَبَّ الْکرْسِی الرَّفِیعِ وَ رَبَّ الْبَحْرِ الْمَسْجُورِ وَ مُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَ الْإِنْجِیلِ وَ الزَّبُورِ وَ رَبَّ الظِّلِّ وَ الْحَرُورِ وَ مُنْزِلَ الْقُرْآنِ [الْفُرْقَانِ] الْعَظِیمِ وَ رَبَّ الْمَلائِکةِ الْمُقَرَّبِینَ وَ الْأَنْبِیاءِ [وَ] الْمُرْسَلِینَ اے معبود اے عظیم نورکے پرودگار اے بلند کرسی کے پرودگار اے موجیں مارتے سمندر کے پرودگار اور اے توریت اور انجیل اور زبور کے نازل کرنے والے اور اے سایہ اور دھوپ کے پرودگار اے قرآن عظیم کے نازل کرنے والے اے مقرب فرشتوں اور فرستادہ نبیوں اور رسولوں کے پروردگار اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُک بِوَجْهِک [بِاسْمِک] الْکرِیمِ وَ بِنُورِ وَجْهِک الْمُنِیرِ وَ مُلْکک الْقَدِیمِ یا حَی یا قَیومُ أَسْأَلُک بِاسْمِک الَّذِی أَشْرَقَتْ بِهِ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرَضُونَ وَ بِاسْمِک الَّذِی یصْلَحُ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَ الْآخِرُونَ اے معبود بے شک میں سوال کرتا ہوں تیری ذات کریم کے واسطے سے تیری روشن ذات کے نور کے واسطے سے اور تیری قدیم بادشاہی کے

آپ سے کئی دعا و زیارات منصوب ہیں۔ [اللہ تعلی سے [دعائے عہد]پر سب کے لیے پاک کتاب قرآن مجید سے حدایت کرنے اور خیریت کی تمناہ کرنے والے ہوں گے]کیوں کے نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک کے متابق ان کی سیرت جو سب سے پیار محبت کرنے والی ہے اور اللہ تعلی کی پاک کتاب قرآن کریم میں نیک ایمان والے مسلمانوں کے ساتھ کچھ گمراہی میں رہنے والے مسلمان فاسق مسلمان فاجر جو کم نسیت حاصل کرنے والے ہیں ان کا ذیکر ہے اور کافر فاجروں کا بی ذیکر ہیے ان کے لیے بھی اسی کڑی کا ایک خاس سلسلہ ہے۔ اور جو لوگ ہدایت حاصل کر لیں گے وہ مسلمان ہوں گے اور دوسرے مذہب کے لوگ اللہ کے مجرم وہ ہوں گے جو پیغمبر رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی رسالت قبول نہیں کرتے وہ ان کا حالا اللہ پر چھوڑ دیں گے لیکن اگر کوی بی انسان کسی دوسرے انسان کے ساتھ اگر کچھ غلت نقسان پہنچانے کا عمل کرے گا تو اوسے جرم کی سزا بی اس کے جرم کے مطابق عملی قانون میں لائین گے کیوں کے حضرت علی علیہ اسلام کے قانون کے مطابق سب انسان انسانیت کے مطابق ان کے مذہبی لیہاز پر مبنی قانون ہے لیکن انسانیت کی بنیاد پر سب ایک سے ہیں[3]

علامات ظہور

ترمیم

امام مہدی کے ظہور کی بے شمار علامات کتب اہل سنت اور اہل تشیع دونوں میں ملتی ہیں۔ ان علامات میں سے کچھ حتمی ہیں اور کچھ غیر حتمی۔ حتمی علامات سے مراد وہ علامات ہیں جن کا بروایت پورا ہونا ضروری ہے۔ کچھ ان کے ظہور سے کافی پہلے وقوع پزیر ہوں گی اور کچھ ظہور کے نزدیک۔ یہاں ان میں سے کچھ درج کی جاتی ہیں۔

  • سب سے مشہور علامت دجال کا خروج ہے۔ جسے مغربی مفکرین ضد مسیح (Antichrist) کہتے ہیں۔ یہ ذکر تورات میں بھی ملتا ہے۔[4]
  • سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔ یعنی زمین کی گردش میں فرق واقع ہونا۔
  • قواعد علم نجوم و فلکیات کے برخلاف رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن اور پندرہ کو سورج گرہن لگے گا۔[5]
  • سفیانی کا خروج۔ یہ ابو سفیان کی اولاد سے ایک شخص ہوگا اور ماں کی طرف سے بنو کلب سے ہوگا۔ جو بے شمار لوگوں کو قتل کرے گا۔ اس کا پورا لشکر بیداء کے مقام پر زمین میں دھنس جائے گا۔ بیداء مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔[6][7][8]
  • مشرق کی طرف سے ایک عظیم آگ کا تین یا سات روز تک جاری رہنا۔[9]
  • بغداد اور بصرہ کا تباہ ہونا۔ اور عراق پر روپے اور غلہ کی پابندی لگنا۔[9][10]

ظہور کے بعد

ترمیم
  • امام مہدی کا ظہور مکہ مکرمہ سے ہوگا اور لوگ رکن و مقام ابراہیم کے درمیان ان سے بیعت کریں گے۔[10]
  • حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوگا اور وہ امام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔[10][11][12]
  • دجال کا قتل ہوگا اور بیت المقدس فتح ہوگا۔[10]

سالگرہ کا جشن

ترمیم

امام محمد مہدی کی سالگرہ ایران میں ہر سال 15 شعبان کو منائی جاتی ہے۔ سالگرہ کی شام کو، ملک بھر میں لاکھوں لوگ اس موقع کو مناتے ہیں۔ قم شہر کو روشن روشنیوں اور جھنڈوں سے سجایا جاتا ہے۔ یہ جشن اسلامی کیلنڈر پر مبنی ہوتا ہے اور ہر سال تاریخ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

بیرونی روابط

ترمیم

متعلقہ مضامین

ترمیم


قال بعض علما الحديث مثل أبو القاسم محبوب الله الجسري ، والدكتور أبو حيان عادل سعيد أن كل رواية عن مهدي, الفتن, کساء , الحديث مثل المتعة واللحوم والحبر والحديث والورق وكلها مزيفة ومزخرفة ، وقال إن البخاري والمسلم أخذوا آلاف المزيفة. ، أحاديث مفبركة في مجموعاتهم.

حوالہ جات

ترمیم
  1. Amir-Moezzi 1998.
  2. Momen 1985, p. 165.
  3. مفاتیح الجنان باب دعا یہ ہے کے اللہ ہر انسان کو قرآن کریم سے نیک حدایت عطافرماے اور نیک عمل کرنے کی توفیق عطافرماے اور ان کی آمد جلدی ہو تاہے سب کی زندگی عدل اور انصاف پر جائیں ہو جاے جیسے نبی پاک محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اپنی حدیث مبارک میں اللہ ہماری یہ دعا جلد ہی قبول عطافرمایں آمین ثم آمین
  4. صحیح مسلم۔ حدیث 7039
  5. اسلام میں امام مہدی کا تصور از مولانا محمد یوسف۔ جامعہ اشرفیہ از حوالہ ابن حجر مکی
  6. کتاب الفتن صفحہ 190
  7. اسلام میں امام مہدی کا تصور از مولانا محمد یوسف۔ جامعہ اشرفیہ
  8. سنن ابو داود۔ جلد 2 صفحہ 589
  9. ^ ا ب مستدرک الحاکم جلد 4 صفحہ 456
  10. ^ ا ب پ ت الخليفة المهدي في الاحاديث الصحيحة از سید حسین احمد مدنی۔
  11. صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 490
  12. صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 87

سانچے

ترمیم